تھینکس نہیں شکریہ
اعظم طارق کوہستانی
جامعہ کراچی میں شعبہ اُردو کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ہم ٹھٹھک کر رُک گئے۔ شعبہ کی طرف آتے ہوئے ایک طالب علم نے دو لڑکیوں سے پوچھا، اُردو ڈیپارٹمنٹ یہی ہے؟ سیڑھیاں گھیر کر بیٹھنے والی دونوں لڑکیوں نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، نہیں جناب! یہ اُردو ڈیپارٹ ہرگز نہیں ہے، یہ شعبۂ اُردو ہے۔ لڑکا کھسیانا سا ہوا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، گردن جھکا کر بڑی مشکل سے کہا، ’’تھینکس‘‘ دونوں لڑکیوں نے ہم آواز ہو کر کہا ’’ تھینکس نہیں شکریہ‘‘ میں اُس وقت اس لڑکے کی دلی کیفیت کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بے چارا سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔
میڈیا میں گزشتہ چند دنوں سے اُردو کے حوالے سے کافی غُلغلہ سنائی دے رہا ہے۔ اُردو کے ساتھ ہم نے جو ظلم روا رکھا اس سے سبھی واقف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اب اُردو اور انگریزی سے مُرصع لوگوں کا ایک ملغوبہ تیار ہوچکا ہے۔ لوگ نہ اُردو اچھی بول سکتے ہیں نا انگریزی، خود ہم جب گفتگو کرتے ہیں تو بے دھیانی میں بے شمار انگریزی کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ ہمارے پاس اس کا اُردو کا متبادل لفظ موجود ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہماری گفتگو میں جب تک انگریزی کے الفاظ شامل نہ ہوں کوئی ہمیں پڑھا لکھا سمجھتا بھی نہیں ہے۔ اس لیے مجبوری ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ معاملہ یوں ہی رہے گا یا یوں ہی رہنا چاہیے۔ آپ ذرا اپنی زبان پر فخر کریں آپ کی زبان سے خود بخود انگریزی الفاظ ختم ہوجائیں گے۔ بہت پہلے ایک فرضی قصہ پڑھا تھا۔ ذرا آپ بھی پڑھیے اور سر دھنیے۔
مسٹر ٹام ایک امریکی باشندے تھے لیکن امریکی ہونے کے باوجود اردو سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ خدا کی دین کہ بہت ذہین بھی تھے، اس لیے انہوں نے شعبۂ اردو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھانی لیکن حالات کچھ ایسے ہوئے کہ انہیں مزید ریسرچ کے لیے پاکستان آنا پڑا۔ ایک دن وہ پاکستان کے ایک ہوٹل میں کھانا کھارہے تھے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ایک میز بھی خالی نہ تھی۔ ٹام نے ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک آدمی تھری پیس سوٹ میں ملبوس نہایت فخر سے چلتا ہوا ان کے پاس آیا۔ Excuse me can i sit here شکل سے مقامی لگتا تھا لیکن ٹام نے یہ سوچ کر کہ مجھے غیر ملکی دیکھ کر یہ سمجھا ہوگا کہ اردو نہیں آتی۔ جواب دیا، جی ہاں! شوق سے تشریف رکھیے۔ وہ ہلکی سی حیرانی کے بعد بولا، Actually میں یہاں اکثر آتا ہوں مگر آج کوئی ٹیبل خالی نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں جناب، ٹام نے جواب دیا۔
پھر ٹام گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے گویا ہوا، آپ کا اسمِ گرامی جان سکتا ہوں؟
”Oh yes why not my name is Qudwai”
ٹام نے جواب سن کر کہا، مجھے ڈیوڈ ٹام کہتے ہیں اور میں آج کل ایک کام کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں۔
?I Can help you please مسٹرقدوائی نے کہا۔
جی ہاں اگر آپ چاہیں تو مجھے اردو ادب کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔
”Oh its so easy” آپ جب چاہیں میں آپ کی Help کے لیے تیار ہوں مگر Only in 10 days دراصل میں Summer Vacations کے لیے States جارہا ہوں۔ اس لیے وقت کم ہے۔
ٹام: مجھے غالب اور درد کے بارے میں کچھ مواد چاہیے اور کچھ اردو ادب کے ابتدائی دور کے بارے میں جاننا ہے۔
قدوائی: No problem یہ کام توچٹکی میں ہوجائے گا۔
ٹام :میں غالب سے بہت متاثر ہوں، آپ کا کیا خیال ہے؟
قدوائی: جی ہاں He is a great poet …کہتا ہے۔
دل ہی تو ہے سنگ وحشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں
ٹا م:جی مگر یہ دونوں الگ مصرعے ہیں۔
قدوائی: ’’Woods warth‘‘ کے آگے غالب میں کیا مزہ آئے گا ان کی تو بات ہی اور ہے۔‘‘
ٹام: ’’نہیں صاحب دیکھنا ہے تو اقبال اور اکبر ہی کو دیکھیں، کیا حقیقت پسندی اور کیا الفاظ کا انتخاب ہے۔ واہ انسان کی دل کوچھوجاتے ہیں یہ اشعار
قدوائی: حیرت سے، چھوڑیں جی اور یہ آپ کیا فضول قیمہ دال کھارہے ہیں بھئی Fried Egg اور Corn soup اور Chicken jalfrizee منگوائیں ہم تو وہی کھانے آتے ہیں۔ واہ کیا شاندار اور لذیذ ہوتا ہے۔
ٹام: قدوائی صاحب! دراصل میں یہاں اردو پر تحقیق کرنے آیا ہوں اور ایسا کرنے کے لیے میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ میں یہاں کی ثقافت میں گُھل مل جاؤں۔ اسی طرح میں یہاں کے ادب کے جوڑوں تک پہنچ سکتا ہوں اور یقین جانیے مجھے کچھ دنوں میں یہاں کے لوگوں سے، یہاں کی چیزوں سے اتنی اُنسیت ہوگئی ہے کہ اب جانے کو جی نہیں چاہتا مگر کیا کروں۔ چھٹی لے کر آیا ہوں، جانا تو پڑے گا ہی مگر میں اپنا یہ سفر کبھی بھلا نہیں سکتا خیر آپ یہ سب چھوڑیں آپ یہ بتائیں کہ میں کتابیں لینے آپ سے کہاں ملوں؟
قدوائی: ’’آپ جامعہ آکر Professor Qudwai پوچھ لیجیے گا آپ مجھ تک پہنچ جائیں گے اور وہیں Libarary میں کتابیں دیکھ لیجیے گا جو Requirement ہو لے لیجیے گا۔ ”You are most Welcome”
ٹام: یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کا تعلق تدریس سے ہے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کا تعلق کس شعبے سے ہے۔
قدوائی: ’’Oh sorry یہ تو میں بتانا ہی بھول گیا۔
I am the head of the Urdu Department Actually
حوالہ
http://www.express.pk/story/392092/