ارتقا سے متعلق اشعار

حاتم راجپوت

لائبریرین
از جمادی مُردم و نامی شدم
وز نما مُردم بحیوان سرزدم
مُردم از حیوانی و آدم شدم
پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم

رومی
اُردو ترجمہ :

میں پہلے پہل جماد یعنی پتھر تھا پھر فنا ہو کر یعنی ترقی کر کے نبات یعنی شجر ہو گیا، پھر فنا ہوا یعنی ترقی کی اور حیوان کی صورت نمودار ہوا۔
اسکے بعد میری حیوانیت بھی فنا ہو گئی یعنی میں نے مزید ترقی کی اور مجھے انسانی صفات عطا ہوئے۔ مجھے فنا ہونے کا خوف نہیں۔ کیونکہ فنا سے مجھ میں کوئی کمی نہیں پیدا ہوتی
 

محمد وارث

لائبریرین
"کی زمردن کم شدم " کے ترجمے پر شبہ ہے کہ اس میں نفی کا معنی کیسے آگیا۔
بہتر تو محمد وارث یا حسان خان بھائی ہی کرسکتے ہیں۔
پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم
پس میں کیوں خوف کھاؤں کہ مرنے سے میں کب کم ہو جاؤں گا یعنی مرنے سے میں کم نہیں ہونگا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خلا میں بندر - سید محمد جعفری

ایک ''بونو'' نام کا بندر گیا سوئے خلا
آدمی کا کام ہے بندر کا پھنستا ہے گلا

یہ توقع بندروں سے کر بھلا ہوگا بھلا
ہے یہی بندر کے سر گویا طویلے کی بلا

ڈارونؔ نے سچ کہا تھا اس کا یہ احسان ہے
آدمی کا پیش رو یہ بے زباں حیوان ہے

گردش دوراں میں آیا ہے یہ کیسا انقلاب
دیکھتے ہیں اب خلا میں بیٹھ کر بندر بھی خواب

خواب کیا ہوگا یہی ہوگا کہ ہم ہیں لا جواب
اس بنا پہ آدمی کا بھی لگائیں گے حساب

کیا خلا میں اس پہ گزری ہوگی اے ساقی نہ پوچھ
''کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ''

یہ تو سائنٹسٹ ہی جانیں انہی کو ہے خبر
اس خلا کے خواب میں بندر کو کیا آیا نظر

اس کو کیا معلوم اس کا ہے خلا میں کیوں سفر
یہ سمجھتا ہوگا میں بیٹھا ہوں اونچی ڈال پر

سوچتا ہوگا کہ ہر خورد و کلاں چکر میں ہے
یہ زمیں چکر میں ہے یہ آسماں چکر میں ہے

خواہ چھوٹی ذات کا بندر ہے یا ڈھبوس ہے
جس نے بھیجا ہے خلا میں اس کو وہ تو روس ہے

وہ زمیں والوں کا اک بھیجا ہوا جاسوس ہے
ڈگڈگی کی شکل کی اشیا سے وہ مانوس ہے

چونکہ آدھی ڈگڈگی کی شکل میں ہے کیپسیول
ناچتے ہیں ڈگڈگی کے بل پہ بندر یا اصول

دور سے شاید زمیں کو ڈگڈگی سمجھا ہے وہ
ناچتے رہنے کو شاید زندگی سمجھا ہے وہ

تیرتے رہنا خلا میں دل لگی سمجھا ہے وہ
آدمی خود کو ز فرط سادگی سمجھا ہے وہ

بات ''بونو'' کی خلا میں دیکھیے کیسے بنے
کیا ستارے شب میں آتے ہیں نظر اس کو چنے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
از جمادی مُردم و نامی شدم
وز نما مُردم بحیوان سرزدم
مُردم از حیوانی و آدم شدم
پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم

میں نے انہیں مضامین پر یہ اشعار پڑھے ہیں ۔

آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد
و ز جمادی در نباتی دفتاد

سالہا اندر نباتی عمر و کر د
و ز نباتی یار ناؤ رو از نبرد

و ز نباتی چوں بہ حیوانی فتاد
نامہ ش حالِ نباتی ہیچ یاد

جز ہماں میلے کہ دارد سوئے آں
خاصہ در وقتِ بہارِ ضمیراں

ہمچو میل کو دُکاں با مادراں
سرّ میلِ خود نہ داند در لباں

باز از حیواں سوانسانیش
میکشدآں خالقے کہ دانیش

ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت
تاشد اکنوں عاقل و دانا و زفت

ابتدا میں انسان جماد تھا پھر نبات بنا، صدیوں صدیوں نبات رہا۔ نباتی زندگی اُسے یاد نہیں ہے۔ نبات سے حیوان بنا، نباتی حالت اسے یاد نہیں سوائے اس کے کہ وہ موسمِ بہار کی جانب لپکتا ہے اس کا ضمیر کھیلنا چاہتا ہے، جس طرح بچے ّ ماؤں کی طرف لپکتے ہیں اور پھر اپنے میلان کی یاد جاتی رہتی ہے، اپنے میلان کا راز نہیں جانتا اس کے بعد حیوان سے انسان بنا، اس طرح انسان ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف چلتا رہتا یہاں تک کہ وہ عاقل اور دانا بن گیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے تحریر کیا ہے کہ ڈارون سے بہت پہلے مولانا رومی ؒ ارتقا کی ان منزلوں کے قائل تھے۔
"

البتہ اشعار کے متن میں معمولی نوعیت کے نقائص ہیں لیکن مراد و مدعا یہی ہے ۔
 
آخری تدوین:
Top