میں نے تو حقیقتِ حال بیان کی ہے، آپ دل پر بات لے گئے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اردو کو عربی لہجے میں صرف درسِ نظامی کے فضلا ہی بولتے ہیں۔ بصد شوق بولیں، کسی نے پابندی نہیں لگائی۔ لیکن اردو اہلِ زبان کی اکثریت ایسا نہیں کرتی، اس سے عربی کی حیثیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ مسکین قرار پاتی ہے۔ چونکہ اسے بولنے والے کوئی تیس کروڑ عرب پورے مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں موجود ہیں۔ انگریزی اور فارسی کے الفاظ بھی اردو میں آ کر مقامی تلفظ اختیار کرتے ہیں۔ روزانہ کو انگریزی میں ڈے ئی لی بولیں گے، اردو والے سب کانٹ چھانٹ کر ڈے لی کر دیتے ہیں۔ تکنیکی طور پر Daily کا ai ایک
ڈف تھانگ ہے، لیکن اردو کی صوتیات اس کی اجازت نہیں دیتی (انگریزی لفظ سکول، سین کاف ساکن کو کراچی والے اِسکول اور پنجاب والے سَکول بول دیتے ہیں، یہ بھی ایک مثال ہے)۔ مزید یہ کہ اردو والے انگریزی بولتے ہوئے بھی اردو کے تلفظ میں بات کر جاتے ہیں، امریکی کی انگریزی اور ہند و پاک کے باشندے کی انگریزی سن لیں، اول الذکر پاکستان کو پھاکستان کہے گا، کین کو کھین اور ٹِپ کو ٹھِپ کہے گا۔ اردو ہندی والے عموماً ایسے نہیں بولتے چونکہ پ، پھ، ک، کھ اور ٹ، ٹھ الگ الگ
فونیم ہیں۔ نوچ لینے والی بات دراصل اس وقت درست ہو گی جب متعلقہ زبان بولتے ہوئے اس کے تلفظ کا دھڑن تختہ کیا جائے۔ اس لیے انگریزی بولتے ہوئے انگریزوں جیسا، اور عربی بولتے ہوئے عربوں جیسا لہجہ اپنایا جائے۔ لیکن اردو بولتے ہوئے اردو جیسا لہجہ بھی اسی اصول پر اپنانے کو غلط قرار دینا ایک غیر منصفانہ طرزِ عمل ہے۔
اس لیے آپ حوصلہ رکھیں، عربی اور اردو دو الگ الگ زبانیں ہیں، جن کی صوتیات، صرفیات، گرامر، معنیات وغیرہ وغیرہ میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا مشرقِ وسطی اور برصغیر میں جغرافیائی فاصلہ ہے۔ نہ اردو کہیں جا رہی ہے اور نہ عربی۔ اور یہ دو چار دن کا قصہ نہیں کئی سو برس سے ایسا ہی ہے۔
اردو کی آوازوں پر یہ ریسرچ پیپر پڑھنا بھی فائدہ مند رہے گا۔