محمداحمد
لائبریرین
ادبِ عالیہ اور ہمارا معاشرہ
آوازِ دوست
آوازِ دوست
زندگی کی اعلیٰ اقدار کل کے مقابلے میں آج زیادہ تیزی سے رو بہ زوال ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ یہ اعلیٰ اقدار اپنی اصل میں ہیں کیا؟ شائد دو وقت کی روٹی کے پیچھے بھاگتے لوگ موسیقی، شاعری، مصوری، ادب و فلسفہ، روحانیت وغیرہ جیسے تسکینِ ذات کے ذرائع سے حظ اُٹھانے کی حِس کھو چُکے ہیں۔ اگر ایسا ہے بھی تو اِ س میں اُن کا کتناقصور ہے؟ ہمارے خودشکن اور خود کُش قسم کے حالیہ معاشرے میں اِن باتوں کا شُمار شائد ذہنی تعیشات کے زمرے میں داخل ہو گیا ہے ۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آج کے ادبِ عالیہ کی شاندار عمارت جن بنیادوں پر استوار ہے اِس میں اپنے وقت کے انتہائی سادہ اور قریباً مفلوک الحال لوگوں کے خونِ جگر کی کاوشیں شامل ہیں۔ کو ئی موچی تھا تو کوئی معمولی کلرک یہ کوئی داستانِ طلسم ہوشربا نہیں ہمارے ماضی قریب کا قصہ ہے۔
آج کی اس ہما ہمی اور ہڑبونگ نما طرزِ زندگی میں شائد کوئی طویل جدوجہد، کوئی باوقار مسافت کوئی فانی ہستی سے بڑی بات اپنی جگہ ہی نہیں ڈھونڈ پاتی۔ ہمیں کسی ایک جگہ ہی اپنی ساری خوشیوں کی تلاش رہتی ہے اور پھر ہم چاہتے ہیں کہ ایسی جگہ بھی کہیں قریب ہی بلا کسی مشکل کے مل جائے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج بھی لوگ دو وقت کی روٹی اور زندگی کی دیگر احتیاجات کے پورا کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنی ہستی میں مستور کسی آفاقی منظر کی طرف متوجہ ہوں اور زندگی کے عمومی دھارے میں بہتے ہوئے زندگی سے بڑی بات کریں، زندگی سے بڑے کام کریں۔
تحریر : آوازِ دوست