دیارِ ادب ٹیکسلا ..... ہفتہ وار شعری نشست ... ہفتہ 29؍ نومبر 2014ء
صدارت: رانا سعید دوشی، نظامت: شہزاد عادل
دیگر شرکائے اجلاس: ایاز رسول، عمر لودھی، محمدعاصم، عارف خیام راؤ، وقاص ندیم، محمد رضوان، طارق بصیر، نوشیروان عادل اور محمد یعقوب آسی۔
ناظمِ اجلاس نے گزشتہ ہفتے کے منعقدہ سالانہ مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر دیارِ ادب کے اراکین اور دوستوں کو مبارک باد پیش کی۔ صدرِ اجلاس نے اس پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا۔ بعد ازاں حاضر شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ منتخب اشعار پیش کئے جاتے ہیں:
شہزاد عادل
ہمارا دل بنا ہے گنبدِ بے در پرانا
اور اس میں دفن ہے اک لاشۂ بے سر پرانا
وہی ہے درد کی شدت کہ جو تھی ابتدا میں
کہاں سے لائے ہو چارہ گرو نشتر پرانا
عقل اے راز دانِ جنوں
کھول مجھ پر جہانِ جنوں
داغِ سجدہ نہیں، واعظو!
ہے جبیں پر نشانِ جنوں
محمد عاصم نے غزل سنائی، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
ایاز رسول
جب میں رقیبوں کے نگر جاؤں گا
اپنی وفاؤں سے مکر جاؤں گا
عمر لودھی
غمِ جاناں، غمِ دوراں، غمِ یاراں مسلسل ہے
مری ہستی پہ ہر لمحہ عذابِ جاں مسلسل ہے
علاوہ ازیں انہوں نے نظم پیش کی: ’’کہا تھا، نا‘‘
عارف خیام راؤ کی پیش کردہ ایک مختصر سہ مصرعی نظم:
روز کے مسافر کا
راستہ بھی تنگ آ کر
ساتھ چھوڑ دیتا ہے
ان کی غزل سے ایک شعر:
آئے تھے جن پہ چلتے ہوئے شہرِ شوق میں
قدموں کے وہ نشاں تو کہیں پیچھے رہ گئے
وقاص ندیم
وہ نور بھی کیا نور ہے جو صرف رہے نور
وہ خاک بھی کیا خاک ہے جو صرف رہے خاک
جیون! تو کیا یارد کرے گا
تیرا بوجھ بھی ڈھو بیٹھے ہیں
اب یہ ہاتھ نہ میلے ہوں گے
اپنی جان سے دھو بیٹھے ہیں
طارق بصیر
وارد ہے آج دل پہ مرے غم عجیب سا
اس پر کسی کی یاد کا موسم عجیب سا
بڑھنے لگے ہیں اور بھی زخموں کے حوصلے
چارہ گروں نے دے دیا مرہم عجیب سا
ہر چیز کائنات کی بھیگی دکھائی دے
آنکھوں کو کوئی کر گیا پر نم عجیب سا
نوشیروان عادل
نہ کرے وہ اگر آزاد نہیں کر سکتا
میں مگر منتِ صیاد نہیں کر سکتا
وہ کہاں ہیں جو نگاہوں کی زباں جانتے ہیں
حال ایسا ہے کہ فریاد نہیں کر سکتا
محمد یعقوب آسی نے پنجابی نظم پیش کی: ’’بولیاں اِٹاں‘‘ ۔ ان کی پیش کردہ غزلوں سے منتخب شعر:
محوِ حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
طعنہ و دشنام کیا کیا برملا دیتے ہیں دوست
تم بھلے کچھ بھی کہو آسی، مگر اک بات ہے
آدمی کو زندگی کرنا سکھا دیتے ہیں دوست
بکل وچ لکوئی بیٹھا
ہر کوئی اپنی اپنی چپ
اندر مچے نیں کرلاٹ
کندھاں اتے لکھی چپ
صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے نظم پیش کی: ’’جبری کلئے‘‘ اور داد پائی۔ رانا صاحب کی غزلوں سے منتخب شعر:
دلوں کو میں کہاں بھایا ہوا ہوں
فقط اعصاب پر چھایا ہوا ہوں
زمانے بھر کو ٹھکرایا ہے میں نے
زمانے بھر کا ٹھکرایا ہوا ہوں
میری رگ رگ میں ہے تو کچھ اس طرح بکھرا ہوا
تیری کوئی چیز مجھ میں لازمی رہ جائے گی
روک رکھوں گا اگر آنکھوں کا پانی دیر تک
حیرتوں کی جھیل میں کائی جمی رہ جائے گی
صدرِ محفل نے اجلاس میں شامل نوآموز شعرا کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کہا کہ شعر میں مضامین اور اوزان کی اہمیت بجا، تاہم املاء اور تلفظ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شعری نشستیں آپ کو اعتماد بخشتی ہیں اور تنقیدی نشستیں سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ صدرِ محفل نے کہا دیارِ ادب ٹیکسلا ادب کی ترویج و اشاعت کے علاوہ صحت مند ادبی اقدارکے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس (ہفتہ 6 دسمبر 2014ء) میں شہزاد عادل اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے۔
روداد نگار: محمد یعقوب آسی (معتمدِ نشریات)
۔۔۔۔۔۔