قومی زبان ہمارا تشخص، عتیق گورایہ۔۔۔ فیصل آباد
پوسٹ کردہ:محمد نعیم شہزاد
یکم نومبر 2020
1947ء کا واقعہ ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد دکن) میں تمام مضامین اردو میں پڑھانے کے لیے غور و خوض ہونے لگا اور اس سلسلے میں تعلیمی کمیٹی کا ایک اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ اجلاس میں صرف ایک انگریز اور باقی تمام ماہرین ہندوستانی تھے۔ اجلاس میں تمام ہندوستانیوں نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے پر مختلف مسائل بیان کیے اور اردو کو اپنانے میں مشکلات بیان کر ڈالیں۔ اس موقعے پر اجلاس میں شریک واحد انگریز ممبر نے تمام اختلافات کو رد کرتے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے ہوئے تمام لوگوں کو خاموش کرا دیا کہ ”تم لوگ کیا فضول بحث شروع کر بیٹھے ہیں! میں آپ کو بتاتا ہوں تقریباً دو سو سال پہلے برطانیہ میں انگریزی زبان کو لاطینی زبان کی جگہ بطور ذریعہ تعلیم لانے کی بات ہوئی تو وہاں بھی بالکل آپ کی طرح دلائل دیے جانے لگے تھے لیکن وقت نے سب کے سامنے حقائق کھول دیے لہٰذا آپ اس بے کار بحث کو چھوڑ دیں اور اردو زبان میں تراجم کا کام شروع کر دیں“ڈاکٹر نوید اقبال انصاری کے کالم کا ایک ٹکڑا۔ کراچی میں ہونے والے حالیہ سیاسی جلسے میں محمود اچکزئی نے اردو زبان میں ہی تقریر کرتے ہوے اردو زبان کو قومی زبان ماننے سے انکار کردیا۔اب ان پر کون سی آئین کی شق لاگو ہوتی ہے اور کن قوانین کے تحت ملزمان و مجرمان کو ضمانت فوری طور پر مل سکتی ہے یہ تو اہل قانون جانتے ہوں گے۔کہ ہمارایہ کام ہے اور نہ ہی اتنی استعداد، ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ وحدت کو پارہ پارہ کرنے والوں کے خلاف اگر قانونی چارہ جوئی نہ کی گئی تو بات بڑھتی بڑھتی بہت بڑھ جاے گی۔ہم تو ابھی بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی جلسے میں مائیک پر جذبات کی حدت میں سیاسی رہنما کی زبان پھسل گئی ہوگی کہ
بدگمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کردیا
خود بھی تنہا ہوگئے مجھ کو بھی تنہا کردیا
(نذیر بنارسی)
1846ء میں اردو زبان کو جموں و کشمیر میں اور 1849ء میں پنجاب میں انگریز سرکار نے دفتری زبان نافذ کیا۔قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم نے اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دے دیاتھا۔ قائداعظم ؒ کی دوراندیشی تھی کہ قوم اک زبان کے بغیر متحد نہیں ہوسکتی۔قائد اعظم نے اک موقع پر فرمایا تھا کہ میری اردو تانگے والے کی اردو ہے۔پاکستان میں پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی،بلوچی، گوجری،براہوی،شینا، بنگالی، اور کشمیری سمیت کم وبیش 74 زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ پورے پاکستان میں اردو زبان سمجھی جاتی ہے۔بولی مختلف ہوسکتی ہے جیسے دکن میں دکھنی، دیسیا، مرگان نام سے جانا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں مراٹھی اور کونکنی زبان کا اثر ملے گا۔اندھراپردیش میں اگر بندہ جاے تو تیلگو کے زیراثر نظر آئے گی۔پاکستان میں اردو پر پشتو،پنجابی،سرائیکی،بلوچی، سندھی اور دیگر علاقائی زبانوں کا اثر ملتا ہے۔
انگریزی زبان کو پڑھتے پڑھتے عمریں بیت رہی ہیں لیکن خواب اب بھی مادری زبان میں یا پھر قومی زبان میں ہی آتے ہیں ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ ماہ بدولت ولیم شیکسپئر بنفس نفیس خواب میں جلوہ افروز ہوئے ہوں اور انگریزی زبان میں اپنے اقوال و خیالات سے بہرہ مند کیا ہو یا پھر ورجینیا وولف کے پہلے ناول میں ہورہے واقعات کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے ان پر کسی شب بات کی ہو۔ ہمیں تو جب بھی ملے اردو شعرا و مصنفین ملے یا پھر اپنے جیسے لوگ جو پنجابی یا پھر اردو بولتے ہیں۔بقول مقبول نقش
؎زندگی خواب دیکھتی ہے مگر
زندگی زندگی ہے خواب نہیں
ماضی قریب و بعید میں طب کی سند اردو میں بھی ملا کرتی تھی اور تکنیکی تعلیم کا ذریعہ اردو زبان ہوا کرتی تھی۔ پھر زمانے کی رفتار سے چلنے کی روش نے وہ دن دکھائے کہ آج ہمیں نہ اردو کی سمجھ ہے اور نہ ہی انگریزی زبان میں امتحان پاس کرنے کی سکت۔طلبا کی اک کثیر تعداد لائق ہوتے ہوئے صرف انگریزی زبان کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہے۔ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ زبان قوم کے افتخار کا نشان ہوتی ہے۔زبان صرف ذریعہ اظہار ہی نہیں بلکہ قومی تشخص اور تہذیبی شناخت کی علامت ہوتی ہے۔قومی زبان قومی شعور اور فکر و تخیل کی امین ہوتی ہے۔اپنے آباواجدادکے تجربات و افکارات سے روگردانی کرکے خودآگہی کا فلسفہ حل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔اردو زبان نہ صرف تاریخی سرمایہ اپنے اندر سموئے ہوے ہے بلکہ ایک جدید اور ترقی یافتہ زبان ہے جس میں لچک اور وسعت موجود ہے۔اس نے ماضی قریب و بعید میں کتنے ہی الفاظ دیگر زبانوں کے اس طرح سے اپنے اندر سموئے ہیں کہ اجنبیت کا احساس ختم کردیا ہے۔زبان اظہار کا سب سے اعلیٰ اور موثر ذریعہ ہوتی ہے اور اسی لیے اس میں مسلسل تراش خراش ہوتی رہتی ہے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پھیلتی رہے ہمارے آئین میں اردو زبان کو قومی زبان مانا گیا ہے لیکن عمل درآمد ہونا ابھی تک ممکن نظر نہیں آرہا۔
بدقسمتی سے سرکاری سطح پر اس حوالے سے کی جانے کوششیں ناکافی ہیں۔فطری تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان لسانی اور اظہاری سطح پر دیگر زبانو ں کے ہم سفر رہی لیکن سرکاری زبان ہونے کے باوجود ترقی کے وہ زینے طے نہ کرسکی جو کرنا اس کا حق تھا۔
تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جاے تو ہندومسلم اختلافات کا آغاز زبان کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ 1867ء میں جب ہندوؤں نے اردو کے بجائے ہندی کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرانے کے لیے زور باندھا تو سرسیّد احمد خان نے برطانوی کمشنر سے اس خیال کا اظہار کیا کہ ”اب برِّصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ رہنا ناگزیر ہے۔“ سرسیّد کے اسی خیال نے دو قومی نظریے کی بنیاد ڈالی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں شق نمبر 251میں درج ہے۔”پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور تاریخ اجرا سے پندرہ سال کے عرصے کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔“کس قدر نااہلی اور دیدہ دلیری ہے کہ ہم آئین کی اس صریح خلاف ورزی پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ قومی زبان پر آوازیں اٹھارہے ہیں۔اگر موجودہ حکمران بکھرتی قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں تو اردو زبان کو فی الفور تمام اداروں میں نافذ کردیں اور قومی وحدت کو پارہ کرنے والی قوتوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔
قومی زبان ہمارا تشخص، عتیق گورایہ۔۔۔ فیصل آباد