الف عین
لائبریرین
آصف کی جمع کردہ اردوالفاظ کی فہرست کی روشنی میں میں نے ارکانِ محفل کی املا کی اغلاط کے بارے میں کچھ مشاہدات کئے ہیں۔ یہ یہاں پیش کر رہا ہوں تاکہ ارکان ان کا آئندہ خیال رکھیں۔
۱۔ پہلی بات یہ کہ اب جب اردو کمپیوٹنگ اور املا کی پڑتال کے دور میں آ چکی ہے، تو اس کا خیال ضرور رکھا جائے کہ ہر دو لفظ کے درمیان فضا یا سپیس دیا جائے۔ ہماری مذکورہ فہرست میں کئی کئی فقرے ایک لفظ کے طور پر پہچانے گئے ہیں۔ وجہ محض یہ کہ ے، و، ر وغیرہ حروف اگلے حروف سے جُڑتے نہیں تو لکھنے والے سپیس دینے کا خیال نہیں رکھتے۔ ’آنےکےلئےاورجانےکےلئے‘ کیا ایک لفظ مانا جائے گا؟ فضا نہ دی جائے تو یہ غلط فہمی ممکن ہے۔
۲۔ اسی طرح اکثر ایک ہی لفط کو توڑنا بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ’اصول‘ کو ’اصو‘ اور ’ل‘ لکھا گیا تو ’اصو‘ ایک لفظ کے طور پر سامنے آیا کہ درمیان میں سپیس تھی۔ اور ’اصو‘ کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ اس کا خیال رکھیں کہ ا یک ہی لفظ کے درتمیان میں فضا نہ دی جائے۔
۳۔ ہمزۂ اضافت کا ستعمال۔ یہ یہاں ہی نہیں اکثر کمپوزرس کی بھی عام غلطی ہے جس کی طرف اکثر نشان دہی کرتا رہا ہوں۔ نالۂ دل کو نالہء دل نہ لکھا جائے۔ اسی طرح اوپر ہمزہ میرے ناچیز خیال میں اردو حرف نہیں ہے، اردو میں ہمزہ محض الف (مثلاً ’جرأت‘) ’ہ‘ یا ’و‘ پر لگتی ہے، اور یہ تینوں کیریکٹرس الگ سے شامل ہیں ہی، اور ہر فانٹ میں ایک ہی کنجی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ پھر کیا مشکل ہے؟
اس سلسلے میں ایک رہنما اصول کی نشان دہی بھی کرتا جاؤں۔ ’ۂ‘ محض وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں ’ہ‘ کی آواز الف کے مماثل ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آواز ’ہ‘ جیسی ہی ہو، وہاں کسرہ درست ہے، چناچہ ’راۂ وفا‘ غلط، ’راہِ وفا‘ درست۔ ’جلوہِ‘ غلط ’جلوۂ‘ درست۔ ’جلوہ گاہِ وصال‘ درست، جلوہ گاۂ وصال‘ غلط۔
۴۔ ہر لفظ میں ہمزہ (جسے کمپیوٹنگ میں ہمزہ ی ہی استعمال کیا جاتا ہے) کے بعد ی لگانا ضروری نہیں۔ اور یہ بھی عام غلطی میں نے پائی ہے۔ ’آئندہ‘ درست ہے، آئیندہّ غلط۔ یہی نہیں ہندی النسل الفاظ میں بھی کبھی کبھی ہمارے ارکان ایک ی زائد ٹائپ کرتے ہیں۔ ’آئیے‘ لکھنا ہی کافی ہے، لیکن اس کی مختلف صورتیں جو پائی جاتی ہیں، وہ ہیں۔
آیئے۔ اسکو میں نے عارضی طور پر درست مان لیا ہے ورنہ ’ی‘ کا ’ہمزہ‘ سے پہلے کوئی جواز نہیں۔
آیئیے
آئیئے
آیئیے
یہ غلط ہیں۔
انگریزی النسل الفاظ میں میں نے سب کو قبول کر لیا ہے۔ آئڈیا، آئیڈیا، آیئڈیا۔۔ سب کو مان لیا جائے۔
۵۔ ہ کی جگہ ھ کا استعمال۔ درست یہ کہ اردو میں ھ مفرد استعمال ہی نہں ہوتی، محض بھ، پھ، تھ کھ گھ وغیرہ میں ہی ھ کی ضرورت ہے۔ عربی الفاظ میں نسخ کی صورت میں ھ بھی دو چشمی کی طرح لگتی ہے تو یہ غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ’ابراھیم‘ درست ہے نا کہ ’ابراہیم‘ (مثال کے طور پر۔
۶۔ ز کی جگہ ذ کا استعمال بھی عام پایا گیا ہے۔ ‘مذید‘ غلط، ’مزید‘ درست۔
۷۔ الف کے آخر میں ہمزہ کا استعمال کہیں کہیں زائد بھی دیکھا گیا ہے۔ اور یہاں بھی اضافت کااستعمال غلط ہے۔ہوتی ہے تو ’ئے‘ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ’فضاءِ بسیط‘ غلط، فضائے بسیط درست۔ بہت سے الفاظ میں آخر میں ہمزہ کی ضرورت نہیں، لیکن اس کاکوئی رہنما اصول میرے علم میں نہیں۔ کہ ’شرکاء‘ درست ہے اور شرکا‘ غلط، لیکن ’شعرا‘ بھی درست ہے، مگر جمع میں ’شعرائے کرام‘۔ فضا میں بھی ہمزہ کی ضرورت نہیں لیکن ماوراء میں ضروری ہے۔۔
۷۔ اعراب۔ یہ بغیر سوچے سمجھے لگا دئے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو اعراب آخر میں لکھتے ہیں، کمپیوٹر پر اس طرح درست نہیں۔ ’گُل‘ کی درست صورت ہے گال، پیش اور پھر لام۔
اور جیسا میں نے کہا ہے کہ بھ پھ تھ مرکب حروف ہیں، اسی طرح ان پر اعراب ہوگا تو مکمل مرکب حرف کے بعد آئے گا۔ ’بھُلانا‘ میں با کے بعد پیش اور پھر دو چشمی ھ ٹائپ کرنا غلط ہے۔ درست ہے ب، ھ، پیش، ل۔۔۔۔
۸۔ تنوین کا عدم استعمال۔ اس باعث ہمری لغت میں ’عموما‘ اور ’فورا‘ الفاظ شامل ہو گئے تھے،
۹۔ کھڑا زبر کا استعمال۔ یہ محض ی کے ساتھ مخصوص ہے، اس وجہ سے یہ ہمہشہ ’یٰ‘ لکھی جانی چاہیے۔ چاہے تلفظ میں ’آ‘ کی آواز کسی حرف پر ہو۔ چنانچہ لیلیٰ اور موسیٰ درست ہے۔ لیلٰی اور موسٰی۔ یعنی ل ی ل کھڑا زبر ی غلط ہے، ل ی ل ی کھڑا زبر درست
م و س کھڑا زبر ی غلط۔ م و س اور ی اور پھر کھڑا زبر درست۔
۱۰۔ اسی طرح فتحی تنوین بھی الف کے ساتھ مخصوص ہے، ا میں الف کے بعد دو زبر ہونے چاہئیں، ان سے پہلے نیں۔ چنانچہ فوراً ف و ر ا اور دو زبر) درست ہے لیکن فورًا غلط۔ (ف و ر دو زبر اور بعد میں الف)
۱۱، یہی عالم شدّہ کا بھی ہے، جس حرف پر تشدید ہو، اسی پر لگائی جائے۔ آگے پیچھے نہیں۔
۱۔ پہلی بات یہ کہ اب جب اردو کمپیوٹنگ اور املا کی پڑتال کے دور میں آ چکی ہے، تو اس کا خیال ضرور رکھا جائے کہ ہر دو لفظ کے درمیان فضا یا سپیس دیا جائے۔ ہماری مذکورہ فہرست میں کئی کئی فقرے ایک لفظ کے طور پر پہچانے گئے ہیں۔ وجہ محض یہ کہ ے، و، ر وغیرہ حروف اگلے حروف سے جُڑتے نہیں تو لکھنے والے سپیس دینے کا خیال نہیں رکھتے۔ ’آنےکےلئےاورجانےکےلئے‘ کیا ایک لفظ مانا جائے گا؟ فضا نہ دی جائے تو یہ غلط فہمی ممکن ہے۔
۲۔ اسی طرح اکثر ایک ہی لفط کو توڑنا بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ’اصول‘ کو ’اصو‘ اور ’ل‘ لکھا گیا تو ’اصو‘ ایک لفظ کے طور پر سامنے آیا کہ درمیان میں سپیس تھی۔ اور ’اصو‘ کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ اس کا خیال رکھیں کہ ا یک ہی لفظ کے درتمیان میں فضا نہ دی جائے۔
۳۔ ہمزۂ اضافت کا ستعمال۔ یہ یہاں ہی نہیں اکثر کمپوزرس کی بھی عام غلطی ہے جس کی طرف اکثر نشان دہی کرتا رہا ہوں۔ نالۂ دل کو نالہء دل نہ لکھا جائے۔ اسی طرح اوپر ہمزہ میرے ناچیز خیال میں اردو حرف نہیں ہے، اردو میں ہمزہ محض الف (مثلاً ’جرأت‘) ’ہ‘ یا ’و‘ پر لگتی ہے، اور یہ تینوں کیریکٹرس الگ سے شامل ہیں ہی، اور ہر فانٹ میں ایک ہی کنجی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ پھر کیا مشکل ہے؟
اس سلسلے میں ایک رہنما اصول کی نشان دہی بھی کرتا جاؤں۔ ’ۂ‘ محض وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں ’ہ‘ کی آواز الف کے مماثل ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آواز ’ہ‘ جیسی ہی ہو، وہاں کسرہ درست ہے، چناچہ ’راۂ وفا‘ غلط، ’راہِ وفا‘ درست۔ ’جلوہِ‘ غلط ’جلوۂ‘ درست۔ ’جلوہ گاہِ وصال‘ درست، جلوہ گاۂ وصال‘ غلط۔
۴۔ ہر لفظ میں ہمزہ (جسے کمپیوٹنگ میں ہمزہ ی ہی استعمال کیا جاتا ہے) کے بعد ی لگانا ضروری نہیں۔ اور یہ بھی عام غلطی میں نے پائی ہے۔ ’آئندہ‘ درست ہے، آئیندہّ غلط۔ یہی نہیں ہندی النسل الفاظ میں بھی کبھی کبھی ہمارے ارکان ایک ی زائد ٹائپ کرتے ہیں۔ ’آئیے‘ لکھنا ہی کافی ہے، لیکن اس کی مختلف صورتیں جو پائی جاتی ہیں، وہ ہیں۔
آیئے۔ اسکو میں نے عارضی طور پر درست مان لیا ہے ورنہ ’ی‘ کا ’ہمزہ‘ سے پہلے کوئی جواز نہیں۔
آیئیے
آئیئے
آیئیے
یہ غلط ہیں۔
انگریزی النسل الفاظ میں میں نے سب کو قبول کر لیا ہے۔ آئڈیا، آئیڈیا، آیئڈیا۔۔ سب کو مان لیا جائے۔
۵۔ ہ کی جگہ ھ کا استعمال۔ درست یہ کہ اردو میں ھ مفرد استعمال ہی نہں ہوتی، محض بھ، پھ، تھ کھ گھ وغیرہ میں ہی ھ کی ضرورت ہے۔ عربی الفاظ میں نسخ کی صورت میں ھ بھی دو چشمی کی طرح لگتی ہے تو یہ غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ’ابراھیم‘ درست ہے نا کہ ’ابراہیم‘ (مثال کے طور پر۔
۶۔ ز کی جگہ ذ کا استعمال بھی عام پایا گیا ہے۔ ‘مذید‘ غلط، ’مزید‘ درست۔
۷۔ الف کے آخر میں ہمزہ کا استعمال کہیں کہیں زائد بھی دیکھا گیا ہے۔ اور یہاں بھی اضافت کااستعمال غلط ہے۔ہوتی ہے تو ’ئے‘ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ’فضاءِ بسیط‘ غلط، فضائے بسیط درست۔ بہت سے الفاظ میں آخر میں ہمزہ کی ضرورت نہیں، لیکن اس کاکوئی رہنما اصول میرے علم میں نہیں۔ کہ ’شرکاء‘ درست ہے اور شرکا‘ غلط، لیکن ’شعرا‘ بھی درست ہے، مگر جمع میں ’شعرائے کرام‘۔ فضا میں بھی ہمزہ کی ضرورت نہیں لیکن ماوراء میں ضروری ہے۔۔
۷۔ اعراب۔ یہ بغیر سوچے سمجھے لگا دئے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو اعراب آخر میں لکھتے ہیں، کمپیوٹر پر اس طرح درست نہیں۔ ’گُل‘ کی درست صورت ہے گال، پیش اور پھر لام۔
اور جیسا میں نے کہا ہے کہ بھ پھ تھ مرکب حروف ہیں، اسی طرح ان پر اعراب ہوگا تو مکمل مرکب حرف کے بعد آئے گا۔ ’بھُلانا‘ میں با کے بعد پیش اور پھر دو چشمی ھ ٹائپ کرنا غلط ہے۔ درست ہے ب، ھ، پیش، ل۔۔۔۔
۸۔ تنوین کا عدم استعمال۔ اس باعث ہمری لغت میں ’عموما‘ اور ’فورا‘ الفاظ شامل ہو گئے تھے،
۹۔ کھڑا زبر کا استعمال۔ یہ محض ی کے ساتھ مخصوص ہے، اس وجہ سے یہ ہمہشہ ’یٰ‘ لکھی جانی چاہیے۔ چاہے تلفظ میں ’آ‘ کی آواز کسی حرف پر ہو۔ چنانچہ لیلیٰ اور موسیٰ درست ہے۔ لیلٰی اور موسٰی۔ یعنی ل ی ل کھڑا زبر ی غلط ہے، ل ی ل ی کھڑا زبر درست
م و س کھڑا زبر ی غلط۔ م و س اور ی اور پھر کھڑا زبر درست۔
۱۰۔ اسی طرح فتحی تنوین بھی الف کے ساتھ مخصوص ہے، ا میں الف کے بعد دو زبر ہونے چاہئیں، ان سے پہلے نیں۔ چنانچہ فوراً ف و ر ا اور دو زبر) درست ہے لیکن فورًا غلط۔ (ف و ر دو زبر اور بعد میں الف)
۱۱، یہی عالم شدّہ کا بھی ہے، جس حرف پر تشدید ہو، اسی پر لگائی جائے۔ آگے پیچھے نہیں۔