اردو زبان کے نفاذ اور ترویج سے متعلق خبریں اور کالمز وغیرہ

جاسمن

لائبریرین
یعنی تقریباً انگریزی میڈیم ہی ہے۔
کیا آپ کے خیال میں سائنسی مضامین اردو یا سرائیکی میں پڑھانے سے طلبا اور طالبات کی کارکردگی میں کوئی فرق آئے گا؟

میرے خیال میں اگر اردو کو مکمل رائج کیا جائے تو سائنسی مضامین اردو میں پڑھانے سے طلبہ کی کارکردگی میں فرق نہیں آئے گا۔
 

عثمان

محفلین
میرے خیال میں اگر اردو کو مکمل رائج کیا جائے تو سائنسی مضامین اردو میں پڑھانے سے طلبہ کی کارکردگی میں فرق نہیں آئے گا۔
یعنی آپ بھی متفق ہیں کہ فرق نہیں آئے گا تو پھر تبدیلی کی ضرورت ہی کیسی۔ بلکہ سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھنے سے فائد یہ ہے کہ انہیں آگے جا کر ایک بار پھر ترجمے کی غیر ضروری کوفت سے نہیں گذرنا پڑے گا۔ وہ یہ علوم اسی زبان میں پڑھ رہے ہیں جو میدان تحقیق کی اولین زبانوں میں سے ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
میرے خیال میں اگر اردو کو مکمل رائج کیا جائے تو سائنسی مضامین اردو میں پڑھانے سے طلبہ کی کارکردگی میں فرق نہیں آئے گا۔
یعنی آپ بھی متفق ہیں کہ فرق نہیں آئے گا تو پھر تبدیلی کی ضرورت ہی کیسی۔ بلکہ سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھنے سے فائد یہ ہے کہ انہیں آگے جا کر ایک بار پھر ترجمے کی غیر ضروری کوفت سے نہیں گذرنا پڑے گا۔ وہ یہ علوم اسی زبان میں پڑھ رہے ہیں جو میدان تحقیق کی اولین زبانوں میں سے ہے۔
اب تو بہتر صورت یہی ہے کہ بچوں کو فر فر انگریزی زبان آتی ہو تاکہ کم از کم اُن کے بنیادی کانسپٹس یا تصورات بہتر ہو جائیں اور مستقبل میں انہیں کم از کم دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ اُردو زبان میں سائنسی علوم کے غیر معیاری اور جناتی تراجم نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ان سے بہتر ہے کہ بچوں کو اس غیر ضروری مشقت سے بچایا جائے۔ یہ مان لینے میں حرج نہ ہے کہ ہماری نااہلی، تا دیر غفلت اور دیگر وجوہات کے باعث اردو میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت نہ ہو سکی اور اب شاید مزید وقت ہمارے پاس نہیں رہا ہے۔ اب جو بچے اردو زبان کی اصلاحات ازبر کریں گے، انہیں اس حوالے سے عملی طور پر کوئی معیاری مواد دستیاب نہ ہو گا جس کے باعث انہیں غیر ضروری مشقت بھی اٹھانا پڑے گی۔ یعنی کہ، اردو زبان میں نئے سرے سے ان اصطلاحات کی ترویج کرنا عصری تقاضوں سے ہٹ کر چلنے کے مترادف ہے۔ اب شاید مزید وقت نہیں رہا کہ ان چونچلوں میں پڑا جائے۔ ہماری دانست میں، اب کسی زبان کو مکمل طور پر رائج کرنے کے موقف پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایک معنوں میں یہ بھی بہتر ہے کہ اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی چلن ہو گیا ہے؛ یوں ہمارے بچوں کی علوم و فنون تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور یقین جانیے کہ معیاری سائنسی لٹریچر میں انگریزی زبان میں ہی دستیاب ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم ایک طویل مدت تک سائنسی علوم کی اردو زبان میں منتقلی کی وکالت کرتے رہے ہیں اور اس کی اپنی وجوہات ہیں، تاہم یہ ایک سراب ہے اور شاید رہے گا۔ صاف معلوم پڑتا ہے کہ ہم کسی بھی کام میں مخلص نہیں ہیں۔ یہ بات، تاہم، طے شدہ معلوم ہوتی ہے کہ اردو زبان کی محبت میں ہم اپنے مستقبل سے غافل نہیں رہ سکتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اب تو بہتر صورت یہی ہے کہ بچوں کو فر فر انگریزی زبان آتی ہو تاکہ کم از کم اُن کے بنیادی کانسپٹس یا تصورات بہتر ہو جائیں اور مستقبل میں انہیں کم از کم دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ اُردو زبان میں سائنسی علوم کے غیر معیاری اور جناتی تراجم نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ان سے بہتر ہے کہ بچوں کو اس غیر ضروری مشقت سے بچایا جائے۔ یہ مان لینے میں حرج نہ ہے کہ ہماری نااہلی، تا دیر غفلت اور دیگر وجوہات کے باعث اردو میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت نہ ہو سکی اور اب شاید مزید وقت ہمارے پاس نہیں رہا ہے۔ اب جو بچے اردو زبان کی اصلاحات ازبر کریں گے، انہیں اس حوالے سے عملی طور پر کوئی معیاری مواد دستیاب نہ ہو گا جس کے باعث انہیں غیر ضروری مشقت بھی اٹھانا پڑے گی۔ یعنی کہ، اردو زبان میں نئے سرے سے ان اصطلاحات کی ترویج کرنا عصری تقاضوں سے ہٹ کر چلنے کے مترادف ہے۔ اب شاید مزید وقت نہیں رہا کہ ان چونچلوں میں پڑا جائے۔ ہماری دانست میں، اب کسی زبان کو مکمل طور پر رائج کرنے کے موقف پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایک معنوں میں یہ بھی بہتر ہے کہ اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی چلن ہو گیا ہے؛ یوں ہمارے بچوں کی علوم و فنون تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور یقین جانیے کہ معیاری سائنسی لٹریچر میں انگریزی زبان میں ہی دستیاب ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم ایک طویل مدت تک سائنسی علوم کی اردو زبان میں منتقلی کی وکالت کرتے رہے ہیں اور اس کی اپنی وجوہات ہیں، تاہم یہ ایک سراب ہے اور شاید رہے گا۔ صاف معلوم پڑتا ہے کہ ہم کسی بھی کام میں مخلص نہیں ہیں۔ یہ بات، تاہم، طے شدہ معلوم ہوتی ہے کہ اردو زبان کی محبت میں ہم اپنے مستقبل سے غافل نہیں رہ سکتے ہیں۔

آپ کے نکات سے متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں۔
 

عثمان

محفلین
اب تو بہتر صورت یہی ہے کہ بچوں کو فر فر انگریزی زبان آتی ہو تاکہ کم از کم اُن کے بنیادی کانسپٹس یا تصورات بہتر ہو جائیں اور مستقبل میں انہیں کم از کم دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ اُردو زبان میں سائنسی علوم کے غیر معیاری اور جناتی تراجم نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ان سے بہتر ہے کہ بچوں کو اس غیر ضروری مشقت سے بچایا جائے۔ یہ مان لینے میں حرج نہ ہے کہ ہماری نااہلی، تا دیر غفلت اور دیگر وجوہات کے باعث اردو میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت نہ ہو سکی اور اب شاید مزید وقت ہمارے پاس نہیں رہا ہے۔ اب جو بچے اردو زبان کی اصلاحات ازبر کریں گے، انہیں اس حوالے سے عملی طور پر کوئی معیاری مواد دستیاب نہ ہو گا جس کے باعث انہیں غیر ضروری مشقت بھی اٹھانا پڑے گی۔ یعنی کہ، اردو زبان میں نئے سرے سے ان اصطلاحات کی ترویج کرنا عصری تقاضوں سے ہٹ کر چلنے کے مترادف ہے۔ اب شاید مزید وقت نہیں رہا کہ ان چونچلوں میں پڑا جائے۔ ہماری دانست میں، اب کسی زبان کو مکمل طور پر رائج کرنے کے موقف پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایک معنوں میں یہ بھی بہتر ہے کہ اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی چلن ہو گیا ہے؛ یوں ہمارے بچوں کی علوم و فنون تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور یقین جانیے کہ معیاری سائنسی لٹریچر میں انگریزی زبان میں ہی دستیاب ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم ایک طویل مدت تک سائنسی علوم کی اردو زبان میں منتقلی کی وکالت کرتے رہے ہیں اور اس کی اپنی وجوہات ہیں، تاہم یہ ایک سراب ہے اور شاید رہے گا۔ صاف معلوم پڑتا ہے کہ ہم کسی بھی کام میں مخلص نہیں ہیں۔ یہ بات، تاہم، طے شدہ معلوم ہوتی ہے کہ اردو زبان کی محبت میں ہم اپنے مستقبل سے غافل نہیں رہ سکتے ہیں۔
کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا۔
انگریزی محض انگریز کی میراث نہیں بلکہ ایک عالمگیر زبان ہے۔ برصغیر سے اس کا رشتہ صدیوں سے ہے۔ یہ خطہ دنیا کے ان چند ایک میں سے ہیں جو انگریزی سے تاریخی ، تہذیبی اور لسانی قربت رکھتا ہے۔ یہ ہماری زبان ہے۔ اسے کھل کر گلے لگائیں اور اس کے ثمرات سمیٹیں۔ معذرت خواہنا رویے اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
 
65989125_390902894878935_5590658727616184320_n.jpg

فیس بک سے کاپی شدہ
 
بھارت، کم سن لڑکا 135 کتابوں کا مصنف بن گیا

658048_6587898_555_updates.jpg

بھارتی ریاست اتر پردیش میں 13سالہ لڑکا 135 کتابوں کا مصنف بن گیا۔
مریجندرا راج نامی تیرہ سالہ لڑکے کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے6 سال کی عمر سے کتابیں لکھنا شروع کی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نےاپنی پہلی کتاب میں مختلف نظموں کو ترتیب دیا۔
قلمی نام ’آج کاابھی مانیو‘ سے متعدد کتابیں لکھنے والے مریجندرا راج کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں ایک بڑے مصنف بننے کاخواہاں ہیں اور ادب کی مختلف اقسام میں زیادہ سے زیادہ کتابیں لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سے قبل مریجندرا راج چار عالمی ریکارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔
مریجندرا راج کی والدہ ایک نجی ادارے میں ٹیچر ہیں جبکہ والد ایک شوگر انڈسٹری میں ملازم ہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ مریجندرا راج لکھنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
لنک
 

بافقیہ

محفلین
امریکہ میں مقیم پاکستان قومی زبان تحریک کے بزرگ رہنما، ادیب، شاعر، سابق سفیر، نوبل پرائز کےلئے منتخب کتاب کے مصنف، جناب قمر نقشبندی نقوی بخاری رقم طراز ہیں:
بسمِ اللہِ الرّح٘منِ الرّحِیم اگر مختلف ممالک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک کی اپنی ایک "قومی" زبان ہے۔ تعلیم اُسی زبان میں ہوتی ہے، لیکن نصاب میں "اختیاری" زبانوں کی ایک فہرست ہوتی ہے اور طالب علم کو اجازت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی زبان کے ساتھ، کوئی دوسری زبان بھی پڑ ھ سکتا ہے، اس فہرست میں انگریزی، فرا نسیسی، جرمن، روسی، اسپینش، وغیرہ متعدد زبانیں ہیں۔ تعلیم تو قومی زبان میں ہی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی ایک زبان بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں بھی یہی طریقۂ تعلیم ہے۔ میرے پوتے، نواسے، پوتیاں، سب ہی اب دانشگاہوں میں ہیں۔ اصل تعلیم تو انگریزی میں ہوئی، ساتھ انھوں نے فرنچ اختیاری مضمون کے طور پر لی۔ اب سارے بچے فرنچ بھی جانتے ہیں لیکن تعلیم انگریزی میں ہوئی۔ پاکستان میں بھی یہی طریقۂ تعلیم ہونا چاہیے جو ایک منطقی اور مناسب طریقہ ہے۔ یعنی تعلیم کی زبان "اردو" ہو، دوسری کوئی ایک زبان اختیاری مضمون کے طور پر پڑھی جائے۔۔۔۔۔۔وہ انگریزی بھی ہو سکتی ہے اور فرنچ یا روسی بھی۔
زبردستی انگریزی پڑھنے کی کوئی وجہ نہیں۔
فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
خوب
 

جاسمن

لائبریرین
انقلابی نظامِ تعلیم کا مختصرخاکہ
October 28
2017
1تحریر: اشتیاق احمد

انقلابی نظامِ تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ ایسا تعلیمی نظام جو انفرادی اور اجتماعی طور ہر افراد کی تربیت کرے۔ انہیں اچھا مسلمان اور محب وطن شہری بنائے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ قوم پر تحقیق، تخلیق اور ایجادات کے دروازے کھولے۔قوم کو ہر لحاظ سے خود کفیل بنائے۔آئیے ایسے انقلابی نظامِ تعلیم کا مختصر خاکہ ملاحظہ فرمایئے۔

یہ نظام پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک کے مراحل پر مشتمل ہوگا

پہلی سے پانچویں جماعت

پہلی سے پانچویں جماعت تک صرف دو کتابیں ہوں پہلی اردو اور دوسری ریاضی کی۔سائنس ،معاشرتی علوم،اسلامیات،جغرافیہ اور دیگر علوم کی بابت مضامین سادہ اور آسان پیرائے میں اردو کی کتا ب میں ہی ہوں ۔اس کے علاوہ ریاضی کی کتاب میں جمع تفریق اور ضرب تقسیم کی بنیادی مہارتیں اور روز مرہ کی پیمائشیں وغیرہ ہوں ۔املا اور ریاضی کی مہارتوں کو پختہ کرنے کے لیے تختی اور سلیٹ کا استعمال لازمی ہو ۔بھاری بھرکم کاپیوں ،دستوں اور پنسلوں کا بوجھ صرف اشرافیہ کے چونچلے ہیں اور مفت تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

چھٹی سے آٹھویں جماعت

چھٹی سے آٹھویں جماعت تک اردو اور ریاضی کے ساتھ ایک تیسری کتاب سائنس کی ہو ۔سائنس کی یہ کتاب ماحول سے مربوط سائنسی تصورات پر مشتمل ہو ۔انسانیات، حیوانیات و نباتیات کا علم ماحول اور تہذیب و ثقافت سے مربوط ،سادہ اور آسان اصطلاحات میں ہو۔انگریزی یا کوئی دوسری زبان لازمی طور پر نافذ نہ کی جائے۔

نہم سے دہم
نہم و دہم میں اردو اور ریاضی کی لازمی حیثیت کے ساتھ طبیعات ،کیمیا ،حیاتیات اور کمپیوٹر کے آسان فہم کورسز پڑھائے جائیں ۔ان تمام کورسز کا میعار ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہو ۔ان مضا میں کے ساتھ آرٹس کے تمام مضامین بھی شامل ہوں ۔طالب علموں کو مختلف زبانیں پڑھنے کی بھی اجازت ہو گی مگر اختیا ری حیثیت سے ۔پہلی جماعت سے میٹرک تک کے اس نصابی خاکے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو گی کہ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا کم از کم ۸۰ سے ۹۰ فی صد حصہ بلا کسی رکاوٹ کے میٹرک پاس کر جائے گا جبکہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا صرف ۱۰ فی صد حصہ میٹرک کر پاتا ہے ۔باقی ۹۰ فی صد انگریزی میں الجھ کر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ذرا سو چیے یہ کیساعظیم انقلاب ہو گا ؟

گیارہویں سے بارہویں
گیارہویں اور بارہویں جماعت میں اردو ، اسلامیات ،مطالعہ پاکستان کی لازمی حیثیت کے ساتھ تمام تر سائنسی اور غیر سائنسی مضامین اردو میں ہی پڑھائے جائیں جیسا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں سندھی اور اردو میں پڑھائے جاتے ہیں اس کے لئے بھارت میں چھپنے والی سائنسی مضامین کی تمام کتابیں ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں جو کہ ncertbooks.comپر دستیاب ہیں ۔انٹرمیڈیٹ میں بھی طالب علموں کو تمام تر مضامین قومی زبان میں ہی پڑھائے جا ئیں، یہاں بھی دیگر زبانیں اختیاری طور پر پڑھانے کے انتظامات ہوں ۔

بی ایس سی اورایم ایس سی
بی ایس سی اور ایم ایس سی کے تمام تر کورسز فوری طور پر اردو میں تیار کئے جائیں ۔ زیادہ تر کورسز اردو یو نیورسٹی کراچی اور مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے پہلے سےہی تیار کئے ہوئے ہیں جنہیں ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں رائج ہونے کے لیے قوت نافذہ کا انتظارہے۔جو کورسز بچ گئے ہیں انہیں بھی جلد از جلد ترجموں کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔پہلے پانچ سالوں میں ہر مضمون کا امتحان اردو میں دینے کی اجازت دی جائے ۔ اس سے خود بخود ہر سطح کا نصاب ترجمہ ہونا شروع ہو جائے گا۔قرین قیاس ہے کہ سب سے پہلے ایم بی بی ایس کے نصاب کا ترجمہ کیاجائے۔

یونیورسٹیوں میں دارالترجمہ کاقیام
ہر یونیورسٹی میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کی طرز کا دارالترجمہ قائم کیا جائے جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کے ساتھ ساتھ دیگر کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا ہدف مقرر کیا جائے۔10 سالوں میں یونیورسٹیوں کی لائبریریاں ہمارے اپنے لوگوں کی اپنی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر جائیں گی۔اس طرح خود انحصاری اور تحقیق و تخلیق کی وہ دولت ہاتھ آئے گی جس کے طفیل پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کا ۶۰ سے ۷۰ فی صد حصہ ماسٹر ڈگری کا حامل ہو گا او ر ایجادات کے صدیوں سے بند دروازے کھل جائیں گے۔ذرا موجودہ صورت حال دیکھئے کہ ہمارے بچوں کا 1 فی صد حصہ بھی بی اے ،بی ایس سی نہیں کر پاتا۔ راستے میں تعلیم سے دلبرداشتہ ہو کر جو وسائل ضائع ہوتے ہیں وہ تو کسی حدو حساب میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی وغیرہ میں ہمارے طلباء و طالبات اپنے کورسز کو صرف پانچ سے دس فی صد تک سمجھتے ہیں جبکہ باقی سارا رٹا ہوتاہے۔ان اقدامات کی بدولت رٹا صرف پانچ سے دس فی صد تک رہ جائے گا جبکہ ۹۰ سے ۹۵ فی صد تک نفسِ مضمون کا فہم ہو گااوریہ ایک بڑے انقلاب کی صورت ہو گی۔

ضلعی ترجمہ مراکزکاقیام
جامعات کے علاوہ ہر ضلع میں ایک ترجمہ مرکز قائم ہو جہاں دیگر زبانوں سے علوم وفنون منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اور علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے بھی کام کیا جائے۔ان تمام ترجمہ مراکز کو ایک مرکزی دارالترجمہ سے کنٹرول کیا جائے اور ضروری رہنمائی و تر بیت فراہم کی جائے ۔دنیا میں موجود کسی بھی ملک نے یہ کام کئے بغیر ترقی نہیں کی۔

تحقیقی کام کی تشہیراوردارالمطالعہ کاقیام
تمام جامعات اور اضلاع کی سطح پر کئے گئے تحقیقی کام کی ہر سال کسی مناسب جگہ پر نمائش کی جائے اور بہترین محققین و مصنفین کو انعام واکرام اور دیگر مراعات سے نوازا جائے۔شہروں کے علاوہ ہر گاؤں میں ایک دارالمطالعہ قائم کیا جائے جہاں مطالعہ کے شوقین نچلی سطح پر کتاب کو اپنی دسترس میں پائیں اور پڑھنے لکھنے کے ذوق کی آبیاری کا دائرہ وسیع ہو ۔

تمام نصاب کی سی ڈیزاورڈی وی ڈیزپرمنتقلی اوراس کی مفت تقسیم
پہلی جماعت سے ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی تک کے تمام کورسز آسان فہم زبان میں سی ڈیز پر تیار کئے جائیں اور بازار میں عام سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی صورت میں دستیاب ہوں۔یہ تمام مواد مثالی اسباق کی صورت میں ہو جس سے علوم وفنون کا فہم آسان ہوگااور اس سے ٹیوشن کا مذموم کاروبار خود بخود دم توڑ جائے گا۔رٹے کی بیماری ختم ہو جائے گی اور اس کی جگہ فہم و ابلاغ آ جائے گا۔

ملاحظہ فرمائیے ناچیز کی تیار کی ہوئی سینکڑوں ویڈیوز مثالی اسباق کی صورت میں youtube پر جن کے پتے ishtiaqahmedishاور ishtiaqahmad1000اوراس کے علاوہ tahqeeqotakhleeq.blogspot.comپر ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل اسباق شامل ہیں۔

تمام علوم وفنون کی اصلاحات کی تشریح
ملک میں فرہنگستانِ علم کے نام سے تمام علوم و فنون کی اصطلاحات اپنے ماحول، زبان اور ان کے تاریخی پسِ منظر کے اعتبار سے وضع کی جائیں اور ان کو عملاً نصاب کا حصہ بنایا جائے۔یاد رہے کہ کوئی بھی قوم پہلے الفاظ و اصلاحات ایجاد کرتی ہے اور اس کے بعد آلات و اشیاء۔یہ ایک زبردست تخلیقی عمل ہے اس سے گزرنے والی قوم پر تخلیقات و ایجادات کے دروازے بند ہو ہی نہیں سکتے۔

ہرضلع میں یونیورسٹی اورمیڈیکل کالج کاقیام
ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی اور ایک میڈیکل کالج ہو ۔مذکورہ بالا اصلا حات کے نتیجہ میں بچے اتنی بڑی تعداد میں ماسڑ ڈگری تک پہنچیں گے کہ ضلعی سطح پر قائم کردہ یہ ادارے کم پڑ جائیں گے اور انہیں تحصیل سطح پر لانا پڑے گا۔ضمناً عرض کرتا چلوں کہ ہمارے حکمران دانستہ طور پر اپنی عوام کو اَن پڑھ رکھ کر ان پر جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام مسلط کر رہے ہیں۔یہ اصلاحات واحد ذریعہ ہیں ان سے پیچھا چھڑوانے کا۔

تعلیم مکمل حکومتی ذمہ داری
اصولی اور قانونی طورپر معاشرے کے افرادکو تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ دار ی ہے۔ریاست کے وزیر اور مشیر خود ہی اپنے اپنے سکول سسٹم کھول کر بیٹھ جائیں اور سامراجی مداخلت کے ساتھ ایک کمائی کا بڑا ذریعہ بنا لیں تو ظاہر ہے کہ غریبوں کے لئے قائم کردہ سکول اور کالج خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ان تمام سیاسی مگر مچھوں کے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جائے اور ان کے بچوں کو غریبوں کے بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لئے بٹھایا جائے تاکہ کبرو نخوت کے ان مجسموں کی گردنوں میں تنا ہوا سریہ نکل جائے اور وہ انسانیت کی سطح پر اُتر کر اپنے اردگِرد دیکھنا شروع کر دیں۔

دینی مدارس میں بھی اصلاحات کانفاذ
دینی مدارس کے نظام میں بھی اصلاحات لائی جائیں۔دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی اور معاشرتی علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ وہاں سے فارغ التحصیل افراد عالمِ دین بننے کے ساتھ ساتھ مستند طبیب اور سائنسدان بھی بن سکیں۔ہر بڑے مدرسہ میں ایک دارالترجمہ بھی قائم ہو ۔قرونِ وسطیٰ کے تحقیقی مراکز اسی طرز پرقائم تھے۔

مساجدمیں بھی تعلیم کاانتظام
مسجدوں کو بھی بچوں کو پڑھانے کے لیے استعمال میں لایا جائے ۔سکولوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے صبحُ و شام کی کلا سیں بھی لگائی جا سکتی ہیں۔نیت ٹھیک ہو تو بوہڑ،پیپل اور شیشم وغیرہ کے بڑے بڑے درختوں کے سایہ میں بھی بچوں کو بٹھا کر بھی تعلیم دی جا سکتی ہے ۔فر نیچر ضروری نہیں صفوں اور ٹاٹوں پر بیٹھ کر بچے آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ٹاٹ سسٹم ختم کر کے فر نیچر کا شور مچانا ہمارے سیاسی شعبدہ بازوں اور کمیشن مافیا کی لوٹ مارکا ڈھونگ کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔جو لوگ روٹی کو ترستے ہیں انہیں ٹاٹوں پر بٹھا کےبھی پڑھانا ممکن ہے۔ہاں، پڑھ لکھ کر ترقی کرنے کے بعد وسائل کو یکساں تقسیم کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

مقابلے کے امتحانات کا اردوزبان میں انعقاد
تمام تر مقابلے کے امتحانات اردو میں لیے جائیں گے۔ اس سے موچی اور نائی (یہ پیشے بھی باقی پیشوں کی طرح قابل احترام ہیں) کا بیٹا بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکے گا۔ان امتحانات کو انگلش میں لینا ملک کے 99فی صد لوگو ں کو آگے آنے سے روکنے کے مترادف ہے۔سپوکن انگلش اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے پاگل پن کو ختم کر کے ایسے ماہرین تیار کئے جائیں جو غیر ملکی زبانوں کے ماہر ہوں اور انہیں اپنی مادری زبان پر بھی اعلیٰ درجے کاعبور حاصل ہو ۔ان افراد کے ذمہ دوسری زبانوں کے علوم وفنون کو اپنی زبان میں منتقل کرنا ہو اور وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ تنخواہ تحقیق کاروں کو ہی دی جائے۔ وطنِ عزیز کا عدالتی نظام قومی اور صوبائی زبانوں میں ہو۔ اس سے انصاف کی فراہمی آسان اور سہل ہو گی۔انگریزی میں لکھے ہوئے عدالتی فیصلے کی چٹھی پورے پورے گاؤں پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اردواورمقامی زبان میں تشہیری مہم
بازار میں مختلف قسم کے بینر اور اشتہاری بورڈ صرف اردو یا مقامی زبان میں لکھنے کی اجازت ہو تاکہ قومی زبان قومی تفاخر کا ذریعہ بنے۔

غیرملکی امدادپرپابندی
غیر ملکی امداد پر ہر قیمت پر پابندی لگائی جائے کیونکہ غیر ملکی امداد ایسی پالیسیوں کے ساتھ مشروط ہوتی ہے جو بالآخر قوم کو جاہل اور گنوار بنا کر رکھ دیتی ہے جیسا کہ پاکستان میں خصو صاً صوبہ پنجاب میں تمام تر پالیسی ساز اداروں کو جن میں پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ اور ڈائریکٹو ریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ لاہور جیسے ادارے شامل ہیں ان کو سامراجیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اڈوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

مسلم ممالک کے مشترکہ تعلیمی منصوبے
مسلم ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ تعلیمی منصو بے شروع کیے جائیں۔ایک دوسرے سے جدید ترین علوم و فنون کا تبادلہ کیا جائے ۔تراجم کے کام میں خصو صاً باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے اور اُمتِ مسلمہ کو جو تعلیم و تحقیق کے میدان میں چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کی جائے ۔

قرآن مجیدکی ترجمےکے ساتھ پڑھائی
سب سے اہم بات یہ کہ قوم کوحقیقی اسلامی تہذیب سے روشناس کرانے اور ان میں بہترین اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کے لئے چھٹی جماعت سے سو لہویں جماعت تک مکمل قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے اس سے فرقہ واریت کی جڑیں بھی خود بخود کھوکھلی ہو جائیں گی اوراس سے قومی یکجہتی اور ایمان کی پختگی جیسی بے شمار ،لازوال نعمتیں حاصل ہوں گی۔

حرفِ آخر
مذکورہ بالا اقدامات میں یقیناً مختلف زاویوں سے ترمیم و اضافہ اور بہتر تجاویز ممکن ہیں مگر یہ ناچیز پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ ان پر عمل کرنے سے پاکستان بیس سالوں میں سپر طاقت بن جائے گا ورنہ جو کچھ تعلیمی نظام کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے اس کے وجود کو بے شمار خطرات لاحق ہیں۔اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے انتہائی حد تک کمزور کرنے کے آثارو شواہد ہر طرف بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔دشمن نے یہ محاذ اس لئے چنا ہے کہ تمام محاذوں کو جانے والے راستے اسی سے ہوکرگزرتے ہیں۔آئیے ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہو جائیں اور حتیٰ المقدور وسائل اکٹھے کر کے اس وطن کو تر قی و خوشحالی کے بامِ عروج تک پہنچا دیں۔اللہ تعالیٰ ملک پاک کوسداسلامت رکھے۔
 

عثمان

محفلین
ہیومن رائٹس واچ جیسے معتبر ادارے کی یہ رپورٹ گذشتہ برس شائع ہوئی تھی۔ پاکستان کے معیاری انگریزی اخبارات میں اس کا تذکرہ تھا۔
یہ رپورٹ ایک جامع سروے پر مبنی ہے جو پاکستان ہی میں مکمل کیا گیا ہے۔ آپ اس کے طریقہ کار پر مبنی سیکشن کا مطالعہ کر کے تسلی کر سکتی ہیں۔
گذشتہ برس اس کا سرسری مطالعہ کیا تھا۔ کچھ نکات یاد رہے کچھ نہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے شعبہ میں اس رپورٹ اور اس کے مندراجات کا تذکرہ رہا ہوگا۔
بطور ایک سکول ٹیچر اپنے ذاتی پیشہ وارانہ تجربے اور مشاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے بتائیے کہ آپ اس رپورٹ کی کن باتیں سے اتفاق یا اختلاف رکھتی ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں طلبا اور بالخصوص طالبات کی ایک کثیر تعداد آپ کے سکول میں جماعت نہم تک نہیں پہنچ پاتی؟
تعلیمی نصاب کے متعلق اس رپورٹ کا کیا کہنا ہے؟
کیا رپورٹ آپ کے اس مفروضے کی توثیق کرتی ہے کہ انگریزی حصول تعلیم میں ایک اہم ترین رکاوٹ ہے؟

آپ چاہیں تو میں اس رپورٹ کے مطالعے سے ابھرنے والے مکالمے میں آپ سے گفتگو کرنے کو تیار ہوں۔
 

سید عمران

محفلین
لڑی کا موضوع اردو زبان کے نفاذ سے متعلق ہے، اس میں بلاوجہ انگریزی کے تقابلی مکالمات داخل کرنے سے پرہیز کریں۔۔۔
انگریزی زبان کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ لڑی کا موضوع نہیں۔۔۔
صاحبانِ ذوق اُس کے لیے الگ لڑی بنائیں۔۔۔
اس لڑی کو اس کے راستے پر چلنے دیں!!!
 

سید عمران

محفلین
ہمارے پاس تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل مختلف مضامین کا مجموعہ بنام ’’فکر انقلاب‘‘ ہے۔۔۔
اس کا موضوع ’’اردو کے فروغ میں دیوبند کا ڈیڑھ سو سالہ کردار ‘‘ ہے۔۔۔
اپنے موضوع کے اعتبار سے پڑھنے کی چیز ہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
لڑی کا موضوع اردو زبان کے نفاذ سے متعلق ہے، اس میں بلاوجہ انگریزی کے تقابلی مکالمات داخل کرنے سے پرہیز کریں۔۔۔
انگریزی زبان کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ لڑی کا موضوع نہیں۔۔۔
صاحبانِ ذوق اُس کے لیے الگ لڑی بنائیں۔۔۔
اس لڑی کو اس کے راستے پر چلنے دیں!!!
اگرچہ موضوع اردو زبان کے نفاذ کا ہی ہے لیکن یہ معاشرتی نظام سے گہرا ربط رکھتا ہے اس کے لیے دوسرے معاشروں اور زبانوں کے تجربات سے رہنمائی لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ ان متنوع تجربات سے گزر چکے ہیں اور ہمارے لیے ہمارا ہی مقصد حاصل کرنے میں کچھ مدد گار ہو سکتے ہیں ۔ اگر چہ تجربات سے روشنی حاصل کرنے میں ہمیں اپنی ترجیحات کو پیش نظر رکھنا ہو گا جو اس ٹرانزیشن کا اہم پہلو ہو گا ۔
یہ ایک رائے ہے ۔
 

یاقوت

محفلین
لڑی کا موضوع اردو زبان کے نفاذ سے متعلق ہے، اس میں بلاوجہ انگریزی کے تقابلی مکالمات داخل کرنے سے پرہیز کریں۔۔۔
انگریزی زبان کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ لڑی کا موضوع نہیں۔۔۔
صاحبانِ ذوق اُس کے لیے الگ لڑی بنائیں۔۔۔
اس لڑی کو اس کے راستے پر چلنے دیں!!!
بھائی لوگ بولیں تو یہ اچ ہے دھاسو انٹری۔
 

یاقوت

محفلین
ہمارے پاس تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل مختلف مضامین کا مجموعہ بنام ’’فکر انقلاب‘‘ ہے۔۔۔
اس کا موضوع ’’اردو کے فروغ میں دیوبند کا ڈیڑھ سو سالہ کردار ‘‘ ہے۔۔۔
اپنے موضوع کے اعتبار سے پڑھنے کی چیز ہے!!!
شاہ جی مہربانی فرماکر آپکی نظر میں اسکا جو بہترین حصہ ہو ذرا وہ ہمارے ساتھ بانٹیں۔
 

سید عمران

محفلین
اگر متن میں ہوسکے تو سب سے بہتر اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتو پھر سکین شدہ شامل کریں لیکن شامل ضرور کریں۔
آٹھ سو صفحات میں سے انتخاب کرنا مشکل کام ہے...
سردست موبائل کیمرے سے لیے گئے دو صفحات کی تصاویر پیش ہیں!!!
 
Top