چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک کی مادری زبان سے محبت کے وہی گھسے پٹے دلائل۔ کسی کو یہ معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا مقصد صورتحال کو واضح کرنا ہے آپ میرے لیے بہت محترم ہیں میں نے آپ کے مراسلے دیکھے ہیں تو مجھے اپنا یہ مراسلہ بچگانہ لگا ہے بہر حال
چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک کی مادری زبان سے محبت کے وہی گھسے پٹے دلائل۔ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ آج کے چین میں انگریزی سیکھنے سکھانے پر کتنا کام ہو رہا ہے اور جاپان میں پاکستان کی طرح اسکول کے اولین درجات سے
انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔
آج کے چین میں انگریزی سیکھنے سکھانے پر کتنا کام ہو رہا ہے اور جاپان میں پاکستان کی طرح اسکول کے اولین درجات سے انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔
کیا آپکا یہ بیان اس چیز کے مترادف ہے کہ چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک نے ترقی یافتہ ہونے کے عمل میں انگلش سے بطورذریعہ تعلیم استفادہ کیا ہے ؟ تو حقائق کچھ اور کہتے ہیں اس وقت بھی ان کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی زبانیں نہیں ہیں ؟ اس میں آپ کو کوئی شک ہے
جاپان میں ذریعہ تعلیم کیا ہے یہ آپ کو@ الف نظامی صاحب سے پتہ چل جائے گا یا یہ لنک دیکھ لیںhttp://www.urduweb.org/mehfil/threads/جاپان-کے-تعلیمی-نظام-میں-قومی-زبان-کی-اہمیت.3961/
اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نعرہ مستانہ بلند کر کے دھمال شروع کر دی جاتی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اردو اور چینی، جاپانی، جرمن کا کوئی جوڑ ہے ہی نہیں۔ موخر الذکر ہر زبان ترقی یافتہ قوموں اور تہذیبوں کی زبان رہی۔ اردو ایک عوامی بولی تھی۔ مغل تھے تو سرکاری زبان فارسی تھی۔ مغل انگریز عبوری دور میں اردو کہیں کہیں سرکاری زبان بنی لیکن پھر اس کی جگہ انگریزی نے لے لی۔ حیدر آباد دکن جیسی انگلیوں پر گننے کے قابل مثالیں ہیں جن میں اردو میں اصطلاح سازی، ترجمہ وغیرہ کے لیے صدقِ دل سے کام کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نیم دلی سے چند عشرے اس پر کام ہوا ور 2000 کے بعد وہ بھی ٹھپ ہو چکا ہے۔
اردو کے ذریعہ تعلیم بننے میں مسائل ہیں – 1- کہ اردو اور چینی، جاپانی، جرمن کا کوئی جوڑ ہے ہی نہیں ،ان کے مقابلے میں کمتر زبان ہے 2- اس پر کام نہیں کیا گیا
خاکسار کے مرسلے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے دوسری بات کہ یہ کمتر ہے جب اس پر کام کیا جائے گا تو یہ اعتراض دور ہو جائے گا - ذرا تاریخ پر نظر کرتے ہیں
اشفاق احمدکی زبانی کچھ حقائق سن لیں
جن کی سوچ بہت حد تک نیوٹن سے ملتی ہے ۔ آج سے کئی سو سال پہلے جب نیوٹن نے کشش ثقل کو دریافت کیا اور قوانین نیوٹن قائم کیے تو اس نے اعلان کیا کہ میں اس نظیم دریافت کو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے قلمبند ضرور کروں گا اور آنے والی نسلوں کے لیے دستاویزی صورت میں ضرور چھوڑ جاؤں گا ۔ لیکن یہ سب کچھ لکھوں گا لاطینی میں کیونکہ انگریزی زبان سائنسی موضوع کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کے ذخیرہ الفاظ اور اس کی صرف و نحو میں اتنی جان نہیں ہے کہ اس عظیم تھیوری کو وضاحت کے ساتھ صحیح صحیح بیان کر سکے ۔
پھر الف نظامی صاحب سے یہ بھی سن لیں کو اردو کس قدر کمتر زبان ہے
میں نے حیدر آباد دکن میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور یہ سب تعلیم حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو میں حاصل کی تھی۔ تاریخ ، جغرافیہ ، اردو ادب کے علاوہ طبیعات ، کیمیا ، ریاضی ، نباتات ، حیوانیات ، جمادات ، فلکیات ، عمرانیات غرض سارے سائنسی اور غیر سائنسی علوم کو حیدرآباد دکن میں اردو زبان میں منتقل کردیا گیا تھا۔ نظام حیدر آباد ، میر عثمان علی خان نے جو دنیا کے چند دولت مندوں میں شمار کیے جاتے تھے ، کافی پیسہ لگا کر حیدر آباد میں ایک دارالترجمہ قائم کیا تھا اور تقسیم ہند سے قبل کے سارے مسلمان جید علماء اور پروفیسروں کو حیدر آباد میں پرکشش تنخواہوں پر دعوت دی تھی کہ وہ سارے علوم و فنون اور سائنس کی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کریں اور ان اصطلاحات کو بنیاد بنا کر اردو زبان میں اعلی تعلیم کے نصاب کی کتابیں لکھیں اور غیرملکی زبانوں سے ترجمے بھی شائع کریں۔ مرحوم مولوی عبدالحق کو ، جنہیں بابائے اردو کہا جاتا ہے ، اس دارالترجمہ کا صدر نشین بنایا تھا ، چناچہ جامعہ عثمانیہ میں عمرانیات اور سائنس کے سارے شعبوں کی تعلیم ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک سب اردو میں ہوا کرتی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا اور اس جامعہ کی شان بان اور سہولتیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ طالبعلموں کی نہیں نوابوں کی جامعہ ہے جہاں اردو زبان میں ساری تعلیم ہوتی تھی۔
بات مرچ لگنے والی ہے لیکن بات سچ ہے۔ لسانی اصولوں کے مطابق پرائمری مادری زبان میں ہو، میری مادری زبان اردو نہیں پنجابی ہے۔ پاکستان میں تیس کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، فیصلہ کریں کہ کم از کم ایک تہائی تو مادری تعلیمی زبانیں بنیں۔ پھر اردو کی باری بھی آئے گی اور پھر انگریزی کی باتی بھی آئے گی چونکہ آج کے دور میں کسی نہ کسی درجے پر انگریزی سے واسطہ پڑنا ہی ہے۔ ہر چیز ترجمہ نہیں ہو سکتی، مشینی ترجمہ ابھی ایک عشرے میں بھی شاید نوے فیصد درستی تک نہ پہنچ سکے۔جذبات کی ہوا بھر کر، اوریا مقبول جان جیسے دانش وڑوں کی مثالیں دے کر، جرمن، چائینیز اور جاپانی کا ڈھول بجا کر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی باتیں میں اس فورم پر پچھلے آٹھ سال سے سن رہا ہوں۔ اب تو بور بھی نہیں ہوا جاتا یہ سب سن کر۔بھارت کے اعلی تعلیم یافتہ ہنر مندوں نے امریکہ اور دوسرے ممالک میں ات مچا رکھی ہے، ان کی مادری زبان تو انگریزی نہیں ہے۔ وہ کیسے ترقی کر گئے ہیں؟
سادہ ملک، سادہ لوگ، ہر وڈے سے وڈے مسئلے کا سادہ سا حل۔ حکومت بدلو دنیا بدل جائے گی۔ زبان اردو کرو سارے مسائل ہی حل ہو جائیں گے اگلے دن ترقی ہی ترقی۔ پتا ہے کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے؟ سڑکیں، پُل بنانے کا نام ترقی ہے؟ نویں ہسپتال اور اسکول کی چار دیواری کرنے کا نام ترقی ہے؟ دو وقت کی روٹی ملنے کا نام ترقی ہے؟ ترقی کیا ہے؟ اور ترقی جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟ تعلیم تو ایک فیکٹر ہے، مادری زبان میں تعلیم اس کا ایک ننھا سا جزو۔ کرپش، اقربا پروری، سیاسی نظام، منصوبہ بندی، دیانتداری سے حکومت اس جیسے لاتعداد فیکٹر ہیں جو کسی قوم کی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پر ہم سادے لوگ، چھوٹی سی دنیا اور چھوٹی سی دنیا کو ٹھیک کرنے کے چھوٹے چھوٹے حل، دو جمع دو چار۔ اگلا بندہ اس حل کو نا مانے تو چائے کی پیالی میں طوفان۔ارے ہاں میں چائے پی لوں سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میرا خیال باقی لوگ ٹیک اوور کر لیں گے۔ جاری رکھیں۔ میرے بس سے باہر ہو گیا یہ دھاگہ اب۔
اشفاق احمدکی زبانی کچھ حقائق سن لیں
اگر خدانخواستہ یہ زبان ذریعہ تعلیم بن گئی تو پھر دفتری زبان بھی اردو ہو جائے گی اور اگر دفتری زبان اردو ہو گئی تو پھر سارے عوام اور نتھو خیرے جو اردو میں عرضی وغیرہ لکھ کر اپنا ماضی الضمیر بیان کر سکتے ہیں وہ دفتروں کے نزدیک آجائیں گے ۔ ہر معاملے میں خاص طور پر امور مملکت اور رموز سلطنت میں اپنی رائے دیتے پھریں گے ۔ ہماری ان دستاویز کو جو اردو میں چھپیں گی ۔ پڑھ کر ہمارہ کارکردگی پع نکتہ چینی کرنے لگیں گے اور ہم جو اس وقت ایسٹ اندیا کمپنی کے نمائندوں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں پھر ہم عوام کے نمائندوں کی صورت میں کام کرنا پڑے گا ۔
والسلام باقی باتیں پھر سہی کچھ الفاظی غلطیاں ہوں تو معاف کر دینا