اردو شاعری منظوم معراج ناموں کی ضرورت ہے

شاکرالقادری

لائبریرین
محمد وارث بھائی جزاک اللہ
میں نے بابائے اردو مولوی عبدالح کی لائبریری سے چراغ کعبہ کی عکس بندی کروائی ہے
وہ بہت خوبصورت کتابت کے ساتھ چھپی ہوئی ہے ایک آدھا صفحہ کہیں اپلوڈ کر کے شیئر کرتا ہوں
 

جاسمن

لائبریرین
عشق مہمان ہوا،حُسن کے گھر آج کی رات
جذبہ ء دل ہے بآغوشِ سفر آج کی رات

اپنے اللہ سے ملنے کے لیے جاتا ہے
اپنے اللہ کا منظورِ نظر آج کی رات

ماہ و انجم نے سرِ راہ بچھا دیں آنکھیں
کیونکہ ہے ناقہ ء اسری کا سفر آج کی رات

مل گئی دونوں جہانوں کے خزانوں کی کلید
اپنے معراج کو پہنچا ہے بشر آج کی رات
(ظفر علی خان)
‎یه مکمل نہیں هے. مولانا ظفر علی خان کی کتاب بهارستان میں هے.
 

جاسمن

لائبریرین
"شب معراج " عشق مہمان هوا حسن کے گهر آج کی رات ... جذبۂ دل هے بآ غوش (زیر) اثر آج کی رات__-__بخت‎ ‎‏ (زیر)بیدار نے دی دولت (زیر) سرمد کی نوید ... کیوں نه آنکهوں میں کٹے تا به سحر آج کی رات __-__اپنے الله سے ملنے کے لئے جاتا هے ... اپنے الله کا منظور (زیر) نظر آج کی رات __-__ ماہ و ا نجم نے سر(زیر) راه بچها دیں آنکهیں... کیونکہ هے ناقۂ اسری ا کا سفر آج کی رات __-__کهکشاں جلوه فشاں هے که اسی رسته سے... هونے والا هے محمد (صلی الله علیه و آله وسلم) کا گزر آج کی رات __-__چاند کیا چیز هے؟ سورج کی حقیقت کیا هے؟ پر تو (زیر) نور سے روشن هے نظر آج کی رات __-__مل گئی دونوں جهانوں کے خزانوں کی کلید ... اپنے معراج کو پہنچا هے بشر آج کی رات (۲۴ فروری ۱۹۲۸)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
"شب معراج " عشق مہمان هوا حسن کے گهر آج کی رات ... جذبۂ دل هے بآ غوش (زیر) اثر آج کی رات__-__بخت (زیر) نے دی دولت (زیر) سرمد کی نوید ... کیوں نه آنکهوں میں کٹے تا به سحر آج کی رات __-__اپنے الله سے ملنے کے لئے جاتا هے ... اپنے الله کا منظور (زیر) نظر آج کی رات __-__ ماہ و ا نجم نے سر(زیر) راه بچها دیں آنکهیں... کیونکہ هے ناقۂ اسری ا کا سفر آج کی رات __-__کهکشاں جلوه فشاں هے که اسی رسته سے... هونے والا هے محمد (صلی الله علیه و آله وسلم) کا گزر آج کی رات __-__چاند کیا چیز هے؟ سورج کی حقیقت کیا هے؟ پر تو (زیر) نور سے روشن هے نظر آج کی رات __-__مل گئی دونوں جهانوں کے خزانوں کی کلید ... اپنے معراج کو پہنچا هے بشر آج کی رات (۲۴ فروری ۱۹۲۸)

عشق مہمان ہوا حسن کے گهر آج کی رات
جذبۂ دل ہے بآ غوشِ اثر آج کی رات

بختِ بیدارنے دی دولتِ سرمد کی نوید
کیوں نہ آنکهوں میں کٹے تا بہ سحر آج کی رات

اپنے الله سے ملنے کے لئے جاتا ہے
اپنے الله کا منظورِ نظر آج کی رات

ماہ و ا نجم نے سرِ راه بچها دیں آنکهیں
کیونکہ ہے ناقۂ اسری ا کا سفر آج کی رات

کہکشاں جلوه فشاں ہے کہ اسی رستہ سے
ہونے والا ہے محمد (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کا گزر آج کی رات

چاند کیا چیز ہے؟ سورج کی حقیقت کیا ہے؟
پر توِ نور سے روشن ہے نظر آج کی رات

مل گئی دونوں جہانوں کے خزانوں کی کلید
اپنے معراج کو پہنچا ہے بشر آج کی رات
(۲۴ فروری ۱۹۲۸)

بہت شکریہ
 
آخری تدوین:
بام اقصی سے چلا رشک قمر آج کی رات
فرش رہ ہو گئی تاروں کی نظر آج کی رات
نظم کا عنوان ہے معراج کی رات
"یم بہ یم" واصف علی واصف
 

الف نظامی

لائبریرین
بام اقصی سے چلا رشک قمر آج کی رات
فرش رہ ہو گئی تاروں کی نظر آج کی رات
نظم کا عنوان ہے معراج کی رات
"یم بہ یم" واصف علی واصف

بامِ اقصیٰ سے چلارشک قمرآج کی رات
فرش رہ ہو گئی تاروں کی نظرآج کی رات

مثلکُم ہی سہی انسان مگرآج کی رات
عرش پرکرنے گیا ہے وہ بسرآج کی رات

ڈھل گئے نورمیں سب ارض و سماءکون و مکاں
لامکاں تک ہوئی پروازِ بشرآج کی رات

” قاب َ قَوسَین “ سے ادنیٰ ہے مقامِ محمود
سرنگوں کرگئی ادراک کا سرآج کی رات

عشقِ بے تاب کی کیا بات ہے اللہ اللہ
کھل گئے گنبدِ افلاک کے درآج کی رات

شب اسریٰ پہ ہوں قربان ہزاروں راتیں
بزم ہستی کی ہے تابندہ سحرآج کی رات

بے خبر، رفعتِ آدم سے ہے جبریلِ امیں
منزلِ سدرہ ہوئی گردِ سفرآج کی رات

مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی
عرش سے لائے دعاوں کا اثرآج کی رات

حُسن ہےحدتعین سے وَرا ءآج کی رات
چل دیا سوئے خدا ،نورِ خدا آج کی رات

آج کی رات ہے تکمیلِ عروج آدم
حسنِ تخلیق پہ نازاں ہے خدا آج کی رات

آ گیا جوش میں رحمت کا سمندر اِمشب
گنجِ مخفی ہوا مائل بہ عطا آج کی رات

نکہت و نورمیں ڈھلنے لگے لمعات جمال
چشم فطرت ہوئی حیراں بخدا آج کی رات

دل دھڑکتے ہیں ستاروں کے ، قمرچشم براہ
حورو غلماں نے کہا ” صلِّ علیٰ “ آج کی رات

خوشبوئے گیسوئے والیل سے مہکا عالم
چشم ” مازاغ “ ہوئی جلوہ نما آج کی رات

بزم رنداں نہ ہوئی ورنہ یہ کہتا واصف
حسن خودشوخی رندانہ ہوا آج کی رات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دم بخودگردش افلاک و زمیں آج کی رات
سرنگوں چاندستاروں کی جبیں آج کی رات

جگمگاتا ہی رہے عرشِ بریں آج کی رات
لامکاں میں ہوا انسان مکیں آج کی رات

شوقِ دیدارکی کیا بات ہے اللہ اللہ
درمیاں میم کا پردہ بھی نہیں آج کی رات

منزلِ سدرہ سے آگے ہے مقام محمود
دیکھتے رہ گئے جبریل امیں آج کی رات

حورو غلمان و ملائک کی زباں پرآیا
حسن ہے حد تعین سے حسیں آج کی رات

جانے والااسے سمجھے کہ بلانے والا
کوئی اس راز کا ہمراز نہیں آج کی رات

رفعتِ صاحب لولاک کوئی کیا سمجھے
خاک پرگھستی رہی عقل ‘ جبیں آج کی رات

آج کی رات دعا مانگ رہا ہے واصف
کرعطا ربِ ّعُلٰی فتح مبیں آج کی رات
 

خرم انصاری

محفلین
وہ سرورِ کِشورِ رِسالَت
وہ سرورِ کشورِ رِسالت جو عرش پر جَلوہ گَر ہوئے تھے
نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لئے تھے

بہار ہے شادیاں مُبارَک چمن کو آبادیاں مُبارَک
مَلک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رَچی تھی شادی مچی تھی دُھومیں
اُدھرسے اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نَفْحات اُٹھ رہے تھے

یہ چُھوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نَصْب آئنے تھے

نئی دُلھن کی پَھبن میں کعبہ نکھر کے سَنْورا سَنْورکے نکھرا
حَجر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

نظر میں دُولھا کے پیارے جلوے حَیا سے محراب سَر جھکائے
سیاہ پَردے کے مُنھ پہ آنچل تجلّی ذات بَحْت سے تھے

خوشی کے بادل اُمَنْڈ کے آئے دِلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمۂ نعت کا سَماں تھاحَرَم کو خود وَجْد آ رہے تھے

یہ جُھوما میزابِ زَر کا جُھومَرکہ آ رہا کان پر ڈھلک کر
پُھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حَطِیم کی گود میں بَھرے تھے

دُلھن کے خُوشبو سے مَسْت کپڑےنسیم گستاخ آنچلوں سے
غِلافِ مشکیں جواُڑرہا تھاغزال نافے بسا رہے تھے

پہاڑیوں کا وہ حُسْنِ تزئیں وہ اُونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں!
صبا سے سبزے میں لہریں آتیں دوپٹے دَھانی چُنے ہوئے تھے

نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لِباس آبِ رَواں کا پہنا
کہموجیں چَھڑیاں تھیں، دَھارلچکا، حَبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے

پُرانا پُرداغ ملگجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجوم تارِ نِگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادْلے تھے

غُبار بن کر نِثار جائیں کہاں اب اُس رَہ گزر کو پائیں
ہمارے دِل حوریوں کی آنکھیں فِرِشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے

خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالَم
جب اُن کوجھرمٹ میں لے کے قدسی جِناں کا دُولھا بنا رہے تھے

اُتار کر اُن کے رُخ کا صَدقہ یہ نور کا بَٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وُہی تو اب تک چھلک رہا ہے وُہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گِرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بَھر لیے تھے

بچا جو تلووں کا اُن کے دَھووَن بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نُور کے تھے

خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رُت سُہَانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے

تجلّی حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاوَر
دو رُوْیَہ قُدسی پَرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دِن لکھے تھے

ابھی نہ آئے تھے پُشْتِ زیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شِلِّک
صَدا شَفاعت نے دی مُبارَک! گناہ مستانہ جھومتے تھے

عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غَزالِ دَم خُوردَہ سا بھڑکنا
شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے

ہجومِ اُمید ہے گھٹاؤ مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ
اَدَب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غُلغُلے تھے

اُٹھی جو گَردِ رَہِ منوَّر وہ نُور بَرسا کہ راستے بَھر
گھِرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل اُمَنْڈ کے جنگل اُبل رہے تھے

سِتَم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رَہ گزر کی
اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مِٹے تھے

بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے وہ گُل کِھلائے کہ سارے رَستے
مہکتے گُلبَن لہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے

نمازِ اَقصیٰ میں تھا یہی سِرّ عِیاں ہوں معنی اَوّل آخِر
کہ دَست بَستہ ہیں پیچھے حاضِرجو سلطنت آگے کر گئے تھے

یہ اُن کی آمد کا دَبدَبہ تھا نِکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نُجُوم و اَفلاک جام و مینا اُجالتے تھے کھنگالتے تھے

نِقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جَلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے

یہ جوشِشِنُور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
صفائے رَہ سے پھسل پھسل کر سِتارے قدموں پہ لوٹتے تھے

بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وَحدت کہ دُھل گیا نام ریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عَرش و کُرسی دو بلبلے تھے

وہ ظِلِّ رَحْمت وہ رُخ کے جَلْوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زَرْ بَفْت اُودِی اَطلس یہ تھان سب دُھوپ چھاؤں کے تھے

چلا وہ سروِ چَمَاں خِراماں نہ رُک سکا سِدْرَہ سے بھی داماں
پَلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین و آں سے گزر چکے تھے

جھلک سی اِک قُدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سُواری دُولھا کی دُور پہنچی بَرات میں ہوش ہی گئے تھے

تھکے تھے رُوْحُ الْاَمیں کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رِکاب چھوٹی اُمید ٹوٹی نِگاہِ حسرت کے ولولے تھے

رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دِماغ سے اِک بَھبُوکا پُھوٹا
خِرَد کے جنگل میں پھول چمکا دَہر دَہر پیڑ جَل رہے تھے

جِلو میں جو مُرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے، تھک کر چڑھا تھا دَم، تَیوَر آ گئے تھے

قوی تھے مُرغانِ وَہم کے پَر اُڑے تو اُڑنے کو اَور دَم بھر
اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تُھوکتے تھے

سنا یہ اتنے میں عرشِ حَق نے کہ لے مبارَک ہو تاج والے
وہی قدم خیر سے پِھر آئے جو پہلے تاجِ شَرَف تِرے تھے

یہ سن کے بےخود پکار اُٹھانِثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر اُن کے تلوو ں کا پاؤں بوسہ یہ میر ی آنکھو ں کے دِن پھرے تھے

جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ گِرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گِرد قربان ہو رہے تھے

ضِیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قِندِیلیں جھلملائیں
حُضُورِ خورشید کیا چمکتے چراغ مُنھ اپنا دیکھتے تھے

یہی سَمَاں تھا کہ پَیکِ رَحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے

بڑھ اے مُحَمَّد، قریں ہو احمد، قریب آ سرورِ مُمَجَّد
نِثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی، یہ کیا سَمَاں تھا، یہ کیا مزے تھے

تَبَارَکَ اللہشان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانی کہیں تقاضے وِصال کے تھے

خِرَد سے کہدو کہ سر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جِہَت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے

سُراغِ اَین و مَتٰی کہاں تھا نِشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے

اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مُشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رَحْمت اُبھارتے تھے

بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رُکتے
جو قرب انھیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

پَر انکا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا
تَنَزُّلوں میں ترقی اَفزا دَنیٰ تَدَلّٰے کے سلسلے تھے

ہوا نہ آخر کہ ایک بجرا تَمَوُّجِ بَحرِ ہُو میں اُبھرا
دَنیٰ کی گودی میں اُن کو لے کر فنا کے لنگر اُٹھا دِیے تھے

کسے ملے گھاٹ کا کنارا کدھر سے گزرا کہاں اُتارا
بھرا جو مثل نَظَر طَراراوہ اپنی آنکھوں سے خود چُھپے تھے

اُٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پَردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے اَرے تھے

وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گُل کا فرق اُٹھایا
گِرہ میں کلیوں کی باغ پُھولے گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے

محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصِل خُطُوطِ واصِل
کمانیں حیرت میں سر جھکائےعجیب چکر میں دائرے تھے

حِجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردےہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فُرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے

زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر وہی ہے باطِن وہی ہے ظاہِر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے

کمانِ اِمکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

ادھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں ادھر سے انعامِ خُسْرَوِی میں
سلام و رحمت کے ہار گندھ کر گُلُوئے پُرنور میں پڑے تھے

زبان کو اِنتظارِ گفتن تو گوش کو حسرتِ شُنِیْدَن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے

وہ بُرجِ بطحا کا ماہ پارا بِہِشْت کی سیر کو سِدھارا
چمک پہ تھا خُلد کا ستارہ کہ اس قمر کے قدم گئے تھے

سُرورِ مَقْدَم کی روشنی تھی کہ تابِشوں سے مہِ عرب کی
جِناں کے گلشن تھے، جھاڑ فرشی، جو پھول تھے سب کَنْول بنے تھے

طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے، ادب وہ بندش کہ ہِل نہ سکیے
یہ جوشِ ضِدَّین تھا کہ پودے کشاکش اَرَّہ کے تلے تھے

خُدا کی قدرت کہ چاند حق کے، کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نُور کے تڑکے آ لیے تھے

نبی رَحْمت شفیع اُمّت! رَضاؔ پہ لِلّٰہ ہو عِنَایَت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصّہ جو خاص رَحْمت کے واں بٹے تھے

ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبولِ سَرکار ہے تمنّا
نہ شاعِری کی ہَوَس نہ پَروا رَوِی تھی کیا کیسے قافیے تھے
-------------------------
از: اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت امام احمد رضا خانعلیہ رحمۃ الرحمن​
 

خرم انصاری

محفلین
عَرْش کی عَقْل دَنگ ہے
عرش کی عَقْل دَنگ ہے چَرْخ میں آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے

بزمِ ثنائے زُلْف میں میری عروسِ فِکْر کو
ساری بَہارِ ہَشْت خُلد چھوٹا سا عِطْر دان ہے

عرش پہ جا کے مُرغِ عقل تھک کے گِرا غش آ گیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طُرفہ دُھوم دَھام
کان جِدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے

اِک ترے رُخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

گود میں عالَم شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ!
گُلْبُنِ باغِ نُور کی اور ہی کچھ اُٹھان ہے

تجھ سا سِیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دِل! یہ تِرا گمان ہے

پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دِل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے

شانِ خُدا نہ ساتھ دے اُن کے خِرام کا وہ باز
سِدْرَہ سے تا زَمیں جسے نرم سی اِک اُڑان ہے

بارِ جلال اُٹھا لیا گرچِہ کلیجا شق ہُوا
یوں تو یہ ماہِ سبزہ رنگ نظروں میں دَھان پَان ہے

خوف نہ رکھ رضاؔ ذرا تُو تَو ہے عَبْدِ مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے
-------------------------
از: اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت امام احمد رضا خانعلیہ رحمۃ الرحمن
 

تمہید ذکر معراج شریف

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے
ہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے
جوشِ عطش بھی شدّتِ سوزِ جگر بھی ہے
کچھ تلخ کامیاں بھی ہیں کچھ دردِ سر بھی ہے
ایسا عطا ہو جام شرابِ طہور کا
جس کے خمار میں بھی مزہ ہو سُرور کا

اب دیر کیا ہے بادۂ عرفاں قوام دے
ٹھنڈک پڑے کلیجہ میں جس سے وہ جام دے
تازہ ہو رُوح پیاس بجھے لطف تام دے
یہ تشنہ کام تجھ کو دعائیں مدام دے
اُٹھیں سرور آئیں مزے جھوم جھوم کر
ہو جاؤں بے خبر لبِ ساغر کو چوم کر

فکرِ بلند سے ہو عیاں اقتدارِ اوج
چہکے ہزار خامہ سرِ شاخسارِ اوج
ٹپکے گل کلام سے رنگِ بہارِ اوج
ہو بات بات شانِ عروج افتخارِ اوج
فکر و خیال نور کے سانچوں میں ڈھل چلیں
مضموں فرازِ عرش سے اُونچے نکل چلیں

اِس شان اِس اَدا سے ثنائے رسول ہو
ہر شعر شاخِ گل ہو تو ہر لفظ پھول ہو
حُضّار پر سحابِ کرم کا نزول ہو
سرکار میں یہ نذرِ محقر قبول ہو
ایسی تعلّیوں سے ہو معراج کا بیاں
سب حاملانِ عرش سنیں آج کا بیاں

معراج کی یہ رات ہے رحمت کی رات ہے
فرحت کی آج شام ہے عشرت کی رات ہے
ہم تیرہ اختروں کی شفاعت کی رات ہے
اعزاز ماہِ طیبہ کی رُؤیت کی رات ہے
پھیلا ہوا ہے سرمۂ تسخیر چرخ پر
یا زلف کھولے پھرتی ہیں حوریں اِدھر اُدھر

دل سوختوں کے دل کا سویدا کہوں اِسے
پیر فلک کی آنکھ کا تارا کہوں اِسے
دیکھوں جو چشمِ قیس سے لیلیٰ کہوں اِسے
اپنے اندھیرے گھر کا اُجالا کہوں اِسے
یہ شب ہے یا سوادِ وطن آشکار ہے
مشکیں غلافِ کعبۂ پروردگار ہے

اس رات میں نہیں یہ اندھیرا جھکا ہوا
کوئی گلیم پوشِ مراقب ہے با خدا
مشکیں لباس یا کوئی محبوبِ دلربا
یا آہوئے سیاہ یہ چرتے ہیں جا بجا
ابرِ سیاہ مست اُٹھا حالِ وجد میں
لیلیٰ نے بال کھولے ہیں صحرائے نجد میں

یہ رُت کچھ اور ہے یہ ہوا ہی کچھ اور ہے
اب کی بہارِ ہوش رُبا ہی کچھ اور ہے
روئے عروسِ گل میں صفا ہی کچھ اور ہے
چبھتی ہوئی دلوں میں اَدا ہی کچھ اور ہے
گلشن کھلائے بادِ صبا نے نئے نئے
گاتے ہیں عندلیب ترانے نئے نئے

ہر ہر کلی ہے مشرق خورشیدِ نور سے
لپٹی ہے ہر نگاہ تجلیِ طور سے
روہت ہے سب کے منہ پہ دلوں کے سُرور سے
مردے ہیں بے قرار حجابِ قبور سے
ماہِ عرب کے جلوے جو اُونچے نکل گئے
خورشید و ماہتاب مقابل سے ٹل گئے

ہر سمت سے بہار نواخوانیوں میں ہے
نیسانِ جودِ ربّ گہر افشانیوں میں ہے
چشمِ کلیم جلوے کے قربانیوں میں ہے
غل آمدِ حضور کا رُوحانیوں میں ہے
اک دھُوم ہے حبیب کو مہماں بلاتے ہیں
بہرِ براق خلد کو جبریل جاتے ہیں

علامہ حسن رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ​
 

خرم انصاری

محفلین
پردہ رخ انور سے جو اٹھا شب معراج
از مداح حبیب حضرت مولانا جمیل الرحمن قادری رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
پردہ رخ انور سے جو اٹھا شب معراج
جنت کا ہوا رنگ دوبالا شب معراج

حوروں نےبھی گایا یہ ترانہ شب معراج
خالق نے محمد کو بلایا شب معراج

گیسو کھلے گھنگھور گھٹا اٹھی کہ ہم پر
باران کرم جھوم کے برسا شب عمراج

اے رحمت عالم تری رحمت کے تصدق
ہر ایک نے پایا ترا صدقہ شب معراج

جس وقت چلی شاہ مدینہ کی سواری
سجدے میں بھی جھکا عرش معلی شب معراج

خورشید وقمر ارض وسما عرش وملائک
کس نے نہیں پایا ترا صدقہ شب معراج

وہ جوش تھا انوار کا افلاک کے اوپر
ملتا نہ تھا نظارے کو رستہ شب معراج

مہمان بلانے کے لیے اپنے نبی کو
اللہ نے جبریل کو بھیجا شب معراج

یہ شان جلالت کہ نہایت ہی ادب سے
جبریل نے آقا کو جگایا شب معراج

جبریل بھی حیران ہوئے دیکھ کے رتبہ
سدرہ سے قدم جب کہ بڑھایا شب معراج

جبریل تھکے ہو گئے سرکار روانہ
منہ تکتا ہوا رہ گیا سدرہ شب معراج

ہمراہ سواری کے تھیں افواج ملائک
بن کر چلے اس شان سے دولہا شب معراج

یوں مسجد اقصی میں نماز اس نے پڑھائی
طالب سے ملیں بڑھ کے دوگانا شب معراج

ہر ایک نبی بلکہ سب افلاک کے قدسی
پڑھتے تھے شہنشاہ کا خطبہ شب معراج

جان دو جہاں رفعت سرکار پہ قرباں
کہتا تھا یہ بڑھ بڑھ کے رفعنا شب معراج

مدت سے جو ارمان تھا وہ آج نکالا
حوروں نے کیا خوب نظارا شب معراج

آراستہ ہو خلد مؤدت ہوں فرشتے
یوں ہاتف غیبی نے پکارا شب معراج

بہم چلی آتی تھیں دعاؤں کی صدائیں
ہر رات نبی کی ہو خدایا شب معراج

تھی راستہ بھر ان پہ درودوں کی نچھاور
باندھا گیا تسلیم کا سہرا شب معراج

دولہا تھے محمد تو براتی تھے فرشتے
اس شان سے پہنچے مرے مولیٰ شب معراج

اللہ کی رحمت وہ مہکا گل وحدت
خوشبو سے بسا عالم بالا شب معراج

روشن ہوئے سب ارض وسما نور سے اس کے
جب ماہِ عرب عرش پہ چمکا شب معراج

تھا چرخ چہارم پہ کوئی طور کے اوپر
سرکار گئے عرش سے بالا شب معراج

جب پہنچے مقام فتدلی پہ محمد
خالق سے رہا کچھ بھی نہ پردہ شب معراج

اے صل علی بزم تدلی میں پہنچ کر
اس ذات میں گم ہو گئے آقا شب معراج

ممکن ہی نہیں عقل دوعالم کی رسائی
ایسا دیا اللہ نے رتبہ شب معراج

عرش وملک وارض وسما جنت ودوزخ
اس شاہ نے ہر چیز کو دیکھا شب معراج

تفصیل سے کی سیر مگر اس پہ یہ طرہ
اک پل میں یہ طے ہو گیا رستہ شب معراج

زنجیر در پاک کی ہلتی ہوئی پائی
اور گرم تھا وہ بستر شب معراج

اے ماہ مدینہ تری تنویر کے قرباں
چمکا دیا امت کا نصیبہ شب معراج

لو عاصیو! وہ تم کو وہاں پر بھی نہ بھولے
کاٹا گیا عصیاں کا سیاہا شب م عراج

اے مومنو! مژدہ کہ وہ اللہ سے لائے
بخشائش امت کا قبالہ شب معراج

بھیجوں گا میں امت کو تری خلد میں پہلے
حق نے کیا محبوب سے وعدہ شب معراج

اس میں سے جمیل رضوی کو بھی عطا ہو
رحمت کا بٹا خاص جو حصہ شب معراج
-------------قبالہ بخشش------------
 
Top