اس کا جواب دینے سے پہلے اتنا واضح کر دوں کہ میں نہ تو خواتین پر اتھارٹی ہوں اور نہ ہی شاعری پر۔
فیلڈز میڈل، ریاضی کی دنیا کا نوبیل پرائز یے۔ شاید سو ڈیڑھ سو سال سے دیا جا رہا ہے اور ابھی تک صرف ایک خاتون کو دیا گیا ہے، سٹینفرڈ کی مریم مرزاخانی کو جن کا ابھی پچھلے دنوں انتقال ہوا ہے، خدا انھیں غریق رحمت میں جگہ دے۔ تو یہ کافی بحث چلتی رہتی ہے کہ ریاضی میں خواتین آگے کیوں نہیں آتیں لیکن میری رائے میں اس کی وجہ یہی ہے کہ خواتین خود اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتیں اور پھر دوسرے لوگ بھی نہیں سمجھتے۔ جو اکا دکا آتی ہیں تو پھر اس طبقے میں ہر ایک کو تو فیلڈز ٹیورنگ نہیں مل سکتے۔
اگر آپ یہ کہتی ہیں کہ غالب اقبال کے برابر ہم کسی اردو کی خاتون شاعر کو کیوں نہیں سمجھتے تو اس قامت کے تو آدمی بھی کتنے ہیں۔ پھر ہم خواتین اول تو پڑھتی نہیں ہیں، پھر لکھتی نہیں، پھر سر عام نہیں لاتیں اسے اور محنت تو اس پر کرتی نہیں۔ اقبال کی شاعرانہ صلاحیت آؤٹ اف دا ورلڈ قسم کی سہی مگر پی ایچ ڈی انھوں نے فلسفے میں کر رکھی تھی تو شعر میں گہرائی تو علم سے ہی آتی ہے۔
رہی بات خواتین کے پیرائے اور انداز اظہار کے مختلف ہونے کی تو یہ بھی کچھ شعوری ہے اور کچھ لاشعوری۔ کسی اچھے شاعر کا کلام اٹھا کر دیکھ لیں، اس سے شاعر کی صنف کا اندازہ نہیں ہوتا سوائے اکا دکا شعر کے اور ہونا بھی نہیں چاہیے کہ شاعری کی اپیل، عالمی ہوتی ہے، اگر اس سے شاعر کا رنگ قد طبقہ عہد جھلکے تو کچھ کمی ہے یعنی۔ ہاں یہ میں نہیں کہتی کہ خواتین بھی عہد رفتہ کی طرح میں کرتا ہوں میں جاتا ہوں کہنے لگیں، وہ کافی بیک ورڈ ہو جاتا ہے۔
کسی نے کہا کہ نثر شاعری سے آسان ہے، اس سے اختلاف کروں گی میں۔ یہ بات کچھ حلقوں کے لیے درست ہو شاید کہ وہاں ہمارے لکھے پر اتنا اعتراض نہیں ہوتا اور اس کا مجھے ڈر بھی رہتا ہے۔ ڈسکلیمر شامل کرتی چلوں کہ میں نہیں سمجھتی کہ یہاں ایسا ہوتا ہے اور مجھے تو ذاتی طور پر ہمیشہ تنقیدی رائے ہی پسند آتی ہے کیونکہ اس سے اپنے آپ کو پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔
ایک سے پیرائے کا ذکر کیا تو میں نہیں سمجھتی کہ کوئی خاتون جان بوجھ کر صرف کسی خاتون کی ہی پیروی کرتی ہوں گی۔
اظہار رائے پر پابندی بھی کوئی کتنی لگا لے گا۔ ہاں اردو کے منظرنامے میں اس لیے بھی اتنا زیادہ سکیو ہے کہ یہاں کی تہذیب میں عام خواتین کے برسر عام بولنے کا رواج نہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ میر کی صاحبزادی شعر کہتی تھیں مگر انھوں نے شاید تذکرہ نکات الشعرا میں ذکر نہیں کیا ان کا۔
انداز بیان کے بارے میں ایک بات کہوں گی اور صرف شاعر کے نکتہ نگاہ سے۔ انسان عام طور پر وہی شعر کہتا ہے جو اس کے سامعین کی سمجھ میں آئیں۔ غالب کی بات اور ہے ورنہ میرے جیسے عام لوگ تبدیل کر ہی لیتے ہیں اپنا پیرایہ وقت کے ساتھ ساتھ کہ جی تنگ ہونے لگتا ہے خود ہی اپنے شعر پڑھ کر۔
یہ ایک پریکٹیکل مسئلہ ہے کہ لکھنے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور لوگوں کو عموما برتن دھلوانے ہوتے ہیں اہنے گھر کے۔
پڑھنے اور لکھنے میں بہت حد تک راست تناسب ہے اور میرے خیال میں ہمارا نہ پڑھنا ہی اصل سبب ہے۔
خلاصہ اس تقریر کا یہ کہ کون کیا ہے اور کیا نہیں سے بے نیاز ہو کر جو جی میں آئے، لکھیے۔
آپ نے بجا فرمایا کہ پڑھنے اور لکھنے میں راست تناسب ہے مگر اس سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہے ، آپ نے کیا پڑھا اور اس سے کیا سیکھا اور کیا اس سیکھ سے خود کو چیلنج کیا ؟؟؟؟
صرف پڑھنے سے شخصیت اور سوچ کی کاسمیٹک سائیڈ ضرور ڈیویلیپ ہو جاتی ہے مگر شخصیت نہیں بنتی ۔ خواتین و حضرات کا مشترکہ المیہ صرف پڑھنا ہے اس کا اطلاق خود پر بالکل نہیں ۔
میں نے خواتین کی حدود اور تجربات کا ذکر ضرور کیا ہے مگر یہ کہیں نئیں کہا کہ ان میں قابلیت نہیں ۔ اسی قابلیت کو مطالعے اور شخصی ترقی کی کسوٹی پر رکھنا نہیں سیکھا ابھی خواتین نے ۔