محمد یعقوب آسی
محفلین
بہت آداب جناب کاشف عمران صاحب ۔
ہجوں کی بحث آپ سے ہم کیا کیا کیے
تنگ آئے اس قدر کہ لب اپنے سیا کئے
سب جان کر کیا کیے ہیں۔پھڑے گئے او، استاد!! رنگے ہتھ (رتے ہتھیں)۔ ذرا گوہ کرو نا!!
۔۔۔۔ کیا کیا کِیا کئے!سب جان کر کیا کیے ہیں۔
ابھی 8-9 سال کا تھا کہ بہن بھائیوں سے کہتا تھا مجھے موضوع یا لفظ دو، میں شعر بنا کر دوں گا! بحر و وزن کا تو کچھ پتا نہ تھا (نہ ہمارے وہاں شعر کا کوئی خاص شعور و مقام)، مگر شعر ہو جاتے تھے۔اچھے شعر کہے ہیں صاحب۔ آپ کو یہ خاص ملکہ عطا ہوا ہے۔ بادشاہ بھی رہے ہوں گے، نہیں تو ملکہ عطا ہونا؟؟ ۔۔
کاشف عمران
۔۔۔ ۔ کیا کیا کِیا کئے!
قافیہ از کتابت ’’رہستہ‘‘ است و ’’شعرِ وزن‘‘ گھٹیدہ۔ توجہ نہ ’’فرمیدہ‘‘؟
کاشف عمران
ہجوں کی بحث آپ سے ہم کیا کیا کیے
تنگ آئے اس قدر کہ لب اپنے سیا کئے
پیغام ایک دو ہی دیے ہوں گے، پھر بعجز
آسی کے مشوروں کا تماشا کیا کیے
۔۔۔ ۔ کیا کیا کِیا کئے!قافیہ از کتابت ’’رہستہ‘‘ است و ’’شعرِ وزن‘‘ گھٹیدہ۔ توجہ نہ ’’فرمیدہ‘‘؟
ظاہراً معلوم می شود کہ شما "اُسترہ" نہ خواندید جس طرح من لکھیدم۔ ہمانا جملہ ابیات را وزن پورا ہست و ہیچ کمی بیشی نیست۔
اسی امید سے یہ لڑی شروع کی تھی ، اندازہ تھا کہ استاد لوگوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔خود کو الجھنے سے بچائیے جناب امجد میانداد صاحب۔
’’کئے‘‘ اور ’’گئے‘‘ میں فرق صرف زیر اور زبر کا ہے، جہاں ناگزیر ہو اعراب لگا دیجئے، مسئلہ حل!
’’میں‘‘ (حرف جار) اور ’’میں‘‘ (اسمِ ضمیر) میں بھی تو اول کی یاے مجہول ہے اور دوسرے کی یاے لین ہے، یعنی ماقبل پر زبر۔
رہا مسئلہ ہجوں کا۔ ’’لئے، دئے، کئے، جئے‘‘ اور ’’لیے، دیے، کیے، جیے‘‘ ہر دو طرح درست ہیں جیسا جناب الف عین نے کہا۔ اِن دو سے ہٹ کے کوئی ہجے قبول نہ کیجئے، بس!
کچھ دن پہلے کولیگز کے درمیان اسی بات پہ بحث ہو رہی تھی وہ کہہ رہے تھے کہ اردو میں سمجھ یا صوتی تشریح کی تشنگی محسوس ہوتی ہے، اور انگریزی میں ایسا نہیں جبکہ میرا جواب یہ تھا کہ اردو انگریزی سے مجھے بہتر لگی اگر آپ اردو کے واولز یعنی اعراب لگائیں تو مسئلہ ہر گز نہ ہو گا۔ انگریزی بھی واولز کے بغیر مشکل ہو جاتی ہے کہنی۔ اور اس کے واولز کی آوازیں کئی جگہوں پہ الگ ہیں جب کہ اردو میں اعراب کے بعد کوئی کمی نہیں رہ جاتی۔اعراب کی بھی دیکھ لیجئے۔ ایک سادہ سا جملہ ہے ’’تم نے یہ کیا کیا یار!‘‘ کوئی بھی وضاحت کئے بغیر یہاں بات بالکل صاف ہے کہ پہلا ’’کیا‘‘ استفہامیہ ہے اور اس میں یاے مخلوط ہے (یا جو بھی اس کا اصطلاحی نام ہے)، یہ شعر میں کوئی صوت نہیں رکھتی۔ اور دوسرے ’’کیا‘‘ میں کاف مکسور ہے۔ مصدر ’’کرنا‘‘ سے ماضی کا صیغہ۔
مختصر یہ ہے کہ صاحبو، سادہ کو سادہ رہنے دیجئے، اسی میں سہولت ہے۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے، دراصل ہمارا ادارہ اسکول کے بچوں کے لئے ایک کتاب یا تربیتی مینوئل شائع کروانے جا رہا ہے، اس میں جب وہ میرے پاس آیا تو مجھے کچھ ابہام ہوا میرے کہنے پہ جب وہ دوبارہ پروف ریڈنگ کے لئے گیا تو دو الگ الگ لوگوں نے اس میں اپنی سمجھ کے مطابق تصحیح کر دی، اب لکھاری نے "لیئے" لکھا جو مجھے کچھ غلط لگا اور ایک پروف ریڈر نے "لیے" لکھا اور دوسرے نے "لئے" تو میں نے سوچا کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ لہٰذا یہاں کھولنے سے میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کے لین دین سے متعلق "لیے" اور واسطے کی جگہ "لئے" باقی غلط۔ اور لئے اور لیے دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ایک گزارش خاص طور پر جناب امجد میانداد صاحب کی خدمت میں ۔
ایک لفظ آپ کے سامنے آتا ہے، آپ کو اس کی املاء میں تذبذب ہے۔ اگر آپ پیشہ ور کاتب (کمپوزر) ہیں تو اپنے کلائنٹ کے نوٹس میں لائیے کہ صاحب آپ نے یوں لکھا، درست یوں ہے، کہئے آپ کیا کہتے ہیں؟ کیسے لکھوں؟ ۔ پھر وہ غلط بھی بتائے تو ویسے ہی لکھ دیجئے جیسے اس نے بتایا۔
ہاں، اپنی علمی تشنگی کو زائل نہ ہونے دیجئے۔ یہ تشنگی بہت کام کی ہے!!۔
یا حیرت، بہت عمدہ جناب مزہ آگیا۔کوئی یہ نہ کہے کہ "آج کامل ؔ غزل سرا نہ ہوا":ہجوں کی بحث آپ سے ہم کیا کیا کیےتنگ آئے اس قدر کہ لب اپنے سیا کئےپیغام ایک دو ہی دیے ہوں گے، پھر بعجزآسی کے مشوروں کا تماشا کیا کیےکچھ یوں ہی آج دھو لیے دو چار تولئےپھر تولیے کی شکل پہ لکچر دیا کیےلینا سے ہے لیے تو تماشا یہ کس لئے؟دینا سے ہے دیے تو دیے ہم دیا کیےہم شعر لکھ رہے تھے جو کرتے تھے آپ بحثکوئی کہے نہ ہم سے کہ ہم کیا کیا کئے
کیا کر رہے تھے استاد؟؟؟ جب آپ نے پھڑا؟پھڑے گئے او، استاد!! رنگے ہتھ (رتے ہتھیں)۔ ذرا گوہ کرو نا!!
نوازش ہے، جناب!یا حیرت، بہت عمدہ جناب مزہ آگیا۔
قیصرانی بھائی اور تولئے تولیئے
لکھیدم۔ بسیار خوب، استاذِ گرامی، ایں چیست، ہست کہ است؟ظاہراً معلوم می شود کہ شما "اُسترہ" نہ خواندید جس طرح من لکھیدم۔ ہمانا جملہ ابیات را وزن پورا ہست و ہیچ کمی بیشی نیست۔