اردو اور ہندی

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج دوران گفتگو ہندی اور اردو زیر موضوع آگئے۔ جس پر ہمارے محترم لئیق احمد صاحب کا فرمانا تھا کہ
ہندی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میرے خیال میں تو ہندی اردو ہی کی ایک شکل ہے۔ :)

اس کے جواب میں سید عاطف علی کچھ یوں مخاطب ہوئے
ہندی اردو کو ایک ہی کہنا تو ایک بحث ہے لیکن یہ کہنا کہ ایک ہی "شکل" ہے، ہر گز درست نہیں ۔ شکل میں تو بعد المشرقین یا بعدالمغربین ہو سکتا ہے۔حتی کہ بات شمالین و جنوبین تک جاسکتی ہے۔ :)

جبکہ استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے اس بحث کو ایک الگ لڑی کا متقاضی قرار دیا۔
یہ ایک اور موضوع بنتا ہے اور اہم موضوع ہے۔ تاہم شاید اس لڑی میں اس موضوع کو چھیڑنا چنداں سود مند نہ ہو۔

گپ شپ کے اندر اس لئے اس لڑی کو نہیں کھولا کہ یہ ایک علمی بحث ہی رہے۔ نہ کہ موضوع سے بھٹک کر کہیں گپ شپ کی وادیوں میں کھو جائے۔ تاہم منتظمین اس کو کسی مناسب زمرے میں جب چاہیں منتقل کر سکتے ہیں۔ سوال ہے

کیا اردو اور ہندی ایک ہی شکل ہیں۔ یا ان کو الگ الگ زبان سمجھا جائے؟

تمام اہل علم سے درخواست ہے کہ یہاں ہم تشنہ لبوں کی فریاد پر کان دھریں۔ اور اس ضمن میں اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں۔
 
کہیں پڑھا تھا کہ اردو زبان کے پرانے ناموں میں ہندوستانی اور ہندی بھی ہے۔ کتاب کا نام اس وقت زہن میں نہیں آرہا :)
 

الف عین

لائبریرین
پاکستان بننے تک ان دونوں کو ایک ہی زبان مانا جاتا تھا۔ جو دو رسوم الخط میں لکھی جاتی تھی، دیو ناگری اور فارسی میں۔ اور دیو ناگری میں محض پنڈت قسم کے لوگ ہی لکھتے تھے، ہما شما تو سبھی فارسی رسم الخط میں لکھتے تھے۔ اور یہی زبان تھی جسے مہاتما گاندھی ہندوستانی کہتے تھے اور جو ہندوستان کی سرکاری زبان بنتے بنتے رہ گئی۔جب زبردستی والا دو قومی نظریہ پیدا کیا انگریزوں نے، تو ہندو مسلمانوں کو اپنی زبان کی شناخت کا احساس ہوا، اس کے بعد، اور پاکستان بننے کے بعد یہ دونوں زبانیں بالکل الگ الگ ہو گئی ہیں۔ پہلے ہندی بھی مصنوعی ہندی نہیں تھی، اب اس میں بھی سنسکرت کے الفاظ زبر دستی گھسا دئے گئے ہیں۔
 

زیک

مسافر
زبانیں ایک ہیں یا دو، species ایک ہے یا دو، یہ دونوں سوال کئی دفعہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ بہرحال میرا یہ خیال ہے کہ اب اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں ہیں۔
 
بلکل الگ زبانیں ہیں
جن زبانوں کا رسم الخط الگ ہوجائے وہ بلکل الگ ہوجاتیں ہیں۔ پھر اردو ایک ڈھلتی ہوئی زبان اور ہندی ایک ابھرتی ہوئی زبان ہے۔ یاد رہے کہ اردو زبان کی ترویج انگریزوں نے دی تھی۔
دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے ۔ اس سکو جھٹلانا سورج کی روشنی کو جھٹلانا ہی ہے
 
آج ہی ایک ویڈیو دیکھی ہے۔ گو میں اسے تمام ہندو قوم یا مذہب کی نمائندگی نہیں کہہ سکتا لیکن بہرحال کسی نہ کسی سطح پر دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے۔
معذرت چاہوں گا کہ ویڈیو کے ایک حصے میں استعمال کی گئی زبان مناسب نہیں ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
زبان اردو اس ہندی یا بھاشا کی ایک شاخ ہے جو دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی جس کا تعلق شورسینی پراکرت سے بلاواسطہ تھا۔ بھاشا جس کو مغربی ہندی کہا جاسکتا ہے، زبان اردو کی اصل ہے۔ اردو میں ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ابتدا ہندی سے ہوئی۔ مسلمان بحیثیت فاتح جب ہندوستان میں آئے اور فارسی جو ان کی مادری زبان تھی ہندوستان کی شاہی زبان بن گئی اور دیسی زبان مثل خادمہ کے اپنی مالکہ زبان فارسی کی خدمت کرنے لگی، جدت پسند یا غلام ذہن طبعیتوں نے نئی زبان کی طرف رخ کیا، شاہی درباری شعراء نے اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فارسی کا بھرپور استعمال کیا۔ اٹھارہویں صدی میں اردو ہندی کے نام سے ہی جانی جاتی تھی، صرف رسم الخط کا فرق تھا، فارسی الفاظ کے اضافے کے ساتھ فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔

پاکستان کا قیام ’’دوقومی نظریے‘‘ کی بنیاد پر ہوا حالانکہ درحقیقت یہ ’’دومذہبی نظریہ‘‘ تھا اور یہاں قومیں تو بہت سی تعداد میں آباد تھیں جب کہ بڑے مذاہب دو ہی تھے، ایک ہندو اور دوسرا اسلام۔ پاکستان کی قومی زبان اردو رائج کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں پر موجود دوسری زبانوں کے سب سے زیادہ قریب تر زبان یہی تھی اور سوائے بنگالی زبان کے سبھی زبانیں ’’اردو‘‘ طرز تحریر پہلے ہی اپنا چکی تھیں، اور اگر بنگالی کا رسم الخط بھی تبدیل کردیا جاتا تو شاید ایوب خان کے لیے ملک میں انارکی کی فضا قائم کرنا مشکل ہوتا۔

بشکریہ
 
اسم الخط بدلنے سے زبان مختلف نہیں ہوجاتی۔ اب جو لوگ رومن اردو لکھتے کیا وہ کوئی اور زبان لکھتے ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ اردو جاننے والے ہندی بولنے والے کی بات کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں اور ہندی والے اردو والے کی بات کو؟
میرا تو خیال ہے کہ اب بھی حالانکہ سنسکرت کے الفاظ گھسا گھسا کر نئی زبان تشکیل دینے کی کوشش جاری ہے ، ہندی اور اردو کو زیادہ سے زیادہ ایک ہی زبان کے مختلف لہجے قرار دیا جاسکتا ہے۔
دو مختلف زبانیں ہر گز نہیں۔
ایسا کیوں ہوتا رہا کہ کئی دہائیوں میں (شاید اب تک) بھارتی فلمیں اردو زبان میں لکھی اور بنائی جاتی رہیں اور ریلیز کے وقت ان کو "ہندی فیچر فلم " کا ٹائیٹل دیا جاتا رہا۔ اور اعتراض نہیں کیا گیا کہ یہ تو اردو فلم ہے اسے ہندی کیوں کہا جارہا ہے؟ ظاہر ہے اس لئے کہ کوئی خاص فرق محسوس ہی نہیں کیا گیا۔
ایک بات مزید کہنا چاہتا ہوں کہ دو قومی نظریے کا ہندی اور اردو جھگڑے کردار تو ہے مگر دو قومی نظریہ زبردستی کا بنایا گیا یا مصنوعی نہیں ہے۔
 

عثمان

محفلین
کیا وجہ ہے کہ اردو جاننے والے ہندی بولنے والے کی بات کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں اور ہندی والے اردو والے کی بات کو؟
پرتگالی اور ہسپانوی بولنے والے بھی ایک دوسرے کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔
لاہور شہر میں بولی جانے والی آسان پنجابی بھی سمجھ بوجھ میں سادہ اردو سے دور نہیں ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، بحث میرے الفاظ ‘زبردستی کا بنایا ہوا دو قومی نظریہ‘ پر شروع ہو گئی، یہاں اس پر بحث نہیں کی جا رہی ہے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد ہی یہ نظریہ کیوں سامنے نہیں آیا، چار سو سال مغلوں کی حکومت کے دوران بھی نہیں آ سکا، محض انگریزوں کے زمانے میں پیدا ہوا!! اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ دو قومی سے زیادہ دو مذہبی کہنا چاہئے تھا اسے!!
اب زبانوں کی بات ۔۔ زبانیں اپے رسم الخط سے نہیں، اپنی گرامر سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے اردو اور ہندی ایک ہی ہیں۔ میرے خسر مرحوم کو ان کے احباب بلکہ ہمارے غیر مسلم دوست لوگ بھی کہتے تھے کہ ’ہندی بہت اچھی آتی ہے‘ اور ان کا جواب ہوتا تھا ’میں تو ہندی کی ا۔ ب سے بھی واقف نہیں‘
 
یہاں ایک دلچسپ بات شریک کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے ایک بھارتی ہندو کولیگ کو اس بات پر بڑی آسانی سے قائل کرچکا ہوں ہندی اور اردو ایک ہی زبان کے دو مختلف نام ہیں :) جو مختلف رسم الخطوط میں لکھی جاتی ہیں۔
میں اس دھاگے میں دوقومی پر لمبی بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن غور کرنے پر محسوس ہو رہا ہے کہ اردو ہندی جھگڑے میں دو قومی نظریے کا بھی دخل ہے اور اس کو پرے رکھنا ہمارے لئے آسان نہیں ہوگا۔ لیکن میں کوشش کروں گا کہ بات اردو ہندی تک ہی محدود رہے۔:)
 
لاہور شہر میں بولی جانے والی آسان پنجابی بھی سمجھ بوجھ میں سادہ اردو سے دور نہیں ہے۔
اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ
شاید بنجابیوں سے " محبت نا کرنے والے " اس بات کو مضحکہ خیز سمجھیں کہ
پنجابی اردو کی چند ماؤں میں سے ایک ہے :)
مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ کہ اردو زبان کی بنیاد پنجاب میں پڑی جہاں زیادہ مسلمان لشکروں کا پڑاؤ ہوتا تھا اور اور مقامی زبان لشکری زبان میں شامل ہوتی گئی۔
 
اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ
شاید بنجابیوں سے " محبت نا کرنے والے " اس بات کو مضحکہ خیز سمجھیں کہ
پنجابی اردو کی چند ماؤں میں سے ایک ہے :)
مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ کہ اردو زبان کی بنیاد پنجاب میں پڑی جہاں زیادہ مسلمان لشکروں کا پڑاؤ ہوتا تھا اور اور مقامی زبان لشکری زبان میں شامل ہوتی گئی۔

متفق
اردو اور پنجابی دونوں ڈھلتی ہوئی زبانیں ہیں
البتہ ہندی ایک ابھرتی ہوئی زبان ہے

زبانیں تہذیب اوراقوام کی ترقی کے ساتھ بنتی اور ابھرتی ہیں۔ ہندوستان کی ترقی کے ساتھ ہی ہندی ابھرتی جاوے گی
 
متفق
اردو اور پنجابی دونوں ڈھلتی ہوئی زبانیں ہیں
البتہ ہندی ایک ابھرتی ہوئی زبان ہے

زبانیں تہذیب اوراقوام کی ترقی کے ساتھ بنتی اور ابھرتی ہیں۔ ہندوستان کی ترقی کے ساتھ ہی ہندی ابھرتی جاوے گی
بھارت میں ہندی بھی ڈھل رہی ہے اور ساری زبانوں کی جگہ انگریزی لے رہی ہے :)
کسی بھارتی سے اس موضوع پر بات کر کے دیکھ لیں :)
 
بھارت میں ہندی بھی ڈھل رہی ہے اور ساری زبانوں کی جگہ انگریزی لے رہی ہے :)
کسی بھارتی سے اس موضوع پر بات کر کے دیکھ لیں :)

ہندی نے تو صفر سے شروع کیا ہے۔ انگریزی ایک درمیانی دور کے لیے ہے ۔ جیسے جیسے ملک ترقی کرتا جائے گا قوم کو ہندی کی ضرورت پڑتی جائے گی۔ قوم بالشعور ہندی کی ترقی کے کام کرے گی
 
ہندی نے تو صفر سے شروع کیا ہے۔ انگریزی ایک درمیانی دور کے لیے ہے ۔ جیسے جیسے ملک ترقی کرتا جائے گا قوم کو ہندی کی ضرورت پڑتی جائے گی۔ قوم بالشعور ہندی کی ترقی کے کام کرے گی
ہمت بھائی ہندی کی ضرورت وہ انگریزی سے پوری کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہندی پورے بھارت میں نا بولی جاتی ہے نا سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ تامل ناڈو میں تو ہندی پر ویسے ہی پابندی ہے
وہاں ہندی کے مسئلے پر لڑائی ہوجاتی ہے۔ مگر انگریزی پر کوئی جھگڑا نہیں۔
 
ہمت بھائی ہندی کی ضرورت وہ انگریزی سے پوری کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہندی پورے بھارت میں نا بولی جاتی ہے نا سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ تامل ناڈو میں تو ہندی پر ویسے ہی پابندی ہے
وہاں ہندی کے مسئلے پر لڑائی ہوجاتی ہے۔ مگر انگریزی پر کوئی جھگڑا نہیں۔

قوم ترقی پذیرہے۔ جیسے جیسے ترقی کرتی جاوے گی ایک زبان بنتی جاوے گی۔ انگریزی بہرحال ایک فرنگی زبان ہے۔ اس کی اہمیت بجا مگر ایک عظیم قوم بننے کےلیے لازم ہے کہ اپنی زبان ہو ۔ وہ قوم ہی کیا جو دوسروں کی زبان اختیار کرتی ہو
 
قوم ترقی پذیرہے۔ جیسے جیسے ترقی کرتی جاوے گی ایک زبان بنتی جاوے گی۔ انگریزی بہرحال ایک فرنگی زبان ہے۔ اس کی اہمیت بجا مگر ایک عظیم قوم بننے کےلیے لازم ہے کہ اپنی زبان ہو ۔ وہ قوم ہی کیا جو دوسروں کی زبان اختیار کرتی ہو
اور بھارت نے اس ایک زبان کے طور پر انگریزی کو ترجیح دی ہے۔ وہاں تقریباً سارے سکول انگریزی میڈیم ہیں :)
 
اور بھارت نے اس ایک زبان کے طور پر انگریزی کو ترجیح دی ہے۔ وہاں تقریباً سارے سکول انگریزی میڈیم ہیں :)

بھارت کی انگریزی کا اچھی طرح پتہ ہے
ان کی انگریزی کو انڈین انگریزی کہتے ہیں۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں سکتا جب انڈینز انگلش بول رہے ہوں۔

قوم کو بہرحال ایک زبان کی ضرورت ہوتی ہے جو دیسی ہو۔ انگریزی کبھی یہاں دیسی نہیں رہی۔ البتہ ہندی میں انگریزی کے الفاظ بڑھتے جاویں گے۔ یہ کوئی برائی نہیں ہے۔ انگریزی کو ہند کی قوم اہستہ اہستہ کم کرتی جائے گی ۔ البتہ انگریزی اپنی جگہ اہم ہے۔ اسرائیل میں جیسے عبرانی زندہ ہوی ہے ویسے ہی ہندی زندہ ہوتی جاوےگی۔
 
Top