زیف سید نے کہا:عزیز دوستو:
میرا خیال تھا کہ میں نے اپنے مضامین میں ایک بڑا اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ اردو زبان کے نام کا لشکر سے تعلق نہیں ہے بلکہ چونکہ دہلی شہر کو اردو کہا جاتا تھا اس لیے وہاں بولی جانے والی زبان کا نام اردو پڑ گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ ادھر ادھر کی باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن موضوعِ زیرِ بحث کی طرف کوئی آتا ہی نہیں۔ لگتا ہے مضمون کسی نے پڑھا ہی نہیں۔ یقیناً قصور میری کڈھب انگریزی کا ہو گا۔
شاید کوئی بندہِ خدا آجائے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
زیف
قیصرانی نے کہا:دوسرا اسی فورم کے ایک نہایت ہی محترم دوست جناب تفسیر صاحب نے اپنی پوسٹمیں اردو کا ماخذ لشکرکو قرار دیا ہے۔ ابھی اس سلسلے میں کافی الجھن ہے۔ اس کو اگر رفع کر سکیںتو۔ آپ دونوںدوست نہایت محترم ہیں۔ میںکسی کی بات کو جھٹلانے کے حوالے سے نہیں کہ رہا۔ مگر جب ایک ہی وقت میں دو مختلف باتیں ہو رہی ہوںتو انہیں سمجھنا ایک عام فہم انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
بےبی ہاتھی
شاہد احمد خان نے کہا:زیف آپ نے جو کھڑی بولی کی بابت تحقیق کی ہے کیا اس کو یہاں ہم لوگوںسے شیئر نہیںکریںگے ۔۔
زیف صاحب ،آپ کے منھ میں گھی شکر، جب اردو کی بات ہو تو اردو ہی میں سجتی ہے۔زیف سید نے کہا:شاہد احمد خان نے کہا:زیف آپ نے جو کھڑی بولی کی بابت تحقیق کی ہے کیا اس کو یہاں ہم لوگوںسے شیئر نہیںکریںگے ۔۔
شاہد بھائی: میں نے کھڑی بولی کے حوالے سے ایک زبردست بات کا پتا چلایا ہے۔ میںضرور شیر کروں گا (اور وہ بھی اردو میں، کس واسطے کہ تجربے سے ثابت کیا ہے کہ انگریزی کوئی نہیںپڑھتا۔ ) بس ادھر ذرا امتحانات کی گھنگور گھٹا سر پر تلی کھڑی ہے۔ ذرا یہ ابرِگراں بار کھل جائے تو پھر بات ہو گی۔
والسلام
زیف
میرا خیال ہے کہ زیف بھائی سے غلطی سے باذوق بھائی کا پیغام اوور رائٹ ہو گیا ہے۔ یعنی اقتباس کی بجائے قطع و برید۔باذوق نے کہا:جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیصرانی نے کہا:میرا خیال ہے کہ زیف بھائی سے غلطی سے باذوق بھائی کا پیغام اوور رائٹ ہو گیا ہے۔ یعنی اقتباس کی بجائے قطع و برید۔باذوق نے کہا:جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بےبی ہاتھی
زہے نصیب تفسیر بھائی۔ ہمیںتو جتنا بھی مل جائے اور جب بھی مل جائے، شکریہ کے ساتھ قبول ہے۔ یہ تو آپ کی بڑائی ہے کہ اپنی ریسرچ جو کہ ابھی اپنے تکمیلی مراحل میں ہے، کو ہمارے ساتھ اس فورم پر شیئر کر رہے ہیں۔ بہت شکریہ۔ باقی بابا فرید والی بات کافی من کو لگ رہی ہے۔ اس ضمن میںاگر وقت ہو تو کچھ مزید بھی فرما دیجئیے گا۔تفسیر نے کہا:قیصرانی نے کہا:میرا خیال ہے کہ زیف بھائی سے غلطی سے باذوق بھائی کا پیغام اوور رائٹ ہو گیا ہے۔ یعنی اقتباس کی بجائے قطع و برید۔باذوق نے کہا:جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بےبی ہاتھی
قصرانی صاحب
کیونکہ مجھے اپنی ریسریچ کو کاغذ پر لکھنے میں 6 ماہ سے ایک سال لگے گا - میں اس بحث میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ہاں اردو کو اردو کہنے سے پہلے اسکو دہلی میں ریختہ کہا گیا اس سے پہلے اس کو دکھنی کہا گیا۔ اردو کےہ اور بھی نام ہیں اور ایک زمانے میں بے نام بھی تھی اور اب بد نام ہے -
میری ہر بات کو ایک افسانہ کہیں گے
معلوم ہے مجھ کو سب دیوانہ کہیں ہے
انکھوں میں شرارت، ہونٹوں پر مسکراہٹ
کوئی کچھ بھی کہہ دے اس کو اترانہ کہیں گے
تفسر 2001
(یوں کہ آپ میری 5 قسط میں یہ پڑھیں گے میں یہاں اسکو درج کررہا ہوں
( اگر کسی طرح میں پوسٹ کرسکوں ۔۔۔۔۔ وہ ایک دوسری کہانی ہے۔۔۔۔۔ میں نے دوبار آن لائن ایڈیٹنگ کی کوشش کی لیکن آپکی محفل مجھے بتائے مجھ کو لاگ آف کردیتی ہے - ہر دفعہ مجھے شروع سے ایڈیٹنگ کرنی پڑتی ے۔ ۔۔۔ میں آپ سے اس کے متعلق علیحدہ سے بات کروں گا- شیاید آپ کے پاس اس کا جواب موجود ہو۔ اس لنک میں نہیں۔)
اسکریپٹ املا اور ہجوں اور تلفظ کی غلطیوں کے ساتھ
“صوفی بابا فرید کا انتقال ١٢٦٤ ہوا انہیں اردو کی پہلی نظم لکھنا کا اور اردو میں پہلی گفتگو کرنے کا امتیاز حاصل ہے ۔ یہ اردو کی ابتدا تھی ہ مانا کہ بابا فرید کے زمانے میں اس زبان کا نام اردو نہیں تھا - لیکن یہ زبان فارسی کو اور مقامی زبانوں کے جوڑ توڑ سے پیدا ہورہی تھی۔ اس زمانے کے معزز (elite ) فارسی بولتے تھے ، متوسط اور نیچلا طبقے کے لوگ مختلیف مقامی زبانیں بولتے تھے - بابا فرید نے زمانے میں ان سب زبانوں کی جوڑ توڑ شروع کی بابا فرید نے اس زبان کو پہلی بار صوفی خواجہ برُہان الدین بابا کی ملازمہ پر کیا - ملازمہ کئی مقامی زبان سے واقف تھی اور بابا فرید فارسی کے علم تھے اور مُقامی زبانوں کو سمجھتے تھے ۔ اس بات کا ہمارے پاس تاریخی شوت ہے۔ امیر خسرو (١٢٥٣-١٣٢٨) کو معزز اور نچلے طبقہ کی مختلف زبانون کو فاسی سےجوڑ نے کا امتیاز اسلےء ملا کیونکہ جو قدم بابا فرید نے اٹھایا تھا اس ے امیر خُسرو نے آے پڑھایا ۔ امیر خسرو کو فارسی کی شاعری میں مہارت تھی وہ اس زبان (اردو) کے ایک عمدہ شاعر ہیں۔ امیر خسرو کے پہلیاں اور گیت آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔
ایک گنی نے یہ گن کینا ، ہربل پنجرے میں دیدینا
ek guni nay gun keena Hariyal pinray mein dedeena
دیکھو جادوگر کا کمال ، ڈارے ہرا نکا لے لال
Deko jadoogar ka kamal daray hara nikaalay lal
بالا تھا جب سب کو بھایا بڑا ہوا کچھو کام نہ آیا
Baala tha jab sab ko bhaaya bada huva kuchu kaam na aaya
خسرو کیہ دیا اسکا ناؤں ارتھ کہو نہیں چھاڑو گاوں
Khusrau keh diya uska naav arth karo nahin chaado gaanv
“
اللہ حافظ
تفسیر
21 جون
لاس انجیلس
آپ غالباََ میرے لطیف اشارے کو نہیں سمجھے ۔۔۔نبیل نے کہا:باذوق، یہ آپ واقعی خود کو مخاطب کرنا چاہ رہے تھے؟