اردوزبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ / نئے الفاظ کی تشکیل

arifkarim

معطل
تعجب ہے۔ میں بات انگریزی اور جرمنی کی ٹکراؤ کی کررہا ہوں۔ اور آپ دوسروں کے مالِ غنیمت پر خوش ہورہے ہیں۔ کتنی مضحکہ خیز ہے انگریزی کی ترقی۔ زبردستی، دھونس دھمکی، اور منافقت سے پُر قومیں جتنی بھی نام نہاد ترقی کرلے یہ ترقی نہیں کہلاسکتی۔

حد ہوگئی جہالت کی بھی! اگر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی بجائے جرمنی جیت جاتا تو آج ہم انگریزی نہیں جرمن بول رہے ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے : جسکی لاٹھی اسکی بھینس۔ جب عربوں نے غیر عرب علاقوں کو فتح کیا تو وہاں آہستہ آہستہ عربی کو فروغ دیا نہ کہ قدیم مقامی زبانوں کو۔ ایرانی خوش قسمت تھے جو مفتوح ہونے کے باوجود اپنی زبان کو عربوں کی ثقافتی یلغار سے بچا پائے لیکن مذہباً مسلمان ہو گئے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamization_of_Iran#Persian_policies_after_the_Islamic_conquest
 

دوست

محفلین
چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک کی مادری زبان سے محبت کے وہی گھسے پٹے دلائل۔ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ آج کے چین میں انگریزی سیکھنے سکھانے پر کتنا کام ہو رہا ہے اور جاپان میں پاکستان کی طرح اسکول کے اولین درجات سے انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔
اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نعرہ مستانہ بلند کر کے دھمال شروع کر دی جاتی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اردو اور چینی، جاپانی، جرمن کا کوئی جوڑ ہے ہی نہیں۔ موخر الذکر ہر زبان ترقی یافتہ قوموں اور تہذیبوں کی زبان رہی۔ اردو ایک عوامی بولی تھی۔ مغل تھے تو سرکاری زبان فارسی تھی۔ مغل انگریز عبوری دور میں اردو کہیں کہیں سرکاری زبان بنی لیکن پھر اس کی جگہ انگریزی نے لے لی۔ حیدر آباد دکن جیسی انگلیوں پر گننے کے قابل مثالیں ہیں جن میں اردو میں اصطلاح سازی، ترجمہ وغیرہ کے لیے صدقِ دل سے کام کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نیم دلی سے چند عشرے اس پر کام ہوا ور 2000 کے بعد وہ بھی ٹھپ ہو چکا ہے۔
بات مرچ لگنے والی ہے لیکن بات سچ ہے۔ لسانی اصولوں کے مطابق پرائمری مادری زبان میں ہو، میری مادری زبان اردو نہیں پنجابی ہے۔ پاکستان میں تیس کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، فیصلہ کریں کہ کم از کم ایک تہائی تو مادری تعلیمی زبانیں بنیں۔ پھر اردو کی باری بھی آئے گی اور پھر انگریزی کی باتی بھی آئے گی چونکہ آج کے دور میں کسی نہ کسی درجے پر انگریزی سے واسطہ پڑنا ہی ہے۔ ہر چیز ترجمہ نہیں ہو سکتی، مشینی ترجمہ ابھی ایک عشرے میں بھی شاید نوے فیصد درستی تک نہ پہنچ سکے۔
جذبات کی ہوا بھر کر، اوریا مقبول جان جیسے دانش وڑوں کی مثالیں دے کر، جرمن، چائینیز اور جاپانی کا ڈھول بجا کر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی باتیں میں اس فورم پر پچھلے آٹھ سال سے سن رہا ہوں۔ اب تو بور بھی نہیں ہوا جاتا یہ سب سن کر۔
بھارت کے اعلی تعلیم یافتہ ہنر مندوں نے امریکہ اور دوسرے ممالک میں ات مچا رکھی ہے، ان کی مادری زبان تو انگریزی نہیں ہے۔ وہ کیسے ترقی کر گئے ہیں؟
سادہ ملک، سادہ لوگ، ہر وڈے سے وڈے مسئلے کا سادہ سا حل۔ حکومت بدلو دنیا بدل جائے گی۔ زبان اردو کرو سارے مسائل ہی حل ہو جائیں گے اگلے دن ترقی ہی ترقی۔ پتا ہے کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے؟ سڑکیں، پُل بنانے کا نام ترقی ہے؟ نویں ہسپتال اور اسکول کی چار دیواری کرنے کا نام ترقی ہے؟ دو وقت کی روٹی ملنے کا نام ترقی ہے؟ ترقی کیا ہے؟ اور ترقی جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟ تعلیم تو ایک فیکٹر ہے، مادری زبان میں تعلیم اس کا ایک ننھا سا جزو۔ کرپش، اقربا پروری، سیاسی نظام، منصوبہ بندی، دیانتداری سے حکومت اس جیسے لاتعداد فیکٹر ہیں جو کسی قوم کی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پر ہم سادے لوگ، چھوٹی سی دنیا اور چھوٹی سی دنیا کو ٹھیک کرنے کے چھوٹے چھوٹے حل، دو جمع دو چار۔ اگلا بندہ اس حل کو نا مانے تو چائے کی پیالی میں طوفان۔
ارے ہاں میں چائے پی لوں سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میرا خیال باقی لوگ ٹیک اوور کر لیں گے۔ جاری رکھیں۔ میرے بس سے باہر ہو گیا یہ دھاگہ اب۔
 

ابو مصعب

محفلین
اس فورم پر صبرو تحمل کی بہت کمی ہے۔ فورا ایک دوسرے کو جھڑکیاں پلانے لگتے ہیں۔
میں ایک مرتبہ پہلے بھی ان سخت خو ممبرز اور انتظامیہ کی وجہ سے اس فورم سے دور ہو چکا ہوں۔
لیکن کیا کروں۔ یہاں سوفٹ وئر، سی ایم ایس اور دیگر کمپیوٹر پروجیکٹس پر بہت اچھا کام ہوتا ہے۔ ان کے لئے یہاں آتا ہوں۔ کبھی غلطی سے کوئی اور دھاگہ کھول لوں تو وہاں جنگ جاری ہوتی ہے۔
بھائی اپنے الفاظ پر غور کیا کرو
وماعلینا الاالبلاغ
 

آصف اثر

معطل
حد ہوگئی جہالت کی بھی! اگر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی بجائے جرمنی جیت جاتا تو آج ہم انگریزی نہیں جرمن بول رہے ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے : جسکی لاٹھی اسکی بھینس۔ جب عربوں نے غیر عرب علاقوں کو فتح کیا تو وہاں آہستہ آہستہ عربی کو فروغ دیا نہ کہ قدیم مقامی زبانوں کو۔ ایرانی خوش قسمت تھے جو مفتوح ہونے کے باوجود اپنی زبان کو عربوں کی ثقافتی یلغار سے بچا پائے لیکن مذہباً مسلمان ہو گئے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamization_of_Iran#Persian_policies_after_the_Islamic_conquest
شاید آپ نے ہر بات میں "مسلمان، اسلام، اور عربوں" وغیرہ پر انگلی اُٹھانا اپنی عادتِ ثانیہ بنائی ہے۔جب جرمن اور انگریزوں کی بحث ہورہی ہے تو آپ کو بِلا وجہ ایسی حرکت نہیں کرنا چاہیے۔
کس نے کہا ہے کہ اگر جرمن جیت جاتے تو آج انگریزی کی جگہ جرمنی کا بول بالا نہ ہوتا۔ مگر یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ جرمن جتنے بھی غلط سمت میں جائے وہ انگریز جیسے مکار نہیں ہوسکتے۔ آج چین نے بھی تو ترقی کی ہے، جاپان، ترکی، فرانس وغیرہ نے بھی تو ترقی کی ہے کیا وہ اس طرح بازار گرم رکھے ہوئے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزوں نے ہر دور میں جہاں اور جب بس چلا لاٹھی کو اندھا گُمایا، اور بے دریغ استعمال کیا۔ آپ جن عرب حکمرانوں کی بات کررہے ہیں وہ عرب نہیں مسلمان ہوکر ان علاقوں میں آئے تھے۔ انہوں نے اگر عربی کو فروغ دیا تو بھی اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر اس کے ذریعے وہ دین و دنیا کو "کما حقہٗ" آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس دور میں جتنا دینی و سائنسی کام عربی میں ہوا تھا اتنا کسی اور قوم نے خواب و خیال میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ عربی کا فروغ ( نہ کے انگریزی کی طرح تسلط) اس وجہ سے بھی فرض تھا کہ یہ قرآن کی زبان تھی، اور یہ شریعت کی زبان تھی۔ کوئی مسلمان عربی کے بغیر نہ نماز ادا کرسکتا ہے اور نہ قرآن کا صحیح مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ عربی کے بغیر یہ سب ناممکن تھا۔ دوسری بات یہ کہ عربی زبان ہے اور انگریزی ملغوبہ۔ عربی جیسا گرامر اور قواعد وضوابط کسی اور زبان میں ممکن نہیں۔ باقی سب زبانیں اس صفت سے عاری ہے۔
دوسری جانب انہوں نے لوگوں کو اپنی اپنی مادری اور قومی زبانوں سے محروم نہیں کیا۔ اس کی واضح مثال فارسی ہے۔انہوں نےاقوامِ مسلم میں شریعت کی روح پھُونک کر اپنے ذات اور قوم کو پہچاننے پر آمادہ کیا۔۔ اگر وہ بھی یہ ظالمانہ و جابرانہ طریقہ اختیار کرتے تو آج فارسی اور دوسری زبانیں اتنی تندرست نہ ہوتی۔اس کے برخلاف انگریزوں نے مکاری اور ظلم وتشدد کے ذریعے اپنی زبان کو مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زبانوں کی جو بیخ کُنی کی اس کی تاریخ کسی اور قوم میں نہیں ملتی۔
 
ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے، کانسپریسی تھیورسٹس کا الگ اور مورخین کا الگ، محققین کا الگ، عوام اور اخبار کا الگ۔ اور فی الوقت ہم میں سے اکثریت کا تعلق عوام میں سے ہے، اصل کیا ہے کیا نہیں اللہ ہی جانتا ہے۔ کوئی غیرجانبدار مورخ محقق مستقبل میں شاید گذشتہ اور جاری صدیوں کے واقعات قلمبند کرے تو ممکن ہے حقائق کچھ اور ہی رنگ میں نظر آئیں۔ :) :)
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
بھائی جان ، لگتا ہے آپ بہت جلے بھنے بیٹھے ہو، بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی - لیکن ۔۔ میں بروں سے لاکھ برا سہی میرا اس سے ہے واسطہ (بطور مسلم بات کر رہا ہوں) عالم کفر جو بھی کر لے ، اخلاقیات کی جس بلندی کو پا لے اللہ اس کوصرف اس عالم فانی میں دنیا میں بلندی دے گا آخرت میں ذلت و رسوائی اس کا ھمیشگی مقدر، مسلم اگر اللہ کی نافرمانی کرے تو ذلیل و رسوا ، جو آجکل ہے اور آخرت میں بھی اپنی سزا کے بعد ابدی جنت
آ پ کی معلومات کا بہت بہت شکریہ اور معذرت خواہ ہوں تھوڑا جذباتی ہو گیا تھا
اسکا موضوع سے تعلق؟؟
 

زیک

مسافر
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
کونسے اسلاف تھے یہ جو مقامی زبان میں علم کو عام کرتے تھے۔ پہلے پہل مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو انہوں نے عربی کو ہمیشہ مقامی زبان پر فوقیت دی۔ بعد میں برصغیر کی بات کرتے ہیں تو اردو ہندی پر فارسی کو ترجیح دی گئی۔
 

زیک

مسافر
انہوں نے لوگوں کو اپنی اپنی مادری اور قومی زبانوں سے محروم نہیں کیا۔ اس کی واضح مثال فارسی ہے۔انہوں نےاقوامِ مسلم میں شریعت کی روح پھُونک کر اپنے ذات اور قوم کو پہچاننے پر آمادہ کیا۔۔ اگر وہ بھی یہ ظالمانہ و جابرانہ طریقہ اختیار کرتے تو آج فارسی اور دوسری زبانیں اتنی تندرست نہ ہوتی۔
آپ کے خیال میں شمالی افریقہ، عراق، شام، فلسطین وغیرہ سب میں اسلام سے قبل عربی بولی جاتی تھی؟
 
چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک کی مادری زبان سے محبت کے وہی گھسے پٹے دلائل۔ کسی کو یہ معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا مقصد صورتحال کو واضح کرنا ہے آپ میرے لیے بہت محترم ہیں میں نے آپ کے مراسلے دیکھے ہیں تو مجھے اپنا یہ مراسلہ بچگانہ لگا ہے بہر حال

چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک کی مادری زبان سے محبت کے وہی گھسے پٹے دلائل۔ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ آج کے چین میں انگریزی سیکھنے سکھانے پر کتنا کام ہو رہا ہے اور جاپان میں پاکستان کی طرح اسکول کے اولین درجات سے انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔

آج کے چین میں انگریزی سیکھنے سکھانے پر کتنا کام ہو رہا ہے اور جاپان میں پاکستان کی طرح اسکول کے اولین درجات سے انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔

کیا آپکا یہ بیان اس چیز کے مترادف ہے کہ چین، جاپان اور دیگر ایسے ممالک نے ترقی یافتہ ہونے کے عمل میں انگلش سے بطورذریعہ تعلیم استفادہ کیا ہے ؟ تو حقائق کچھ اور کہتے ہیں اس وقت بھی ان کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی زبانیں نہیں ہیں ؟ اس میں آپ کو کوئی شک ہے

جاپان میں ذریعہ تعلیم کیا ہے یہ آپ کو@ الف نظامی صاحب سے پتہ چل جائے گا یا یہ لنک دیکھ لیںhttp://www.urduweb.org/mehfil/threads/جاپان-کے-تعلیمی-نظام-میں-قومی-زبان-کی-اہمیت.3961/


اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نعرہ مستانہ بلند کر کے دھمال شروع کر دی جاتی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اردو اور چینی، جاپانی، جرمن کا کوئی جوڑ ہے ہی نہیں۔ موخر الذکر ہر زبان ترقی یافتہ قوموں اور تہذیبوں کی زبان رہی۔ اردو ایک عوامی بولی تھی۔ مغل تھے تو سرکاری زبان فارسی تھی۔ مغل انگریز عبوری دور میں اردو کہیں کہیں سرکاری زبان بنی لیکن پھر اس کی جگہ انگریزی نے لے لی۔ حیدر آباد دکن جیسی انگلیوں پر گننے کے قابل مثالیں ہیں جن میں اردو میں اصطلاح سازی، ترجمہ وغیرہ کے لیے صدقِ دل سے کام کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نیم دلی سے چند عشرے اس پر کام ہوا ور 2000 کے بعد وہ بھی ٹھپ ہو چکا ہے۔

اردو کے ذریعہ تعلیم بننے میں مسائل ہیں – 1- کہ اردو اور چینی، جاپانی، جرمن کا کوئی جوڑ ہے ہی نہیں ،ان کے مقابلے میں کمتر زبان ہے 2- اس پر کام نہیں کیا گیا

خاکسار کے مرسلے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے دوسری بات کہ یہ کمتر ہے جب اس پر کام کیا جائے گا تو یہ اعتراض دور ہو جائے گا - ذرا تاریخ پر نظر کرتے ہیں


اشفاق احمدکی زبانی کچھ حقائق سن لیں

جن کی سوچ بہت حد تک نیوٹن سے ملتی ہے ۔ آج سے کئی سو سال پہلے جب نیوٹن نے کشش ثقل کو دریافت کیا اور قوانین نیوٹن قائم کیے تو اس نے اعلان کیا کہ میں اس نظیم دریافت کو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے قلمبند ضرور کروں گا اور آنے والی نسلوں کے لیے دستاویزی صورت میں ضرور چھوڑ جاؤں گا ۔ لیکن یہ سب کچھ لکھوں گا لاطینی میں کیونکہ انگریزی زبان سائنسی موضوع کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کے ذخیرہ الفاظ اور اس کی صرف و نحو میں اتنی جان نہیں ہے کہ اس عظیم تھیوری کو وضاحت کے ساتھ صحیح صحیح بیان کر سکے ۔


پھر الف نظامی صاحب سے یہ بھی سن لیں کو اردو کس قدر کمتر زبان ہے

میں نے حیدر آباد دکن میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور یہ سب تعلیم حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو میں حاصل کی تھی۔ تاریخ ، جغرافیہ ، اردو ادب کے علاوہ طبیعات ، کیمیا ، ریاضی ، نباتات ، حیوانیات ، جمادات ، فلکیات ، عمرانیات غرض سارے سائنسی اور غیر سائنسی علوم کو حیدرآباد دکن میں اردو زبان میں منتقل کردیا گیا تھا۔ نظام حیدر آباد ، میر عثمان علی خان نے جو دنیا کے چند دولت مندوں میں شمار کیے جاتے تھے ، کافی پیسہ لگا کر حیدر آباد میں ایک دارالترجمہ قائم کیا تھا اور تقسیم ہند سے قبل کے سارے مسلمان جید علماء اور پروفیسروں کو حیدر آباد میں پرکشش تنخواہوں پر دعوت دی تھی کہ وہ سارے علوم و فنون اور سائنس کی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کریں اور ان اصطلاحات کو بنیاد بنا کر اردو زبان میں اعلی تعلیم کے نصاب کی کتابیں لکھیں اور غیرملکی زبانوں سے ترجمے بھی شائع کریں۔ مرحوم مولوی عبدالحق کو ، جنہیں بابائے اردو کہا جاتا ہے ، اس دارالترجمہ کا صدر نشین بنایا تھا ، چناچہ جامعہ عثمانیہ میں عمرانیات اور سائنس کے سارے شعبوں کی تعلیم ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک سب اردو میں ہوا کرتی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا اور اس جامعہ کی شان بان اور سہولتیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ طالبعلموں کی نہیں نوابوں کی جامعہ ہے جہاں اردو زبان میں ساری تعلیم ہوتی تھی۔


بات مرچ لگنے والی ہے لیکن بات سچ ہے۔ لسانی اصولوں کے مطابق پرائمری مادری زبان میں ہو، میری مادری زبان اردو نہیں پنجابی ہے۔ پاکستان میں تیس کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، فیصلہ کریں کہ کم از کم ایک تہائی تو مادری تعلیمی زبانیں بنیں۔ پھر اردو کی باری بھی آئے گی اور پھر انگریزی کی باتی بھی آئے گی چونکہ آج کے دور میں کسی نہ کسی درجے پر انگریزی سے واسطہ پڑنا ہی ہے۔ ہر چیز ترجمہ نہیں ہو سکتی، مشینی ترجمہ ابھی ایک عشرے میں بھی شاید نوے فیصد درستی تک نہ پہنچ سکے۔جذبات کی ہوا بھر کر، اوریا مقبول جان جیسے دانش وڑوں کی مثالیں دے کر، جرمن، چائینیز اور جاپانی کا ڈھول بجا کر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی باتیں میں اس فورم پر پچھلے آٹھ سال سے سن رہا ہوں۔ اب تو بور بھی نہیں ہوا جاتا یہ سب سن کر۔بھارت کے اعلی تعلیم یافتہ ہنر مندوں نے امریکہ اور دوسرے ممالک میں ات مچا رکھی ہے، ان کی مادری زبان تو انگریزی نہیں ہے۔ وہ کیسے ترقی کر گئے ہیں؟

سادہ ملک، سادہ لوگ، ہر وڈے سے وڈے مسئلے کا سادہ سا حل۔ حکومت بدلو دنیا بدل جائے گی۔ زبان اردو کرو سارے مسائل ہی حل ہو جائیں گے اگلے دن ترقی ہی ترقی۔ پتا ہے کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے؟ سڑکیں، پُل بنانے کا نام ترقی ہے؟ نویں ہسپتال اور اسکول کی چار دیواری کرنے کا نام ترقی ہے؟ دو وقت کی روٹی ملنے کا نام ترقی ہے؟ ترقی کیا ہے؟ اور ترقی جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟ تعلیم تو ایک فیکٹر ہے، مادری زبان میں تعلیم اس کا ایک ننھا سا جزو۔ کرپش، اقربا پروری، سیاسی نظام، منصوبہ بندی، دیانتداری سے حکومت اس جیسے لاتعداد فیکٹر ہیں جو کسی قوم کی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پر ہم سادے لوگ، چھوٹی سی دنیا اور چھوٹی سی دنیا کو ٹھیک کرنے کے چھوٹے چھوٹے حل، دو جمع دو چار۔ اگلا بندہ اس حل کو نا مانے تو چائے کی پیالی میں طوفان۔ارے ہاں میں چائے پی لوں سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میرا خیال باقی لوگ ٹیک اوور کر لیں گے۔ جاری رکھیں۔ میرے بس سے باہر ہو گیا یہ دھاگہ اب۔

اشفاق احمدکی زبانی کچھ حقائق سن لیں
اگر خدانخواستہ یہ زبان ذریعہ تعلیم بن گئی تو پھر دفتری زبان بھی اردو ہو جائے گی اور اگر دفتری زبان اردو ہو گئی تو پھر سارے عوام اور نتھو خیرے جو اردو میں عرضی وغیرہ لکھ کر اپنا ماضی الضمیر بیان کر سکتے ہیں وہ دفتروں کے نزدیک آجائیں گے ۔ ہر معاملے میں خاص طور پر امور مملکت اور رموز سلطنت میں اپنی رائے دیتے پھریں گے ۔ ہماری ان دستاویز کو جو اردو میں چھپیں گی ۔ پڑھ کر ہمارہ کارکردگی پع نکتہ چینی کرنے لگیں گے اور ہم جو اس وقت ایسٹ اندیا کمپنی کے نمائندوں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں پھر ہم عوام کے نمائندوں کی صورت میں کام کرنا پڑے گا ۔
والسلام باقی باتیں پھر سہی کچھ الفاظی غلطیاں ہوں تو معاف کر دینا
 

arifkarim

معطل
کس نے کہا ہے کہ اگر جرمن جیت جاتے تو آج انگریزی کی جگہ جرمنی کا بول بالا نہ ہوتا۔ مگر یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ جرمن جتنے بھی غلط سمت میں جائے وہ انگریز جیسے مکار نہیں ہوسکتے۔

ہاہاہا۔ انگریزی صرف انگلستان میں ہی نہیں نہ بولی جاتی! دوسرا ہر انگریزی بولنے والا انگریز نہیں ہوتا!
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_countries_by_English-speaking_population


آپنے تو ایک ہی جملے میں پوری انگریزی قوم کو مکار کہہ دیا! حالانکہ دوسری جنگ عظیم سے قبل جس رفتار سے جرمن زبان میں سائنسی مقالے چھپ رہے تھے اگر یہ رفتار برقرار رہتی تو آج جدید سائنس کی زبان جرمن ہوتی نہ کہ انگلش!
 

دوست

محفلین
اشفاق احمد کو فوت ہوئے دس برس ہو گئے. حیدر آباد دکن کو اجڑے نصف صدی بیت گئی. آج کی بات کرو بھائی.
یہاں لسانی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے. یہاں صرف اردو ہی نہیں اڑھائی درجن زبانیں ہیں جن میں سے کئی بستر مرگ پر پڑی ہیں. ذریعہ تعلیم مادری زبان ہو، بطور لازمی مضمون پرائمری یا مڈل تک پڑھائی جائے پھر ساتھ اردو ذریعہ تعلیم پر بھی سوچا جائے.
 

دوست

محفلین
جاری رکھیں اس سے اردو کی ترقی کے لئے بڑا فرق پڑے گا. میں تو اگنور کروں. ایویں مفت کی لایعنی بحث ہر بار وہی باتیں اور وہی نتیجہ.
 
اس فورم پر صبرو تحمل کی بہت کمی ہے۔ فورا ایک دوسرے کو جھڑکیاں پلانے لگتے ہیں۔
میں ایک مرتبہ پہلے بھی ان سخت خو ممبرز اور انتظامیہ کی وجہ سے اس فورم سے دور ہو چکا ہوں۔
لیکن کیا کروں۔ یہاں سوفٹ وئر، سی ایم ایس اور دیگر کمپیوٹر پروجیکٹس پر بہت اچھا کام ہوتا ہے۔ ان کے لئے یہاں آتا ہوں۔ کبھی غلطی سے کوئی اور دھاگہ کھول لوں تو وہاں جنگ جاری ہوتی ہے۔
بھائی اپنے الفاظ پر غور کیا کرو
وماعلینا الاالبلاغ
جی صبر و تحمل بھی آ جائے گا - یہ لوگ بہت ہی اعلی کام کررہے ہیں شاکر عزیز صاحب ، دیگر احباب اور انتظامیہ ،میں نوارد ہوں ابھی مجھے اتنا اندازہ نہیں ہے کہ لیکن جو دیکھا ہے حیرت انگیز ہے - مجھے تو اس دھاگے کو شروع کرنے پر شرمندگی ہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ بندا چلو بھر پانی لے کرکنویں کے مالک کو دکھائے -لیکن اس سے معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے - چلو ایک صدا ہی سہی نعرہ ہی سہی بارش کے قطروں میں ایک قطرہ ہی سہی - لیکن یہ یقین ہے کہ بارش شروع ہو چکی ہے
 

آصف اثر

معطل
ہاہاہا۔ انگریزی صرف انگلستان میں ہی نہیں نہ بولی جاتی! دوسرا ہر انگریزی بولنے والا انگریز نہیں ہوتا!
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_countries_by_English-speaking_population


آپنے تو ایک ہی جملے میں پوری انگریزی قوم کو مکار کہہ دیا! حالانکہ دوسری جنگ عظیم سے قبل جس رفتار سے جرمن زبان میں سائنسی مقالے چھپ رہے تھے اگر یہ رفتار برقرار رہتی تو آج جدید سائنس کی زبان جرمن ہوتی نہ کہ انگلش!
آپ بار بار محل تبدیل کرتے چلے جارہے ہیں۔۔۔لہٰذا اس بحث کو فی الحال"ناٹ آؤٹ" رہنے دیتا ہوں۔ ۔۔
 

اسد

محفلین
اگر اس لڑی کا مقصد کچھ کام کرنا ہے تو فرہنگ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ پر نظر ڈال لیں۔ پہلے یہ فائلیں ای سنپس پر اپلوڈ کی تھیں، اب شاید وہ سائٹ ختم ہو چکی ہے۔ اگر کہیں گے تو میں یہ فائلیں تلاش کر کے دوبارہ اپلوڈ کر دوں گا۔ صفحات کے سکین موجود ہیں اور انگلش او سی آر ہو چکی ہے، اب صرف اردو ٹائپ کرنا باقی ہے۔ بی (B) کی اصطلاحات ڈاؤنلوڈ کریں، 1.9 میگابائٹ۔

اگر مقصد بالکل نئے الفاظ اردو میں شامل کرنا ہے یا کچھ اور تو یہ تحریر نظر انداز کر دیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہاں کئی باتیں مل گئی ہیں

1۔ اردو زبان میں نئے الفاظ کا اضافہ
2۔ اردو کو قومی زبان کا حقیقی درجہ دینا
3۔ اردو میں تعلیم
4۔ مادری زبان میں تعلیم
5۔ دیگر زبانیں بمقابلہ سائنسی ترقی

اب پہلے صاحبِ دھاگہ سے درخواست ہے کہ وہ اس دھاگے پر پہلے نکتے سے متعلق اپنی رائے دے کر دھاگے کا ایک خلاصہ بتا دیں
 
یہاں کئی باتیں مل گئی ہیں

1۔ اردو زبان میں نئے الفاظ کا اضافہ
2۔ اردو کو قومی زبان کا حقیقی درجہ دینا
3۔ اردو میں تعلیم
4۔ مادری زبان میں تعلیم
5۔ دیگر زبانیں بمقابلہ سائنسی ترقی
اب پہلے صاحبِ دھاگہ سے درخواست ہے کہ وہ اس دھاگے پر پہلے نکتے سے متعلق اپنی رائے دے کر دھاگے کا ایک خلاصہ بتا دیں
اصطلاح سازی
اردو کے تشخص کو برقراد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبانوں کےالفاظ ( انگلش ) کو ہوبہواستعمال کرنے کی بجائے اصطلاح سازی کی جائے
نئے الفاظ (اصطلاح ) کو رائج کرنا اور عام کرنا
ڈاکٹر حسیب احمد کی زبانی
وہ (ہمارا پڑوسی ملک) لوگ ہر سال اپنی مردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مردہ الفاظ کو عام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر یہ طریقہ قابل ہضم نہیں تو اور کوئی اور طریقہ ازمایا جا سکتا ہے کہ اصل بات تو مقصد کو حاصل کرنا ہے
، یہ تبھی اسان ہوگا
اگر۱- اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے
۲- اس کو ذریعہ تعلیم بھی بنایا جائے
۳- جدید سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کیا جائے

اب کچھ لوگوں کو بلی کے گلے میں گھنٹی والا محاورہ یا سخت تنگ کرے گا تو میں پھر کیوں نہ اس کومیں ہی بیان کر دوں تو یہ گھنٹی باندھنا ہم سب کا کام ہے
اگر مثال موجود نہ بھی ہوتی تو بھی ہمیں اس پر کام کرنا چاہیے لیکن اس کی سارے عمل کی مثال موجود ہے
الف نظامی صاحب سے یہ بھی سن لیں
میں نے حیدر آباد دکن میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور یہ سب تعلیم حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو میں حاصل کی تھی۔ تاریخ ، جغرافیہ ، اردو ادب کے علاوہ طبیعات ، کیمیا ، ریاضی ، نباتات ، حیوانیات ، جمادات ، فلکیات ، عمرانیات غرض سارے سائنسی اور غیر سائنسی علوم کو حیدرآباد دکن میں اردو زبان میں منتقل کردیا گیا تھا۔ نظام حیدر آباد ، میر عثمان علی خان نے جو دنیا کے چند دولت مندوں میں شمار کیے جاتے تھے ، کافی پیسہ لگا کر حیدر آباد میں ایک دارالترجمہ قائم کیا تھا اور تقسیم ہند سے قبل کے سارے مسلمان جید علماء اور پروفیسروں کو حیدر آباد میں پرکشش تنخواہوں پر دعوت دی تھی کہ وہ سارے علوم و فنون اور سائنس کی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کریں اور ان اصطلاحات کو بنیاد بنا کر اردو زبان میں اعلی تعلیم کے نصاب کی کتابیں لکھیں اور غیرملکی زبانوں سے ترجمے بھی شائع کریں۔ مرحوم مولوی عبدالحق کو ، جنہیں بابائے اردو کہا جاتا ہے ، اس دارالترجمہ کا صدر نشین بنایا تھا ، چناچہ جامعہ عثمانیہ میں عمرانیات اور سائنس کے سارے شعبوں کی تعلیم ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک سب اردو میں ہوا کرتی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا اور اس جامعہ کی شان بان اور سہولتیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ طالبعلموں کی نہیں نوابوں کی جامعہ ہے جہاں اردو زبان میں ساری تعلیم ہوتی تھی۔
 
Top