بہت خوب!
آپ انہیں خطوط پر سوچ رہے ہیں جن کے ذریعہ ٹرانسلٹریشن کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی یا تو کیریکٹر بائی کیریکٹر تجزیہ کے طریقے سے (لواحق سوابق دیکھتے ہوئے) کنورژن کرتے ہیں یا الفاظ کی لغت کی مدد سے۔ (غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اردو کا Ocr بھی انھیں ماڈلس پر ڈیویلوپ کیا جا سکتا ہے)
پہلا طریقہ انتہائی فلیکسیبل ہے ہے اور اجنبی الفاظ کو بھی بطریق احسن ہینڈل کر سکتا ہے (نیز اس کی کامپلیکسٹی کانسٹنٹ ہوتی ہے) پر اس کے مسائل تب خطرناک صورتحال اختیار کر لیتے ہیں جب حروف کے کچھ خواص مختلف اور کچھ یکساں ہوں۔
دوسرا طریقہ کانٹینیوس لرننگ کا ہے۔ جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ڈکشنری ڈاٹا بیس بڑی ہوتی جاتی ہے۔ اور اس میں کسی حد تک فیڈ بیک لرننگ بھی چاہئے ہوتا ہے۔ اس کی کامپلیکسٹی ڈاٹا بیس بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔
لہٰذا قدرے بہتر ماڈل جس کی صلاح میں دونگا وہ یہ ہوگا کی ان دونوں کا ہائبرڈ ماڈل ترتیب دے لیتے ہیں۔ جس میں ایسا کرلیتے ہیں کہ سب سے پہلے اسٹرنگ کو لفظ بلفظ اخذ کرکے ڈاٹا بیس میں کوئیری کرتے ہیں اگر وہاں سے دستیاب ہوتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس لفظ کو حرف با حرف تجزیہ کرکے فوری طور پر کنورٹ کردیں نیز اس لفظ کو اس کے کنورژن سمیت موڈریشن کے لئے قطار انداز کردیں۔ جسے بعد میں دیکھ کر موڈیریٹرس اس کو صاد یا مسترد کر دیں۔ نیز موڈیریشن کے اس عمل سے سسٹم کی لرننگ بھی ہو کہ سسٹم کا تجویز کردہ لفظ کس حد تک موزوں تھا۔
اس ماڈل کا فائدہ یہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سسٹم کی ایفیشینسی بڑھتی چلی جائے گی۔ اور سسٹم ابتدائی مراحل میں بھی ہر اسٹرنگ کو (خواہ غلط ہی کیوں نہیں) تبدیل کر سکے گا۔ اس طرح ہم دونوں ماڈلس کا ملا جلا فائدہ حاصل کر سکیں گے۔
عارف، ڈاؤنلوڈ کا نام تو voice_recognition ہے لیکن کام اس کا سپیچ سنتھیسز ہے۔۔
سکرین شاٹ دیکھ کر لگ رہا ہے کہ مائیکروسوفٹ ایجنٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اب یہ باقی دوست استعمال کرکے ہی بتائیں گے کہ کتنا مؤثر ہے یہ پروگرام۔
انگریزی اور اردو میں مختصر نویسی ﴿شارٹ ہینڈ﴾ صوتیات کے نظام پر ہی کام کرتی ہیں اور ہمارے ہاں تقریبا 20 سالوں سے اردو شارٹ ہینڈ بطور مضمون پڑھائی جا رہی ہے
کیا اردو مختصر نویسی میں صوتیات اردو کا جو نظام ہے اس سے کچھ استفادے کی صورت ممکن ہے؟
نان ٹیکنیکل بندہ ہوں
اگر میری بات بے موقع اور بے محل لگے تو درگزر کیجئے گا!
کیا ابھی بھی کالج میں ہیں اور "قدرے" مصروف ہیں؟؟؟الف نظامی بھائی میں انشاء اللہ اس فلو ڈائیگرام کو تھوڑا اور واضح اور ڈیسکرپٹیو بنانے کی کوشش کرونگا جلدی ہی۔ نیز کچھ مسائل ہیں ان کو بھی زیر بحث لانے کی کوشش کرونگا۔ فی الحال کالج میں ہوں اور قدرے مصروف ہوں۔
دوست ورژن کے علاوہ ٹیلیویژن کہنے سے بھی اسکی ادائیگی واضح ہو جاتی ہے۔کانزونینٹ تو واضح ہیں۔ ب، پ، ت، ٹ، ج، چ، خ وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں اگر اختلاف پیدا ہوسکتا ہے تو وہ ز اور ذ کی آوازوں پر ہے۔ عربی میں ذ کو دانت پر زبان لگا کر پڑھا جاتا ہے جبکہ ز سیٹی کی طرح اوپر والے دانتوں کی جڑوں سے نکالی جاتی ہے۔ لیکن اردو والے شاید دونوں کی سیٹی کی طرح ہی نکالتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کنفیوژن ث اور س کی آواز میں بھی ہوسکتی ہے۔ ث کو بالائی دانتوں پر زبان رکھ کر پڑھنا سکھایا جاتا ہے جب ہم نورانی قاعدے میں عربی حروف پڑھتے ہیں جبکہ س سیٹی کی طرح بالائی دانتوں کی جڑوں سے نکلتا ہے۔ ایک تیسری کنفیوژن ژ کی آواز ہے جسے ہم ز کی طرح ہی بول جاتے ہیں۔ جبکہ میرے علم کے مطابق اسے انگریزی لفظ ورژن میں بولا جاتا ہے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے میں کس آواز کی بات کررہا ہوں۔ اس سب کو واضح کیا جائے کیا اردو کے اہل زبان یہ آوازیں ایسے ہی بولتے ہیں یا کیسے بولتے ہیں خصوصًا ز اور ذ اور ث و س کی تفریق۔ ژ تو پکی بات ہے کہ ز نہیں اس سے الگ آواز رکھتی ہے لیکن ہم ژالہ کو زالہ ہی بول جاتے ہیں۔
دوسری بات ہے حروف علت یا واؤلز کی۔ یہ دو قسم کے ہوتے ہیں چونکہ میرا علم انگریزی کے حوالے سے ہے اس لیے میں اسی حوالے سے بات کروں گا۔ (بطور لینگوئج ٹیچر ہمیں انگریزی کی صوتیات سے متعارف کروایا جاتا ہے یعنی تمام آوازیں اور ان کے بولنے کا انداز۔۔ جبکہ اردو کے لیے ایسی کوئی کوشش کبھی بھی نہیں کی جاتی دوران زمانہ طالب علمی ) انگریزی میں تین طرح کے واؤلز ہیں۔ اکہرے، دوہرے اور تہرے۔ Monothong, Difphthong , Triphthong(English Vowel Chart) اکہرے سادہ اور ایک آواز پر مشتمل ہیں ان کے بولنے کے دوران آواز میں اتار چڑھاؤ کم ہی آتا ہے۔ یہ آٹھ ہیں۔ پھر دوہرے جو مونو تھانگ کا مرکب ہی سمجھ لیں۔ یہ کچھ لمبے ہیں اور آواز میں کچھ اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ اس کے بعد تہرے جو تین مونوتھانگ سے مل کر بنتے ہیں۔ انگریزی کے 44 فونیم پورے کرنے کے لیے 24 کانزونینٹ اور 20 واؤل شمار کیے جاتے ہیں۔ جن میں اکہرے اور دوہرے واؤل شامل ہوتے ہیں تہرے بہت پیچیدہ ہوتے ہیں اور انھیں ماہرین ہی شناخت کرسکتے ہیں۔
اس ساری تفصیل کے مطابق یہ بتائیں کہ اردو میں کتنے واؤلز ہیں؟ مجھے میرے اساتذہ نے ہی بتایا تھا کہ 20 ہیں۔ لیکن اب یہ بیس کیسے ہیں پتا نہیں۔ میری نظر سے کوئی ریسرچ پیپر، کتاب ابھی تک نہیں گزری جو اردو کی آوازوں کو بیان کرے۔ یہ بات یاد رہے اکہری آوازوں کو بیان کردینا آسان ہے۔ اَ، آ، اِ، ای، یہ سادہ سی مثالیں ہیں۔ لیکن جب ایک سے زیادہ اکہرے واؤلز مل کر دوہرے یا تہرے واؤلز بناتے ہیں وہاں اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے۔ چناچہ مجھے یہ بھی بتایا تھا کبھی سر نے کہ اس سلسلے میں اختلافات بھی موجود ہیں چناچہ تعداد میں فرق آجاتا ہے۔
اب کرنا یہ ہے کہ ان آوازوں کو شناخت کیا جائے۔ اگر پہلے سے کام موجود ہے تو اس کو یہاں فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر سرمد سے استفسار بہترین رہے گا اس سلسلے میں۔ دوسرے شاعر حضرات زبان کے ردھم اور صوتیات سے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہ بہتر بتاسکتے ہیں۔ اگرچہ ان کا کام بحروں اور اوزان تک محدود ہوتا ہے لیکن وہ ہم سے بہتر علم رکھتے ہیں کہ لفظ کن کن آوازوں میں اور کہاں کہاں سے توڑا جاتا ہے۔
وسلام
بھائی جان یہی تو ہماری بہت بڑی غلطی ہر غلط العام چیز کو ہم اپنے اندر نہ صرف جگہ دی بلکہ خوب دفاع بھی کرتے ہیںاردو میں صرف املا باقی رہی ہے ز، ذ، ض، ظ کے لیے ایک ہی آواز ہے.
بھائی جان مجھے ایک سوال کا جواب چاہئیے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا لفظ جب آپ اردو میں لے کر آتے ہیں اس کی ادا کے بھی محتاج ہیں انگریزی کو ہی دیکھ لیجئے آپ اردو بولتے ہوئے انگریزی کا کوئی لفظ لیں اور تلفظ آپ کی اپنی مرضی کا استعمال کریں سب انگلش دان آپ کو نوچ لیں گے پر عربی کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں فارسی میں بھی تلفظ اسی سے لیا کرتے ہیں دیگر جتنی بھی زبانیں ہیں سب کے ساتھ یہی معاملہ مگر عربی اتنی مسکین کیوں دوسری زبانوں کو تو آپ اس زبان کی عینک کا طعنہ نہیں دیتےمیرے خیال میں یہ غلطی نہیں اردو کا مزاج ہے۔ اس میں ض، ز، ظ، ذ کے لیے ایک آواز، س، ث، ص کے لیے ایک آواز ہے۔ املا باقی رہی تاکہ معنی کے مسائل کم سے کم ہوں۔ آوازیں فالتو تھیں اس لیے الفاظ مستعار لینے کے دوران ختم ہو گئیں۔ اب انہیں وہی استعمال کرے گا جو اردو کو عربی کی عینک لگا کر دیکھتا ہے۔ اور کروڑوں اردو اہل زبان کے تلفظ کو غلط سمجھتا ہے۔