ادبی تنظیموں کی سرگرمیاں

خواہش ہے کہ ایسی طرح کا تنقیدی سلسلہ استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب کی رہنمائی اور سرپرستی میں آن لائن اس فورم میں شروع کیا جائے ۔۔۔

اس طرح کے سلسلے فیس بک پر چل رہے ہیں۔ دو تین سلسلوں سے میرا بھی تعلق رہا ہے، پھر چھوڑ دیے کہ کم و بیش ہر جگہ یا تو جدال کی صورت بن جاتی ہے یا پھر تنقید کا معیار متاثر ہو جاتا ہے اور آخر کار وہی رویہ رہ جاتا ہے کہ "من ترا ملا بگویم تو مرا حاجی بگو"۔

رہی میری بات؛ تو صاحبانِ گرامی! میں ایک نظریاتی شخص ہوں اور اس امر کا کبھی قائل نہیں ہو سکا کہ "ادب مذہب سے ماورا ہوتا ہے"۔ سو، میں کوئی ایسا سلسلہ چلا ہی نہیں سکوں گا۔ معذرت قبول فرمائیے۔
 
اس روداد میں بیان کی گئی نشستوں میں اور آن لائن تنقیدی نشستوں میں ایک اہم اور بنیادی فرق ہوتا ہے۔
ایک چھوٹے سے کمرے میں منعقد ہونے والی نشست میں صاحبِ فن بھی اور صاحبانِ نقد و نظر شخصی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ جو کچھ بھی کہنا ہوتا ہے وہیں، موقع پر کہنا ہوتا ہے اور ساری بحث گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔
 

ایوب ناطق

محفلین
آن لائن اب تک کے مٹر گشت کے بعد یہ تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو محفل میں ادب کے کئی سچے اور سنجیدہ طالب علم موجود ہیں' اور رہی بات غیر شخصی نشست کی تو آن لائن لکھی گئی تنقید زیادہ تہہ دار اور دلائل سے بھرپور ہو گی ۔۔۔ ہاں خلوص اور دیانت داری شرط لازم ہے
 
آن لائن اب تک کے مٹر گشت کے بعد یہ تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو محفل میں ادب کے کئی سچے اور سنجیدہ طالب علم موجود ہیں' اور رہی بات غیر شخصی نشست کی تو آن لائن لکھی گئی تنقید زیادہ تہہ دار اور دلائل سے بھرپور ہو گی ۔۔۔ ہاں خلوص اور دیانت داری شرط لازم ہے
چلئے، یہ تجربہ بھی کر دیکھئے۔
آپ بسم اللہ کیجئے! طریقہء کار اور ضابطہء اخلاق پہلی پوسٹ ہی میں بتا دیجئے گا۔
 

ایوب ناطق

محفلین
آپ کی محبتوں کا ممنون ہوں ۔۔۔ اس کارِ خیر کے لئے'آپ کی اجازت سے' تنقیدی نشست کے نام سے زمرے کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔
 
آپ کی محبتوں کا ممنون ہوں ۔۔۔ اس کارِ خیر کے لئے'آپ کی اجازت سے' تنقیدی نشست کے نام سے زمرے کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔
ایک نام میں بھی تجویز کر دوں؟ "نقد و نظر"
اس میں مختصراً لکھ دیا جائے۔ "تنقید کے لئے پیش کئے جانے والے فن پارے" یا پھر "صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے"
 
دیارِ ادب ٹیکسلا ۔ مجلسِ عاملہ کا اجلاس ۔ بدھ 12 نومبر 2014

دیارِ ادب ٹیکسلا کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس بدھ 12 نومبر 2014 کی شام کو محمد یعقوب آسی کے گھر پر منعقد ہوا۔ صدرِ حلقہ جناب وحید ناشاد نے اجلاس کی صدارت کی، اور نظامت معتمد عمومی جناب شہزاد عادل کی تھی۔ دیگر شرکائے اجلاس: میزبان محمد یعقوب آسی، نذیر احمد انجم، عارف خیام راؤ، رانا سعید دوشی اور طارق بصیر۔

اجلاس میں ہفتہ 22 نومبر 2014 کے ہونے والی خصوصی شعری نشست کے انعقاد کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ صدرِ حلقہ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا اور پروگرام کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی۔ تفصیلات دو تین دن میں جاری کر دی جائیں گی۔

بعد ازاں صاحبِ خانہ محمد یعقوب آسی نے احباب کو کھانا پیش کیا۔
۔۔۔۔۔

1932465_580435725433223_4911168432327390485_n.jpg
 
آخری تدوین:
دیارِ ادب ٹیکسلا ..... ہفتہ وار شعری نشست ... ہفتہ 29؍ نومبر 2014ء

صدارت: رانا سعید دوشی، نظامت: شہزاد عادل
دیگر شرکائے اجلاس: ایاز رسول، عمر لودھی، محمدعاصم، عارف خیام راؤ، وقاص ندیم، محمد رضوان، طارق بصیر، نوشیروان عادل اور محمد یعقوب آسی۔​


ناظمِ اجلاس نے گزشتہ ہفتے کے منعقدہ سالانہ مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر دیارِ ادب کے اراکین اور دوستوں کو مبارک باد پیش کی۔ صدرِ اجلاس نے اس پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا۔ بعد ازاں حاضر شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ منتخب اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

شہزاد عادل
ہمارا دل بنا ہے گنبدِ بے در پرانا
اور اس میں دفن ہے اک لاشۂ بے سر پرانا
وہی ہے درد کی شدت کہ جو تھی ابتدا میں
کہاں سے لائے ہو چارہ گرو نشتر پرانا
عقل اے راز دانِ جنوں
کھول مجھ پر جہانِ جنوں
داغِ سجدہ نہیں، واعظو!
ہے جبیں پر نشانِ جنوں​

محمد عاصم نے غزل سنائی، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

ایاز رسول
جب میں رقیبوں کے نگر جاؤں گا
اپنی وفاؤں سے مکر جاؤں گا​

عمر لودھی
غمِ جاناں، غمِ دوراں، غمِ یاراں مسلسل ہے
مری ہستی پہ ہر لمحہ عذابِ جاں مسلسل ہے​
علاوہ ازیں انہوں نے نظم پیش کی: ’’کہا تھا، نا‘‘

عارف خیام راؤ کی پیش کردہ ایک مختصر سہ مصرعی نظم:
روز کے مسافر کا
راستہ بھی تنگ آ کر
ساتھ چھوڑ دیتا ہے
ان کی غزل سے ایک شعر:
آئے تھے جن پہ چلتے ہوئے شہرِ شوق میں
قدموں کے وہ نشاں تو کہیں پیچھے رہ گئے​

وقاص ندیم
وہ نور بھی کیا نور ہے جو صرف رہے نور
وہ خاک بھی کیا خاک ہے جو صرف رہے خاک
جیون! تو کیا یارد کرے گا
تیرا بوجھ بھی ڈھو بیٹھے ہیں
اب یہ ہاتھ نہ میلے ہوں گے
اپنی جان سے دھو بیٹھے ہیں​

طارق بصیر
وارد ہے آج دل پہ مرے غم عجیب سا
اس پر کسی کی یاد کا موسم عجیب سا
بڑھنے لگے ہیں اور بھی زخموں کے حوصلے
چارہ گروں نے دے دیا مرہم عجیب سا
ہر چیز کائنات کی بھیگی دکھائی دے
آنکھوں کو کوئی کر گیا پر نم عجیب سا​

نوشیروان عادل
نہ کرے وہ اگر آزاد نہیں کر سکتا
میں مگر منتِ صیاد نہیں کر سکتا
وہ کہاں ہیں جو نگاہوں کی زباں جانتے ہیں
حال ایسا ہے کہ فریاد نہیں کر سکتا​

محمد یعقوب آسی نے پنجابی نظم پیش کی: ’’بولیاں اِٹاں‘‘ ۔ ان کی پیش کردہ غزلوں سے منتخب شعر:
محوِ حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
طعنہ و دشنام کیا کیا برملا دیتے ہیں دوست
تم بھلے کچھ بھی کہو آسی، مگر اک بات ہے
آدمی کو زندگی کرنا سکھا دیتے ہیں دوست
بکل وچ لکوئی بیٹھا
ہر کوئی اپنی اپنی چپ
اندر مچے نیں کرلاٹ
کندھاں اتے لکھی چپ​

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے نظم پیش کی: ’’جبری کلئے‘‘ اور داد پائی۔ رانا صاحب کی غزلوں سے منتخب شعر:
دلوں کو میں کہاں بھایا ہوا ہوں
فقط اعصاب پر چھایا ہوا ہوں
زمانے بھر کو ٹھکرایا ہے میں نے
زمانے بھر کا ٹھکرایا ہوا ہوں
میری رگ رگ میں ہے تو کچھ اس طرح بکھرا ہوا
تیری کوئی چیز مجھ میں لازمی رہ جائے گی
روک رکھوں گا اگر آنکھوں کا پانی دیر تک
حیرتوں کی جھیل میں کائی جمی رہ جائے گی​

صدرِ محفل نے اجلاس میں شامل نوآموز شعرا کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کہا کہ شعر میں مضامین اور اوزان کی اہمیت بجا، تاہم املاء اور تلفظ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شعری نشستیں آپ کو اعتماد بخشتی ہیں اور تنقیدی نشستیں سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ صدرِ محفل نے کہا دیارِ ادب ٹیکسلا ادب کی ترویج و اشاعت کے علاوہ صحت مند ادبی اقدارکے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس (ہفتہ 6 دسمبر 2014ء) میں شہزاد عادل اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے۔

روداد نگار: محمد یعقوب آسی (معتمدِ نشریات)
۔۔۔۔۔۔
 
دیارِ ادب ٹیکسلا ... ہفتہ 20؍ دسمبر 2014ء
تنقیدی نشست اور محفلِ شعر


صدارت: رانا سعید دوشی، نظامت: شہزاد عادلؔ
غرل برائے تنقید: عارف خیام راؤ
دیگر شرکائے اجلاس: تصور حسین تصور، وقاص ندیم بیدل، طارق بصیر، وحید ناشاد اور محمد یعقوب آسی۔
*****
ناظمِ اجلاس معتمد عمومی شہزاد عادل نے گزشتہ اجلاس کی روداد پیش کی جسے سراہا گیا۔ ناظمِ اجلاس نے سانحہء پشاور کے حوالے سے قرار دادِ مذمت پیش کی۔ جس میں کہا گیا کہ دیارِ ادب ٹیکسلا کے جملہ ارکان پشاور میں طلبا کے قتل کے سانحے پر مغموم ہیں اور بچوں کے والدین اور پوری قوم کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اور یہ کہ یہ پلیٹ فارم اس بہیمانہ اقدام کی مذمت کرتا ہے اور اس کے مرتکبین اور ذمہ داران پر مؤثر گرفت اور قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرارداد کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا اور مذکورہ سانحہ میں جان سے جانے والے طلبا کے لئے مغفرت کی دعا کی گئی۔ دعا کی امامت طارق بصیر نے کی۔
*****
عارف خیام راؤ نے اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کی ۔ مطلع ہے:
رہا نہ کچھ بھی صفائی میں اب سنانے کو
گیا میں آخری حد تک اسے منانے کو

صدرِ محفل کی دعوت پر گفتگو کا آغاز کیا اور زیرِ نظر غزل کے مقطع کو سراہا۔ ناظمِ اجلاس شہزاد عادل نے کہا کہ فاضل شاعر خود گہری ناقدانہ نظر رکھتے ہیں، ان کو رعایت دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے غزل میں متعدد مقامات پر لسانی اسقام کی نشان دہی کی۔ مثلاً پہلے شعر میں ’’صفائی میں سنانا‘‘ خلافِ محاورہ ہے۔ ’’آخری حد تک‘‘ یہاں پڑھنے میں ثقالت ہے ۔

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے فاضل ناقد سے اتفاق کیا اور کہا: ’’پاؤں بھی ٹکانے کو‘‘ اس میں بھی زائد ہے۔ بُنت میں یہ غزل کہنہ مشق شاعر کی نہیں لگتی۔ شہزاد عادل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: تیسرے شعر میں ’’بھلانے کو‘‘ ردیف کی مجبوری ہے، تاہم یہاں جواز ’’کو‘‘ کا نہیں ’’کا‘‘ کا ہے۔
کسی بھی ڈھنگ سے قائل میں دل کو کر لیتا
کوئی جواز تو ہوتا اسے بھلانے کو

رانا سعید دوشی نے کہا: گنجائشیں اساتذہ نے بھی لی ہیں، انہوں نے ناصر کاظمی کا حوالہ دیا تاہم کہا کہ اس شعر کے پہلے مصرعے میں ’’دل کو‘‘ زائد ہے۔ شہزاد عادل نے مزید کہا: چوتھا شعر ایمائیت کے حوالے سے اچھا شعر ہے۔
خرد کی باتیں بہت لوگ کر رہے ہیں یہاں
پکڑ کے لانا گلی سے کسی دِوانے کو

پانچویں شعر میں ’’پلٹ کے لوٹنا‘‘ لسانی غلطی ہے۔ فاضل ناقد نے مقطع کو اچھا شعر قرار دیا:
چلو تراشیں نئی خواہشوں کے بت عارف
’’کہ ایک عمر پڑی ہے‘‘ ابھی بِتانے کو

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے کہا: مفید تنقید ایک ذمہ دارانہ عمل ہے، غزل چاہے ایک نوآموز کی ہو چاہے ایک کہنہ مشق شاعر کی، تنقیدی رویہ ایک سا ہونا چاہئے۔ یوں برملا نام لے کر کہنا کہ اِن کو رعایت نہیں دی جا سکتی، کچھ اچھا نہیں لگتا۔

وقاص ندیم نے کہا: مطلع میں لفظ ’’اب‘‘ زائد ہے۔ صدرِ محفل نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ وقاص ندیم نے مزید کہا: دوسرے شعر میں لفظی تکرار تاثر کو خراب کر رہی ہے، تیسرے شعر کی لفظیاتی فضا کے پیشِ نظر یہاں ’’ڈھنگ‘‘ کی بجائے کوئی فارسی لفظ لانا بہتر ہوتا۔
کسی بھی ڈھنگ سے قائل میں دل کو کر لیتا
کوئی جواز تو ہوتا اسے بھلانے کو

اگلے شعر میں ’’خرد کی باتیں‘‘ کی بجائے ’’خرد کی بات‘‘ کہا جائے تو بھی مفہوم وہی رہتا ہے، صوتی تاثر بہتر ہو سکتا ہے۔ دیوانے اور گلی کی بندش مضبوط نہیں ہے۔ ’’پلٹ کے لوٹنا‘‘ پر بات ہو چکی۔

طارق بصیر نے کہا: رواں قافیے میں قمر جلالوی کی طرح میں کہی گئی ایسی غزل ہے جس میں محنت اور کوشش کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ لفظیات کے حوالے سے انہوں نے شہزاد عادل اور وقاص ندیم کی کہی ہوئی باتوں کو دہرایا۔ اور کہا کہ فاضل شاعر نے غزل کو وقت نہیں دیا۔ انہیں چاہئے تھا کہ غزل کے ساتھ کچھ وقت گزارتے۔ درجِ ذیل اس شعر پر طارق بصیر نے کہا: دیوانے کا تعلق ’’گلی سے‘‘ کی بجائے ’’کہیں سے‘‘ بنایا جائے تو بہتر ہے۔
خرد کی باتیں بہت لوگ کر رہے ہیں یہاں
پکڑ کے لانا گلی سے کسی دِوانے کو

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے کہا: مقطع کے دوسرے مصرع کا کچھ حصہ واوین میں ہے۔ وحید ناشاد نے کہا: اس ٹکڑے کی کوئی اہمیت رہی ہو گی۔ تبدیلیوں کے مشورے اپنی جگہ، مجھے سارے شعر اچھے لگے ہیں اور کسی جگہ کوئی گنجائش نظر نہیں آئی۔ تصور حسین تصور نے کہا: دیوانہ کہیں بھی ہو سکتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے تو آئے گا نہیں، اسے پکڑ کر لانا پڑے گا، لہٰذا اس کا جواز بنتا ہے۔ واوین کے معاملے میں انہوں نے بھی وضاحت طلب کی۔

محمد یعقوب آسی نے صدرِ محفل کی گفتگو کے حوالے سے کہا: ایک نوآموز اور ایک کہنہ مشق شاعر کے فن پارے پر ہونے والی بات میں فرق ہوتا ہے۔ نوآموز کو نوآموز ہونے کی رعایت اس لئے دی جاتی ہے ہم شاعر کے شعری سفر کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ واوین کی وضاحت کرتے ہوئے محمد یعقوب آسی نے کہا: جب ہم کسی کا شعر یا اس کا کوئی ٹکڑا اپنے شعر میں عین مین استعمال کرتے ہیں تو اس کو واوین میں لکھتے ہیں۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا ٹکڑا تین لفظوں سے کم کا ہو تو واوین لگانے کی ضرورت نہیں، پورا مصرع یا پورا شعر نقل کرنا ہو تو واوین لازمی لگانے چاہئیں۔ یعقوب آسی نے اقبال، غالب اور حافظ کا حوالہ دیا۔ غزل کی لفظیات اوردیگر لسانیاتی مسائل پر محمد یعقوب آسی نے شہزاد عادل، طارق بصیر اور وقاص ندیم کی اکثر باتوں سے اتفاق کا اظہار کیا۔ اور کہا: ہمارے نئے ساتھی ہم میں موجود سینئر شعراء سے سیکھتے ہیں لہٰذا سینئرز پر لازم ہے کہ وہ اسقام سے حتی الوسع گریز کریں۔ تنقید کا مقصد گرفت نہیں نشان دہی کرنا ہوتا ہے، رد و قبول کا اختیار بہر حال شاعر کو حاصل ہے۔
غزل کے مضامین پر محمد یعقوب آسی نے کہا: دوسرے شعر کا مضمون بہت عمدہ ہے مگر فنی مسائل میں دب گیا۔
رہوں نہ ایک بھی پل میں خلاؤں میں لیکن
کہیں زمیں تو ملے پاؤں بھی ٹکانے کو

مطلع میں عجزِ بیان ہے، تیسرے شعر پر ذرا محنت کی جاتی تو مضمون عمدگی سے بیان ہو سکتا تھا۔ مقطع اچھا شعر ہے۔ طرحی غزل کہنے میں کوئی ہرج نہیں تاہم شعر اور کلامِ منظوم میں فرق ہوتا ہے۔

صدرِ محفل جناب رانا سعید دوشی نے صدارتی خطاب میں کہا: غزل پر اچھی اور پرمغز بات چیت ہوئی۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ صاحبِ غزل نے فطری بہاؤ میں ٓئی ہوئی چیز کو پیش کر دیا، جو غزل بن سکتی ہے، بن نہیں پائی۔ شاعر کو اس کا شعری سفر سامنے رکھتے ہوئے رعایت دی جا سکتی ہے۔ ہمیں راؤ عارف خیام سے اس سے زیادہ کی امید ہے۔

*****
بعد ازاں شعری نشست ہوئی۔ شرکائے نشست نے سانحہء پشاور کے تناظر میں اپنا کلام پیش کیا۔

شہزاد عادل:
کیا ہے جذبہ کسی نے بے آبرو ہمارا
رگوں کے اندر ابل رہا ہے لہو ہمارا
وہ قہر ٹوٹا ہے یا الٰہی کہ لگ رہا ہے
زمیں ہماری ہے، آسماں ہے نہ تو ہمارا
ہمارے لشکر میں پھوٹ ہے اور ادھر سنا ہے
ہماری جانب نکل پڑا ہے عدو ہمارا

تصور حسین تصور:
میری نظر میں اک رستہ ہے
آنکھوں سے دل تک جاتا ہے
بہت ہری ہے غم کی کھیتی
بادل آنکھوں کا برسا ہے

وقاص ندیم بیدل:
ایک دوزخ میں کہیں پھینک دیا ہے ماں کو
تو نے مکتب سے کہیں سیدھے ہی جنت والے
جس اذیت سے ہے گزری مرے آنگن کی بہار
لفظ لاؤں میں کہاں سے وہ اذیت والے
لاش تیری ترے مکتب سے اٹھا لائے ہیں
کن محاذوں پہ لڑا ہے تو شہادت والے

عارف خیام راؤ:
عمروں کی ریاضت کا ثمر کچھ بھی نہیں ہے
خالی ہیں مرے ہاتھ ہنر کچھ بھی نہیں ہے
رکھت ہے تحیر ہمیں آمادہ سفر پر
ورنہ تو حقیقت میں سفر کچھ بھی نہیں ہے
عام سا شخض ہوں میں عام سا شخص
بس یہی بات خاص ہے مجھ میں

طارق بصیر:
رو رو دل دا حال سناواں
پاکے تیرے گل وچ بانہواں

وحید ناشاد:
دشمن کی کیا مجال تھی وہ مارتا مجھے
یاروں کے اعتبار میں مارا گیا ہوں میں

محمد یعقوب آسی نے پنجابی بولیاں اور فردیات پیش کئے:
ہُن میرے لک نوں آوے، اوہ پہلوں میری بانہہ بھن کے
اسیں ویچ گھراں دے بوہے، گلی چ گواچے پھر دے
میرا خون مجھی کو بیچا مجھ سے دام بٹور لئے
واہ رے لاشوں کے بیوپاری مجھ کو بیچا میرے ہاتھ

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے اپنی تازہ نظم ’’تم بس اپنا تخت بچاؤ‘‘ پیش کر
کے داد سمیٹی۔ ان کی پیش کردہ غزل سے دو شعر:
آنکھ میں ایک بھی قطرہ نہ رہا پانی کا
اب یہ عالم ہے مری بے سروسامانی کا
خودکو در گور نہ کرتا تو بھلا کیا کرتا
حل مرے پاس یہی تھا مری عریانی کا

*****
روداد نگاران:
تنقیدی نشست: محمد یعقوب آسی
شعری نشست اور دیگر: شہزاد عادل
اتوار 21؍ دسمبر 2014ء
 
دیارِ ادب ٹیکسلا کے معمول کے ادبی اجلاس ہر جمعہ کی شام کو ہوا کریں گے: مجلسِ عاملہ

10960056_631237260353069_8316830005426261924_o.jpg


دفاتر اور دیگر اداروں کے اوقاتِ کار، ہفتہ وار تعطیل اور دیگر امور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دیارِ ادب ٹیکسلا کے معمول کے ادبی اجلاس 31؍ جنوری 2015ء کے بعد ہفتے کی بجائے جمعے کی شام کو ہوا کریں گے؛ مقام اور وقت فی الحال حسبِ سابق رہے گا۔ یہ فیصلہ دیارِ ادب کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس (جمعہ 30؍ جنوری 2015ء) میں کیا گیا اور ہفتہ 31؍ جنوری 2015ء کے اجلاس میں اس کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے مطابق دیارِ ادب ٹیکسلا کا آئندہ اجلاس جمعہ 6؍ فروری 2015ء کو شام ساڑھے چھ بجے انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا کے مکینکل انجینئرنگ بلاک میں منعقد ہو گا۔

شعبہ نشریات، دیارِ ادب ٹیکسلا
 
ہم نے تو آج تک ٹیکسلا میں کسی مشاعرے کا نہیں سنا :( بہت معلوماتی سلسلہ ہے
آپ ہوتے کہاں ہیں حضرت؟
ٹیکسلا میں 1984 سے ادبی سرگرمیاں اور ادبی تنظیموں کے اجلاس بہت باقاعدگی سے ہو رہے ہیں۔ اس دوران (گزشتہ تین دہائیوں میں) کم از کم بیس مشاعرے ملکی سطح کے ہو چکے ہیں۔
تازہ ترین نمایاں مشاعرہ نومبر 2014 میں جامعہ ہندسیہ ٹیکسلا کے وسیع کانفرنس ہال میں ہوا۔ متواتر سات گھنٹے بغیر وقفے کے چلنے والے اس مشاعرے میں 68 شعراء نے اپنا کلام سنایا جب کہ حاضرین کی تعداد 200 کے لگ بھگ رہی۔
 
آخری تدوین:
سر جی میں ٹیکسلا میں ٹھٹھہ خلیل روڈ جمیل آباد.
بس سٹینڈ کے قریب ہے نا، جمیل آباد! خاصی ٹھٹھہ خلیل روڈ کے حوالے سے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔
ڈاکٹر رؤف امیر (مرحوم)، اخترشاد، میں اور دو تین دوست ٹھٹھہ خلیل روڈ پر واقع گندھارا کالج سے (وہ کالج اب نہیں رہا) بس سٹاپ کی طرف پیدل جا رہے تھے۔ رؤف امیر از راہِ تفنن کہنے لگے: ’’یعقوب آسیؔ کی نظمیں بس اتنی ہی لمبی ہوتی ہیں، ٹھٹھہ خلیل روڈ سے یونیورسٹی روڈ تک‘‘۔ یار لوگ بہت محظوظ ہوئے۔

دیکھئے اگر آپ بہ سہولت آ سکتے ہوں تو دیارِ ادب کے اجلاسوں میں آ جایا کریں۔
ادبی تنظیموں کے اجلاس اور ان کے بعد چائے کی پیالی پر ہونے والی گپ شپ میں ادبی تربیت کا بہت سامان ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرحان عباس

محفلین
انشاءاللہ کبھی آؤں گا. ویسے مجھے تو کوئی جانتا بھی نہیں
بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہی لگونگا(ہاہاہا)
ویسے سر یہ اجلاس کس مقام پر ہوتا ہے آجکل؟
دیار ادب میں رکنیت کا کیا طریقہ ء کار ہے.‏‎
 
انشاءاللہ کبھی آؤں گا. ویسے مجھے تو کوئی جانتا بھی نہیں
بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہی لگونگا(ہاہاہا)
ویسے سر یہ اجلاس کس مقام پر ہوتا ہے آجکل؟
دیار ادب میں رکنیت کا کیا طریقہ ء کار ہے.‏‎
ارے واہ دیوانے کی بھی خوب کہی! اگر آپ نے وہ نیلی پلیٹ غور سے پڑھی ہے تو اس میں سب کچھ مندرج ہے۔
دیارِ ادب ٹیکسلا ۔۔ ہر جمعے کو شام ساڑھے چھ بجے انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا کے مکینکل انجینئرنگ بلاک میں
اب یہ مت پوچھ لیجئے گا کہ یہ انجینئرنگ یونیورسٹی کہاں ہے۔
آپ آئیے تو جناب شہزاد عادل سے مل لیجئے گا۔ وہ آپ کو فرزانگی سکھا دیں گے۔
 

فرحان عباس

محفلین
ہاہاہا نہیں سر یونیورسٹی کا تو پتہ ہے وہاں ایک بار میں انٹری ٹیسٹ کیلئے آیا تھا. انشاءاللہ کبھی ملاقات ہوگی.
 
Top