محمد وارث
لائبریرین
آپ نے بالکل درست کہا، یہ ضرب المثل اسی موقع پر بولی جاتی ہے جہاں پر شاگرد اپنی تمام فہم استعمال کر کے بھی کامیاب نہ ہو اور استاد یا کوئی اس کا مسئلہ حل کر دے۔ اس کا ایک مترادف ایک پنجابی کہاوت ہے جو ہمارے والد صاحب مرحوم ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال میں سنایا کرتے تھے کہ "بابے بِنا بھیڈاں نئیں چر دیاں" مطلب یہ کہ تجربہ کار چرواہے کہ بغیر بھیڑ بکریاں نہیں چرا کر تیں۔وارث بھائی ، یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔
میری رائے میں تو اتنا کافی ہے کہ استاد ہمیشہ استاد ہی رہتا ہے چاہے شاگر کتنا ہی آگے نکل جاتا ہے۔ اور یہ کہ شاگرد اگر کبھی کسی معاملے میں پھنس جاتا ہے تو اُس کو گُر کی بات استاد سے ہی ملتی ہے۔