اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم!

arifkarim

معطل
تو اس کروڑ ہا آبادی تک معیاری انگریزی تعلیم کے لیے اپنی جدوجہد لے جائیں۔ نا کہ باقی مانندہ معیاری انگریزی حاصل کرنے والوں کے گلے پڑ جائیں ؟
انگریزی معیار تعلیم اپنی جگہ درست ہے۔ اسے کون چھیڑ رہا ہے؟ جس کے پاس استطاعت ہے وہ بے شک ان سے استفادہ کرتا رہا۔ ہمارا ایشو تو بنیادی نظام تعلیم ہے جس سے پاکستانی عوام کی اکثریت مستفید ہو سکے۔ ہم نے یورپ میں آکر یہی سیکھا ہے کہ جب تک بچپن ہی سے عوام ایک معیار تعلیم سے پل کر نہ نکلے وہ ایک قوم کبھی بھی نہیں بن سکتی۔ مغرب میں پبلک اسکولنگ کا نظام کوئی دو سو سال سے قائم ہے۔ یہاں تو ہر ملک کو ترقی کیلئے انگریزی میڈیم بنانے کی ضرورت نہ پڑی۔ چین،جاپان، کوریا وغیرہ میں بھی اسکی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ پھر پتا نہیں انڈو پاک میں ایسا کیا ہے کہ انگریزی میڈیم کے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ اگر اردو میڈیم کا اسٹینڈرڈ انٹرنیشنلی کمزور ہے تو اسکو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ یہ کہ پورا کا پورا نظام تعلیم اول جماعت سے بالکل غیر زبان انگریزی میں کر دیاجائے۔ کہ جب بچہ اسکول کی عمارت سے باہر نکلے تو اسے پھلوں کی دکان میں سیب اور مالٹوں کی جگہ Apple اور Orange نظر آنے لگیں :)

گرا کھوتے سے ، غصہ کمہار پر۔
پرائیوٹ ادارے چلانے والے کسی قاعدے قانون کے قابو نہیں آ رہے تو انگریزی میڈیم تعلیم کیسے قصوروار ہوگئی۔
یعنی اگر کچھ ڈاکٹر اور پرائیوٹ کلینک والے لوٹ رہے ہیں تو ایلوپیتھی کی پریکٹس بند کر دی جائے ؟
یہاں قصور انگریزی میڈیم اداروں کا اسطرح ہے کہ ان میں فیسیں وصول کرنے کا کوئی معیار مقرر نہیں۔ فری مارکیٹ کا اصول ہے کہ جب سپلائی زیادہ ہو تو قیمتیں اپنے آپ نیچے آتی ہیں۔ ہمارے آبائی شہر روالپنڈی کے علاقہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں 90 کی دہائی تک دور دور ہی اسکول ہوتے اور فیسیں انتہائی مناسب۔ اب یہ حال ہے کہ گلی گلی میں نجی پرائیویٹ انگریزی میڈیم اسکول ہیں اور فیسیں ماشاءاللہ ہر اسکول کی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مجبوراً غربا اور متوسط طبقے کی اکثریت کو گورنمنٹ کے اردو میڈیم اسکولوں میں بچوں کو بھجوانا پڑتا ہے۔ 90 کی دہائی میں جب فیسیں مناسب تھیں تو انہی خاندانوں کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھتے تھے جو اب گورنمنٹ اسکولوں میں جانے پر مجبور ہیں۔
mohdumar

کینیڈا اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پاکستان کے انگریزی تعلیم یافتہ طلباء آتے ہیں اور بہترین نتائج دیکھاتے ہیں۔ اے لیول اور آئی بی تک پاکستان کے انگریزی تعلیم یافتہ کا امتحان لیتا ہے۔ آپ کا دعوی یہاں دھرے کا دھرا ہے۔ سوچ سمجھ کر تبصرہ لکھیے۔
یہی تو المیہ ہے کہ ہمارے انگریزی اسکولوں کی تعلیم بین الاقوامی لیول کی تو ہے پر اسکے فوائد سے ان اسکولوں میں پڑھنے والے محروم ہیں۔ جب آپکو تعلیم آپکے اپنے ملک کی بجائے دیار غیر میں پڑھنے یا کام کرنے کیلئے دی جا رہی ہو تو بتائیں ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ حکومت ایسی تعلیمی و معاشی پالیسی بنائے جہاں زیادہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو یہیں روزگار مل سکے، بجائے اسکے کہ ہمارے لائق فائق بہترین طالب عالم دوسرے ممالک میں جاکر اپنی قابلیت کا لوہا منواتے پھریں؟ یہ جو طالب علم ملک چھوڑ کر جاتے ہیں، ان میں سے کتنے فیصد واپس پاکستان آتے ہیں؟ کیا پاکستانی نظام تعلیم محض بیرونی ممالک کو اپنے قابل ترین طالب علموں کی ایکسپورٹ کا ایک ذریعہ ہے؟ تاکہ جو نالائق جاہلین یہاں باقی بچیں وہی اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں۔ کیونکہ سب سے زیادہ ذہین بچے تو یورپ و امریکہ میں تعلیم حاصل کر کے وہیں سکونت اختیار کر چکے ہیں :)

نہ تو یہ محض میرا انفرادی مسئلہ ہے اور نہ ہی اس مسئلے کی جڑیں کسی نزلہ زکام میں ہیں۔ یہ اس پسماندہ اردو میڈیم نظام تعلیم کا ثمر ہے۔
پھر تو میں نے اوپر درست بات ہی کہی کہ اصل فساد کی جڑ یہ فرسودہ اردو میڈیم اسکولنگ سسٹم ہے۔ اور اسکا حل سب کو انگریزی میڈیم میں کنورٹ دینا ہرگز نہیں۔

لوجی یہ تو بحث ہی ختم !
پہلے ہی اندازہ تھا کہ اردو میڈیم اور اس کے زہریلے اثرات سے آپ کا دور پات کا کوئی واسطہ نہیں، بس شوق ہے نظریاتی بحث کا!
آپ کی کرم فرمائی ہے کہ انگریزی میڈیم سکول میں اردو لگژری کے طور پر پڑھ کر اردو میڈیم نظام پر وکالت کا احسان کرنے چلے ہیں۔ تحریک نفاذ اردو کو چاہیے کہ آپ کو اپنا راہنما۔۔ میرا مطلب ہے لیڈر منتخب کرلیں۔
باقی جس طرح آپ نے اپنے انگریزی میڈیم سکول میں اردو کا ایک پیریڈ برداشت کیا تو اسی طرح پاکستان بھر کے اردو میڈیم سکولوں میں انگریزی کے ایک پیریڈ برداشت کرنے کا رواج ہے۔ اس کے معیار کو بہتر کریں۔ نا کہ نظام ہی کو ختم کریں ؟
ہاہاہا! آپکو کیا معلوم ہم نے اس انگریزی-اردو COMBO اسکول میں اپنی زندگی کے 7 سال کس اذیت سے گزارے؟ اردو کا پیریڈ تو کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا کہ دینیات، اسلامیات وغیرہ بھی اردو ہی میں تھے۔ باقی حسابیات، سائنس، معاشرتی علوم وغیرہ انگریزی میں تھے لیکن ٹیچرز تو اردو دان ہی تھے۔ یوں اکثر و پیشتر کافی مضحکہ خیز قسم کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار کسی اور اسکول کےانسپکٹر آئے اور آکر انگریزی میں سوالات شروع کر دئے۔ طلباء توطلباء خود اساتذہ کا انگریزی میں جواب دینا مشکل تھا۔ یوں ہم نہ تیتر بنے نہ بٹیر۔ بس انگریزی و اردو کا ایک ملغوبہ سا تیار ہوتا تھا جسکی وجہ سے کسی ایک بھی زبان پر دسترس حاصل کرنا مشکل تھا۔ ویسے تو ہم کلاس میں پوزیشن ہولڈرتھے اور 5ویں کے بعد سے اول آتے رہے لیکن اس مکس نظام تعلیم نے ہماری زندگی پر بہت مضر اثرات مرتب کئے۔
الحمدللہ آٹھویں جماعت میں ناروے تشریف آوری کے بعد ان مسائل پر قابو پا لیا جب سے تمام تعلیم نارویجن میں ہی حاصل کی۔ ہم صرف اپنے اسکول اسلئے دعائیں دیتے ہیں کہ انکی سکھائی ہوئی انگریزی کی وجہ سے ہمیں نارویجن سیکھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ باقی اردو کا حال وہ تو آپکے سامنے ہی ہے :)

اردو میڈیم کی وقعت ہی اتنی ہے کہ اس میں اعلیٰ کچھ بھی ممکن نہیں۔ ہم تجربے سے اس حقیقت کو جان چکے ہیں۔
جزاک اللہ۔ اس معیار تعلیم کے نقصانات پر بھی کچھ روشنی ڈال دیں۔

اول تو جیسا کہ بارہا کہا کہ آپ کی خواہش کے مطابق پاکستان میں ایسا ہی ہے۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو دس بارہ سال اردو میں جھک مارتی ہے اور ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھتی ہے۔ کون روک رہا ہے ؟
دس بارہ سال اگر اردو میں سب کچھ پڑھتی ہے اور پھر بھی انگریزی میں یہی کچھ پڑھنا مشکل لگتا ہے ، اسکا مطلب اردو کا معیار تعلیم انتہائی ناقص ہے ۔ کیونکہ اگر آپ کو ہر مضمون کے بنیادی خواص مادری زبان میں ازبر ہوچکے ہیں تو انگریزی میں انہیں کنورٹ کرنا کیونکر مشکل ہوگا؟ ہم نے تجربتاً ایک بار کسی دوست سے کیمسٹری، فزکس اور حسابیات کی نصابی کتب اردو میں لی تھیں میٹرک والی۔ اور پھر انکا انگریزی نصابی کتب سے موازنہ کیا تھا۔ اسوقت تو انکے نصاب میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اردو کا نصاب کسی اور ہی صدی کا لگ رہا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ اصل مسئلہ زبان میں نہیں معیار تعلیم میں ہے۔ اگر اردو معیار تعلیم کو نصابی اعتبار سے انگریزی نصاب کے مطابق سیٹ کر دیا جائے اور وہی چیزیں جو انگریزی میں پڑھاتے ہیں اردو یا کسی اور مادری زبان میں پڑھائی جائیں تو اسکی بنیاد پر آگے انگریزی میں پڑھنا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ کم از کم میرا نارویجنوں کیساتھ تعلیم حاصل کر کے یہی تجربہ ہے۔

ہم پر دس سال اردو میڈیم تعلیم حاصل کرنے کے بعد آشکار ہوا کہ آگے سب کچھ انگریزی میں ہے۔ اس وقت ہم نے خود سے پوچھا کہ پچھلا سب کچھ بھی اسی انگریزی میں کیوں نہیں تھا ؟
اس دورا ن میں آپنے انگریزی کتنی اور کس کوالٹی کی حاصل کی؟

.I could care less
اسے آپ نے اپنے موقف کے حق میں استعمال کیا ہے نا کہ میں نے۔
میں نے صرف ریسرچ کو کوٹ کیا ہے۔ آپکا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ جیسے ہم اکثر ریسرچ پڑھتے رہتے ہیں کہ کنڈرگارڈنز میں 1 سے 3 سال تک کے بچوں کا گھنٹوں قیام انکی نشونما کیلئے بہت اچھا ہے۔ جبکہ میں نے آج تک اس ریسرچ پر یقین نہیں کیا کہ ان کی اکثریت خود کنڈر گارڈن ایسوسی ایشنز والوں نے پیسے دیکر کروائی ہوتی ہے۔ ہر ریسرچ غیر جانبدار نہیں ہوتی۔

آپ کے اپنے ہی موقف کو کمزور کرتے تین پوائنٹس!
پہلا پوائنٹ سامی لوگوں کے بارہ میں ہے جنکی انتہائی قلیل آبادی کی وجہ سے انکی آبائی زبان قریباً ناپید ہو رہی ہے۔ اسکو برقرار رکھنے کیلئے تمام سامی بچوں کو بنیادی تعلیم انکی مادری زبان ہی میں دی جاتی ہے۔ یہ میرا ایک پلس پوائنٹ ہوا۔
دوسرا پوائنٹ میری مادری زبان اردو کے بارہ میں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جس انگریزی اسکول میں میں نے پڑھا، وہاں مسائل ہونے کے باوجود انتظامیہ نے اردو و انگریزی پر یکساں زور دیا۔ یوں ایک ملغوبہ بننے کے باوجود ہم دونوں زبانیں کافی حد تک لکھنے پڑھنے کے قابل ہو گئے۔
اور آخری پوائنٹ اردو کی انٹرنیٹ پر زدحالی کے بارہ میں ہے۔ اگر اس زبان میں مواد انگریزی کی طرح زیادہ مقدار میں ملتا تو کوئی بعید نہیں تھا کہ ہم اسی میں زیادہ وقت نیٹ گردی کرتے۔ جیسا کہ فارسی اور چینی اپنی قومی زبانوں ہی میں زیادہ تر نیٹ گردی کرتے ہیں بجائے انگریزی کے۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
مجھے یاد ہے 1998 میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک سال میں ملک سے سود کے نظام کو ختم کرنے کا آرڈر دیا تھا۔

لگتا ہے اس بار بھی ایسی ہی ایفیشنسی دکھانے کی کوشش ہو رہی ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے اس فیصلے میں کوئی سنجیدگی اور وہ حرارت نظر نہیں آرہی جو اس کی اہمیت کی متقاضی اور شایاں ہو۔ شاید اس کی وجہ یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں عدالتوں کی سنتا کون ہے ۔ اور دوسرا تاثر یہ بھی کہ قوانین تو بہر حال سب موجود ہی ہیں مسئلہ تو ہمیشہ عمل درامد کا رہا ہے ۔ چناں چہ اس خبر کے بطن س برامد ہونے والا شاید ہی کچھ مفید ہو سکے۔اللہ کرے کچھ اچھا اقدام بھی ہو۔
 

موجو

لائبریرین
یہ فیصلہ قابل تحسین ہے
انتہائی جامع ہے جس میں قومی زبان کو اپنانے کی سب سے بنیادی اور بڑی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ آئن کی پابندی ہر شہر ی کا فرض ہےریاست کا کوئی شہری اس آئنی ذمہ داری سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا چاہے وہ حکمران ہی کیوں نہ ہو اس لیے یہ بھی لازمی ہے کہ ہر شہری اپنے اوپر لاگو ہونے والے قوانین کو آسانی سے سمجھ سکے۔
اسی طرح یہ بھی"جب ریاست اس بات پر مصر ہوجائے کہ وہ زبانیں جو پاکستانی شہریوں کی اکثریت بولتی ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان میں ریاستی کام انجام پاسکے تو پھر ریاست ان شہریوں کو حقیقی معنوں میں ان کے انسانی وقار سے محروم کررہی ہے۔ اسی طرح جب ریاست پاکستانی شہریوں کو معاشی اور سیاسی مواقع تک رسائی سے اس بناء پر محروم کردے کہ وہ اپنی قومی یا صوبائی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں مگر انگریزی زبان نہیں جانتے تو وہ ان کو قانون کی نظر میں برابری کے حق سے محروم کردیتی ہے۔"
اس میں ادارہ فروغ قومی زبان کی سفارشات بھی شامل کی گئی ہے جس کے مطابق۔اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اپنانے کے لیے انٹرمیڈیٹ سے آغاز کرکے ایم ائے، ایم ایس سی، ایل ایل ایم اور سی ایس ایس تک کے تمام امتحانات اردو میں منعقد کرنے کا ذکر ہے۔یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ ہر ایک ڈویژن میں ایک ماڈل اردو سکول قائم کیا جائے اور پی ایچ ڈی کے مقالات کا اردو ترجمہ کیا جائے اور تمام نئے مقالات کا ایک خلاصہ اردو میں دینا ضروری قرار دیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی قومی زبانی سے عدم دلچسپی بلکہ دشمنی واضح کرنے کے لیے عدالت کے2015 میں جاری کردہ 14 حکم ناموں پر ہونے والی کاروائی کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
ایک بہت اہم جملہ
"اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا"
اس سے بہت سے راستے کھل جائیں گے۔
---
عارف بھائی نے یہ جو درج ذیل جملہ لکھا ہے یہ فیصلے کا نہیں بلکہ اکادمی ادبیات کے سربراہ کے بیان کا حصہ ہے۔
"انہوں نے کہا کہ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ترجمہ کرتے وقت ایسے الفاظ کے انتخاب سے بچا جائے جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔ انہوں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ درجہ حرارت ماپنے والے آلے "تھرما میٹر" کا اردو ترجمہ "مقیاسُ الحرارت " کیا گیا جسے پڑھنے والوں نے سر پکڑ لیے اور کہا کہ یہ لفظ تو بہت مشکل ہے لہذا تھرما میٹر کہنا ہی ٹھیک ہے۔"
 
آخری تدوین:

موجو

لائبریرین
احباب ہماری محفل میں ایک اردو ورڈ بینک ہوا کرتا تھا وہ کہا ں گیا؟
اسی طرح کچھ اور ٹولز بھی تھے فی الحال تو یہی یاد آرہا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ایک مرتبہ درجہ حرارت ماپنے والے آلے "تھرما میٹر" کا اردو ترجمہ "مقیاسُ الحرارت " کیا گیا جسے پڑھنے والوں نے سر پکڑ لیے اور کہا کہ یہ لفظ تو بہت مشکل ہے لہذا تھرما میٹر کہنا ہی ٹھیک ہے۔"
حالانکہ یہ ایک لفظ کوئی ایسی بند گلی نہیں ہے جِس میں آکر اُردو کے آگے بڑھنے کی راہیں ہی مسدود ہو جائیں۔ تھرمامیٹر کو حرارت پیما کہنے میں کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے اور اگر تھرمامیٹر لکھنے پر ہی کسی کا اصرار رہے تو بھی کُچھ مضائقہ نہیں کہ جو غیرالفاظ زبان زد عام ہو جائیں تو وہ غیر رسمی طور پر اُس زبان کا حِصّہ ہی بن جاتے ہیں اور اُردو کا تو یہ خاصا ہے کہ یہ وسیع القلبی سے دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لیتی ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
اگر انگریزی کی علمی زبان میں کسی کو 'ہیومن اسٹڈی' کی جگہ پر یونانی الاصل ترکیب 'اینتھروپولوجی' کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو اُسے اردو زبان میں 'تھرمامیٹر' کی جگہ پر 'مقیاس الحرارت' یا 'حرارت پیما' کے استعمال پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہر زبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تاریخی اور ثقافتی طور پر اجنبی زبانوں سے الفاظ مستعار لینے کی بجائے اپنے لسانی و تمدنی سرمائے سے نئے خیالات کے لیے الفاظ وضع کرتی رہے۔ انگریزی سمیت دنیا کی ہر طاقت ور اور علمی ذریعہ ہونے کی مدّعی زبان اسی پر عمل پیرا ہے۔ لہٰذا، اگر اردو بھی علمی زبان بننے کے لیے اسی طرزِ عمل کو اپنائے تو یہ کوئی خارق العادت بات نہیں ہے، اور ہمارا اس پر نکتہ چینی کرنا صرف اس بات کا غمّاز ہو گا کہ ہم اردو کو ایک قابلِ عزت علمی زبان کی حیثیت سے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
اردو کی علمی اصطلاحات سے یہ خوف و گریز بے بنیاد اور غیر علمی ہے۔ اگر کوئی اصطلاح ہمیں 'مشکل' لگتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ اصطلاحیں ہمارے استعمال میں نہیں ہیں یا نہیں رہی ہیں۔ اگر ایک بار وہ نافذ اور مستعمل ہو جائیں تو وہ چاہے ابتدا میں کتنی ہی ناآشنا محسوس ہوں، انجامِ کار وہ اصطلاحیں ہمارے شعور اور ہماری انفرادی زبان کا زندہ حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اصطلاحیں محض الفاظ ہیں، جنہیں کوئی بھی عام ذکاوت والا شخص دو تین بار پڑھ کر آسانی سے اپنی یادداشت میں محفوظ کر سکتا ہے۔ اصطلاحیں یا الفاظ سیکھنے کا عمل، کسی دوسری زبان کے قواعدِ صرف و نحو سیکھنے کی نسبت کئی درجے آسان کام ہے۔ اس کی عام مثالیں آپ اپنے گرد و پیش دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے ایسے افراد جو انگریزی کا صرف معمولی علم رکھتے ہیں، انگریزی اصطلاحوں سے خوب واقف ہیں، کیونکہ کسی بھی زبان کے محض الفاظ سیکھنا کوئی دشواری کی بات نہیں ہوتی۔ جب اجنبی زبانوں کے الفاظ یا اصطلاحیں سیکھنا اتنا آسان ہے، تو پھر ہمارا اردو کی وضع شدہ اصطلاحوں سے واقفیت حاصل کرنا بھی سہل ہی ہو گا۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ریاستِ حیدرآباد دکن کی جامعۂ عثمانیہ میں اردو زبان اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ تھی۔ اگر اُس جامعہ کی تدریسی کتابوں اور مطبوعہ کتابوں پر نگاہ ڈالی جائے تو واضح ہو گا کہ اُنہوں نے اپنی کتابوں میں تمام معروف و غیر معروف علمی کلمات کا اردو میں ترجمہ کر لیا تھا اور اردو کی ایک مہذب اور آبرومند علمی شکل کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ وہاں دہائیوں تک اسی زبان کے ذریعے تدریس کا عمل کامیابی سے جاری رہا۔ یہاں اس بات پر کوئی بحث مقصود نہیں کہ ذریعۂ تعلیم اردو ہو یا انگریزی، صرف اس بات پر توجہ دلانا مطلوب ہے کہ اردو میں علمی و فنی وضع شدہ اصطلاحیں ایک زمانے میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہوتی رہی ہیں اور مطبوعات اور علمی حلقوں میں رائج اور بر نوکِ زباں رہی ہیں۔ اس لیے خانہ زاد اصطلاحوں کو ناقابلِ استعمال کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اگر ایران اور بلادِ عرب کے اخبارات یا وہاں شائع ہونے والی علمی کتابوں کو چشمِ عبرت کے ساتھ دیکھا جائے تو اردو زبان کی تہی دامنی اور کم مایگی کا احساس شدت سے دامن گیر ہوتا ہے۔ وہ ممالک اپنی زبانوں کو جس مرحلۂ تکامل پر نائل کر چکے ہیں، اُس کی جانب قدم اٹھانے کا ہم نے ابھی تک آغاز ہی نہیں کیا ہے۔ میں نے ایران اور عرب ممالک کی مثال صرف اس لیے دی ہے کیونکہ اردو پر بات کرتے ہوئے عموماً انہی کا حوالہ دیا جاتا ہے، ورنہ تو جنگ زدہ افغانستان میں بھی فارسی اور پشتو کی حالت بری نہیں ہے۔
اس بات سے تو کاملاً اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ اردو کی خانہ زاد علمی اصطلاحوں کو حتی الامکان سریع الفہم ہونا چاہیے (اگرچہ ہر زبان میں علمی اصطلاحیں مبتدیوں اور عام لوگوں کے لیے مشکل ہی ہوتی ہیں)، لیکن بے جا اعتراضات کر کے وضعِ اصطلاح کے لائقِ تحسین و ستائش عمل پر خطِ تنسیخ پھیرنے کی کوشش کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
 
آخری تدوین:
اگر انگریزی کی علمی زبان میں کسی کو انگریزی الاصل ترکیب 'مین لور' کی جگہ پر یونانی الاصل ترکیب 'اینتھروپولوجی' کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو اُسے اردو زبان میں 'تھرمامیٹر' کی جگہ پر 'مقیاس الحرارت' یا 'حرارت پیما' کے استعمال پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہر زبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تاریخی اور ثقافتی طور پر اجنبی زبانوں سے الفاظ مستعار لینے کی بجائے اپنے لسانی و تمدنی سرمائے سے نئے خیالات کے لیے الفاظ وضع کرتی رہے۔ انگریزی سمیت دنیا کی ہر طاقت ور اور علمی ذریعہ ہونے کی مدّعی زبان اسی پر عمل پیرا ہے۔ لہٰذا، اگر اردو بھی علمی زبان بننے کے لیے اسی طرزِ عمل کو اپنائے تو یہ کوئی خارق العادت بات نہیں ہے، اور ہمارا اس پر نکتہ چینی کرنا صرف اس بات کا غمّاز ہو گا کہ ہم اردو کو ایک قابلِ عزت علمی زبان کی حیثیت سے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
اردو کی علمی اصطلاحات سے یہ خوف و گریز بے بنیاد اور غیر علمی ہے۔ اگر کوئی اصطلاح ہمیں 'مشکل' لگتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ اصطلاحیں ہمارے استعمال میں نہیں ہیں یا نہیں رہی ہیں۔ اگر ایک بار وہ نافذ اور مستعمل ہو جائیں تو وہ چاہے ابتدا میں کتنی ہی ناآشنا محسوس ہوں، انجامِ کار وہ اصطلاحیں ہمارے شعور اور ہماری انفرادی زبان کا زندہ حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اصطلاحیں محض الفاظ ہیں، جنہیں کوئی بھی عام ذکاوت والا شخص دو تین بار پڑھ کر آسانی سے اپنی یادداشت میں محفوظ کر سکتا ہے۔ اصطلاحیں یا الفاظ سیکھنے کا عمل، کسی دوسری زبان کے قواعدِ صرف و نحو سیکھنے کی نسبت کئی درجے آسان کام ہے۔ اس کی عام مثالیں آپ اپنے گرد و پیش دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے ایسے افراد جو انگریزی کا صرف معمومی علم رکھتے ہیں، انگریزی اصطلاحوں سے خوب واقف ہیں، کیونکہ کسی بھی زبان کے محض الفاظ سیکھنا کوئی دشواری کی بات نہیں ہوتی۔ جب اجنبی زبانوں کے الفاظ یا اصطلاحیں سیکھنا اتنا آسان ہے، تو پھر ہمارا اردو کی وضع شدہ اصطلاحوں سے واقفیت حاصل کرنا بھی سہل ہو گا۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ریاستِ حیدرآباد دکن کی جامعۂ عثمانیہ میں اردو زبان اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ تھی۔ اگر اُس جامعہ کی تدریسی کتابوں اور مطبوعہ کتابوں پر نگاہ ڈالی جائے تو واضح ہو گا کہ اُنہوں نے اپنی کتابوں میں تمام معروف و غیر معروف علمی کلمات کا اردو میں ترجمہ کر لیا تھا اور اردو کی ایک مہذب اور آبرومند علمی شکل کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ وہاں دہائیوں تک اسی زبان کے ذریعے تدریس کا عمل کامیابی سے جاری رہا۔ یہاں اس بات پر کوئی بحث مقصود نہیں کہ ذریعۂ تعلیم اردو ہو یا انگریزی، صرف اس بات پر توجہ دلانا مطلوب ہے کہ اردو میں علمی و فنی وضع شدہ اصطلاحیں ایک زمانے میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہوتی رہی ہیں اور مطبوعات اور علمی حلقوں میں رائج اور بر نوکِ زباں رہی ہیں۔ اس لیے خانہ زاد اصطلاحوں کو ناقابلِ استعمال کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اگر ایران اور بلادِ عرب کے اخبارات یا وہاں شائع ہونے والی علمی کتابوں کو چشمِ عبرت کے ساتھ دیکھا جائے تو اردو زبان کی تہی دامنی اور کم مائگی کا احساس شدت سے دامن گیر ہوتا ہے۔ وہ ممالک اپنی زبانوں کو جس مرحلۂ تکامل پر نائل کر چکے ہیں، اُس کی جانب قدم اٹھانے کا ہم نے ابھی تک آغاز ہی نہیں کیا ہے۔ میں نے ایران اور عرب ممالک کی مثال صرف اس لیے دی ہے کیونکہ اردو پر بات کرتے ہوئے عموماً انہی کا حوالہ دیا جاتا ہے، ورنہ تو جنگ زدہ افغانستان میں بھی فارسی اور پشتو کی حالت بری نہیں ہے۔
اس بات سے تو کاملاً اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ اردو کی خانہ زاد علمی اصطلاحوں کو حتی الامکان سریع الفہم ہونا چاہیے (اگرچہ ہر زبان میں علمی اصطلاحیں مبتدیوں اور عام لوگوں کے لیے مشکل ہی ہوتی ہیں)، لیکن بے جا اعتراضات کر کے وضعِ اصطلاح کے لائقِ تحسین و ستائش عمل پر خطِ تنسیخ پھیرنے کی کوشش کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
یہ ہوئی نا بات!
دل جیت لیا آپ نے تو۔ جیتے رہیے۔ بلکہ جیتتے رہیے۔
 

زیک

مسافر
گر کوئی اصطلاح ہمیں 'مشکل' لگتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ اصطلاحیں ہمارے استعمال میں نہیں ہیں یا نہیں رہی ہیں۔ اگر ایک بار وہ نافذ اور مستعمل ہو جائیں تو وہ چاہے ابتدا میں کتنی ہی ناآشنا محسوس ہوں، انجامِ کار وہ اصطلاحیں ہمارے شعور اور ہماری انفرادی زبان کا زندہ حصہ بن جاتی ہیں۔
نافذ اور مستعمل ہی اہم بات ہے اور عوام و خواص نے اپنے عمل سے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ایسی خالص اردو اصطلاحات نہیں چاہتے۔
 
احباب ہماری محفل میں ایک اردو ورڈ بینک ہوا کرتا تھا وہ کہا ں گیا؟
اسی طرح کچھ اور ٹولز بھی تھے فی الحال تو یہی یاد آرہا ہے۔
اردو ورڈ بینک کی درست دیکھ ریکھ نہ ہونے کے باعث کچھ مسائل آ گئے تھے شاید کوئی مالوئر اٹیک ہوا تھا اور غالباً ڈیٹا کرپٹ یا ضائع ہو گیا تھا، لہٰذا اسے ڈاؤن کر دیا گیا تھا۔ ویسے ہمیں لگتا ہے کہ اس کا ڈیٹا شاکر بھائی نے کسی وقت اپنی لغت میں بھی شامل کیا تھا۔ :) :) :)
 

دوست

محفلین
اس کا ڈیٹا میرے پاس نہیں ہے۔ شاید نعمان کے پاس ہو۔ یہ پراجیکٹ انہوں نے ہی تیار کیا تھا۔
 

کاظمی بابا

محفلین
ہمیں اردو سے بہت محبت ہے اور ہم اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اب ان لوگوں کو شہ ملے گی جو ابتدائی تعلیم علاقائی زبانوں میں دینے کے لئے متحرک ہیں ۔ ۔ ۔
اس سے یقینی طور پر ناقابل تلافی نقصانات ہوں گے۔
 

کاظمی بابا

محفلین
جناب بنیادی تعلیم تو ایک قومی زبان میں ہی ہونی چاہئے نا! گھر میں آپ بچے سے پنجابی بولیں، اسکول میں اساتذہ اسے انگریزی میں پڑھائیں، جبکہ اخبارات و رسائل اردو میں ہوں، تو ایسے میں وہ بچہ کیا خاک اعلیٰ تعلیم حاصل کر پائے گا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو کو فارسی کی طرح پاکستان کی سرکاری و تدریسی زبان کا درجہ دیا جائے۔ یوں تمام پاکستانی بچوں کو بنیادی تعلیم اردو ہی میں دی جائے اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی سکھائی جائے۔ یہاں مغرب میں یہی ماڈل ایک عرصہ سے بالکل درست کام کر رہا ہے اور آج تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ پھر پاکستانیوں کو آخر کیوں اپنی قومی زبان میں بنیادی تعلیم حاصل کرتے تکلیف ہوتی ہے؟
مثال کے طور پر ناروے میں پہلی جماعت سے لیکر کالج تک تمام تعلیم قومی زبان نارویجن میں دی جاتی ہے۔ البتہ پرائمری کے بعد انگریزی لازمی مضمون کے طور پر سکھائی جاتی ہے جسکی بدولت ہر نارویجن بچہ انگریزی سمجھ سکتا ہے۔ کالج کے بعد جب طالب علموں کی علمی بنیاد مضبوط ہو جاتی ہے تو پھر اعلیٰ تعلیم انگریزی ہی میں دی جاتی ہے۔ جسے سمجھنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں کہ اسکی ٹریننگ آپ سیکنڈری اسکول سے کر رہے ہوتے ہیں۔
لیں جی پھر تیاری کر لیں، ابتدائی تعلیم علاقائی زبان میں ہو گی، بہت جلد ۔ ۔ ۔
 

mohdumar

محفلین
یہاں قصور انگریزی میڈیم اداروں کا اسطرح ہے کہ ان میں فیسیں وصول کرنے کا کوئی معیار مقرر نہیں۔ فری مارکیٹ کا اصول ہے کہ جب سپلائی زیادہ ہو تو قیمتیں اپنے آپ نیچے آتی ہیں۔ ہمارے آبائی شہر روالپنڈی کے علاقہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں 90 کی دہائی تک دور دور ہی اسکول ہوتے اور فیسیں انتہائی مناسب۔ اب یہ حال ہے کہ گلی گلی میں نجی پرائیویٹ انگریزی میڈیم اسکول ہیں اور فیسیں ماشاءاللہ ہر اسکول کی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مجبوراً غربا اور متوسط طبقے کی اکثریت کو گورنمنٹ کے اردو میڈیم اسکولوں میں بچوں کو بھجوانا پڑتا ہے۔ 90 کی دہائی میں جب فیسیں مناسب تھیں تو انہی خاندانوں کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھتے تھے جو اب گورنمنٹ اسکولوں میں جانے پر مجبور ہیں۔
بالکل درست بلکہ میں ذاتی تجربہ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ حالیہ کچھ سالوں میں جس قدر فیسوں میں بلا وجہ اضافہ کیا گیا ہےاس لٹ مار کی مثال نہیں ملتی۔ مزید حیرانی کی بات یہ کہ اتنی کثیر کمائی کے باوجود سکولوں کی کوئی خاطر خواہ بہتری نطر نہیں آتی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نجی سکول صرف برئے نام رہ گئے ہیں بیشتر کا حال تو سرکاری سکولوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ لائق طلبہ اپنے بل بوتے پر ہی کامیاب ہوتے ہیں۔میرے مشاہدے کے مطابق سکولوں کے مالکان صرف نئے کیمپسس کھولنے کی دوڑ میں مصروف رہتے ہیں تاکہ مزید کمائی کی جاسکے۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/09/150908_private_schools_parents_protest_tim
http://www.cc.gov.pk/index.php?option=com_content&view=article&id=439&Itemid=151
 
Top