دوست
محفلین
http://www.badongo.com/file/474917
لیجیے یہاں آخری فائل موجود ہے۔
لیجیے یہاں آخری فائل موجود ہے۔
“اتارنا“ ، “چڑھانا“ جیسے الفاظ پر مجھے چند سال قبل کا وہ ماحول یاد آیا تھا جب انڈیا کے معروف شہر ممبئی کے ریلوے اسٹیشن (غالباََ وی۔ٹی) پر قلیوں کی بول چال سے میں لطف اندوز ہو رہا تھا۔ “اتار دے یار“ ، چڑھا دے بھیا“ جیسے الفاظ سماعت سے ٹکرا رہے تھے۔ اب مجھے کیا معلوم کہ عرصے بعد کسی ادبی کام کے دوران بھی ایسے ہی الفاظ پڑھنے کو ملیں گے ۔۔۔۔۔۔نبیل نے کہا:۔۔۔۔۔۔ اصطلاحات کا ترجمہ ایک بہت اہمیت کا حامل کام ہے اور اس میں ہمیں کافی مدد درکار ہے۔ آپ چاہیں تو لغت کے کام میں آصف کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری برقی اردو لغات کے کام سے استفادے پر گفتگو بھی ہو چکی ہے اور نتیجہ یہی نکلا ہے کہ ہمیں یہ کام خود سے ہی کرنا پڑے گا۔ اس وقت اردو کمپیوٹنگ کے سین پر اوپن سورس انداز میں بہت کم کام ہو رہا ہے اور اردو کی ترویج کے لیے سب سے زیادہ ضرورت اوپن سورس سپرٹ کی ہی ہے۔
اگر میری عرضداشت سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ ۔۔۔ “ ۔۔۔چونکہ کچھ خاص الفاظ قلی یا مزدور استعمال کرتے ہیں لہذا ہمیں ان کے استعمال سے پرہیز کرنا چاھئے “ ۔۔۔ تو دوبارہ عرض کروں گا کہ میرے اشارے کو صحیح تناظر میں سمجھا نہیں گیا۔رضوان نے کہا:باذوق صاحب آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر۔
ہم بھی تو قلی ہیں جو فائلیں اتار رہے ہیں اور فائلیں چڑھارہے ہیں۔ جو الفاظ یا اصطلاحات اردو میں مقبول ہوچکیں ہیں ان کو ویسے ہی چلنے دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسوجہ سے کسی لفظ کو چھوڑنا کہ قلی اور مزدور اسے استعمال کرتے ہیں۔ چہ معنی دارد ۔۔۔
اردو عام الفاظ کی جگہ عربی اور فارسی کی اصطلاحات بھی عام لوگوں میں مقبول نہیں ہوتیں اس لیے حتیٰ الوسع اردو مترادفات سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
باذوق صاحب آپ سے توقع کرتے ہیں کہ جیسے آپ کے تبصرے پر ہم نے لگی لپٹی نہیں رکھی اسی طرح آپ بھی تکلف سے کام نہیں لیں گے
شکریہ
او میرے عزیز بھائی ، یہ پھر کس غلط فہمی میں پڑ گئے آپ۔نبیل نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزدور اور قلی بھی محنت سے روزی کماتے ہیں اور کوئی محض فصیح و بلیغ الفاظ کے استعمال کی بدولت ان سے بلند درجے کا دعوی نہیں کر سکتا اور کم از کم میں یہاں اس سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دوں گا۔