جناب زیف سید کا مضمون لشکری زبان قسط اول تا سوئم پڑھا ۔۔ سچ تو یہ ہے کہ زیف بھائی نے زبان کا حق ادا کردیا ،، بہت ہی علمی اور مدلل بحثکی ہے ، تاریخ لسانیات کے طلبا کے لئے یقینا عرفان اور آگئی کے کئی نئے ابواب کھل گئے ہیں۔۔۔۔۔۔جان گلکرسٹ یا فورٹولیم کے دیگر کرتا دھرتاوںنے وہی کیا جو انگریز کی کالونیل سوچ کے تحت وہ کر سکتے تھے ۔۔۔گلکرسٹ مقامیوں کی مادری زبان کے بارے میں ان کے نظریے کو قلم زد کرکے یک طرفہ ڈگری جاری کر دیتاہے۔ دوہی برس بعد گلکرسٹ ایک بار پھر بڑے پر تیقن لہجے میں لکھتاہے:
”ہندو قدرتی طور پر ہندی کی طرف جھکیں گے جب کہ ظاہر ہے مسلمان عربی اور فارسی کی نسبت جانب دارہوں گے۔ یوں دو نئے انداز جاری ہو جائیں گے۔
“
یہی وہ طرز فکر ہے جس نے اردو اور ہندی کا وہ جھگڑا شروع کیا جس نے بعد میں برصغیر کی تقسیم کے لئے راہ ہموار کی ۔۔۔
کھڑی بولی کی بابت زیف صاحب کی رائے اور تجزیہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ تاریخ
لسانیات کا طالب علم اس عینک کو اتار کر آنکھیںصاف کرے اور اس مصنوعی رابطے کے بغیر قدیم اور جدید زبان کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔۔ لیکن یہاںایک سوال اٹھتا ہے کہ آج کی زبان اور ہزار ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی بولی جانی والی زبان (بولی )کو کہاںتلاش کیا جائے اور اس کو کس نام سے پکارا جائے ۔۔۔زیف بھائی نے اردو اور ہندی کے الگ زبانیںہونے کے حوالے سے بحثبھی سمیٹدی ہے ۔۔۔۔۔دونوں زبانوں کا ماخذ اردو سہی، لیکن کیا جدید اردو اور جدید ہندی دو مختلف زبانیں ہیں؟اور جواب ہے، نہیں۔ لسانیات کا مانا ہوا اصول ہے کہ زبانوں کی تقسیم و تفریق اور درجہ بندی ان کے افعال کی بنا پر ہوتی ہے ، نہ کہ اسما کی بنیادپر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ زبانوں کے اسما بہت لچکدار ہوتے ہیں اور بڑی تیزی سے زبان کے ذخیرے میں داخل ہوتے اور نکلتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں افعال نسبتاً مستقل رہتے ہیں اور ان میں آسانی سے تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لسانیات میں افعال کو زبان کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔ ایک آخری بات کہ اس زبان کو ( اردو یا ہندی )جو ہم بولتے ہیںکس زبان کا فوری پرتو قرار دیا جا سکتاہے ۔۔ جواب زیف نے دیا ہے ۔۔۔۔بقول گیان چند جین ۔۔۔ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے محققین نے بڑی دقت نظری سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جدید پنجابی جس اپ بھرنشا سے نکلی ہے اسے پشاچی اپ بھرنشا کہا جاتا ہے جب کہ برج بھاشا شورسینی اپ بھرنشا کی ارتقائی شکل ہے۔ اردو زبان کی اپ بھرنشا کون سی ہے، اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور تاحال ماہرینِ لسانیات کسی سب کے لیے قابلِ قبول نتیجے تک نہیں پہنچ پائے۔ ۔۔ میرا اپنا خیال ہے کہ پنجابی اور صرف اور صرف پنجابی ہی وہ زبان ہے جس پر جدید اردو اور ہندی کی تعمیر ہوئی ہے ۔۔ زبان کا سوتی تاثر ہو یا الفاظ کا برتاو ،، پنجابی قدرتی طور پر فارسی اور عربی الفاظ کے برتنے میںاردو اور ہندی کی ہمسر ہے ۔۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔۔ کوئی بھی شخص مشرقی یا مغربی پیجاب کے پڑھے لکھے طبقے کی زبان سن کر بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس زبان کے لہجے کو سن رہا ہے ۔۔ صرف پنجابی ہی اس زبان کا اصل رنگ لئے ہوئے ہے جو سلطنت دہلی کے زمانے میںدہلی اور قرب و جوار میںبولی جاتی تھی اور جس سے اردو یا ہندی کا جنم ہوا ہے (وہی مسنگ لنک جس کو کھڑی بولی سے کنفیوز کیا جاتا ہے )۔۔ یہاںپنجاب یا پنجابی کو محدود نہ کیجئے گا ،، پنجاب کے علاقے میں پشاور سے دہلی تک شامل رہے ہیںاور کبھی تو پبجاب کے دریا کابل تک موجیںمارتےتھے ۔۔ ابھی تقسیم ہند تک دلی پنجاب کا حصہ تھی اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے نام سے انگریز نے کہیں1880 کےآس پاس پنجاب کے تین ضلعے الگ کر کے ایک نیا صوبہ بنایا تھا ۔۔۔۔ آخر میںزیف بھائی کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر ہمیں اتنے خوبصورت مضمون سے نوازا ،،، امید یہ زیف محبان اردو کو ممنون ہونے کے مزید مواقع فراہم کرتے رہیں گے ،، رہے نام اللہ کا ۔۔۔