ادبِ عالیہ اور ہمارا معاشرہ ۔۔۔ از ۔۔۔ آوازِ دوست

آوازِ دوست

محفلین
محمد احمد بھائی !!! آپ نے ایسے ہی ان چند سطروں کو اتنی پذیرائی بخشی۔ آپ کا حُسنِ ظن ہے۔ چلیں اب بات چل ہی نکلی ہے تو بات کہنے میں ہرج بھی کیا۔ آپ اس بات پر کُچھ روشنی ڈالیں کہ ادبِ عالیہ کو ادبِ عالیہ بنانے والے عوامل دراصل ہیں کیا؟
 
بلا شبہ ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے گوہر نایاب ،لعل و زمرد بکھرے ہوئے ہیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں اور انکا حال ہم پہ آشکار نہیں ہوتا۔انکی ذات ایک سمندر ہے ۔اور انکے سینے ایک قبرستان ہیں صرف اپنی ذات سے وابستہ ہی نہیں بلکہ بلکہ دوسروں کے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو بھی اس میں دفن کر دیتے ہیں اور اپنی ساری توانائیاں دکھی انسانیت کے دکھوں کا مدواہ کرنے میں گزاردیتے ہیں۔اللہ نے انکو بہترین صلاحیتوں اور ہنروں سے نوازا ہوتاہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو برؤے کار لاتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے ہیں ۔ ایسے آفاقی لوگ بہت کم ہیں۔
دونوں بھائیوں آوازِ دوست محمداحمد
کا بہت بہت شکریہ ۔
نہایت اعلیٰ و ارفع سوچ و فکر کے مالک ہیں۔اور تحریر کے کیا کہنے اپنے اندر سموئے دردو کرب کے خوبصورت اظہار کا مرصع ہے ۔
جاسمن صاحبہ کے خیال کی پر زور حمایت کرتا ہوں اور نیرنگ خیال صاحب سے اپیل ۔۔۔۔
واقعی ضرورت ہے ایسے لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لانے کی تاکہ مثال ہوں ان لوگوں کے لیے جو مایوسی اور نا امیدی کے بحر بے کراں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ضرورت ہے اس امر کی ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے تاکہ روشنی کے یہ بجھتے چراغ پھر سے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ مثال بن کے سامنے آئیں اور ناامیدی اور مایوسی کا شکار لوگوں کے دلوں سے مایوسیت اور ناامیدی کے بادل چھٹ سکیں۔۔۔
میں ایسے آفاقی لوگوں کے بارے میں سوچتے آنکھیں بند کرتا ہوں تو آنکھوں کے بند دریچے کے پیچھے بہت سارے لوگوں کے خدوخال واضح ہو جاتے ہیں۔۔۔اور انکے افعال و اعمال یاد آتے ہیں جو انہوں نے ظاہرًا نہیں چُھپا کر کیے تھے وہ لوگ شہرت کے طالب نہیں تھے۔۔ان سے اک خلقت نے فائدہ اُٹھایا۔۔۔
معاشرے میں موجود بہت سارے بگاڑوں کو سدھارنے میں انہوں نے اپنی ساری توانائیاں خرچ کرڈالیں۔۔
ہر دکھی دل اور غمزدہ و پریشان حال کی حتی المقدور مدد کرنے والے یہ گوہر نایاب ۔۔چند ایک اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے اور چند ایک حیات ہیں۔۔جانے والوں اور حیات ان آفاقی ہستیوں کے لیے لاکھوں ، اربوں ، کھربوں دعائیں ۔۔۔اور نیک تمنائیں۔۔
اک لڑی بنائی جائے اور ان کے حال لوگوں پر آشکار کیے جائیں ۔۔۔تاکہ راہ عمل ہو پر آساں دوستو۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
محمد احمد بھائی !!! آپ نے ایسے ہی ان چند سطروں کو اتنی پذیرائی بخشی۔ آپ کا حُسنِ ظن ہے۔ چلیں اب بات چل ہی نکلی ہے تو بات کہنے میں ہرج بھی کیا۔ آپ اس بات پر کُچھ روشنی ڈالیں کہ ادبِ عالیہ کو ادبِ عالیہ بنانے والے عوامل دراصل ہیں کیا؟

ادب اور ادبِ عالیہ کا تو مجھے نہیں پتہ! لیکن میرا خیال ہے کہ جو شخص خود کو مادیت کے بوجھ سے جتنا آزاد کر پاتا ہے وہ اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے جز وقتی طور پر ہی دو اور دو چار کی فکر سے دستبردار ہو جائے تو اُس کے پاس سوچنے اور سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔

پہلے زندگی سادہ تھی اور فراغت زیادہ تھی سو ان وقتوں میں سوچنے والوں کے لئے جہان آباد ہونے میں وقت نہیں لگتا تھا۔ لیکن اب ہم گردن گردن تک مادی سہاروں کے سمندر میں غرق ہیں سو ہم اس پر ہی شکر کرتے ہیں کہ بامشکل سانس لے رہے ہیں۔

آپ اس بات پر کُچھ روشنی ڈالیں کہ ادبِ عالیہ کو ادبِ عالیہ بنانے والے عوامل دراصل ہیں کیا؟

یہ کام بھائی صاحب بخوبی کر سکتے ہیں۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
زندگی میں رہتے زندگی سے بڑے کام ، اپنی ہستی میں آفاقی منظر تلاش کرنے کی سوچ آجانا بھی بڑی بات ہے کجا کہ زندگی گزرجانے کے بعد احساس ہونا بے معانی سا ہوجاتا ہے ،جیسا کہ ہستی کاغذپر لفظ چھوڑ جائے اور سیاہی ختم ہوجائے ۔ احساس کی دلدل میں پھنسا معاشرہ بے حسی کے لبادے میں پناہ طلب کرتا ہے اور خود بھی بے حس کے تاروں سے تعلق جوڑتے احساس کے سب رشتوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور شعور انکو طلبِ ہستی کی تکمیل کے مادی ذرائع سے نواز کے تسکین کا سبب فراہم کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنکی روح خود احساس کو جنم دیتی ہے ، جو سوچتے ہیں تو ساکن پانی متحرک ہوجاتا ہے ۔احساس کی دلدل میں پھنسے رہنے والے ایسے لوگ آفاقی مناظر کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ ان سے احساس جنم لیتا ہے
 

آوازِ دوست

محفلین
تابش بھائی یہ تھیسس تھیسس تو ہم کھیل رہے تھے۔ راحیل صاحب تو ماشاء اللّہ جو لکھیں سو مستند ہے ان کا لکھا اور فرمایا ہوا بہت علمی اور عملی شخصیت ہیں دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے فیوض و برکات سے شاد کام کریں۔
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہی خوب آگہی کی جانب بلا رہی آواز دوست ۔
عجب ہےگزرتاوقت ۔۔۔۔
ہر پل ماضی میں بدلتا مستقبل کے خواب دکھاتا ۔
کسی مقام پر رک جب خود میں جھانک گزرے وقت بارے سوچا تو یہی تلخ سچائی سامنے آئی ۔
بچپن میں سوچے دیکھے گئے وہ سب خواب سب خواہشیں جو آفاقیت کی حامل تھیں ۔
جانے کب کیسے اپنے اور اپنوں کے پاپی پیٹ سے ابھرتی صداؤں میں کھو گئے ۔
شاید کہ یہ اک معاشرتی المیہ ہے ۔
جب مکان کچے دکھتے تھے تب لوگ سچے ملتے تھے ۔
پیشہ صرف رزق حلال کمانے کا ذریعہ تھا ۔
آج کے ان " معمولی " پیشوں کے حامل جب بات کرتے تھے تو ان کا لفظ لفظ ادب عالیہ کی مثال ہوتا تھا ۔
اب تو مادیت ہی مادیت ہے معاشرے میں سو ادب عالیہ کہاں سے جنم لے ۔۔۔۔۔۔؟
اک حساسیت سے بھرپور تحریر
جس سے گر بات چل نکلی تو بہت دور تلک جائے گی ۔
بہت دعائیں
 
یہ کام بھائی صاحب بخوبی کر سکتے ہیں۔ :)
یعنی بھائی صاحب کا نیا تھیسس آنے والا ہے.
تابش بھائی یہ تھیسس تھیسس تو ہم کھیل رہے تھے۔ راحیل صاحب تو ماشاء اللّہ جو لکھیں سو مستند ہے ان کا لکھا اور فرمایا ہوا بہت علمی اور عملی شخصیت ہیں دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے فیوض و برکات سے شاد کام کریں۔
بھائی صاحب لڑکی ہوتے تو اب تک شرما کے آدھے رہ گئے ہوتے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ لڑکی نہ ہونے کے باوجود یہی حال ہو گیا ہے۔ ظالمو! :blushing::blushing::blushing:
 

آوازِ دوست

محفلین
بھائی صاحب لڑکی ہوتے تو اب تک شرما کے آدھے رہ گئے ہوتے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ لڑکی نہ ہونے کے باوجود یہی حال ہو گیا ہے۔ ظالمو! :blushing::blushing::blushing:
آپ جانِ محفل ہیں اور آپ کی توصیف مبنی برحق ہے۔ آپ کی مدح سرائی کا ایک مدعا یہ بھی ہے کہ آپ ادبِ عالیہ کی بابت طبیعت کی روانی دیکھیں تو اظہارِ خیال کریں۔ نایاب جی نے رزقِ حلال کمانے اور سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے سے اہلِ ہنر کے کمال کا تعلق جوڑا ہے۔ بہت خوبصورت بات ہے مگر جتنی خوبصورت ہے شائد اتنی پریکٹیکل نہیں کہ کُچھ نامی گرامی ادیب بیوروکریٹ ہو گزرے ہیں اور بندہ جتنا بھی خوش گمان ہو اپنی بیوروکریسی کی تعریف کرنے کے لیے اُسےحقیقت پسندی سے کنارہ کرنا ہی پڑے گا۔ اپنے قدرت اللہ شہاب صاحب نے شہاب نامہ لکھا اور ایسا لکھا کہ امر کر دیا۔ "اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی" والی اپنی پروین شاکر صاحبہ بھی ماشاء اللہ سی ایس ایس کوالیفائیڈ افسر تھیں۔افتخار عارف صاحب بھی مستند اطلاعات کے مطابق سرکاری ملازم ہیں۔ سرکاری ملازمت اگر دیانت داری سے کی جائے تو فی زمانہ شائد جابر بادشاہ کے سامنے کلمہء حق کہنے سے زیادہ بڑی نیکی کا کام ہوگا۔ خیر بات موضوع سے ہٹ رہی ہے۔ ادبِ عالیہ کی تخلیق و تعمیر میں اہلِ قلم کے ذاتی محاسن شائد اتنے اہم نہیں جتنا کہ اُن کی تحریر میں ابلاغ، اثر اور تاثیر اہم ہیں۔ مثلا" مرزا غالب ایک مفلس، شرابی، کبوتر باز، درباری خوشامدی اور ناکام شوہر ہونے کے عیوب کے باوجود ایک بے بدل شاعر رہے ہیں اور نثر میں اُن کے خطوط آج بھی ایک نمونہ اور مثال ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ شاملِ نصاب خطوطِ غالب کو ہم ویسے ہی ذوق و شوق سے پڑھتے رہے ہیں جیسا کہ عاشق صادق کوچہء جاناں سے آنے والے پتر پڑھتے ہیں۔ ہم مشرقی لوگ اپنے ہیرو میں ناصرف ساری خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ اسے سارے عیوب سے عاری بھی ہونا چاہیے۔ ہمارا ہیرو بہادر تو ہو مگر بے وقوف نہیں۔ وہ غریب ہو تو ہو مگر سخی ضرور ہو۔ وہ کسی سراپا نازنیں کے فراق میں جلے تو جلے مگر خود بھی ایسا یوسف ثانی ہو کہ جس کی تمنا کرے کوئی۔ بدقسمتی سےعملی زندگی ہر قدم پر اس مثالیت پسندی کی جان لینے کے درپے رہتی ہے۔ سو اگر ہم اعلٰی ادبی تخلیقات اور اُن کے خالقین کا جائزہ لیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ذاتی خوبیاں اور خامیاں ادبی تخلیقات کے معیار کا حوالہ نہیں بنتیں۔ فن جب فنکار کی پہچان بننے لگ جائے تو فنکار کی باقی چیزیں بڑی حد تک غیر متعلق ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اگر اسی بات کو ہم معاشرے پر منطبق کریں تو ایک خاص رُخ سے معاشرہ بھی ایک فرد ہے جیسا کہ بنارس کے پان اور بنارس کے ٹھگ متعلقہ فنون کے حوالے سے اُس کی پہچان بنے رہے ہیں۔ یہ ضرب المثل بنے حوالہ جات یہ تاثر قائم کرتے ہیں کہ بنارس کا پان لامحالہ اچھا ہی ہو گا اور اسی طرح یہ کہ بنارس میں رہنے والا آدمی ٹھگ ہی ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا نمائندہ روپ ہمیشہ سے ایک ایسے مصیبت زدہ آدمی کا رہا ہے جس سے اپنے ، پرائے سب عاجز و گریزاں ہوں۔ جو حوادث کے تسلسل سے خود شناسی اور خودداری کھو چُکا ہو۔ ایک دیوانہ جوکبھی روٹی تو کبھی زندگی کے لیے بھاگ رہا ہو۔ اسےبھوک ستائے یا یہ جہالت و بدحالی کے پیپ زدہ زخموں پر بھنبھناتی مکھیاں اُڑائے تو کُچھ بُڑبڑاتا ہے "میرے پاس ایٹم بم ہے" لیکن اس نقاہت بھری بُڑبڑاہٹ سے نہ تو مکھیاں تنگ کرنے سے باز آتی ہیں اور نہ ہی بھوک کا کُچھ مداوا ہو پاتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ جانِ محفل ہیں اور آپ کی توصیف مبنی برحق ہے۔ آپ کی مدح سرائی کا ایک مدعا یہ بھی ہے کہ آپ ادبِ عالیہ کی بابت طبیعت کی روانی دیکھیں تو اظہارِ خیال کریں۔ نایاب جی نے رزقِ حلال کمانے اور سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے سے اہلِ ہنر کے کمال کا تعلق جوڑا ہے۔ بہت خوبصورت بات ہے مگر جتنی خوبصورت ہے شائد اتنی پریکٹیکل نہیں کہ کُچھ نامی گرامی ادیب بیوروکریٹ ہو گزرے ہیں اور بندہ جتنا بھی خوش گمان ہو اپنی بیوروکریسی کی تعریف کرنے کے لیے اُسےحقیقت پسندی سے کنارہ کرنا ہی پڑے گا۔ اپنے قدرت اللہ شہاب صاحب نے شہاب نامہ لکھا اور ایسا لکھا کہ امر کر دیا۔ "اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی" والی اپنی پروین شاکر صاحبہ بھی ماشاء اللہ سی ایس ایس کوالیفائیڈ افسر تھیں۔افتخار عارف صاحب بھی مستند اطلاعات کے مطابق سرکاری ملازم ہیں۔ سرکاری ملازمت اگر دیانت داری سے کی جائے تو فی زمانہ شائد جابر بادشاہ کے سامنے کلمہء حق کہنے سے زیادہ بڑی نیکی کا کام ہوگا۔ خیر بات موضوع سے ہٹ رہی ہے۔ ادبِ عالیہ کی تخلیق و تعمیر میں اہلِ قلم کے ذاتی محاسن شائد اتنے اہم نہیں جتنا کہ اُن کی تحریر میں ابلاغ، اثر اور تاثیر اہم ہیں۔ مثلا" مرزا غالب ایک مفلس، شرابی، کبوتر باز، درباری خوشامدی اور ناکام شوہر ہونے کے عیوب کے باوجود ایک بے بدل شاعر رہے ہیں اور نثر میں اُن کے خطوط آج بھی ایک نمونہ اور مثال ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ شاملِ نصاب خطوطِ غالب کو ہم ویسے ہی ذوق و شوق سے پڑھتے رہے ہیں جیسا کہ عاشق صادق کوچہء جاناں سے آنے والے پتر پڑھتے ہیں۔ ہم مشرقی لوگ اپنے ہیرو میں ناصرف ساری خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ اسے سارے عیوب سے عاری بھی ہونا چاہیے۔ ہمارا ہیرو بہادر تو ہو مگر بے وقوف نہیں۔ وہ غریب ہو تو ہو مگر سخی ضرور ہو۔ وہ کسی سراپا نازنیں کے فراق میں جلے تو جلے مگر خود بھی ایسا یوسف ثانی ہو کہ جس کی تمنا کرے کوئی۔ بدقسمتی سےعملی زندگی ہر قدم پر اس مثالیت پسندی کی جان لینے کے درپے رہتی ہے۔ سو اگر ہم اعلٰی ادبی تخلیقات اور اُن کے خالقین کا جائزہ لیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ذاتی خوبیاں اور خامیاں ادبی تخلیقات کے معیار کا حوالہ نہیں بنتیں۔ فن جب فنکار کی پہچان بننے لگ جائے تو فنکار کی باقی چیزیں بڑی حد تک غیر متعلق ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اگر اسی بات کو ہم معاشرے پر منطبق کریں تو ایک خاص رُخ سے معاشرہ بھی ایک فرد ہے جیسا کہ بنارس کے پان اور بنارس کے ٹھگ متعلقہ فنون کے حوالے سے اُس کی پہچان بنے رہے ہیں۔ یہ ضرب المثل بنے حوالہ جات یہ تاثر قائم کرتے ہیں کہ بنارس کا پان لامحالہ اچھا ہی ہو گا اور اسی طرح یہ کہ بنارس میں رہنے والا آدمی ٹھگ ہی ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا نمائندہ روپ ہمیشہ سے ایک ایسے مصیبت زدہ آدمی کا رہا ہے جس سے اپنے ، پرائے سب عاجز و گریزاں ہوں۔ جو حوادث کے تسلسل سے خود شناسی اور خودداری کھو چُکا ہو۔ ایک دیوانہ جوکبھی روٹی تو کبھی زندگی کے لیے بھاگ رہا ہو۔ اسےبھوک ستائے یا یہ جہالت و بدحالی کے پیپ زدہ زخموں پر بھنبھناتی مکھیاں اُڑائے تو کُچھ بُڑبڑاتا ہے "میرے پاس ایٹم بم ہے" لیکن اس نقاہت بھری بُڑبڑاہٹ سے نہ تو مکھیاں تنگ کرنے سے باز آتی ہیں اور نہ ہی بھوک کا کُچھ مداوا ہو پاتا ہے۔

اتنا سب کچھ راحیل بھائی کی تعریف میں لکھا ہے۔ :sneaky:

تسلی سے پڑھتا ہوں۔ :):D:p
 

آوازِ دوست

محفلین
آواز دوست آفاقی بننے کی مہم پہ نکلے ہیں کیا؟ نظر نہیں آرہے۔
جی ابھی تو ڈھنگ سے خاکی بننے کے مراحل بھی طے نہ ہوئے آفاق کی کیا بات کریں۔ باقی رہی مصروفیات کی بات تو جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو گا ہم آج کل کنسٹرکشن کے کھیل میں گول گول گھوم رہے ہیں اور یقین کیجئے اب تو بہت چکر آ رہے ہیں :)
 

اکمل زیدی

محفلین
پہلے تو آپ کو خوش آمدید بڑی مدت بعد ہوئ آپ کی دید تحریر کی بابت عرض کے عمدگی کے ساتھ دعوت فکر و اظہار فکر کیا گیا ہے یہاں اس قرآنی جملے کی تکرار ذہن میں آتی ہے جس میں بار بار سوچنے پر زور ھے یعنی تفکرون - تدبرون تو ثابت ہوا کے ساری اقدار سوچ سے جڑی ہین جتنا وژن وسیع ہوگا اقداراتنی ہی اعلیٰ ہونگی جیسے سورج کا نکلنا اور نہ نکلنا ایک دھوبی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور کسی خلا نورد یا شمسی توانائ پر کام کرنے والے کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
جی ابھی تو ڈھنگ سے خاکی بننے کے مراحل بھی طے نہ ہوئے آفاق کی کیا بات کریں۔ باقی رہی مصروفیات کی بات تو جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو گا ہم آج کل کنسٹرکشن کے کھیل میں گول گول گھوم رہے ہیں اور یقین کیجئے اب تو بہت چکر آ رہے ہیں :)
شکر ہے اللہ کا کہ آپ خیریت سے ہیں۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اُس نے حلال روزی کے وسائل عطا کئے ۔اللہ آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
 

فلک شیر

محفلین
صحیح
مولوی عبدالحق نے کتنے ہی گمنام ہیروں کو اپنے قلم کے ذریعے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا
رشید احمد صدیقی نے بھی چند ایک کے بارے میں لکھا
لکھنا چاہیے ایسے لوگوں کے بارے میں
اگر ایسی کوئی تحریر سامنے آئے تو مجھے ٹیگ کیا جاوے ☺️
 

محمداحمد

لائبریرین
صحیح
مولوی عبدالحق نے کتنے ہی گمنام ہیروں کو اپنے قلم کے ذریعے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا
رشید احمد صدیقی نے بھی چند ایک کے بارے میں لکھا
لکھنا چاہیے ایسے لوگوں کے بارے میں
اگر ایسی کوئی تحریر سامنے آئے تو مجھے ٹیگ کیا جاوے ☺️

فلک بھائی آپ اتنے برسوں بعد تبصرہ کرتے ہیں کہ ہم اصل تحریر بھول جاتے ہیں اور سمجھ نہیں آتا کہ آپ کا تبصرہ کس کے بار ے میں کیا کہہ رہا ہے۔

اور اس پر بھی طبیعت ہر بار مائل نہیں ہوتی کہ اصل تحریر دوبارہ سے پڑھی جائے ۔ :)
 
Top