بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔

کل کلاں کو آپ ملازمت کے سلسلے میں چین چلے گئے اور وہاں چینی زبان کی کلاسیں لینے لگیں گے اور کہیں گے کہ پاکستان کی زبان چینی ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے چینی زبان کی کلاسیں لینی شروع کر دی ہیں۔ :)
جس ملک میں جائیں وہاں کی زبان سیکھنی چاہیے ۔ جب کوریا میں تھا تو کورین سیکھنے کی کوشش کی ۔ جب ملائشیا میں تھا تو بہاسا۔ اب عرب میں ہوں تو عربی۔
مگر کورین زبان کا اوریجن چائنیز ہے۔ ہماری جڑیں وہاں نہیں۔ بہاسا کی جڑیں فارسی ، ہندی اور عربی میں ہیں۔ مگر وہ رومن میں لکھتے ہیں ۔ بڑی پریشانی کا شکار ہیں
جب عربی سیکھنے کی کوشش کررہاہوں تو معلوم پڑا یہ تو بہت اسان ہے۔ اردو میں ہم بہت سے عربی الفاظ بولتے ہیں۔ اگر عربی زبان پاکستان کی قومی زبان ہو تو ہر کوئی اسکو قبول کرے گا اسانی سے۔ پھر قران پڑھنے میں بھی اسانی۔ پھر کوئ بھی اسانی سےقوم کو بے وقوف نہیں بناسکتا
 

ساجد

محفلین
انگریزی بھی اب بہت مقبول زبان کا مرتبہ کھونے جارہی ہے۔ مینڈرین یعنی چائنز اسکا مقابل ہونے جارہی ہے۔ ابھی بھی دنیا کی مقبول ترین زبان چائنیز ہے جو چائنا، ہانگ کانگ، تائیوان، ملائیشیا، اور انڈونیشیا میں بھی بولی جاتی ہے اور دنیا کے زیادہ افراد یہی زبان بولتے ہیں۔ حتی کی ا ب اس زبان میں دنیا میں سب سےزیادہ سائنسی مقالے لکھے جاتےہیں۔ اس صدی میں ترقی کی زبان شاید مینڈرین ہی ہو۔ اس صورت میں انگریزی کو جلد ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
میری رائے میں اردو کے مقابلے مین عربی قومی زبان ہو تو سب ذیلی قومیتیں متفق ہونگی۔ ورنہ چائنز نہ اپنانا پڑے کہیں
حسیب نذیر گِل ، یار ایسی شرارتوں سے باز آ جاؤ۔ آپ کی وجہ سے ایک محقق پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔:)
 
آپ کی اس بات میں وزن ہے۔ پر اگر قومیتوں کو متحد کرنا ہے تو عربی زبان ہی کیوں؟ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کے اجداد کی مشترکہ زبان فارسی کیوں نہیں، جو کہ خطے کی ہزار سالہ زبان بھی رہی ہے؟ فارسی سے تو ہم اپنے اجداد سے زیادہ بہتر طریقے سے جڑ سکیں گے۔ عربی تو سوائے سندھ میں کچھ عرصے کے علاوہ کبھی بھی یہاں غیر دینی چیزوں کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ اور پھر قومیتوں کو متحد کرنے کے لیے ہم انڈونیشیا کی طرح یہاں کی کوئی اقلیتی زبان کیوں نہیں چن لیتے؟ شمالی علاقہ جات کی بروشاسکی کیسی رہے گی؟ پاکستان کے علاوہ یہ زبان یا اس کی کوئی بہن کہیں نہیں بولی جاتی۔ بروشاسکی سےتو فارسی سے بھی بڑھ کر جداگانہ پاکستانی قومیت تشکیل دی جا سکتی ہے۔

عربی ایک بڑی زبان ہے اور ہر قسم کے الفاظ یہاں موجود ہیں۔ انگریزی علوم کا ترجمہ صرف عربی میں ہی اسانی کے ساتھ ممکن ہے
جب اردو جیسے بڑی زبان میرے نزدیک زوال پذیرہے تو ذیلی قومیتوں کی زبانوںکی کیا اوقات
 

حسان خان

لائبریرین
پسند اپنی اپنی ، لیکن عربی زبان میں صوتی ردھم بہت اعلیٰ درجے کا ہے۔

اور باقی جہاں تک زبان کی بات ہے تو یہ واقعی اضافی (relative) چیز ہے۔میرے نزدیک ترکی سے سریلی زبان کوئی نہیں، مگر بہت سوں کو ترکی سننے میں بری لگتی ہے۔ اور ایک عام یونانی تو ترکی زبان سے نفرت کرتا ہے۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
آپ کی اس بات پر مجھے جوش مرحوم یاد آ گئے جو اردو زبان میں ٹ اور ٹھ کی آوازوں سے بہت بدکتے تھے۔:)

ایمانداری کی بات ہے، میں اردو میں ہندی آوازوں (ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ) اور ہندی الفاظ (گگن، پون، دھرتی) سے واقعی 'بدکتا' ہوں اور انہیں فارسی اور عربی کے مقابلے میں کم مثقف (cultured) مانتا ہوں۔ :) اپنے اپنے 'ٹیسٹ' کی بات ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عربی ایک بڑی زبان ہے اور ہر قسم کے الفاظ یہاں موجود ہیں۔ انگریزی علوم کا ترجمہ صرف عربی میں ہی اسانی کے ساتھ ممکن ہے

اردو میں عربی کا ہر لفظ جائز مانا جاتا ہے۔ اس لیے اگر انگریزی علوم کا ترجمہ عربی میں ہو سکتا ہے تو اردو میں بھی ہو سکتا ہے۔ جو اصطلاحیں عربی یا فارسی میں مستعمل ہیں انہیں ہم من و عن لے سکتے ہیں۔
 
حسیب نذیر گِل ، یار ایسی شرارتوں سے باز آ جاؤ۔ آپ کی وجہ سے ایک محقق پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔:)
محقق کی یہ تحقیق پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کہیں بھی نافذ نہیں ہوسکی حتی کہ پاکستان میں بھی۔ کوئی بھی جریدہ اردو میں سائنسی تحقیق شائع نہیں کرتا جو انڈکس ہو۔ ہندوستان میں یقینا کچھ لوگ کام کررہے ہیں مگر یہ بہت محدود او انفرادی ہے۔ محقق نے اردو کا دفاع اس بات سے کیا ہے کہ ٹی وی چینلز اردو میں پاکستان میں چلتے ہیں انگریزی میں نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان مین انگریزی افیشل زبان ہونے کے باوجود عوام کی سمجھ سے باہر ہے۔ لہذا عوام نہ اردو اپنا سکتی ہے نہ انگریزی۔
 

ملائکہ

محفلین
یونانی اور ترک ایسے ہی 'ازلی' دشمن ہیں جیسے پاکستانی اور بھارتی :D
پاکستان اور بھارت کا مسئلہ تو پاکستان کے وجود آنے سے ہوا ہے جو کہ اتنی پرانی بات نہیں لیکن ترکی اور یونان کے الگ یا مخالف ہی کہہ لیں، اسکی تاریخ تو بہت پرانی ہے:)
 
قبولیتِ عامہ کے لیے عربی کا ہی انتخاب کیوں ؟ فارسی یا کوئی اور زبان کیوں نہیں؟

جب الفاظ اور مراکب عربی سے لینے ہوں تو پوری زبان کیوں نہیں۔
فارسی بھی ایک سکڑتی ہوئی زبان ہے۔ اسکے مقابل عربی بہت وسیع اور ابدی زبان ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ترکی کا اسلامی تشخص ہے کیا؟:cool:

ریاست کے لادین ہوجانے سے ملک کی اسلامی تاریخ اور تشخص پر کوئی حرف نہیں پڑتا۔ کیا ترکی کی 1200 سالہ اسلامی تاریخ کو کبھی بھی محو کیا جا سکتا ہے؟ میں خود لادین ریاست کا حامی ہوں، مگر مجھے اپنی قوم کے اسلامی تشخص اور اسلامی تہذیب سے تاریخی وابستگی پر فخر ہے۔
 
ریاست کے لادین ہوجانے سے ملک کی اسلامی تاریخ اور تشخص پر کوئی حرف نہیں پڑتا۔ کیا ترکی کی 1200 سالہ اسلامی تاریخ کو کبھی بھی محو کیا جا سکتا ہے؟ میں خود لادین ریاست کا حامی ہوں، مگر مجھے اپنی قوم کے اسلامی تشخص اور اسلامی تہذیب سے تاریخی وابستگی پر فخر ہے۔
جب تک ترکی کا اسلامی تشخص تھا اس وقت عربی بھی وہاں موجود تھی۔ اب تو قران بھی لوگ وہاں نہیں پڑھ سکتے۔ واضح رہے میرے ترکی دوستوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔
بلاشبہ ترکی کا اسلامی تشخص بحال ہورہا ہے ۔ اسی طرح لوگ عربی بھی سیکھ رہے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
جب الفاظ اور مراکب عربی سے لینے ہوں تو پوری زبان کیوں نہیں۔
فارسی بھی ایک سکڑتی ہوئی زبان ہے۔ اسکے مقابل عربی بہت وسیع اور ابدی زبان ہے۔

دستوری لحاظ سے فارسی عربی سے بہت وسیع ہے۔ عربی زبان میں صرف دو زمانے (tenses) ہیں، جن کی مدد سے سارے زمانوں کا کام لیا جاتا ہے۔ میں فارسی کو عربی کے مقابلے میں زیادہ توانگر مانتا ہوں، کیونکہ اس میں اصطلاح سازی کے لیے عربی اور فارسی دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں۔

اور آپ تین ملکوں (ایران، افغانستان، تاجیکستان) کی رسمی زبان فارسی کو کس بنیاد پر سکڑتی ہوئی زبان کہہ رہے ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
جب تک ترکی کا اسلامی تشخص تھا اس وقت عربی بھی وہاں موجود تھی۔ اب تو قران بھی لوگ وہاں نہیں پڑھ سکتے۔

ترکی میں عربی کبھی بھی نہیں رہی، وہاں کی رسمی زبان عثمانیوں کے دور سے ترکی ہے۔ ہاں، پڑھے لکھے لوگ عربی اور فارسی کا علم ضرور رکھتے تھے، مگر وہاں کی ادبی زبان ترکی ہی رہی ہے۔ اور جو وہ قرآن ٹھیک سے نہیں پڑھ پاتے، اس کا تعلق خط سے ہے، زبان سے نہیں۔
 
Top