پاء جی مشینی ترجمے کے لیے کئی کوششیں ہورہی ہیں۔
پاک ٹرانسلیشن قریبًا پچھلے پانچ سال سے انگریزی سے اردو اور دوسری مقامی زبانوں میں میشنی ترجمے پر کام کررہے ہیں۔ ان کے محدود وسائل کے مطابق انھوں نے بہت اچھا کام کیا ہے اب تک۔ لیکن یہ صرف انگریزی سے اردو ترجمہ کا سافٹویر ہے، اردو سے انگریزی ترجمہ ممکن نہیں۔ ابھی حال ہی میں گوگل نے اردو انگریزی اور انگریزی اردو ترجمے کو الفا ورژن میں شامل کرلیا ہے۔ گوگل کی صلاحیت پاک ٹرانسلیشن سے بدرجہا بہتر ہے، چونکہ ان کے الگورتھم اور پچاس سے زائد زبانوں کا تجربہ ان کا مددگار ہے۔ لیکن گوگل کا مشینی ترجمہ بھی ابھی کافی وقت لے گا بہتر ہونے میں۔ ایسی ہی ایک کوشش کرلپ کے تحت گلوبل سائنس کے مدیر علیم احمد کے بھائی نے بھی کی تھی۔ اس کا سافٹویر شاید کہیں کرلپ کی ویب سائٹ پر موجود ہو۔
عرض یہ ہے کہ اردو انگریزی مشینی ترجمے سے پہلے بھی کئی عدد اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ مثلًا ہمارے پاس اردو کی ٹیکسٹ آرکائیو موجود ہونی چاہیے، جس کو بنیاد بنا کر ہم لغات وغیرہ بنا سکیں، ورڈ لسٹس بنا سکیں۔ دوسرے نمبر پر اردو کی گرامر ٹیگنگ کے لیے سافٹویر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ہم لسانیات میں
پی او ایس ٹیگنگ کہتے ہیں۔ میری پاک ٹرانسلیشن کے چیف ایگزیکٹو سے ایک بار اس سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ انگریزی سے اردو ترجمے پر کام کررہے ہیں، چناچہ وہ انگریزی ان پٹ کو مختلف ٹیگرز سے ٹیگ کرتے ہیں، پھر ڈکشنری کی مدد سے اردو متبادل تجویز کرتے جاتے ہیں۔ انگریزی کے ٹیگرز بے تحاشا دستیاب ہیں۔ جبکہ اردو کے لیے کوئی قابل ذکر پی او ایس ٹیگر دستیاب نہیں۔ میرے خیال سےاردو سے انگریزی مشینی ترجمے کے لیے،جیسا کہ مجھے پاک ٹرانسلیشن والوں نے بتایا تھا، پہلے ایک عدد اردو پی او ایس ٹیگر لکھنا پڑے گا۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ اردو پر لسانیاتی تحقیق کے زیادہ مواقع دستیاب ہونگے، اور اردو این ایل پی پر مزید کام ہوسکے گا۔ مجھے بہت زیادہ معلومات نہیں، لیکن میرے خیال سے یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات اردو پر تحقیق کی رفتار کو مستقبل میں بہت بڑھا دیں گے۔ آپ ماشاءاللہ پروگرامر ہیں، ٹیگر لکھنے پر کام کرسکتے ہیں۔ الف نظامی، محفل کے ایک رکن، انھوں نے بھی اردو ٹیگر پر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی کچھ عرصہ پہلے۔ اگر ایک ٹیم بن جائے تو اس سلسلے میں کچھ کام ہوسکتا ہے۔ مشینی ترجمہ شاید ابھی بہت دور کی بات ہے، اور شاید پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے والی بات بھی، چونکہ پہلے ہی یہ آئیڈیا بہت سارے لوگوں کے دماغوں میں جگہ بنا چکا ہےا ور لوگ اس پر آدھا ادھورا کام کرچکے ہیں، کررہے ہیں وغیرہ۔
کرلپ کے ایک سٹوڈنٹ نے اپنے ماسٹرز کے تھیسز کے لیے ایک ٹیگر لکھا تھا۔ لیکن یہ بہت ابتدائی نوعیت کا ہے، 2007 کے بعد اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔
وسلام