سولھویں سالگرہ استاد محترم جناب اعجاز عبید صاحب سے علمی اور ادبی مکالمہ

السلام علیکم
سالگرہ کے موقع پر محفل کی قابل احترام اور علمی شخصیات سے مکالمہ جاری ہے۔علمی اور ادبی نشت کے سلسلے کی چوتھی لڑی کے ساتھ ہم حاضر ہیں۔
چوتھی لڑی کی مہمان شخصیت اردو محفل فورم اور اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت جناب الف عین سر ہیں۔
آپ سب استاد محترم کی علمی اور ادبی ذہانت سے اس لڑی میں خوب فیض یاب ہو سکتے ہیں۔
بے مقصد سوالات اور شرپسندی،سیاسی اختلافات ،مذہبی اختلافات کے حوالے سے گفتگو کرنے سے گریز کریں کیونکہ یہ خوشی کا موقع ہے ہمیں مل کر اس خوشی کے موقع سے بھرپور لطف اندوز ہونا ہے ۔
 
آخری تدوین:
استادِ محترم سے یہ جاننا چاہوں گا کہ بچپن سے ہم سنتے آئے کہ اردو زبان لشکر کی زبان تھی جس میں فارسی، عربی، ترکی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کی بھی آمیزش ایک برابر تھی تا وقتیکہ انگریزوں کے دور میں سیاسی مقاصد کے لئے اردو اور ہندی کا تنازعہ کھڑا کیا گیا
سوال کیرا یہ ہے کہ اب عصرِ حاضر میں اردو میں مقامی (خصوصاََ ہندی ماخذ کے) زبانوں کے الفاظ کے استعمال میں کیا امر مانع ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کیوں کی جاتی ہے
والسلام!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
استادِ محترم سے یہ جاننا چاہوں گا کہ بچپن سے ہم سنتے آئے کہ اردو زبان لشکر کی زبان تھی جس میں فارسی، عربی، ترکی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کی بھی آمیزش ایک برابر تھی تا وقتیکہ انگریزوں کے دور میں سیاسی مقاصد کے لئے اردو اور ہندی کا تنازعہ کھڑا کیا گیا
سوال کیرا یہ ہے کہ اب عصرِ حاضر میں اردو میں مقامی (خصوصاََ ہندی ماخذ کے) زبانوں کے الفاظ کے استعمال میں کیا امر مانع ہے اور اس کی حوقصلہ شکنی کیوں کی جاتی ہے
والسلام!
اردو ہندی در اصل ایک ہی زبان ہے بول چال کی حد تک، کم از کم جب اس کی ابتدا ہوئی، انگریزوں نے جو تفرقے کا بیج بویا تو اس میں ہندو برادران وطن نے بے طرح سنسکرت کے الفاظ شامل کر کے ایک مصنوعی زبان بنا دی اور اس طرح آج کل کی ہندی اردو سے الگ ہو گئی۔ آج کل شمالی ہند میں ہماری بول چال کو ہندی والے کہتے ہیں کہ یہ اردو آمیز ہندی ہے!
حوصلہ شکنی تو نہیں کی جاتی، البتہ جب مجموعی طور پر زبان فارسی آمیز اردو ہو اور اس میں ہندی کہتے ہوئے ایک آدھ لفظ سنسکرت یا سنسکرت آمیز ہندی کا بول دیا جائے تو سب لوگوں کو 'وچتر' لگے گا۔ خاص کر ادب و شاعری میں۔ آرزو لکھنوی کی طرح شاعری ہو تو اس زبان میں آسان ہندی الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرا بھی ایک سوال ہے استاد صاحب سے
ہندوستان میں اردو کی ترویج کے لیے ریختہ آرگنائزیشن یا جو اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان سے آپ کس قدر مطمئن ہیں
اور دوسری طرف پاکستان کا یہ عالم ہے کہ سرکاری زبان تو اردو ہی ہے لیکن اردو کے نفاذ کا خواب ہنوز شرمندہِ تعبیر ہے۔ جب حکومت ہی لاپروائی برتنے لگے تو پھر انفرادی طور پر اردو بحالی کے لیے عام لوگوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
 
میرا سوال استاد محترم سے ذرا سیاسی نوعیت کا ہے.
آپ ہندوتوا کی موجودہ فضا میں ہندوستان میں مسلمانوں اور اردو رسم الخط کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ہندوستانی سوشل میڈیا کے بنظر غائر مشاہدے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اردو اور مسلم مخالف جذبات اب عوام کی ایک بڑی تعداد میں سرائیت کر چکے ہیں اور کم از کم مستقبل قریب کی صورت حال اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آتی .... لیکن ظاہر ہے کہ حقیقی زمینی صورت حال تو وہاں مقیم افراد ہی بتا سکتے ہیں.
 

الف عین

لائبریرین
میرا بھی ایک سوال ہے استاد صاحب سے
ہندوستان میں اردو کی ترویج کے لیے ریختہ آرگنائزیشن یا جو اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان سے آپ کس قدر مطمئن ہیں
اور دوسری طرف پاکستان کا یہ عالم ہے کہ سرکاری زبان تو اردو ہی ہے لیکن اردو کے نفاذ کا خواب ہنوز شرمندہِ تعبیر ہے۔ جب حکومت ہی لاپروائی برتنے لگے تو پھر انفرادی طور پر اردو بحالی کے لیے عام لوگوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
اردو کی ترویج سے ہر شخص کی مراد مختلف ہوتی ہے۔ سرکار کے حساب سے اردو بھی قومی زبان ہے، لیکن سرکاری کام کاج کے لئے صرف انگریزی اور ہندی۔ یہاں تلنگانہ میں اردو کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے، پہلی سرکاری زبان تیلگو کے ساتھ دوسری سرکاری زبان۔ لیکن اردو داں افسران بھی سب کام انگریزی میں کرتے ہیں اور تیلگو میں ترجمہ تو ہو جاتا ہے سرکاری احکامات کا، لیکن اردو ترجمہ نہیں۔ یا تو مترجم پوسٹ نہیں کئے جاتے یا اردو داں اس قسم کی ملازمتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اور اردو بطور سرکاری زبان صرف دفاتر کے سائن بورڈس پر نظر آتی ہے، کہیں کہیں وہ بھی نہیں۔ اور اردو داں ملازمین سے بھی اگر پوچھا جائے کہ ان کے محکمے کا اردو میں نام کیا ہے تو درست جواب نہیں دے سکیں گے۔
مختصر یہ کہ اس قسم کے نفاذ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ اردو بس مشاعرے کی زبان بن گئی ہے عملی طور پر۔ 'نفاذ' تو کرنا بھی نہیں چاہیے یعنی یہ کہ اردو زبردستی تھوپی جائے، لیکن اردو والے ہی دل چسپی نہیں لیتے تو کیا خاک ترویج ہو گی؟ ریختہ والوں کا مقصد بھی شاعری کی ترویج تھا، اردو زبان کی ترویج تو خود بخود ہو گئی اس اقدام سے!
اور اردو کی تنظیموں کا حال صرف یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی تعریف کر کے خوش ہو لیتے ہیں۔ ہاں، ادارے جیسے انجمن ترقی اردو یا ترقی اردو کاونسل اور ہر ریاست کی اردو اکادمیاں وغیرہ بہتر کام کرتی ہیں۔ لیکن وہی مسئلہ ہے کہ سرکاری فنڈ کو استعمال کرنے میں بس اپنے لوگوں کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ بہر حال صورت حال پریشان کن ہی ہے ہندوستان میں بھی۔ اور اس پر جو پچھلے سات سال سے مرکزی حکومت پر قابض پارٹی ہے، وہ صرف دستور پر عمل کی خاطر یہ سب کرتی ہے، ورنہ ان کے بس میں ہوتا تو اردو کی دستوری حیثیت بھی ختم کر دی جاتی، یہ بھی اس سرکار سے بعید نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
میرا سوال استاد محترم سے ذرا سیاسی نوعیت کا ہے.
آپ ہندوتوا کی موجودہ فضا میں ہندوستان میں مسلمانوں اور اردو رسم الخط کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ہندوستانی سوشل میڈیا کے بنظر غائر مشاہدے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اردو اور مسلم مخالف جذبات اب عوام کی ایک بڑی تعداد میں سرائیت کر چکے ہیں اور کم از کم مستقبل قریب کی صورت حال اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آتی .... لیکن ظاہر ہے کہ حقیقی زمینی صورت حال تو وہاں مقیم افراد ہی بتا سکتے ہیں.
میں متفق ہوں، حوصلہ افزا صورت حال نہیں ہے مسلمانوں کے لئے، جب تک کہ 'ہندوتوا وادی' سرکار بر سر اقتدار ہے۔ اور مسلمانوں میں اتحاد کی بھی کمی ہے، بی جے پی کے خلاف چار پانچ مسلم امید وار انتخابات لڑیں گے تو ووٹوں کی تقسیم تو لا محالہ ہو گی اور نتیجتاً انہیں لوگوں کی جیت ہو جاتی ہے۔ اور ہر اپوزیشن پارٹی دوسری پارٹیوں کو بی جے پی کی' بی ٹیم' کہتی ہے! بہرحال دیکھنا ہے کہ 2024 میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
محترم علمی و ادبی گفتگو سے ہٹ کر سوال ہے کہ آپ کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟ کیا روٹین چل رہی ہے؟ صبح جلد اٹھتے ہیں، رات کو جلد سوتے ہیں، یا اس سے الٹ معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ، جو کچھ آپ خود بتانا چاہیں۔ یہ سوال اس نیت سے کیا گیا ہے کہ ہم آپ سے کچھ سیکھ سکیں اور اپنی روایتی سستی سے نجات پا سکیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
اُستادِ محترم آپکی علمیت اور قابلیت کے رعب میں ہم روز اوّل سے ہیں اور ایک ایک لفظ لکھتے محتاط رہتے ہیں۔پر ساتھ ساتھ آپکی شفقت اور محبت کے بھی روزِ اوّل سے متعارف ہیں ۔۔
آپکے ہر لفظ سے علمیت اور قابلیت نمایاں ہوتی ہے،
پر ہمیں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آپکا ہر گرتے کو سنبھالنا ہے کہں کسی سے کچھ غلط لکھ جاتا ہے تو بڑی شفقت و محبت سے درست کردیا ۔۔جو کچھ سکھایا اُس میں اصلاح کا پہلو نمایاں اور ساتھ ساتھ پرانے مراسلے پڑھے تو انداز انتہائی دوستانہ اب تو آپ بہت کم آتے ہیں۔۔۔ آپکے اس انداز نے ہمیں آپکا گرویدہ بنادیا ۔۔۔بہت ڈھیر ساری دعائیں آپ کے لئے۔۔۔
یہ اخلاق آپکا خاصہ ہے سچ بتائیے کیا یہ انڈیا میں رہنے والے لوگ ایسے ہی اخلاق والے ہیں!!ہم تو پاکستان میں پیدا ہوئے اور ابا جان ہمیشہ بتاتے کہ ہمارے لکھنؤ میں تانگے والے تک اتنی اچھی اُردو بولتے ہیں کیا اب بھی ایسا ہے یا اب وہاں بھی عام بولنے والے انڈین فلمی ہندی بولتے ہیں !ہمارے یہاں تو عام بولنے والے بہت کم شُستہ اُردو بولتے نئے بچوں کو بہت کم دلچسپی ہے اُردو کی لکھنے اور پڑھنے میں ۔۔۔اب ہمارے بچوں نے انگریزی میں پڑھ کر منٹو اورقرۃ العین حیدر کو جانا تو کہا کے یہ تو اُردو کے بڑے نام ہئں ۔۔۔ ہمارے تینوں بچوں میں سے ایک بھی نہ اُردو لکھتا ہے نہ پڑھتا ہےکہ لکھتا ہے جسکا ہمیں بہت اُفسوس ہے ۔۔۔کیا ایسا انڈیا میں بھی اسی طرح ہے کہ نئی نسل اُردو سے بیزار ہے پاکستان کی طرح۔۔۔۔۔
سلامت رہیے بہت ڈھیر ساری دعائیں آپکے لئے اور اُردو محفل کے لئے جو ہمیں ملانے کا سبب ہے !!!!!!!!
 

الف عین

لائبریرین
آج کل تو میری مصروفیات گھر کے کاموں کی ہی زیادہ ہیں۔ پچھلے سال سے گھر میں ملازمہ بھی نہیں ہے، اور نہ کوئی مل رہی ہے نہ ہم رکھ رہے ہیں۔ ویسے گھر کے کاموں میں پہلے بھی بیگم کا ہاتھ بٹاتا تھا، کچن میں موجود رہ کر۔ روٹیاں سینکنے کا ذمہ بھی میرا ہی ہے، صابرہ بیلتی جاتی ہیں، میں سینکتا جاتا ہوں۔
خیر، روٹین یہ ہے عام دنوں میں فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہم لوگ اٹھ جاتے ہیں۔ نماز( ہم دونوں کی جماعت ہو رہی ہے آج کل کہ مسجد جانا موقوف ہے ہمارا اب بھی) کے بعد اشراق تک اذکار اور تلاوت وغیرہ۔ اشراق کے بعد روزانہ کے کام کی پہلی قسط، یعنی صحن میں جھاڑو دینا بھی میری ڈیوٹی ہے۔ اس کے بعد ناشتہ قسط ایک۔ یعنی پہلے پھل کھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا بنایا جاتا ہے، دن بھر اور کبھی کبھی دو دو دن کے لئے۔ جس کے بارے میں پہلے لکھ ہی چکا ہوں کہ روٹیاں سینکنے کا کام بھی میرا ہے۔( اس کے علاوہ کچھ سالن بھی جنہیں صابرہ میرے ہی سپرد کر دیتی ہیں، جیسے اروی، شوربے والا مچھلی کا سالن، بیگن کا بھرتا، سورجنے کی پھلیاں) اس کے بعد ناشتے کی دوسری قسط، جس میں روٹیاں کھائی جاتی ہیں۔ میری بچپن سے عادت نہیں ہے کہ روٹی کے ساتھ سالن ناشتے میں کھاؤں، اس لئے میں روٹی کے ساتھ جام یا شہد یا زعتر وغیرہ استعمال کرتا ہوں۔ کبھی کبھی دس پندرہ دن میں ایک بار اڈلی وڈا کا ناشتہ بھی کر لیا جاتا ہے، کبھی کبھی کارن فلیکس بھی، اس میں ہی پھل ملا کر)۔ اس کے بعد میرا گھر کی صفائی کا کام شروع ہوتا ہے اور صابرہ کا برتنوں کی صفائی کا۔ اس میں دس ساڑھے دس بج جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ضحی کی نماز اور پھر میرا انٹر نیٹ سیشن چلتا ہے گھنٹہ بھر۔ جس میں آن لائن اخبار، ای میل، فیس بک اور محفل شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ اکثر کوئی کتاب تیار ہوتی ہے تو اس کی فائلیں اپ لوڈ کرنا اور ویب سائٹ پر پہنچانے کا کام بھی ہو جاتا ہے۔ کبھی گھنٹہ بھر ہن دونوں مل کر قرآن کی گرامر پر کوئی ویڈیو لکچر، عبد العزیز عبد الرحیم یا عامر سہیل کا، دیکھتے ہیں، آپس میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کچھ بازار کا کام ہو تو وہ بھی اسی عرصے میں ہوتا ہے۔ بارہ بجے پھر ظہر کی تیاری ہوتی ہے۔ دس پندرہ منٹ وقت گزاری کے لئے فون پر واٹس ایپ، یا آن لائن شاپنگ بھی اسی وقت چلتی ہے، یا بیچ بیچ میں جب بھی دس پندرہ منٹ خالی ہوں۔ ظہر کے بعد( اول وقت یعنی زوال کے بعد جیسے ہی ہمارے پاس کے 'الفجر' گھڑی میں نماز کے وقت کی گھنٹی بجتی ہے، ہم لوگ نماز پرھ لیتے ہیں۔ پھر ایک بجے کے بعد کھانا ہوتا ہے۔ یہاں میونسپل سپلائی کا نل کا وقت بھی تقریباً ڈیڑھ بجے کا ہے۔ اور وہ بھی ایک دن بیچ۔ تو جب پانی کا دن ہوتا ہے تو ہم دونوں ہی پانی جمع کرتے ہیں۔ گھر میں موجود کچھ بالٹیوں میں ہر بار تازہ پانی بھرا جاتا ہے، اور پچھلے پانی کو ٹائلٹس میں فلش کر دیا جاتا ہے، یا پودوں میں بھی ڈالا جاتا ہے( آج کل نہیں کہ بارش ہو رہی ہے اکثر)، پھر اسی دن گھر کی ٹنکی بھی بھری جاتی ہے موٹر چلا کر سمپ ٹینک کے پانی سے، اس میں بھی میں اوپر چھت پر جاتا ہوں اور محترمہ سوئچ کے پاس کہ جب بھر جائے اور میں چلا کر اطلاع دوں تو وہ فوراً سوئچ بند کر دیں ۔ اس کی تیاری بھی بارہ بجے تک ہو جاتی ہے اس دن۔
اس کے بعد لنچ ہوتا ہے۔ دو ڈھائی بجے سے ساڑھے تین چار بجے تک میں کمپیوٹر پر اپنا برقی کتب یا سمت کا کام کرتا ہوں۔ پھر شام کی چائے کے لئے اٹھ جاتے ہیں۔ چائے کے بعد عصر کی نماز، اس کے بعد شام کے اذکار اور تلاوت، مغرب تک جاری رہتے ہیں۔ پھر مغرب کے فوراً بعد رات کا کھانا ہوتا ہے۔ نو بجے تک صابرہ کی ایک آن لائن کلاس ہوتی ہے قرآن کی تفسیر، گرامر اور تجوید کی۔ میں اس عرصے میں یا تو نیٹ دیکھ لیتا ہوں یا اپنا برقی کتب/سمت کا کام۔ اس کے بعد عشاء کی نماز اور پھر ساڑھے نو دس بجے سے سونے تک، یعنی ساڑھے دس یا گیارہ بجے تک پھر وہی اپنا برقی کتب وغیرہ کا کام کر کے سو جاتا ہوں۔
ہر پیر اور جمعرات، ایام البیض، شوال، تشریق وغیرہ کے ہم دونوں روزے رکھتے ہیں۔ ان دنوں میں اشراق نہیں ہوتی بلکہ اذکار کے بعد سو جاتے ہیں اور ساڑھے سات آٹھ بجے اٹھتے ہیں۔ مجھے اکثر اس وقت نیند نہیں آتی تو میں اس وقت میں بھی سونے کی جگہ موبائل پر کچھ دیکھ لیتا ہوں۔ ان دنوں میں صبح کا کام اکثر دس بجے تک ہی ہو جاتا ہے تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ مجھے مزید مل جاتا ہے محفل میں دینے کے لئے یا اپنے کام کے لئے۔
تو یہ ہے میرا مکمل روٹین!
 

علی وقار

محفلین
آج کل تو میری مصروفیات گھر کے کاموں کی ہی زیادہ ہیں۔ پچھلے سال سے گھر میں ملازمہ بھی نہیں ہے، اور نہ کوئی مل رہی ہے نہ ہم رکھ رہے ہیں۔ ویسے گھر کے کاموں میں پہلے بھی بیگم کا ہاتھ بٹاتا تھا، کچن میں موجود رہ کر۔ روٹیاں سینکنے کا ذمہ بھی میرا ہی ہے، صابرہ بیلتی جاتی ہیں، میں سینکتا جاتا ہوں۔
خیر، روٹین یہ ہے عام دنوں میں فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہم لوگ اٹھ جاتے ہیں۔ نماز( ہم دونوں کی جماعت ہو رہی ہے آج کل کہ مسجد جانا موقوف ہے ہمارا اب بھی) کے بعد اشراق تک اذکار اور تلاوت وغیرہ۔ اشراق کے بعد روزانہ کے کام کی پہلی قسط، یعنی صحن میں جھاڑو دینا بھی میری ڈیوٹی ہے۔ اس کے بعد ناشتہ قسط ایک۔ یعنی پہلے پھل کھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا بنایا جاتا ہے، دن بھر اور کبھی کبھی دو دو دن کے لئے۔ جس کے بارے میں پہلے لکھ ہی چکا ہوں کہ روٹیاں سینکنے کا کام بھی میرا ہے۔( اس کے علاوہ کچھ سالن بھی جنہیں صابرہ میرے ہی سپرد کر دیتی ہیں، جیسے اروی، شوربے والا مچھلی کا سالن، بیگن کا بھرتا، سورجنے کی پھلیاں) اس کے بعد ناشتے کی دوسری قسط، جس میں روٹیاں کھائی جاتی ہیں۔ میری بچپن سے عادت نہیں ہے کہ روٹی کے ساتھ سالن ناشتے میں کھاؤں، اس لئے میں روٹی کے ساتھ جام یا شہد یا زعتر وغیرہ استعمال کرتا ہوں۔ کبھی کبھی دس پندرہ دن میں ایک بار اڈلی وڈا کا ناشتہ بھی کر لیا جاتا ہے، کبھی کبھی کارن فلیکس بھی، اس میں ہی پھل ملا کر)۔ اس کے بعد میرا گھر کی صفائی کا کام شروع ہوتا ہے اور صابرہ کا برتنوں کی صفائی کا۔ اس میں دس ساڑھے دس بج جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ضحی کی نماز اور پھر میرا انٹر نیٹ سیشن چلتا ہے گھنٹہ بھر۔ جس میں آن لائن اخبار، ای میل، فیس بک اور محفل شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ اکثر کوئی کتاب تیار ہوتی ہے تو اس کی فائلیں اپ لوڈ کرنا اور ویب سائٹ پر پہنچانے کا کام بھی ہو جاتا ہے۔ کبھی گھنٹہ بھر ہن دونوں مل کر قرآن کی گرامر پر کوئی ویڈیو لکچر، عبد العزیز عبد الرحیم یا عامر سہیل کا، دیکھتے ہیں، آپس میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کچھ بازار کا کام ہو تو وہ بھی اسی عرصے میں ہوتا ہے۔ بارہ بجے پھر ظہر کی تیاری ہوتی ہے۔ دس پندرہ منٹ وقت گزاری کے لئے فون پر واٹس ایپ، یا آن لائن شاپنگ بھی اسی وقت چلتی ہے، یا بیچ بیچ میں جب بھی دس پندرہ منٹ خالی ہوں۔ ظہر کے بعد( اول وقت یعنی زوال کے بعد جیسے ہی ہمارے پاس کے 'الفجر' گھڑی میں نماز کے وقت کی گھنٹی بجتی ہے، ہم لوگ نماز پرھ لیتے ہیں۔ پھر ایک بجے کے بعد کھانا ہوتا ہے۔ یہاں میونسپل سپلائی کا نل کا وقت بھی تقریباً ڈیڑھ بجے کا ہے۔ اور وہ بھی ایک دن بیچ۔ تو جب پانی کا دن ہوتا ہے تو ہم دونوں ہی پانی جمع کرتے ہیں۔ گھر میں موجود کچھ بالٹیوں میں ہر بار تازہ پانی بھرا جاتا ہے، اور پچھلے پانی کو ٹائلٹس میں فلش کر دیا جاتا ہے، یا پودوں میں بھی ڈالا جاتا ہے( آج کل نہیں کہ بارش ہو رہی ہے اکثر)، پھر اسی دن گھر کی ٹنکی بھی بھری جاتی ہے موٹر چلا کر سمپ ٹینک کے پانی سے، اس میں بھی میں اوپر چھت پر جاتا ہوں اور محترمہ سوئچ کے پاس کہ جب بھر جائے اور میں چلا کر اطلاع دوں تو وہ فوراً سوئچ بند کر دیں ۔ اس کی تیاری بھی بارہ بجے تک ہو جاتی ہے اس دن۔
اس کے بعد لنچ ہوتا ہے۔ دو ڈھائی بجے سے ساڑھے تین چار بجے تک میں کمپیوٹر پر اپنا برقی کتب یا سمت کا کام کرتا ہوں۔ پھر شام کی چائے کے لئے اٹھ جاتے ہیں۔ چائے کے بعد عصر کی نماز، اس کے بعد شام کے اذکار اور تلاوت، مغرب تک جاری رہتے ہیں۔ پھر مغرب کے فوراً بعد رات کا کھانا ہوتا ہے۔ نو بجے تک صابرہ کی ایک آن لائن کلاس ہوتی ہے قرآن کی تفسیر، گرامر اور تجوید کی۔ میں اس عرصے میں یا تو نیٹ دیکھ لیتا ہوں یا اپنا برقی کتب/سمت کا کام۔ اس کے بعد عشاء کی نماز اور پھر ساڑھے نو دس بجے سے سونے تک، یعنی ساڑھے دس یا گیارہ بجے تک پھر وہی اپنا برقی کتب وغیرہ کا کام کر کے سو جاتا ہوں۔
ہر پیر اور جمعرات، ایام البیض، شوال، تشریق وغیرہ کے ہم دونوں روزے رکھتے ہیں۔ ان دنوں میں اشراق نہیں ہوتی بلکہ اذکار کے بعد سو جاتے ہیں اور ساڑھے سات آٹھ بجے اٹھتے ہیں۔ مجھے اکثر اس وقت نیند نہیں آتی تو میں اس وقت میں بھی سونے کی جگہ موبائل پر کچھ دیکھ لیتا ہوں۔ ان دنوں میں صبح کا کام اکثر دس بجے تک ہی ہو جاتا ہے تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ مجھے مزید مل جاتا ہے محفل میں دینے کے لئے یا اپنے کام کے لئے۔
تو یہ ہے میرا مکمل روٹین!
مجھے یقین ہے کہ یہ تفصیلات پڑھ کر محفلین استاد گرامی کے بعد میرا شکریہ بھی ادا کریں گے کہ ایسا سوال کیا جس کے بعد یہ زبردست جواب موصول ہوا۔ رشک کی فیلنگ چل رہی ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اُستادِ محترم آپکی علمیت اور قابلیت کے رعب میں ہم روز اوّل سے ہیں اور ایک ایک لفظ لکھتے محتاط رہتے ہیں۔پر ساتھ ساتھ آپکی شفقت اور محبت کے بھی روزِ اوّل سے متعارف ہیں ۔۔
آپکے ہر لفظ سے علمیت اور قابلیت نمایاں ہوتی ہے،
پر ہمیں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آپکا ہر گرتے کو سنبھالنا ہے کہں کسی سے کچھ غلط لکھ جاتا ہے تو بڑی شفقت و محبت سے درست کردیا ۔۔جو کچھ سکھایا اُس میں اصلاح کا پہلو نمایاں اور ساتھ ساتھ پرانے مراسلے پڑھے تو انداز انتہائی دوستانہ اب تو آپ بہت کم آتے ہیں۔۔۔ آپکے اس انداز نے ہمیں آپکا گرویدہ بنادیا ۔۔۔بہت ڈھیر ساری دعائیں آپ کے لئے۔۔۔
یہ اخلاق آپکا خاصہ ہے سچ بتائیے کیا یہ انڈیا میں رہنے والے لوگ ایسے ہی اخلاق والے ہیں!!ہم تو پاکستان میں پیدا ہوئے اور ابا جان ہمیشہ بتاتے کہ ہمارے لکھنؤ میں تانگے والے تک اتنی اچھی اُردو بولتے ہیں کیا اب بھی ایسا ہے یا اب وہاں بھی عام بولنے والے انڈین فلمی ہندی بولتے ہیں !ہمارے یہاں تو عام بولنے والے بہت کم شُستہ اُردو بولتے نئے بچوں کو بہت کم دلچسپی ہے اُردو کی لکھنے اور پڑھنے میں ۔۔۔اب ہمارے بچوں نے انگریزی میں پڑھ کر منٹو اورقرۃ العین حیدر کو جانا تو کہا کے یہ تو اُردو کے بڑے نام ہئں ۔۔۔ ہمارے تینوں بچوں میں سے ایک بھی نہ اُردو لکھتا ہے نہ پڑھتا ہےکہ لکھتا ہے جسکا ہمیں بہت اُفسوس ہے ۔۔۔کیا ایسا انڈیا میں بھی اسی طرح ہے کہ نئی نسل اُردو سے بیزار ہے پاکستان کی طرح۔۔۔۔۔
سلامت رہیے بہت ڈھیر ساری دعائیں آپکے لئے اور اُردو محفل کے لئے جو ہمیں ملانے کا سبب ہے !!!!!!!!
یہاں بھی آج کل وہی حال ہے، خاص کر شمالی ہند میں تو شستہ اردو والے خاندانوں کے افراد بھی( نو جوان ہی نہیں، میری نسل کے لوگ بھی) بے ساختہ ہندی الفاظ استعمال کر دیتے ہیں۔ چناؤ، مت دان، پردھان منتری، مکھیہ منتری بھاجپا( یعنی بی جے پی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندی مخفف) جیسے الفاظ عام بول چال بن گئے ہیں۔ جب میرے سسر حیات تھے( ان کا انتقال 1983 میں ہوا) تو ان کے وطن سے ہی کچھ رشتے دار آئے ہوئے تھے، میری عمر کے ہی ایک صاحب نے اس زمانے میں سسر صاحب سے 'انتردیشی' مانگا، تو وہ سمجھ نہ سکے اور مجھ سے پوچھا۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ ان لینڈ لیٹر کو ہندی میں 'انتر دیشیہ پتر' کہتے ہیں لیکن اس کا عام بول چال کا 'انتردیشی' میں نے بھی پہلی بار سنا!
نئی نسل کے لوگ یا تو ہندی میڈیم کے سکولوں میں جاتے ہیں یا امیروں کے بچے انگریزی میڈیم کے۔ اردو میڈیم تو صرف غریبوں کے وہ بچے جاتے ہیں جن کے گھروں کے نزدیک ہی اردو میڈیم سکول ہو۔ جو ہر ریاست میں ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ۔ کہیں طلباء ہی نہیں ہیں تو کہیں اساتذہ غائب! یہ زیادہ تر سرکاری سکولوں کا حال ہے جہاں اردو سکول دستور کے مطابق کھولنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کچھ انگریزی میڈیم کے مسلم ادارے ضرور اردو بحیثیت زبان، محض ایک مضمون کی حد تک شامل رکھتے ہیں لیکن اردو میڈیم کے پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ہم ہی ایک پرائیویٹ مسلم ادارے کے اردو میڈیم سے پڑھے ہوئے ہیں اور فخر کرتے ہیں اپنے سکول پر، اور اس پر بھی کہ اسی سکول نے شمیم حنفی جیسے نابغے کو پہلی ملازمت دی تھی! ایم اے کے فوراً بعد!!
 

الف عین

لائبریرین
مجھے یقین ہے کہ یہ تفصیلات پڑھ کر محفلین استاد گرامی کے بعد میرا شکریہ بھی ادا کریں گے کہ ایسا سوال کیا جس کے بعد یہ زبردست جواب موصول ہوا۔ رشک کی فیلنگ چل رہی ہے۔ :)
مگر میرے جواب پر اب تک ایک بھی رد عمل نہیں اور تمہارے اس مراسلے پر سات سات!
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
اعجاز صاحب اپنے پسندیدہ خود کے ہی پانچ غزلیہ اشعار فیض عام کے لیے عنایت فرمائیے۔


اپنی تین نظمیں جو آپ کو زیادہ پسند ہوں ،بھی اگر آسانی سے یہاں نقل ہو سکیں، تو کیا ہی اچھاہو۔بصورت دیگر لنک عنایت کیجیے۔

پاکستانی شعرا میں سے آپ کو کون پسند ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
نئی نسل کے لوگ یا تو ہندی میڈیم کے سکولوں میں جاتے ہیں یا امیروں کے بچے انگریزی میڈیم کے۔ اردو میڈیم تو صرف غریبوں کے وہ بچے جاتے ہیں جن کے گھروں کے نزدیک ہی اردو میڈیم سکول ہو۔ جو ہر ریاست میں ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ۔ کہیں طلباء ہی نہیں ہیں تو کہیں اساتذہ غائب! یہ زیادہ تر سرکاری سکولوں کا حال ہے جہاں اردو سکول دستور کے مطابق کھولنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کچھ انگریزی میڈیم کے مسلم ادارے ضرور اردو بحیثیت زبان، محض ایک مضمون کی حد تک شامل رکھتے ہیں لیکن اردو میڈیم کے پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ہم ہی ایک پرائیویٹ مسلم ادارے کے اردو میڈیم سے پڑھے ہوئے ہیں اور فخر کرتے ہیں اپنے سکول پر، اور اس پر بھی کہ اسی سکول نے شمیم حنفی جیسے نابغے کو پہلی ملازمت دی تھی! ایم اے کے فوراً بعد!!
سر آپکا بے حد شکریہ اتنا مفصل جواب دینے پر ۔۔۔۔سچ ایسی خوشی ہوتی ہے آپ کے لکھے ہوئے جواب سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ سے آمنے سامنے بات ہورہی ۔۔۔جیتے رہیے ۔۔۔ایسا لگتا ہے دونوں ملکوں کی نئی نسل صرف انگریزی کو اپنا کل اثاثہ سمجھتے ہیں ۔ کسی دن آپکو رضا کے اردو خط کی کاپی ضرور بھیجوں گی ایکدن اُن سے ہم نے کہا کہ رضا کیونکہ ہم نے تمھیں اُردو پڑھائی ہے اور تمھارا او لیول کے پیپر کا اے ہماری وجہ سے آیا تو ایک خط کے تو ہم حقدار ہیں بڑی مشکل سے اٹھارہ سال میں ایک خط اردو میں لکھا اس پر بھی ہم بہت خوش ہیں ۔۔۔پر بیٹیاں دونوں بالکل نہیں لکھتیں اُردو ۔۔۔:crying3::crying3:
پاکستان کا حال بہت ہی برُا ہے یہاں بھی غربا کے بچے ہی اُردو میڈیم میں پڑھتے اور تھوڑی بہت اچھی اُردو لکھ لیتے ہیں اب تو یہ حال ہے کہ متوسط طبقہ بھی ہر طرح اسی بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں کہ اچھے انگریزی میڈیم اسکولوں میں جائیں اور فر فر انگریزی بولیں تو ہی پڑھے لکھے کہلائیں گے۔۔۔۔اُردو سے نابلد ہونا کوئی بڑی بات ۔۔۔شکر ہے رضا اپنی بیٹی سے اُردو میں بات کرتے ہیں انگلستان میں رہنے کے باوجود پر بیٹی کے بیٹے صاحب ہم سے جب بات کرتے ہیں انگریزی ہی میں کرتے ہیں اُردو تھوڑی سمجھ لیتے ہیں پر بول نہیں سکتے افسوس صد افسوس ہے ۔۔۔۔
جناب آپ جیسے لوگ اس دور کا قیمتی اثاثہ ہیں پروردگار اپنی امان میں رکھے آمین !!!!!
پروفیسر شمیم حنفی کا شمار اردو کے ممتاز ترین نقادوں میں ہوتا ہے۔اُنکا رخصت ہو جانا محفل ادب کو ویران کر گیا ہے۔ جدید ادبی تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔۔۔ اپنے مرحوم والدین کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے نظم بعنوان ’مرحوم والدین کے نام‘ لکھی تھی۔اسی کے چند اشعار ؀

ایک دن مسمار ہو جائیں گی آوازیں تمام
ایک دن ہر بات احساس زیاں تک جائے گی

میں بھی کھو جاؤں گا آخر آنسوؤں کے سیل میں
یہ اندھیری شام جب کوہ گراں تک جائے گی

اے خدا! اس مشعل گم گشتہ کو محفوظ رکھ
روشنی اس کی مرے نام و نشاں تک جائے گی
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آج کل تو میری مصروفیات گھر کے کاموں کی ہی زیادہ ہیں۔ پچھلے سال سے گھر میں ملازمہ بھی نہیں ہے، اور نہ کوئی مل رہی ہے نہ ہم رکھ رہے ہیں۔ ویسے گھر کے کاموں میں پہلے بھی بیگم کا ہاتھ بٹاتا تھا، کچن میں موجود رہ کر۔ روٹیاں سینکنے کا ذمہ بھی میرا ہی ہے، صابرہ بیلتی جاتی ہیں، میں سینکتا جاتا ہوں۔
خیر، روٹین یہ ہے عام دنوں میں فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہم لوگ اٹھ جاتے ہیں۔ نماز( ہم دونوں کی جماعت ہو رہی ہے آج کل کہ مسجد جانا موقوف ہے ہمارا اب بھی) کے بعد اشراق تک اذکار اور تلاوت وغیرہ۔ اشراق کے بعد روزانہ کے کام کی پہلی قسط، یعنی صحن میں جھاڑو دینا بھی میری ڈیوٹی ہے۔ اس کے بعد ناشتہ قسط ایک۔ یعنی پہلے پھل کھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا بنایا جاتا ہے، دن بھر اور کبھی کبھی دو دو دن کے لئے۔ جس کے بارے میں پہلے لکھ ہی چکا ہوں کہ روٹیاں سینکنے کا کام بھی میرا ہے۔( اس کے علاوہ کچھ سالن بھی جنہیں صابرہ میرے ہی سپرد کر دیتی ہیں، جیسے اروی، شوربے والا مچھلی کا سالن، بیگن کا بھرتا، سورجنے کی پھلیاں) اس کے بعد ناشتے کی دوسری قسط، جس میں روٹیاں کھائی جاتی ہیں۔ میری بچپن سے عادت نہیں ہے کہ روٹی کے ساتھ سالن ناشتے میں کھاؤں، اس لئے میں روٹی کے ساتھ جام یا شہد یا زعتر وغیرہ استعمال کرتا ہوں۔ کبھی کبھی دس پندرہ دن میں ایک بار اڈلی وڈا کا ناشتہ بھی کر لیا جاتا ہے، کبھی کبھی کارن فلیکس بھی، اس میں ہی پھل ملا کر)۔ اس کے بعد میرا گھر کی صفائی کا کام شروع ہوتا ہے اور صابرہ کا برتنوں کی صفائی کا۔ اس میں دس ساڑھے دس بج جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ضحی کی نماز اور پھر میرا انٹر نیٹ سیشن چلتا ہے گھنٹہ بھر۔ جس میں آن لائن اخبار، ای میل، فیس بک اور محفل شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ اکثر کوئی کتاب تیار ہوتی ہے تو اس کی فائلیں اپ لوڈ کرنا اور ویب سائٹ پر پہنچانے کا کام بھی ہو جاتا ہے۔ کبھی گھنٹہ بھر ہن دونوں مل کر قرآن کی گرامر پر کوئی ویڈیو لکچر، عبد العزیز عبد الرحیم یا عامر سہیل کا، دیکھتے ہیں، آپس میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کچھ بازار کا کام ہو تو وہ بھی اسی عرصے میں ہوتا ہے۔ بارہ بجے پھر ظہر کی تیاری ہوتی ہے۔ دس پندرہ منٹ وقت گزاری کے لئے فون پر واٹس ایپ، یا آن لائن شاپنگ بھی اسی وقت چلتی ہے، یا بیچ بیچ میں جب بھی دس پندرہ منٹ خالی ہوں۔ ظہر کے بعد( اول وقت یعنی زوال کے بعد جیسے ہی ہمارے پاس کے 'الفجر' گھڑی میں نماز کے وقت کی گھنٹی بجتی ہے، ہم لوگ نماز پرھ لیتے ہیں۔ پھر ایک بجے کے بعد کھانا ہوتا ہے۔ یہاں میونسپل سپلائی کا نل کا وقت بھی تقریباً ڈیڑھ بجے کا ہے۔ اور وہ بھی ایک دن بیچ۔ تو جب پانی کا دن ہوتا ہے تو ہم دونوں ہی پانی جمع کرتے ہیں۔ گھر میں موجود کچھ بالٹیوں میں ہر بار تازہ پانی بھرا جاتا ہے، اور پچھلے پانی کو ٹائلٹس میں فلش کر دیا جاتا ہے، یا پودوں میں بھی ڈالا جاتا ہے( آج کل نہیں کہ بارش ہو رہی ہے اکثر)، پھر اسی دن گھر کی ٹنکی بھی بھری جاتی ہے موٹر چلا کر سمپ ٹینک کے پانی سے، اس میں بھی میں اوپر چھت پر جاتا ہوں اور محترمہ سوئچ کے پاس کہ جب بھر جائے اور میں چلا کر اطلاع دوں تو وہ فوراً سوئچ بند کر دیں ۔ اس کی تیاری بھی بارہ بجے تک ہو جاتی ہے اس دن۔
اس کے بعد لنچ ہوتا ہے۔ دو ڈھائی بجے سے ساڑھے تین چار بجے تک میں کمپیوٹر پر اپنا برقی کتب یا سمت کا کام کرتا ہوں۔ پھر شام کی چائے کے لئے اٹھ جاتے ہیں۔ چائے کے بعد عصر کی نماز، اس کے بعد شام کے اذکار اور تلاوت، مغرب تک جاری رہتے ہیں۔ پھر مغرب کے فوراً بعد رات کا کھانا ہوتا ہے۔ نو بجے تک صابرہ کی ایک آن لائن کلاس ہوتی ہے قرآن کی تفسیر، گرامر اور تجوید کی۔ میں اس عرصے میں یا تو نیٹ دیکھ لیتا ہوں یا اپنا برقی کتب/سمت کا کام۔ اس کے بعد عشاء کی نماز اور پھر ساڑھے نو دس بجے سے سونے تک، یعنی ساڑھے دس یا گیارہ بجے تک پھر وہی اپنا برقی کتب وغیرہ کا کام کر کے سو جاتا ہوں۔
ہر پیر اور جمعرات، ایام البیض، شوال، تشریق وغیرہ کے ہم دونوں روزے رکھتے ہیں۔ ان دنوں میں اشراق نہیں ہوتی بلکہ اذکار کے بعد سو جاتے ہیں اور ساڑھے سات آٹھ بجے اٹھتے ہیں۔ مجھے اکثر اس وقت نیند نہیں آتی تو میں اس وقت میں بھی سونے کی جگہ موبائل پر کچھ دیکھ لیتا ہوں۔ ان دنوں میں صبح کا کام اکثر دس بجے تک ہی ہو جاتا ہے تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ مجھے مزید مل جاتا ہے محفل میں دینے کے لئے یا اپنے کام کے لئے۔
تو یہ ہے میرا مکمل روٹین!
بہترین اور آئیڈیل طرز حیات۔۔۔
کسی بھی مسلمان کی دلی خواہش کہ اپنا دن ایسےگزارے۔۔۔
ہماری بھی یہی خواہش ہے۔۔۔
اگر زندگی رہی اور غم روزگار کا کوئی مزید آسان بندوبست ہوگیا تو۔۔۔
چند رد و بدل کے ساتھ اس لائحہ عمل کو ہی کاپی پیسٹ کریں گے ان شاء اللہ!!!
 

سیما علی

لائبریرین
خیر، روٹین یہ ہے عام دنوں میں فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہم لوگ اٹھ جاتے ہیں۔ نماز( ہم دونوں کی جماعت ہو رہی ہے آج کل کہ مسجد جانا موقوف ہے ہمارا اب بھی) کے بعد اشراق تک اذکار اور تلاوت وغیرہ۔ اشراق کے بعد روزانہ کے کام کی پہلی قسط، یعنی صحن میں جھاڑو دینا بھی میری ڈیوٹی ہے۔ اس کے بعد ناشتہ قسط ایک۔ یعنی پہلے پھل کھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا بنایا جاتا ہے، دن بھر اور کبھی کبھی دو دو دن کے لئے۔ جس کے بارے میں پہلے لکھ ہی چکا ہوں کہ روٹیاں سینکنے کا کام بھی میرا ہے۔( اس کے علاوہ کچھ سالن بھی جنہیں صابرہ میرے ہی سپرد کر دیتی ہیں، جیسے اروی، شوربے والا مچھلی کا سالن، بیگن کا بھرتا، سورجنے کی پھلیاں) اس کے بعد ناشتے کی دوسری قسط، جس میں روٹیاں کھائی جاتی ہیں۔ میری بچپن سے عادت نہیں ہے کہ روٹی کے ساتھ سالن ناشتے میں کھاؤں،
اُستادِ محترم آپکی کچھ عادتیں تو اس خاکسار سے ملتی ہیں جب سے ہوش سنبھالا اباؔجان کیونکہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی اُٹھتے تھے تو اماّں سے زیادہ اُنکے لاڈلے تھے تو عادتیں بھی اُنھی کی اپنائیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی گیئں -اور مصروفیات بھی کچھ آپ سے ملتی جلتی ہیں شور بے والا اروی کا شوربہ ہمارا پسندیدہ ہے ۔۔بیگن کا بھرتہ ۔۔البتہ مچھلی ہم نے کبھی نہیں کھائی اس لئے بالکل ذائقہ پتہ نہیں ۔:):)
سر آپکا طرزِ زندگی آئیڈیل ہے اللّہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے اس طرز زندگی پر عمل پیرا ہونے کی ۔۔سلامت رہیے ڈھیر وں دعائیں پروردگار آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔
 
Top