بی بی سی اردو پر سے :
اُردو میں ہمزہ کے استعمال سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ تو لاعلمی کے باعث اور کچھ اپنا نقطہء نظر دوسروں پر تھوپنے کی عادت کے باعث۔
انیسویں صدی کے کئی اُردو قواعد نویسوں نے ہمزہ کو حروفِ ابجد میں شامل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری بھی اسے حروفِ تہجّی میں شامل کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اسے زیر، زبر، پیش کی طرح ایک علامت قرار دیا ہے۔
قواعدِ اُردو میں مولوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں۔‘‘
مولوی عبدالحق جیسے عالمِ اُردو اور جیّد قواعد داں نے بھی ہمزہ کے بیان میں ٹھوکر کھائی ہے کیونکہ ہمزہ ہرگز مدّ والا کام نہیں کرتا۔ یعنی آواز کو کھینچ کر لمبا نہیں کرتا۔
ابواللیث صدیقی اُردو کے ایک مُستند قواعد نویس ہیں انھوں نے ہمزہ کے مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن انھوں نے بھی چونکہ تجزیئے کے روائتی اوزار استعمال کئے ہیں اس لئے معاملے کو پوری طرح سلجھا نہیں سکے۔ مثلاً مولوی عبدالحق کے تتبع میں انھوں نے بھی لکھا ہے کہ ہمزہ ہمیشہ ی یا واؤ کے ساتھ آتا ہے لیکن ی اگر لفظ کے آخر میں ہو تو ہمزہ لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً رای یا راے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔
اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔
اگر اس اصول کو درست مان لیا جائے تو پھر آئے، جائے وغیرہ میں بھی ہمزہ فالتو شمار ہونا چاہیئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ہمزہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اِملاء کی نہیں صوتیات کی تفہیم ضروری ہے اور ہم اب اُسی طرف آنے والے ہیں لیکن پہلےہمزہ کی علامت کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔
عربی املاء میں کوئی رکن (سِلے بل --Syllable ) واول سے شروع نہیں ہوسکتا۔
ی اور واٰؤ جب لفظ کے شروع میں ہوں تو یہ حروفِ صحیح (کانسو نینٹ) شمار ہوتے ہیں اور جو الفاظ بظاہر الف سے شروع ہوتے ہیں وہ دراصل ’ء‘ سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ عربی میں الف بذاتِ خود کوئی آواز نہیں رکھتا اور محض ہمزہ کو واضح طور پر دکھانے کے لئے – یعنی اس کی نشان دہی کے لئے – ایک سیدھی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ عربی میں ہمزہ ایک واول نہیں بلکہ کانسونینٹ آواز ہے۔
اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔ مثلاً عربی میں کوئی لفظ یا رکن واول آواز سے شروع نہیں ہو سکتا لیکن اُردو میں بے شمار الفاظ واول سے شروع ہوتے ہیں۔ جیسے اُبٹن، اُبال، اِکائی، اِکاون، انداز، انجان وغیرہ۔ چنانچہ اہلِ اُردو نے عربی املا میں سے الف لے کر اسے واول آوازوں کا آلہ بنایا۔ اُردو میں بھی الف بذاتِ خود محض ایک سیدھی لکیر ہے اور کسی آواز کی نمائندگی نہیں کرتا، البتہ جب اِس پر زبر یا پیش پڑتی ہے یا اسکے نیچے زیر لگا دی جاتی ہے تو اس میں مخصوص واول آواز پیدا ہو جاتی ہے۔
’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آحری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔
(جب کوئی علامت نہ ہو تو تب بھی اس پر زبر تصّور کیا جاتا ہے) ظاہر ہے کہ الف کا یہ خصوصی اہتمام لفظ کی ابتداء کے لئے کیا گیا ہے۔ باقی تمام حروفِ صحیح پر تو زیر، زبر، پیش لگ ہی جاتی ہے۔
عربی نظامِ ہجّا کو ایک ہندوستانی زبان کے استعمال میں لانے کےلئے اس طرح کی راہ نکالنا ضروری تھا۔ خیر یہ تو ہوا الف کا استعمال جِسے ہم نے عربی املاء سے حاصل کیا اور اسے ہمزہ سے آزاد کر کے اس پر واول آوازوں کے اعراب لگا لِئے – لیکن خود ہمزہ کا کیاہوا؟
اہلِ اُردو نے اسے بھی اپنایا لیکن عربی کی طرح ایک حرفِ صحیح (کانسو نینٹ) کے طور پر نہیں بلکہ واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرنے والی علامت کے طور پر۔ اسکی وضاحت چند مثالوں سے ہو جائے گی۔ البتہ مثالیں پیش کرنے سے پہلے رکن یعنی سِلےبل کے تصوّر کو واضح کرنا ضروری ہے۔
تلفظ کی مختصر ترین اکائی کو رکن کہا جاتا ہے ۔ مثلاً سُن گُن کے لفظ میں دو ارکان ہیں سُن اور گُن۔ ’میرا‘ میں پہلا رکن ہے ’مے‘ اور دوسرا رکن ہے ’را‘۔ گویا ’میرا‘ کا لفظ بھی دو رکنی ہے۔ اسی طرح ’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آحری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسرا رکن ’کس‘ ایک کانسو نینٹ پر ختم ہو رہا ہے۔ اسی طرح آخری دو ارکان (تا اور نی) بھی واول آواز پر ختم ہو رہے ہیں۔ یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد ہم اصل مسئلے کا رُخ کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اُردو میں ہمزہ کی بذاتِ خود کوئی صَوت
(آواز) نہیں ہے اور الف کی طرح یہ بھی دیگر آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یعنی جسطرح الف اپنے اوپر لگی ہوئی (یا تصّور کی ہوئی) زبر یا پیش کی نمائندگی کرتا ہے یا اپنے نیچے لگی ہوئی زیر کی آواز کا آلہ کار بنتا ہے اُسی طرح ہمزہ خود کوئی آواز نہیں دیتا بلکہ دو واول آوازوں کے مقامِ اتصّال کی خبر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ذیل کے الفاظ کو دیکھیئے:
آئی۔ آئے۔ جاؤ۔ لاؤ۔
اِن لفظوں کی تقسیم، ارکان میں یوں ہو گی۔
آ + ای
آ + اے
جا + او
لا + او
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ہر مثال میں پہلا رکن ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے اور دوسرا رکن ایک واول آواز سے شروع ہو رہا ہے چنانچہ دونوں کے مِلاپ کی جگہ کو ظاہر کرنے کے لئے اُن کے اوپر ہمزہ لگا دیا گیا ہے۔
لیکن یہ اس معاملے کی ایک سادہ سی تشریح ہے۔ کیونکہ واؤ اور ی کے حروف بیک وقت واول بھی ہیں اور کانسونینٹ بھی۔ خاص طور پر ’ی‘ کا چلن خاصا ٹیڑھا ہے اور کئی بار یہ بولنے والے کے آبائی علاقے، طبقے یا تعلیمی و تہذیبی پس منظر کے مطابق رنگ بدل لیتی ہے۔ چنانچہ ہمزہ کے استعمال میں ’ی‘ کی نیرنگیء طبع خاصے گُل کھلاتی ہے۔
ہندوستان کا اُردو داں طبقہ جو ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط سے بخوبی آگاہ ہے وہ آئے، جائے کے ہجّوں میں ہمزہ کی بجائے ’ی‘ کے دو نقطے لگانے کا رجحان رکھتا ہے کیونکہ ہندی میں ’آئے‘ کے عمومی ہجّے (آ + یے) ہیں اور اکثر علاقوں میں دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنے کی بجائے اعلانیہ ادا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے، یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
پہلی مثال میں ہمزہ غائب ہے اور صرف ’ی‘ سے کام چلایا گیا ہے جبکہ دوسری مثال میں درمیانی ’ی‘ غائب ہے صرف ہمزہ سے کام چلایا گیا ہے۔ ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔
اب یہاں معاملہ ذاتی پسند یا نا پسند کا بھی آجاتا ہے چنانچہ ہمارے خیال میں پہلی مثال (کیے، دیے) کی تقلید تو ہرگز نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس میں دو واول آوازوں کے ملاپ کی نشانی (ء) استعمال نہیں کی گئی۔ باقی دو صورتوں میں سے کوئی ایک اپنا کر اسے اُردو میں مستقل رواج دے دینا چاہیئے۔
ہمارا ذاتی ووٹ تیسری اور آخری صورت کی طرف ہے کیونکہ یہ مکمل ترین ہجّے ہیں اور تعظیمی خطاب میں خاص طور پر اِن کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ہمزہ اور ’ی‘ کی شمولیت کے بغیر ادب آداب سے پکارنے کے الفاظ واضح طور پر نہیں لکھے جا سکیں گے۔ مثلاً درج ذیل تعظیمی صیغوں پر نگاہ ڈالئیے۔
آئیے، فرمائیے۔ کھائیے، لائیے۔ اگر اِن الفاظ میں ’ی‘ کے دو نقطوں کا اضافہ نہ کیا جائے تو پھر یہ
آئے، جائے، فرمائے اور کھائے سے مختلف نہ رہیں گے۔
اگر پہلے رکن کا اختتامی واول دوسرے رکن کے ایسے ابتدائی واوال میں ضم ہو رہا ہو جو او یا اُو کی آواز دے رہا ہو تو ہمزہ دوسرے رکن کے واؤ پر آئے گا۔ مثلاً آؤ۔ جاؤ۔ لیکن خاص طور پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جب پہلا رکن بھی واؤ پر ختم ہو رہا ہو، مثلاً
اگر میں اسکو چُھوؤں تو وہ شرماجائے۔
جب تم پیر دھوؤ تو خشک ضرور کرنا۔
آپ نے دیکھا کہ اِن صورتوں میں ہمزہ ہمیشہ دوسرے واؤ پر آتا ہے۔
خلاصہ کلام:
• ہمزہ کی علامت دو واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرتی ہے۔
• ِلئے، دِئے، کِئے وغیرہ کو کئی طرح سے لکھا جا تا ہے لیکن مکمل
ترین ہجّے وہ ہیں جن میں ہمزہ اور ی دونوں استعمال ہوں۔
• تعظیمی خطاب آئیے، لائیے، کھائیے میں بھی یہی املائی اصول مدِنظر رکھنا چاہیئے۔
• جب دو واؤ متصّل ہوں تو ہمزہ دوسرے واؤ پر آئے گا مثلاً آنسو کی قیمت، لیکن آنسوؤں کا دریا۔
بی بی سی نے اسے بشکل فورم شائع کیا ہے، شائقین بی بی سی پر بھی اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔
ربط
اُردو میں ہمزہ کے استعمال سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ تو لاعلمی کے باعث اور کچھ اپنا نقطہء نظر دوسروں پر تھوپنے کی عادت کے باعث۔
انیسویں صدی کے کئی اُردو قواعد نویسوں نے ہمزہ کو حروفِ ابجد میں شامل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری بھی اسے حروفِ تہجّی میں شامل کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اسے زیر، زبر، پیش کی طرح ایک علامت قرار دیا ہے۔
قواعدِ اُردو میں مولوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں۔‘‘
مولوی عبدالحق جیسے عالمِ اُردو اور جیّد قواعد داں نے بھی ہمزہ کے بیان میں ٹھوکر کھائی ہے کیونکہ ہمزہ ہرگز مدّ والا کام نہیں کرتا۔ یعنی آواز کو کھینچ کر لمبا نہیں کرتا۔
ابواللیث صدیقی اُردو کے ایک مُستند قواعد نویس ہیں انھوں نے ہمزہ کے مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن انھوں نے بھی چونکہ تجزیئے کے روائتی اوزار استعمال کئے ہیں اس لئے معاملے کو پوری طرح سلجھا نہیں سکے۔ مثلاً مولوی عبدالحق کے تتبع میں انھوں نے بھی لکھا ہے کہ ہمزہ ہمیشہ ی یا واؤ کے ساتھ آتا ہے لیکن ی اگر لفظ کے آخر میں ہو تو ہمزہ لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً رای یا راے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔
اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔
اگر اس اصول کو درست مان لیا جائے تو پھر آئے، جائے وغیرہ میں بھی ہمزہ فالتو شمار ہونا چاہیئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ہمزہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اِملاء کی نہیں صوتیات کی تفہیم ضروری ہے اور ہم اب اُسی طرف آنے والے ہیں لیکن پہلےہمزہ کی علامت کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔
عربی املاء میں کوئی رکن (سِلے بل --Syllable ) واول سے شروع نہیں ہوسکتا۔
ی اور واٰؤ جب لفظ کے شروع میں ہوں تو یہ حروفِ صحیح (کانسو نینٹ) شمار ہوتے ہیں اور جو الفاظ بظاہر الف سے شروع ہوتے ہیں وہ دراصل ’ء‘ سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ عربی میں الف بذاتِ خود کوئی آواز نہیں رکھتا اور محض ہمزہ کو واضح طور پر دکھانے کے لئے – یعنی اس کی نشان دہی کے لئے – ایک سیدھی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ عربی میں ہمزہ ایک واول نہیں بلکہ کانسونینٹ آواز ہے۔
اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔ مثلاً عربی میں کوئی لفظ یا رکن واول آواز سے شروع نہیں ہو سکتا لیکن اُردو میں بے شمار الفاظ واول سے شروع ہوتے ہیں۔ جیسے اُبٹن، اُبال، اِکائی، اِکاون، انداز، انجان وغیرہ۔ چنانچہ اہلِ اُردو نے عربی املا میں سے الف لے کر اسے واول آوازوں کا آلہ بنایا۔ اُردو میں بھی الف بذاتِ خود محض ایک سیدھی لکیر ہے اور کسی آواز کی نمائندگی نہیں کرتا، البتہ جب اِس پر زبر یا پیش پڑتی ہے یا اسکے نیچے زیر لگا دی جاتی ہے تو اس میں مخصوص واول آواز پیدا ہو جاتی ہے۔
’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آحری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔
(جب کوئی علامت نہ ہو تو تب بھی اس پر زبر تصّور کیا جاتا ہے) ظاہر ہے کہ الف کا یہ خصوصی اہتمام لفظ کی ابتداء کے لئے کیا گیا ہے۔ باقی تمام حروفِ صحیح پر تو زیر، زبر، پیش لگ ہی جاتی ہے۔
عربی نظامِ ہجّا کو ایک ہندوستانی زبان کے استعمال میں لانے کےلئے اس طرح کی راہ نکالنا ضروری تھا۔ خیر یہ تو ہوا الف کا استعمال جِسے ہم نے عربی املاء سے حاصل کیا اور اسے ہمزہ سے آزاد کر کے اس پر واول آوازوں کے اعراب لگا لِئے – لیکن خود ہمزہ کا کیاہوا؟
اہلِ اُردو نے اسے بھی اپنایا لیکن عربی کی طرح ایک حرفِ صحیح (کانسو نینٹ) کے طور پر نہیں بلکہ واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرنے والی علامت کے طور پر۔ اسکی وضاحت چند مثالوں سے ہو جائے گی۔ البتہ مثالیں پیش کرنے سے پہلے رکن یعنی سِلےبل کے تصوّر کو واضح کرنا ضروری ہے۔
تلفظ کی مختصر ترین اکائی کو رکن کہا جاتا ہے ۔ مثلاً سُن گُن کے لفظ میں دو ارکان ہیں سُن اور گُن۔ ’میرا‘ میں پہلا رکن ہے ’مے‘ اور دوسرا رکن ہے ’را‘۔ گویا ’میرا‘ کا لفظ بھی دو رکنی ہے۔ اسی طرح ’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آحری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسرا رکن ’کس‘ ایک کانسو نینٹ پر ختم ہو رہا ہے۔ اسی طرح آخری دو ارکان (تا اور نی) بھی واول آواز پر ختم ہو رہے ہیں۔ یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد ہم اصل مسئلے کا رُخ کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اُردو میں ہمزہ کی بذاتِ خود کوئی صَوت
(آواز) نہیں ہے اور الف کی طرح یہ بھی دیگر آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یعنی جسطرح الف اپنے اوپر لگی ہوئی (یا تصّور کی ہوئی) زبر یا پیش کی نمائندگی کرتا ہے یا اپنے نیچے لگی ہوئی زیر کی آواز کا آلہ کار بنتا ہے اُسی طرح ہمزہ خود کوئی آواز نہیں دیتا بلکہ دو واول آوازوں کے مقامِ اتصّال کی خبر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ذیل کے الفاظ کو دیکھیئے:
آئی۔ آئے۔ جاؤ۔ لاؤ۔
اِن لفظوں کی تقسیم، ارکان میں یوں ہو گی۔
آ + ای
آ + اے
جا + او
لا + او
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ہر مثال میں پہلا رکن ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے اور دوسرا رکن ایک واول آواز سے شروع ہو رہا ہے چنانچہ دونوں کے مِلاپ کی جگہ کو ظاہر کرنے کے لئے اُن کے اوپر ہمزہ لگا دیا گیا ہے۔
لیکن یہ اس معاملے کی ایک سادہ سی تشریح ہے۔ کیونکہ واؤ اور ی کے حروف بیک وقت واول بھی ہیں اور کانسونینٹ بھی۔ خاص طور پر ’ی‘ کا چلن خاصا ٹیڑھا ہے اور کئی بار یہ بولنے والے کے آبائی علاقے، طبقے یا تعلیمی و تہذیبی پس منظر کے مطابق رنگ بدل لیتی ہے۔ چنانچہ ہمزہ کے استعمال میں ’ی‘ کی نیرنگیء طبع خاصے گُل کھلاتی ہے۔
ہندوستان کا اُردو داں طبقہ جو ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط سے بخوبی آگاہ ہے وہ آئے، جائے کے ہجّوں میں ہمزہ کی بجائے ’ی‘ کے دو نقطے لگانے کا رجحان رکھتا ہے کیونکہ ہندی میں ’آئے‘ کے عمومی ہجّے (آ + یے) ہیں اور اکثر علاقوں میں دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنے کی بجائے اعلانیہ ادا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے، یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
پہلی مثال میں ہمزہ غائب ہے اور صرف ’ی‘ سے کام چلایا گیا ہے جبکہ دوسری مثال میں درمیانی ’ی‘ غائب ہے صرف ہمزہ سے کام چلایا گیا ہے۔ ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔
اب یہاں معاملہ ذاتی پسند یا نا پسند کا بھی آجاتا ہے چنانچہ ہمارے خیال میں پہلی مثال (کیے، دیے) کی تقلید تو ہرگز نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس میں دو واول آوازوں کے ملاپ کی نشانی (ء) استعمال نہیں کی گئی۔ باقی دو صورتوں میں سے کوئی ایک اپنا کر اسے اُردو میں مستقل رواج دے دینا چاہیئے۔
ہمارا ذاتی ووٹ تیسری اور آخری صورت کی طرف ہے کیونکہ یہ مکمل ترین ہجّے ہیں اور تعظیمی خطاب میں خاص طور پر اِن کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ہمزہ اور ’ی‘ کی شمولیت کے بغیر ادب آداب سے پکارنے کے الفاظ واضح طور پر نہیں لکھے جا سکیں گے۔ مثلاً درج ذیل تعظیمی صیغوں پر نگاہ ڈالئیے۔
آئیے، فرمائیے۔ کھائیے، لائیے۔ اگر اِن الفاظ میں ’ی‘ کے دو نقطوں کا اضافہ نہ کیا جائے تو پھر یہ
آئے، جائے، فرمائے اور کھائے سے مختلف نہ رہیں گے۔
اگر پہلے رکن کا اختتامی واول دوسرے رکن کے ایسے ابتدائی واوال میں ضم ہو رہا ہو جو او یا اُو کی آواز دے رہا ہو تو ہمزہ دوسرے رکن کے واؤ پر آئے گا۔ مثلاً آؤ۔ جاؤ۔ لیکن خاص طور پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جب پہلا رکن بھی واؤ پر ختم ہو رہا ہو، مثلاً
اگر میں اسکو چُھوؤں تو وہ شرماجائے۔
جب تم پیر دھوؤ تو خشک ضرور کرنا۔
آپ نے دیکھا کہ اِن صورتوں میں ہمزہ ہمیشہ دوسرے واؤ پر آتا ہے۔
خلاصہ کلام:
• ہمزہ کی علامت دو واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرتی ہے۔
• ِلئے، دِئے، کِئے وغیرہ کو کئی طرح سے لکھا جا تا ہے لیکن مکمل
ترین ہجّے وہ ہیں جن میں ہمزہ اور ی دونوں استعمال ہوں۔
• تعظیمی خطاب آئیے، لائیے، کھائیے میں بھی یہی املائی اصول مدِنظر رکھنا چاہیئے۔
• جب دو واؤ متصّل ہوں تو ہمزہ دوسرے واؤ پر آئے گا مثلاً آنسو کی قیمت، لیکن آنسوؤں کا دریا۔
بی بی سی نے اسے بشکل فورم شائع کیا ہے، شائقین بی بی سی پر بھی اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔
ربط