محفل کو خدا حافظ کہنے کے حوالے سے
قیصرانی سے میں متفق نہیں ہوں ۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اکثر اوقات یہاں مذہب اور سیاست کے نام پر جہالت اور ہٹ دھرمی کا جو مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ اسے دیکھ کر کسی قدر مایوسی ضرور ہوتی ہے ۔ مجھے بھی کم بیش یہاں 9 سال ہوچکے ہیں ۔ میرے پسندیدہ موضوعات سیاست اور مذہب رہے ہیں ۔ اور ان پر میں نے بارہا لکھا ہے ۔ اور مکالمات بھی کیئے ہیں ۔ مگرضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے میں نے بھی کئی بار خاموشی اختیار کی ہے ۔ اور متعدد بار لمبی لمبی غیر حاضری لگائیں ہیں ۔ دراصل ضد اور اپنی بات پر اڑے رہنا یہاں کچھ لوگوں کی شخصیت کا خاصہ ہے اور وہ یہاں مختلف ناموں سے بھیس بدل کر اشتعال اور شر انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے کہ ہم دراصل اختلاف کرنے کے شائستہ آداب سے واقف ہی نہیں ہیں ۔ ہم اختلاف کو مخالفت بنا لیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اختلاف کا مطلب تعصب ہے ، عناد ہے ، نفرت ہے ۔ ہم نے کچھ مذہبی فقرے یا گالیاں ایجاد کی ہوئیں ہیں ۔ جب ہم اختلاف کرتے ہیں تو وہ دوسروں کو دینا شروع کردیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے اندر کبھی یہ ذوق پیدا ہونے ہی نہیں دیا کہ ہم دوسرے کی بات کو تحمل سے سنیں ۔ جیسا وہ کہتا ہے ویسا اس کو سمجھیں ۔ کم از کم اس سے سوال کرکے پوچھ لیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کسی کی بات کا ایک نقشہ تیار کرتے ہیں ۔ پھر اس کو مخالف پر تھوپ دیتے ہیں ۔ ہم نے کچھ مخصوص قسم کی باتیں طے کر رکھیں ہیں ۔ جو ہم کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ جیسے کسی کو فاسد قرار دینا ، کسی کو کافر قرار دینا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اصل میں ہمارا مزاج بن چکا ہے ۔ آپ اختلافات ختم نہیں کرسکتے ۔ اختلافات تو ہوا اور پانی کی طرح ہماری ضرورت ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ سارے انسانوں کو کسی ایک نکتہ فکر پر متفق کرلیں ۔ انسانی تخلیق میں اختلاف ودیعت کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی نے جس اصول پر یہ دنیا بنائی ہے اس میں انسان کو اپنے عقل وشعور کے ذریعے اپنے اختلافات کی جانچ پڑتال کرنی ہے ۔ اسی پر سزا و جزا کے قانون کا اطلاق ہونا ہے ۔ اختلافات تو تحقیق کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ہم اگر اختلاف کو شائستہ اختلاف تک رکھیں تو وہ ہمارے لیئے تہذہبی راہیں کھولے گا ، علم کے ارتقاء کا باعث بنے گا ۔ اگر اس کو عناد بنا لیں ، مخالفت بنا لیں تو سوائے خجالت اور پستی کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
اپنے اردگرد اور ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو یہ بات واضع ہوجائے گی بات خجالت اور پستی سے بھی بہت دور نکل گئی ہے ۔ میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں کہ اس قسم کے رویئے میں دو اقسام کے لوگ ملوث ہیں ۔ ایک ضدی اور مایوس کن قسم کےلوگ ہیں جو جہالت کے لبادے میں یہ حرکتیں کرتے پھرتے ہیں ۔ انہیں قطعی شعور نہیں ہے کہ اصل بات کا ماخذ کیا ہے اور پر کیسے گفتگو کرنی ہے ۔اکثر مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ بعض اوقات ان کی تحریریں پڑھنے سے ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے منہ سے جھاگ بھی نکل رہا ہو ۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو تعصب اور عصبیت پسند ہیں ۔ جو خوب سوچ سمجھ کر ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی اپنی ایک خاص انٹرپیٹشن کے ساتھ یہاں داخل ہوتے ہیں ۔مشتعل ہر گز نہیں ہوتےبلکہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو تشدد کی طرف کس طرح مائل کیا جاسکے ۔ اس قسم کے لوگ صرف اردو محفل پر نہیں بلکہ ہر جگہ مل جاتے ہیں ۔
شاید یہ حضرت ابو حنیفہ کا قول ہے کہ " عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دنیا سے ضروری چیزیں لے لے اور غیر ضروری چھوڑ دے ۔ " میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اسی اصول پر کام کرنا چاہیئے اگر کوئی شخص ان ابحاث اور گفتگو کا متحمل نہیں ہوسکتا تو اس قسم کی تحاریر کو نظر انداز کردے اور اردو محفل پر دوسرے مفید قسم دھاگوں پر اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں مرکوز رکھے ۔
میرا مشور ہ اپنے دیرینہ دوست
قیصرانی کے لیئے یہی ہے کہ اگر وہ اس قسم کے موضوعات سےبے زار اور اکتا گئے ہیں ۔ تو ایک وقفہ لے لیں ۔ بجائے اس کے آپ اس کو مکمل طور پر خیر آباد کہہ دیں ۔ کیونکہ میں بھی عموما اسی پر عمل کرتا ہوں ۔ اُمید ہے کہ
قیصرانی میرے بات پر غور کریں گے ۔