عثمان
محفلین
کیا پاکستان میں انگریزی صرف اشرافیہ سیکھتے ہیں ؟ہم محض ایک مفتوح اور غلام قوم کی ریت نبھا رہے ہیں. کیا چین, جاپان, جرمنی اور فرانس انگریزی کو اپنی علمی اساس بنائے بغیر پسماندہ رہ گئے ہیں ؟ یقینا" ایسا نہیں ہے.زبان اپنی حقیقت میں محض ایک انٹرفیس یا آلہ ربط ہے. یہاں گورے حاکموں کی زبان کی سرپرستی کالے حاکموں نے عوام سے ایک فاصلہ اور فرق قائم رکھنے کے لیے اپنائی ہوئی ہے. جو طبقہ انگریز حکمرانوں کے بوٹ چاٹتا تھا اور اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے منہ ٹیڑھا کر کر کے ولائتی لہجے کی انگریزی بولتا تھا اور اپنی اس صداکاری کی داد کے طور پر انگریز آقاؤں سے مختلف فوائد حاصل کرتا تھا,انگریزوں کے جانے کے بعد اُن کی نشست پر بیٹھ گیا ہے اور ہم اسے بیوروکریسی کے نام سے جانتے ہیں. آج شائد اس لسانی بت پرستی کے جدِ امجد تو مر کھپ گئے ہیں مگر اُن کے جانشیں اس ریت کو کامیابی سے چلائے ہوئے ہیں. آج کے ترقی یافتہ دور میں زبان جیسے بنیادی اوزار کو جدید اسلوب میں ڈھالنا اور اُس کی تراش خراش کُچھ مشکل نہیں ہے. پھر اُردو تو انتہائی لچکدار زبان ہے کہ یہ پہلے ہی مختلف زبانوں کے الفاظ اپنے ذخیرہ میں سموئے ہوئے ہے سو مسئلہ تکنیکی نہیں بدنیتی ہے. مناسب رہنما خطوط ترتیب دے کر آپ اُردو کو ادبِ عالیہ کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بھی بنا سکتے ہیں. لیکن نام نہاد اشرافیہ کو یہ منظور نہیں کہ جدید علوم کو زبانِ فرنگ کے اس کڑے پہرے سے نکال کر عام آدمی کے حوالے کر دیں اور پھر اُن کے بچوں اور ایک مزدور کے بچوں میں علم و دانش اور شعور کی ترقی کے حوالے سے کوئی فرق باقی نہ رہے. خیر بات مختصر کہ فقط دفتری ہی نہیں بلکہ اُردو ہر شعبہ زندگی کی زبان بن سکتی ہے اگر اس میں حائل طبقاتی مفادات کی پیدا کردہ مکروہ بدنیتی سے جان چھُڑا لی جائے.
کیا انگریزی سیکھنا عام آدمی کی دسترس میں نہیں ہے ؟
فرض کیجیے کہ اشرافیہ کی سازش ہے کہ عام آدمی علم اور طاقت سے دور رہے۔ آسان حل کیا ہوگا ؟ عام آدمی کو انگریزی سے دور رکھنا نا کہ اس کو بھی انگریزی مہیا کرنا ؟