اپنی تین نثری کاوشیں پیش کر رہا ہوں۔
۔1۔ اپنے شگفتہ نگار دوستوں کے تتبع میں ایک تقریباً تازہ تحریر
"کون جھڈو"؛ اس آخری ایک دو سطریں ہیں شاید جو قہقہوں کو تحیر میں بدل دیتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اس کو افسانہ قرار دیتے ہیں یا کہانی یا کالم یا کیا۔
۔2۔ ایک دوست نے اردو کے کلاسیکی ادب میں ایک طویل داستان پڑھی تھی، ایک دن راہ چلتے اس کا خلاصہ مجھے سنا دیا۔ میں نے پوچھا بھی کہ یہ تحریر کس کی ہے، عنوان کیا ہے؛ مگر انہیں کچھ یاد نہیں تھا۔ اس خلاصے کو اپنے طور پر قدیمی اسلوب سے ملانے کی کوشش کی ہے، اور ظاہر ہے اس میں جمع تفریق تو ہوئی ہے کچھ نہ کچھ۔
"کھوٹی دمڑی" کا مطالعہ فرمائیے، ہو سکتا ہے یہ داستان آپ پہلے پوری پڑھ چکے ہوں۔
۔3۔ ایک کہانی
"خوشبو اور پہیلی" بہت پہلے کی لکھی ہوئی۔ جو حقیقتاً ایک طبع زاد کہانی ہے، کچھ احباب اس کو پڑھ بھی چکے ہیں۔ ایک سادہ سی معاشرتی کہانی ہے جس میں کوئی مدوجذر ہے نہ ڈراما۔ کچھ بچھڑے ہوؤں کا ملنا ہے! اس میں میرا مقصد ایک تو کردار نگاری (بشمول لفظیات : بہ لحاظ کردار) تھا، اور دوسرا جذبات نگاری۔ میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں، بتائیے گا ضرور!
کل میں نے اس کو بارِ دگر دیکھا تو کئی ترامیم کرنے کو جی چاہا پر، کیں نہیں۔ ایک جملہ البتہ تبدیل ہو جاتا تو شاید اچھا لگتا :
موجودہ متن:
آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے بادل اور بجلی جیسے ہزاروں امتزاج اور لاکھوں دعاؤں
کے اسی کھیل تماشے میں وہ گاؤں کے پرائمری سکول سے فارغ ہوا اور قصبے کے ہائی سکول تک پہنچا۔
مجوزہ تبدیلی:
آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے بادل اور بجلی جیسے ہزاروں امتزاج اور لاکھوں دعاؤں
کی انہیں بارشوں میں وہ گاؤں کے پرائمری سکول سے فارغ ہوا اور قصبے کے ہائی سکول تک پہنچا۔
۔4۔ ایک اور کوشش، اس نشست کے لئے خاص:
"خوش بخت بیگ مالی" ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اجازت چاہتا ہوں۔
اظہارِ ممونیت، بارِ دگر!