سید شہزاد ناصر
محفلین
کچھ تو خفا بہار تھی کچھ تھے خفا گلاب بھی
جادہِ گل کے ساتھ ساتھ خار کے تھے عذاب بھی
موج ہوائے تیر رو ریت کو گد گدا گئی
مجھ کو بھٹکتے دیکھ کر ہنسنے لگے سراب بھی
تری ہی جستجو میں ہم خود سے بھی دور ہو گئے
جن سے گریز پا تھا تُو اپنے تو تھے وہ خواب بھی
تم سے خزاں میں لرزشیں تم سے بہار کا وقار
تم سے رتوں کی آبرو تم سے سبھی شباب بھی
ذوق نظر تو ہے مگر تاب نظارہ ہے کسے
آنکھ چُرا گیا ہے چاند خیرہ ہے آفتاب بھی
میرا بھرم وہ رکھ گئے صورتِ حال دیکھ کر
جب کہ سوال لب پہ تھا آنکھ میں تھا جواب بھی
کالی گھٹا کا واسطہ کھل کے پلا دے ساقیا
اس کو بھی دیکھ لیں گےہم آئے گا جوعذاب بھی
ہائے یہ کیسے سب ہوا کیسے ہوا کب ہوا
رنگ سے روپ الگ ہوا، خاک ہوا شباب بھی
کنج قفنس اداس ہے کوئی نہ آس پاس ہے
روٹھ گئی صبا بھی آج چُھپنے لگے سحاب بھی
میر متاعِ جاں لٹی جانے کہاں کہاں حیات
جبکہ اثاثہ کچھ نہ ہو کیسے چکے حساب بھی