اردو ادب میں احتجاجی رویے۔
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بابت کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا
ایسے دستور کو،صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا ،میں نہیں مانتا۔
از: حبیب جالب
سارا شہر بلکتا ہے۔پھر بھی کیسا سکتہ ہے۔
گلیوں میں بارود کی بو۔یا پھر خون لہکتا ہے۔
بزم مقتل جو سجے کل تو یہ امکان بھی ہے۔
ہم سے بسمل تو رہیں آپ سا قاتل نہ رہے۔
از: احمد فراز
عوام ہے ستائے جا
ابھار کر مٹائے جا
چراغ ہیں بجھائے جا
تو۔۔۔۔گولیاں چلائے جا
ترا بڑا مقام ہے
تو مرد خوش خرام ہے
اٹھائے جا گرائےجا
تو۔۔۔۔ گولیاں چلائے جا
ستم نواز مسخرسے
روش ورش ،چمن چمن
نگر نگر،دمن دمن
قیامتیں اٹھائے جا
تو ۔۔۔ گولیاں چلائے جا
مزہ ہے تیرے ساتھ میں
سیو ہے تیر ہاتھ میں
شراب ہے پلائے جا-
تو گولیاں چلائے جا،
لہو۔۔۔ تری غذا سہی
تو رند پار ساسہی
حکایتیں سنائے جا
تو ۔۔۔گولیاں چلائے جا
خدا کا خوف چھوڑ کر
وطن کی باگ موڑ کر
نشان ہیں لگائے جا
تو ۔۔۔۔۔۔۔گولیاں چلائے جا
لقندروں کی فوج ہے
اسی میں تیری موج ہے
حرام مال کھائے جا
تو۔۔۔۔گولیاں چلائے جا۔
از:شورش کاشمیری