اردو محفل سے لطفاً مذہبی کشیدگی کا خاتمہ کیجئے

فاتح

لائبریرین
ملحدوں کے بھی بہت سے فورم ہیں پھر ہر دھاگے میں الحاد کی فضیلت ، شراب نوشی ، سود خوری اور خنزیر کے ذائقوں پر بات کیوں شروع ہو جاتی ہے ؟
سبحان اللہ سبحان اللہ کیا ہی ایمان افروز موضوعات کا ذکر کیا آپ نے۔۔۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی جان
ویسے خنزیر شریف کے مقدس ذائقوں پر بھی کہیں بات ہوئی ہے کیا؟ ہماری نظر سے پوشیدہ کیوں رہا ایسا مبارک دھاگا۔۔۔ لنک عنایت فرما کر ثواب دارین تو حاصل کیجیے
 

رانا

محفلین
شناخت سے کیا ہو گا یہ تو منٹوں میں کی جا سکتی ہے ؟ اب ہم کل ان کے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹا کر ان سے مل کر کہیں گے یار آپ نے فلاں دھاگے میں اچھا نہین کیا ؟؟؟؟؟؟؟:grin:

نہیں بھائی یہ مقصد بالکل بھی نہیں کہ اسکا دروازہ کھٹکھٹا کر اسکی امی جان کو شکایت لگانی ہے۔ بلکہ مقصد یہ تھا کہ مذہب کے دھاگوں میں جو بھی گفتگو کرتا ہے اسکی وہ گفتگو اس کی اصل شناخت کے ساتھ ریکارڈ ہورہی ہو۔ کیونکہ پس منظر یہ ہے کہ جیسے میرا نام رانا ہے یہاں پر۔ اب میں یہاں غصے میں آکر اپنا غبار جس طرح بھی نکال دوں کہ مجھے کون جانتا ہے جس کی نظروں کی شرمندگی کا مجھے خیال ہو۔ میں اگر آپ کو خانہ بدوش بھکاری عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر سنانا شروع کردوں کہ تم ڈیش تمہارا باپ ڈیش تمہارا فلاں ڈیش تو بھلا بتائیں کہ کیا میں اپنے اصل نام اور شناخت سے آپ کو اس طرح بازاری زبان میں مخاطب کرنے کی ہمت کرسکوں گا؟ اگر یہاں میری اصل شناخت ظاہر ہورہی ہو تو میں تو اس تصور سے ہی مرجاؤں گا کہ اب یہ ہمیشہ کے لئے دنیا میں ریکارڈ ہوگیا اور جو جو کبھی بھی اسے دیکھے گا جو مجھے جانتا ہوگا وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا!! میں نے تو اپنے آپ کو سامنے رکھ کر یہ تجویز دی تھی کہ شائد میری طرح دوسرے بھی اس معاملے میں حساس ہوں گے تو محفل کا ماحول خوشگوار بنا رہے گا۔
مثال سے برا مت منائیے گا صرف آپ کو سمجھانے کے لئے دی تھی ورنہ آپ سے مجھے بہت دوستانہ تعلق ہے محفل پر۔;)
 

رانا

محفلین
تو پھر 3 عدد پاسپورٹ سائز فوٹو بھی ساتھ لگا لین شرطوں میں :grin:

بالکل ٹھیک۔ یہ تو آپ نے کافی پتے کی بات بتائی ہے اور کافی مفید ہے۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے خواتین بچ جائیں گی اس شرط سے۔ اب یا تو خواتین کا داخلہ صرف زنان خانے تک محدود کردیا جائے اور مذہب خانے تک انہیں رسائی ہی نہ دی جائے۔ لیکن یہ ویسے ہی نامناسب ہوگا۔ اس لئے یہ شرط نہیں لگائی جاسکتی یہاں۔ البتہ ایک تبدیلی کے ساتھ کہ خواتین اپنے ابا کی تصویر اور شناختی کارڈ جمع کرائیں۔ لیکن اس میں پھر ایک مسئلہ ہے کہ اگر ابا نے کوئی ایسا ویسا مراسلہ دیکھ لیا تو امی کو کوسنے دیں گے کہ تمہاری لاڈلی خوب نام روشن کررہی ہے میرا۔:)
 
شیخ بسمل صاحب نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جب کسی مذہب یا کسی فرقے کے خلاف بات ہو گی تو اس کو رد کرنے والے بھی اٹھیں گے۔ اور مباحثہ طول پکڑ جائے گا۔
اس میں رانا صاحب نے بالکل معقول تجویز دی ہے کہ مذہب کے زمرے میں صرف کسی بھی مذہب، فقہ، مسلک کی صرف اچھائیاں بیان کی جانے کی اجازت ہو اور کسی کے خلاف کچھ بولنے والوں کے وارننگ سسٹم کے بعد رکنیت سے محروم کر دیا جائے۔
اور میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔
 
نہیں بھائی یہ مقصد بالکل بھی نہیں کہ اسکا دروازہ کھٹکھٹا کر اسکی امی جان کو شکایت لگانی ہے۔ بلکہ مقصد یہ تھا کہ مذہب کے دھاگوں میں جو بھی گفتگو کرتا ہے اسکی وہ گفتگو اس کی اصل شناخت کے ساتھ ریکارڈ ہورہی ہو۔ کیونکہ پس منظر یہ ہے کہ جیسے میرا نام رانا ہے یہاں پر۔ اب میں یہاں غصے میں آکر اپنا غبار جس طرح بھی نکال دوں کہ مجھے کون جانتا ہے جس کی نظروں کی شرمندگی کا مجھے خیال ہو۔ میں اگر آپ کو خانہ بدوش بھکاری عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر سنانا شروع کردوں کہ تم ڈیش تمہارا باپ ڈیش تمہارا فلاں ڈیش تو بھلا بتائیں کہ کیا میں اپنے اصل نام اور شناخت سے آپ کو اس طرح بازاری زبان میں مخاطب کرنے کی ہمت کرسکوں گا؟ اگر یہاں میری اصل شناخت ظاہر ہورہی ہو تو میں تو اس تصور سے ہی مرجاؤں گا کہ اب یہ ہمیشہ کے لئے دنیا میں ریکارڈ ہوگیا اور جو جو کبھی بھی اسے دیکھے گا جو مجھے جانتا ہوگا وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا!! میں نے تو اپنے آپ کو سامنے رکھ کر یہ تجویز دی تھی کہ شائد میری طرح دوسرے بھی اس معاملے میں حساس ہوں گے تو محفل کا ماحول خوشگوار بنا رہے گا۔
مثال سے برا مت منائیے گا صرف آپ کو سمجھانے کے لئے دی تھی ورنہ آپ سے مجھے بہت دوستانہ تعلق ہے محفل پر۔;)
آپ تو اور بھی بہت ساری باتوں کی ہمت نہیں کر سکتے، اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کوئی بھی ایسی ہمت نہیں کر سکتا۔ اپنے گلی، محلے، نکڑ، آس پاس کی دوکانوں، بازاروں، چوراہوں، چوپالوں، بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں اور بہت سارے آن لائن پلیٹ فارموں پر آپ بہت سارے لوگوں کو اپنی اصلی شناخت کے ساتھ اس سے بھی زیادہ غلیظ باتیں کرتے ہوئے پا جائیں گے۔ :) :) :)

ہم اردو ویب پر اپنے اراکین کی پرائیویسی کا مکمل احترام کرتے ہیں اور کسی کی بھی شناخت جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ اور بات ہے کہ احباب جو محفل کا ماحول خراب کرتے ہیں، اصولوں کی پامالی کرتے ہیں، انتطامیہ کی زندگی دشوار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جا سکتا ہے۔ اگر کچھ لوگ رواداری اور برداشت کے ساتھ معقول طریقے سے اپنی بات کرنے کا سلیقہ نہیں رکھتے اور تکلیف دہ باتوں کو رپورٹ کرنے کے بجائے خود دو دو ہاتھ کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، سیاسی یا مسلکی منافرت کے اظہار میں ذاتیات پر اتر آتے ہیں، مذہب بیزاری کے اظہار میں انتہاؤں کو چھو جاتے ہیں ان سب کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ اگر انتظامیہ ڈھیل دے تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک بات اُن دوستوں سے جو مذہبی حوالے سے جانے پہجانے جاتے ہیں :

ہم کسی شخص کو حسنِ اخلاق سے تو قائل کر سکتے ہیں لیکن لعن طعن سے ہم کبھی بھی کسی کو قائل نہیں کرسکتے۔
جس شخص کے دل میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہ ہو وہ ہماری بات کیوں ماننے لگا سو کسی کو قائل کرنے کےلئے پہلے دل جیتنا ضروری ہے۔ دل جیتے کے لئے سب سے پہلے اپنا دل کشادہ کرنا پڑتا ہے۔
بھلا دل آزاری کرنے والا بھی کسی کا دل جیت سکتا ہے۔
(پھر آپ کا کام صرف بات پہنچا دینے تک کا ہے، ہدایت دینا آپ کا کام نہیں ہے۔)

اور وہ دوست جو خدا کو بھی اہمیت نہیں دیتے اُن سے درخواست ہے کہ وہ خدا کو بھلے سے اہمیت نہ دیں کہ یہ اُن کا اور خدا کا معاملہ ہے لیکن ہنسی مذاق میں بھی کسی کی دل آزاری سے گریز کرنا چاہیے خاص طور پر ایسے معاملات میں جو کسی کے لئے حساس نوعیت کے ہوں۔ یہ بات بھی اس لئے کہی کہ یہاں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو انسانیت کے طور اطوار کو نہ مانتا ہو۔

ہم لوگ اردو محفل کا چہرہ ہیں، ہم اچھے، نرم خو، سلجھے ہوئے اور کشادہ دل ہوں گے تو محفل بھی ایسی ہی نظر آئے گی۔
 
رانا صاحب کی تجویز بادی الرائے میں یقیناّ معقول معلوم محسوس ہوتی ہے لیکن معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ مذہبی بحث و تمحیص میں عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ اسکی وجہ محض یہ نہیں کہ فریقین میں عدم برداشت پایا جاتا ہو بلکہ اسکی ایک صاف اور سیدھی وجہ یہ بھی ہے کہ چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔ دنیا میں حسن کو اسی وقت حسن کہا جاسکتا ہے جب اسکی ضد یعنی قبح بھی تقابل کیلئے موجود ہو۔ اچھائی کی پہچان بھی برائی کے وجود کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ خیر و شر،تحت و فوق، حسن و قبح، لطف و قہر، اور ہر قسم کے اضافی امور اپنی اپنی پہچان کیلئے دوسرے کے وجود کے دست نگر ہیں۔ جب بھی کسی معاملے میں سچ اور جھوٹ ، اچھے برے یا درست اور غلط کی بحث ہوتی ہے یعنی تقابل کیا جاتا ہے تو ان دونوں پہلوؤں کا زیربحث آنا لازمی امر ہے۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ لایعرف الاشیاء الّا باضدادہا۔
مذہب اور فلاسفی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ فلسفی کی فلسفیانہ تحقیقات اور نتائج کو آپ اس فلسفی کے ذاتی کردار کا مطالعہ کئے بغیر بھی پرکھ سکتے ہیں، لیکن کسی بھی مذہب کی تعلیمات پر ایمان لانے میں ایک بڑا اور فیصلہ کن فیکٹر اس اس مذہب کے مؤسس یا پیشوا کا ذاتی کردار ہی ہوا کرتا ہے ۔ اور اس بات کا مشاہدہ آپ ہر قوم میں کرسکتے ہیں۔ فلسفے کی کتب پڑھ لیں ، ہر فلسفی دوسرے فلسفی سے کسی نی کسین پوائنٹ پر اختلاف رکھتا ہے اور وہ اپنی رائے کے درست ہونے اور مدمابل کی رائے کے غلط ہونے میں فریقین کے ذاتی کردار کو قطعاّ زیرِ بحث نہیں لاتا۔ لیکن مذہبی بحث اور فلسفیانہ بحث میں یہی فرق ہے کہ فلسفی آپ سے اپنی بات پر ایمان لانے کا مطالبہ نہیں کرتا جبکہ مذہب ایمان بالغیب کا مطالبہ کرتا ہے اور ایمان بالغیب کو لاجک اور استدلال کے طریقے سے نہیں بلکہ کسی سچے کے سچ کو بغیر پرکھے،محض اسکے سچا ہونے کے یقین کی بناء پر سچ مان لینے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم رؤوف و رحیم نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں سے ایمان بالغیب کیلئے اپنے کردار کو بطور دلیل پیش کیا تھا کہ کیا تم مجھے اتناسچا سمجھتے ہو کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے کوئی فوج تم پر حملہ آور ہونے والی ہے ، تو مان لوگے؟؟ سب ے اقرار کیا لیکن جب سچ ان پر پیش کیا گیا تو سب کا انکار تھا، لیکن اس انکار کو بھی اقرار میں بدلنے کیلئے کردار کا مظاہرہ پیش کیا گیا تب کہیں جاکر اقرار کی منزل آئی۔۔۔فلسفیانہ بحثوں میں ایسا نہیں ہوا کرتا، یہاں کردار کی بجائے محض لاجک (جو اندھے کی لاٹھی کی طرح ٹٹول ٹٹول کر کسی راستے پر چلنے کیلئے درکار ہوتی ہے آنکھوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے) سے کام لیا جاتا ہے اور معلوم سے نامعلوم کی طرف دو جمع دو چار کرکے جایا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شیخ بسمل صاحب نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جب کسی مذہب یا کسی فرقے کے خلاف بات ہو گی تو اس کو رد کرنے والے بھی اٹھیں گے۔ اور مباحثہ طول پکڑ جائے گا۔
اس میں رانا صاحب نے بالکل معقول تجویز دی ہے کہ مذہب کے زمرے میں صرف کسی بھی مذہب، فقہ، مسلک کی صرف اچھائیاں بیان کی جانے کی اجازت ہو اور کسی کے خلاف کچھ بولنے والوں کے وارننگ سسٹم کے بعد رکنیت سے محروم کر دیا جائے۔
اور میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

امجد صاحب ایک مذہب یا مسلک میں ایک چیز اچھی ہے تو وہی چیز دوسرے مذہب یا مسلک میں بُری ہے۔ اس اچھی یا برائی کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ اچھائی اور برائی کا فیصلہ ہو چکا اور وہ قرآن میں درج ہے۔ اس میں نہ آپ رد و بدل کر سکتے ہیں اور نہ میں۔
 

عثمان

محفلین
سارا بکھیڑا ہی اس وقت پیش آیا جب مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میں معطل شدہ افراد کو چند ہی ماہ بعد غیر معطل کر کے دوسری اننگز کھیلنے کی اجازت دی گئی۔ اور نتیجہ خدشات کے عین مطابق ہی نکلا یعنی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہی۔
انتظامیہ اب بھی کوئی نیا جھنجھٹ پالنے کی بجائے اپنے اصل قانون کی طرف رجوع کرے تو سارا مسئلہ لمحوں میں حل ہوجائے۔
 

رانا

محفلین
رانا صاحب کی تجویز بادی الرائے میں یقیناّ معقول معلوم محسوس ہوتی ہے لیکن معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ مذہبی بحث و تمحیص میں عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ اسکی وجہ محض یہ نہیں کہ فریقین میں عدم برداشت پایا جاتا ہو بلکہ اسکی ایک صاف اور سیدھی وجہ یہ بھی ہے کہ چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔ دنیا میں حسن کو اسی وقت حسن کہا جاسکتا ہے جب اسکی ضد یعنی قبح بھی تقابل کیلئے موجود ہو۔ اچھائی کی پہچان بھی برائی کے وجود کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ خیر و شر،تحت و فوق، حسن و قبح، لطف و قہر، اور ہر قسم کے اضافی امور اپنی اپنی پہچان کیلئے دوسرے کے وجود کے دست نگر ہیں۔ جب بھی کسی معاملے میں سچ اور جھوٹ ، اچھے برے یا درست اور غلط کی بحث ہوتی ہے یعنی تقابل کیا جاتا ہے تو ان دونوں پہلوؤں کا زیربحث آنا لازمی امر ہے۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ لایعرف الاشیاء الّا باضدادہا۔
مذہب اور فلاسفی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ فلسفی کی فلسفیانہ تحقیقات اور نتائج کو آپ اس فلسفی کے ذاتی کردار کا مطالعہ کئے بغیر بھی پرکھ سکتے ہیں، لیکن کسی بھی مذہب کی تعلیمات پر ایمان لانے میں ایک بڑا اور فیصلہ کن فیکٹر اس اس مذہب کے مؤسس یا پیشوا کا ذاتی کردار ہی ہوا کرتا ہے ۔ اور اس بات کا مشاہدہ آپ ہر قوم میں کرسکتے ہیں۔ فلسفے کی کتب پڑھ لیں ، ہر فلسفی دوسرے فلسفی سے کسی نی کسین پوائنٹ پر اختلاف رکھتا ہے اور وہ اپنی رائے کے درست ہونے اور مدمابل کی رائے کے غلط ہونے میں فریقین کے ذاتی کردار کو قطعاّ زیرِ بحث نہیں لاتا۔ لیکن مذہبی بحث اور فلسفیانہ بحث میں یہی فرق ہے کہ فلسفی آپ سے اپنی بات پر ایمان لانے کا مطالبہ نہیں کرتا جبکہ مذہب ایمان بالغیب کا مطالبہ کرتا ہے اور ایمان بالغیب کو لاجک اور استدلال کے طریقے سے نہیں بلکہ کسی سچے کے سچ کو بغیر پرکھے،محض اسکے سچا ہونے کے یقین کی بناء پر سچ مان لینے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم رؤوف و رحیم نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں سے ایمان بالغیب کیلئے اپنے کردار کو بطور دلیل پیش کیا تھا کہ کیا تم مجھے اتناسچا سمجھتے ہو کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے کوئی فوج تم پر حملہ آور ہونے والی ہے ، تو مان لوگے؟؟ سب ے اقرار کیا لیکن جب سچ ان پر پیش کیا گیا تو سب کا انکار تھا، لیکن اس انکار کو بھی اقرار میں بدلنے کیلئے کردار کا مظاہرہ پیش کیا گیا تب کہیں جاکر اقرار کی منزل آئی۔۔۔ فلسفیانہ بحثوں میں ایسا نہیں ہوا کرتا، یہاں کردار کی بجائے محض لاجک (جو اندھے کی لاٹھی کی طرح ٹٹول ٹٹول کر کسی راستے پر چلنے کیلئے درکار ہوتی ہے آنکھوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے) سے کام لیا جاتا ہے اور معلوم سے نامعلوم کی طرف دو جمع دو چار کرکے جایا جاتا ہے۔


آپ کی بات درست ہے کہ اچھائی کی قدر اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب بالمقابل برائی بھی سامنے ہو۔ میری تجویز سے ان معاملات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تقابل کرنے میں دونوں پہلوؤں کا زیربحث آنا بعض جگہ لازمی امر ہے لیکن یہ تو لازمی امر نہیں کہ تقابل کرتے ہوئے تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے اور دوسرے کو برا اور ملعون کہہ کر ہی تقابل کیا جائے بلکہ دوسرے کو اپنا غلطی خوردہ بھائی سمجھ کر بھی تقابل کیا جاسکتا ہے۔ اسکے نزدیک قابل احترام سمجھے جانے والے بزرگوں کو برا کہے بغیر ان کا احترام سے ذکر کرتے ہوئے تقابل زیادہ پسندیدہ امر ہوگا۔ اور اگر کوئی اس طرح کے تقابل پر غصہ کرتا ہے تو اسکا صریح مطلب یہ ہوگا کہ اس کے پاس حسن کا فقدان ہے۔ مثلا آپ شوق سے اپنے کسی بھی عقیدے کا حسن پیش کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی ایمانداری سے سمجھتے ہیں کہ اگر رانا صاحب کے عقیدے سے تقابل نہ کیا گیا تو بات تشنہ رہ جائے گی تو مجھے بھلا کیوں اعتراض ہوگا اگر آپ میرے بزرگوں کا تذکرہ تہذیب کے رنگ میں کرکے تقابل کریں گے۔ مثلا آپ کوئی برا دل کو دکھانے ولا لفظ استعمال کرکےیہ بھی کہہ سکتے ہیں مرزا نے یہ لکھا ہے اور مہذب رنگ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب کا اس بارے میں یہ نظریہ ہے۔ تو خود سمجھ سکتے ہیں پہلا جملہ کیا تاثر چھوڑے گا اور دوسرا کیا۔ دوسرا جملہ نہ صرف ایک اچھا تاثر چھوڑے گا بلکہ میرے دل میں خواہ مخواہ ہی آپ کی بات سننے کی طرف نرمی پیدا ہوجائے گی اور میں یہ سمجھوں گا کہ غزنوی بھائی واقعی میرے ساتھ سچی ہمدردی رکھتے ہیں جو مجھے اس طرف توجہ دلا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ صرف سمجھانے کے لئے آپ کا نام لے آپ کو مخاطب کرکے مثال دی ہے کہیں دل پر مت لے لیجئے گا۔:)
 

سید ذیشان

محفلین
حسان بھائی نے بہت ضروری بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ میرے ذہن میں کافی عرصے سے یہ بات تھی اور ایک تجویز بھی تھی لیکن بوجوہ نہیں دے پایا۔ اب پچھلے کچھ دنوں سے جو کچھ مراسلے میں نے پڑھے ہیں اسکے بعد پھر سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس تجویز کو محفل پر رکھا جائے لیکن پھر کسی وجہ سے رکا رہا۔ اب خاص اس حوالے سے بات کھلی ہے تو یہ مناسب موقع ہے کہ یہاں تمام محفلین اپنی اپنی تجاویز دیں تاکہ ان کی روشنی میں انتظامیہ محفل کے ماحول کو بہتر بنا سکے۔

میرے پاس جو تجویز ہے اسکا پس منظر یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس واقعی چکا چوند کردینے والا حسن ہے تو ظاہر ہے ہر کوئی اسکی طرف ہی متوجہ ہوگا۔ اسے نہ تو کسی دوسرے کے حسن میں کیڑے نکالنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی کے خلاف ڈھنڈورا پیٹنے کی۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو حسن ہے وہ بہت ہی کم درجہ کا ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی ہو کہ لوگ اسکی طرف توجہ کریں تو وہ اگر دوسروں کی توجہ حاصل کرنا چاہے گا تو اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ دوسرے کے حسن میں اتنی خامیاں نکالے اور اسکی اتنی برائیاں گنوائے کہ اگر کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، تو دوسرے کی طرف بھی نہ ہو۔

اب محفل پر اگر ایسا قانون بنادیا جائے کہ جو بھی مذہب پر گفتگو کرنا چاہے اسے کھلی اجازت ہو کہ جتنا اپنے مذہب کا حسن بیان کرسکتے ہو کرو اور جتنی خوبیاں اپنے مذہب اور فرقے کی تعلیمات کی بیان کرنا چاہو شوق سے کرو کوئی پابندی نہیں لیکن کسی دوسرے مذہب یا فرقے کے خلاف بولنے اور کیڑے نکالنے کی اجازت نہیں۔ اور اگر کوئی واقعی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مذہب یا فرقے کی تعلیمات میں اتنا حسن ہے کہ کوئی دوسرا سامنے ٹھہر ہی نہیں سکتا تو اسے کیا ضرورت ہے کہ اپنے وقت کو دوسرے کے خلاف بول کر ضائع کرے بلکہ وہ تو چاہے گا کہ جتنا زیادہ وقت اپنا حسن دکھانے میں خرچ کیا جاسکتا ہے کرنا چاہئے۔ جب بھی کوئی اس کی خلاف ورزی کرے کہ اگر کہیں اس نے کسی فرقے یا مذہب کے خلاف یا اس کے بزرگوں کے خلاف کوئی بات کی ہے تو ایکشن لیا جائے۔ اب فطری بات ہے کہ فوری ایکشن لیتے ہوئے اگر اس کو معطل کردیا جائے گا تو پھر ایک شور اٹھے گا اس جیسی سوچ رکھنے والوں کی طرف سے۔ اس کا حل یہ ہے کہ تین وارننگز رکھی جائیں جو اگر اوتار کے ساتھ نظر آتی رہیں تو اچھا ہے۔ کہ پہلی مرتبہ میں ایک وارننگ دی جائے۔ اس سے سب کے زہن اس طرف متوجہ رہیں گے کہ نظام چل پڑا ہے اب کسی کے شور مچانے سے یہ رکنے والا نہیں۔ دوسری وارننگ دی جائے۔ اور تیسری وارننگ دیئے جانے کے بعد چوبیس گھنٹے گزرنے پر خود کار طور پر اس کی رکنیت معطل ہوجائے۔ چوبیس گھنٹے کی رعایت صرف اس لئے کہ اگر اس عرصے میں اس کی طرف سے کوئی معذرت اور غلطی تسلیم کرنے کا کوئی مراسلہ آجاتا ہے تو انتظامیہ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسے معاف کردے ورنہ کسی کو شکوہ نہیں ہوگا اور خودکار نظام ہونے کی وجہ سے سب کو پتہ ہوگا کہ اب یہ ممبر صرف چوبیس گھنٹوں کا مہمان ہے۔ اور کیونکہ یہ عمل تدریجی ہوگا اس لئے فوری طور پر ایسی کاروائی سے جو ایسی یکساں سوچ رکھنے والوں کی طرف سے اشتعال پھیلایا جاتا ہے اس میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔ اور جب یہ نظام بے دردی سے کچھ عرصے کے لئے بھی چل پڑا تو کچھ ہی عرصے میں کافی تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ یہ تبدیلی کچھ پرانے چہروں کے غائب ہونے کی بھی ہوسکتی ہے اور کچھ پرانی عادتوں کے ختم ہو کر نئی اچھی عادتوں کے ظاہر ہونے کی بھی۔


تجویز تو اچھی ہے لیکن اس طرح سے پتہ فون نمبر وغیرہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ چیزیں دہشتگردوں کے ہاتھوں لگ گئیں تو وہ تو پہلے ہی شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرتے ہیں پھر گھروں پر بلوے بھی شروع ہو جائیں گے۔
اور دوسری بات یہ کہ کبھی کبھی انسان غصے میں بھی کچھ کہہ جاتا ہے جس کا بعد میں اس کو افسوس ہوتا ہے، تو یہاں پر ہر بات انمٹ بن جاتی ہے۔
اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہمیں خود کو انٹرنیٹ کا عادی بنانا پڑے گا-
 
عجیب مخمصہ ہے۔ جسے دیکھو ملحد و مومن کو لیے بیٹھا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا، بھائی میرے انسان کو مذہب اور شادی کے معاملے میں آزادی ہے۔ ضروری ہرگز نہیں کہ اس اردو محفل پر محض آپ کا پالا خودگفتہ مسلمان حضرات سے ہی پڑے کہ اسکے نام میں کہیں یہ مشخص نہیں کہ "اردو محفلِ مسلمانان"۔

ملحدوں کے بھی بہت سے فورم ہیں پھر ہر دھاگے میں الحاد کی فضیلت ، شراب نوشی ، سود خوری اور خنزیر کے ذائقوں پر بات کیوں شروع ہو جاتی ہے ؟
ان موضوعات پر بحث کرنے سے بہ ہیچ وجہ یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس فورم کا تعلق ملحدوں سے ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سور کے ذائقوں کو چھوڑ کر تمام باتیں ہماری اردو زبان کی روایتی باتیں ہیں۔ جن کی فہرست میں تصوف اور عورت بھی شامل ہیں، اور ان پر بھی آزاد بحثوں میں بات ہوتی ہے۔
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!​
دوسری بات یہ کہ ان موضوعات کے مطالعے سے میں سمجھتا ہوں ایک عام مسلمان کے اسلام میں کوئی خلا و خلل واقع نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اتنے تیز اور تیکھے ہوتے ہیں کہ انا کو نقصان پہنچائیں!​

اس فورم پر یوں تو کسی بھی موضوع پر شریفانہ گفت و شنید کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن جہاں بات جرح تک آجائے تو اسکے اور اہلیان کے نازک مزاج پر بن آتی ہے۔ ویسے بھی مذہب اتنا خشک موضوع ہے کہ میں نہیں سمجھتا اہلِ ذوق حضرات اسے بہ آسانیِ تمام ہضم کر سکیں۔ اگر وہ ان دھاگوں میں آ کر کچھ شیرہ چاشنی ڈالدیں تو اس میں مضائقہ ہی کیا ہے۔ پھر بقول یوسفی حس مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے۔ بہت سی باتیں نظر انداز کردینے لائق ہوتی ہیں۔ محض انسان ان سے لطف اٹھاتا ہے اور پھر فراموشی کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ اردو زبان کی اپنی روایت اپنا کلچر ہے جس میں یہ تمام چیزیں شامل ہیں جنکو اب تکفیری ملا الحاد کا نام دیتے ہیں۔​
صاحبِ حیثیت اور مقام حضرات بھی اگر سخت گیری شروع کردیں تو محفل کی معصوم فضا کو دھجکا لگ سکتا ہے۔ اور پیار اور صفا کی محفل پھر یوں نہ جم سکے شاید۔ اس لیے میں ذاتی طور پہ یہ تجویز نہیں کروں گا کہ حضرات مدیر آستینیں چڑھا لیں۔​
 
تقابل کرنے میں دونوں پہلوؤں کا زیربحث آنا بعض جگہ لازمی امر ہے لیکن یہ تو لازمی امر نہیں کہ تقابل کرتے ہوئے تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے اور دوسرے کو برا اور ملعون کہہ کر ہی تقابل کیا جائے بلکہ دوسرے کو اپنا غلطی خوردہ بھائی سمجھ کر بھی تقابل کیا جاسکتا ہے۔ اسکے نزدیک قابل احترام سمجھے جانے والے بزرگوں کو برا کہے بغیر ان کا احترام سے ذکر کرتے ہوئے تقابل زیادہ پسندیدہ امر ہوگا۔
اس بات میں تو کوئی دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ یہی ہمارے دین نے بھی ہمیں سکھایا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میری تجویز تو یہ ہو گی کہ یہ زمرہ ہی ختم کر دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اردو ویب پر ہی بلاگ بھی تو پوسٹ کئے جا سکتے ہیں، جن کو شاذ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی پوسٹ کرنے والے وہاں اپنی بات پیش کر سکتے ہیں بجائے پبلک فورم کے۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں تو ذاتی طور پر یہاں عقائد پر بحث اور لڑائی جھگڑا ہی بے مصرف سمجھتا ہوں۔ جو اعتقادی مسائل پچھلے چودہ سو سالوں میں حل نہ ہو سکے، وہ کیا اردو محفل پر لعن طعن اور پوچ قلمی جہاد سے حل ہو جائیں گے؟ ان چیزوں پر ہر فریق کی ہزاروں کتب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، جسے اپنے عقیدے اور صراطِ مستقیم کی فکر ہو گی وہ خود ہی تحقیق کرنے کے لیے اُن سب کتب کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ صراطِ مستقیم تک رسائی کے لیے اردو محفل پر تبلیغی جانفشانی دکھانا لازمی نہیں ہے۔
 
Top