مہدی نقوی حجاز بھائی متفق کس بات سے ہوئے آپ؟
مس تفع لن (منفصل) "سبب خفیف"، "وتد مفروق" اور "سبب خفیف" کا مجموعہ ہے۔ اور اس رکن یعنی "مس تفع لن" پر یکے بعد دیگرے دو منفردہ زحافات "خبن" اور "تسبیغ" لگنے سے "مفاعلان" کی فرع تشکیل پاتی ہے جو "مس تفع لن" کی "مخبون مسبغ" شکل ہے۔
مس تفع لن (منفصل) "سبب خفیف"، "وتد مفروق" اور "سبب خفیف" کا مجموعہ ہے۔ اور اس رکن یعنی "مس تفع لن" پر یکے بعد دیگرے دو منفردہ زحافات "خبن" اور "تسبیغ" لگنے سے "مفاعلان" کی فرع تشکیل پاتی ہے جو "مس تفع لن" کی "مخبون مسبغ" شکل ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں زحافات کیا کرتے ہیں:
"خبن" وہ زحاف ہے جو کسی رکن کے پہلے سبب خفیف کے ساکن حرف کا اسقاط کر دیتا ہے اور اس سے وجود میں آنے والی فرع کو "مخبون" کہا جاتا ہے۔
"تسبیغ" وہ زحاف ہے جو کسی مصرع کے آخری رکن کے آخری سبب خفیف کے درمیان ایک الف کا اضافہ کر دیتا ہے اور اس زحاف کے استعمال سے وجود میں آنے والی فرع کو "مسبغ" کہا جاتا ہے۔
اور اب ان دو زحافات (خبن اور تسبیغ) کو آپ کے دیے ہوئے رکن (مس تفع لن ۔ منفصل) کے اصول سہگانہ پر استعمال کر کے دیکھتے ہیں:
رکن "مُس تَفعِ لُن" پر "خبن" استعمال کریں تو اس کے پہلے سبب خفیف یعنی "مُس" کا ساکن حرف "س" گر گیا اور محض "م" بچا۔۔۔ اب اس رکن کی "مخبون" شکل "مُ تَفعِ لُن" (جسے مُفَاعِلُن سے ظاہر کیا جاتا ہے) بنتی ہے۔
اگر یہ رکن "مُس تَفعِ لُن" مصرع کے آخر میں آ رہا ہو تو اس پر "تسبیغ" کا زحاف لگایا جا سکتا ہے جو اس کے آخری سبب خفیف "لُن" کے دو حروف کے درمیان ایک حرف الف شامل کر دیتا ہے۔
اب "مُس تَفعِ لُن" کی مخبون شکل "مُ تَفعِ لُن"کا "لُن" تبدیل ہو کر "لَان" ہو گیا۔
یوں اس کی مخبون مسبغ شکل "مُ تَفعِ لَان" بنی جسے ہم "مُفَاعِلَان" سے ظاہر کرتے ہیں۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جدید عروض کے مطابق دس ارکان یا "ارکانِ دہگانہ" کے آخری دو ارکان یعنی "مس تفع لن" (منفصل) اور "فاع لاتن" (منفصل) ضروری شمار نہیں کیے جاتے اور پہلے آٹھ ارکان جنھیں "ہشت گانہ ارکان" کہا جاتا ہے سے ہی تمام کام کر لیا جاتا ہے۔
مخبون مذالویسے اگر یہ مستفعلن متصل ہوتا تو مفاعلان کے زحافات کی کیا صورت ہو گی؟
مخبون مذال
نہیں! کم از کم مستفعلن متصل کی حد تک تو غلطی نہیں کی انھوں نے۔۔۔ مستفعلن پر خبن اور اذالہ کا استعمال اسے مفاعلان ہی بناتا ہے۔جی شکریہ.
یہاں بات یہ ہوئی کہ حکیم نجم الغنی غلطی کر گئے بحر الفصاحت میں.
نہیں! کم از کم مستفعلن متصل کی حد تک تو غلطی نہیں کی انھوں نے۔۔۔ مستفعلن پر خبن اور اذالہ کا استعمال اسے مفاعلان ہی بناتا ہے۔
مولوی نجم الغنی رامپوری جس پائے کے عالم تھے ان سے اس بھونڈی غلطی کا تصور بھی محال ہے۔۔۔ یقیناً مس تفع لن (منفصل) کی مذکورہ فرع کی تعریف لکھتے ہوئے ان کا ذہن منفصل کی بجائے متصل پر ہو گا ورنہ منفصل میں وتد مجموع موجود ہی نہیں جس پر اذالہ کا استعمال کیا جا سکے۔میں منفصل کی بات کر رہا ہوں. انہو نے مس تفع لن کو خبن لگا کر مفاعلن بنایا پھر اس میں علن کو وتد جانتے ہوئے ایک ساکن بڑھانے کو اذالہ لگا کر رکن کو مخبون مذال بنایا.
مولوی نجم الغنی رامپوری جس پائے کے عالم تھے ان سے اس بھونڈی غلطی کا تصور بھی محال ہے۔۔۔ یقیناً مس تفع لن (منفصل) کی مذکورہ فرع کی تعریف لکھتے ہوئے ان کا ذہن منفصل کی بجائے متصل پر ہو گا ورنہ منفصل میں وتد مجموع موجود ہی نہیں جس پر اذالہ کا استعمال کیا جا سکے۔
مولوی نجم الغنی رامپوری جس پائے کے عالم تھے ان سے اس بھونڈی غلطی کا تصور بھی محال ہے۔۔۔ یقیناً مس تفع لن (منفصل) کی مذکورہ فرع کی تعریف لکھتے ہوئے ان کا ذہن منفصل کی بجائے متصل پر ہو گا ورنہ منفصل میں وتد مجموع موجود ہی نہیں جس پر اذالہ کا استعمال کیا جا سکے۔
میرے پاس مولوی نجم الغنی رامپوری کی بحر الفصاحت کی تمام جلدیں موجود ہیں مگر میری ذاتی لائبریری میں جو کہ پاکستان میں ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں میرے پاس ایک بھی کتاب نہیں لہٰذا حوالے کے لیے میں انھیں نہیں دیکھ پاؤں گا۔اللہ اکبر فاتح بھائی معذرت کے ساتھ آپ کو پھر تنگ کرنے آیا ہوں۔ میرے خیال میں مولوی صاحب سے یہ غلطی ہی ہوئی ہے کہ حکیم صاحب بحرِ جدید کے بیان میں بھی مس تفع لن کے زحافات خبن و قصر و اذالہ بتا گئے ہیں۔ اب کیا کہیں گے آپ؟
میرے پاس مولوی نجم الغنی رامپوری کی بحر الفصاحت کی تمام جلدیں موجود ہیں مگر میری ذاتی لائبریری میں جو کہ پاکستان میں ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں میرے پاس ایک بھی کتاب نہیں لہٰذا حوالے کے لیے میں انھیں نہیں دیکھ پاؤں گا۔
جہاں تک خبن، قصر اور اذالہ کے زحافات کی بات ہے تو بہت سادہ سا نسخہ ہے کہ خبن پہلے سبب خفیف کا زحاف ہے اور قصر آخری سبب خفیف کا جب کہ اذالہ وتد مجموع کا اور مس تفع لن منفصل میں وتد مجموع موجود ہی نہیں۔
صرف دو ایسے زحافات ہیں جو "براہ راست" وتد مفروق پر لگتے ہیں:
1۔ صلم: اس سے پورے وتد مفروق کا ہی اسقاط ہو جاتا ہے۔
2۔ وقف: اس سے "آخری" وتد مفرق کے آخری رکن کا اسقاط ہوتا ہے۔
یقیناً ممکن ہے۔۔۔ اور اس کی وجہ بھی وہی رہی ہو گی جو ہم نے اوپر بیان کی کہجی فاتح بھائی قصر و خبن سے تو مجھے کوئی اختلاف ہی نہیں. اختلاف ہے تو اذالہ سے.
اور بات یہ ہے مس تفع لن میں اذالہ اثر کر ہی نہیں سکتا. جبکہ حکیم صاحب دونوں جگہ یہ غلطی کر گئے ہیں.
نکتہ چینی مقصود نہیں ایک علمی اختلاف ہے. کیونکہ یہ کتاب عروض کی اہم ترین کتابوں میں شاید سر فہرست ہے.
یقیناً مس تفع لن (منفصل) کی مذکورہ فرع کی تعریف لکھتے ہوئے ان کا ذہن منفصل کی بجائے متصل پر ہو گا ورنہ منفصل میں وتد مجموع موجود ہی نہیں جس پر اذالہ کا استعمال کیا جا سکے۔
شاکر بھائی! اصل شے تو طبیعت یا موزونیِ طبع ہی ہے جس پر عروض کا بھی دارومدار ہے ورنہ عروض کی مشین میں ڈال کر صرف با وزن جملے گھڑنے کو شعر کہا جا سکتا تو اکہتر بہتر تہتر چوہتر، پچہتر چھہتر ستتر اٹھتر کو بھی شعر ماننا پڑتا۔ارے نہیں فاتح! ایسی بات نہیں میں واقعی اتنی ثقیل گفتگو سے گھبراتا ہوں اور میرا دم گھٹنے لگتا ہے
شاعری جتنی لطیف ہے عروضی بحثیں اتنی ہی کثیف و ثقیل ہوتی ہیں اسی لیے میں نے فن عروض کی ابجد بھی نہیں سیکھی ۔۔۔ شعر کہنے میں عروض کی بجائے اپنی طبیعت پر بھروسا کرتا ہوں
افففففففففففففففففففف
یقیناً ممکن ہے۔۔۔ اور اس کی وجہ بھی وہی رہی ہو گی جو ہم نے اوپر بیان کی کہ