نئی نسل کے لوگ یا تو ہندی میڈیم کے سکولوں میں جاتے ہیں یا امیروں کے بچے انگریزی میڈیم کے۔ اردو میڈیم تو صرف غریبوں کے وہ بچے جاتے ہیں جن کے گھروں کے نزدیک ہی اردو میڈیم سکول ہو۔ جو ہر ریاست میں ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ۔ کہیں طلباء ہی نہیں ہیں تو کہیں اساتذہ غائب! یہ زیادہ تر سرکاری سکولوں کا حال ہے جہاں اردو سکول دستور کے مطابق کھولنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کچھ انگریزی میڈیم کے مسلم ادارے ضرور اردو بحیثیت زبان، محض ایک مضمون کی حد تک شامل رکھتے ہیں لیکن اردو میڈیم کے پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ہم ہی ایک پرائیویٹ مسلم ادارے کے اردو میڈیم سے پڑھے ہوئے ہیں اور فخر کرتے ہیں اپنے سکول پر، اور اس پر بھی کہ اسی سکول نے شمیم حنفی جیسے نابغے کو پہلی ملازمت دی تھی! ایم اے کے فوراً بعد!!
سر آپکا بے حد شکریہ اتنا مفصل جواب دینے پر ۔۔۔۔سچ ایسی خوشی ہوتی ہے آپ کے لکھے ہوئے جواب سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ سے آمنے سامنے بات ہورہی ۔۔۔جیتے رہیے ۔۔۔ایسا لگتا ہے دونوں ملکوں کی نئی نسل صرف انگریزی کو اپنا کل اثاثہ سمجھتے ہیں ۔ کسی دن آپکو رضا کے اردو خط کی کاپی ضرور بھیجوں گی ایکدن اُن سے ہم نے کہا کہ رضا کیونکہ ہم نے تمھیں اُردو پڑھائی ہے اور تمھارا او لیول کے پیپر کا اے ہماری وجہ سے آیا تو ایک خط کے تو ہم حقدار ہیں بڑی مشکل سے اٹھارہ سال میں ایک خط اردو میں لکھا اس پر بھی ہم بہت خوش ہیں ۔۔۔پر بیٹیاں دونوں بالکل نہیں لکھتیں اُردو ۔۔۔
پاکستان کا حال بہت ہی برُا ہے یہاں بھی غربا کے بچے ہی اُردو میڈیم میں پڑھتے اور تھوڑی بہت اچھی اُردو لکھ لیتے ہیں اب تو یہ حال ہے کہ متوسط طبقہ بھی ہر طرح اسی بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں کہ اچھے انگریزی میڈیم اسکولوں میں جائیں اور فر فر انگریزی بولیں تو ہی پڑھے لکھے کہلائیں گے۔۔۔۔اُردو سے نابلد ہونا کوئی بڑی بات ۔۔۔شکر ہے رضا اپنی بیٹی سے اُردو میں بات کرتے ہیں انگلستان میں رہنے کے باوجود پر بیٹی کے بیٹے صاحب ہم سے جب بات کرتے ہیں انگریزی ہی میں کرتے ہیں اُردو تھوڑی سمجھ لیتے ہیں پر بول نہیں سکتے افسوس صد افسوس ہے ۔۔۔۔
جناب آپ جیسے لوگ اس دور کا قیمتی اثاثہ ہیں پروردگار اپنی امان میں رکھے آمین !!!!!
پروفیسر شمیم حنفی کا شمار اردو کے ممتاز ترین نقادوں میں ہوتا ہے۔اُنکا رخصت ہو جانا محفل ادب کو ویران کر گیا ہے۔ جدید ادبی تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔۔۔ اپنے مرحوم والدین کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے نظم بعنوان ’مرحوم والدین کے نام‘ لکھی تھی۔اسی کے چند اشعار
ایک دن مسمار ہو جائیں گی آوازیں تمام
ایک دن ہر بات احساس زیاں تک جائے گی
میں بھی کھو جاؤں گا آخر آنسوؤں کے سیل میں
یہ اندھیری شام جب کوہ گراں تک جائے گی
اے خدا! اس مشعل گم گشتہ کو محفوظ رکھ
روشنی اس کی مرے نام و نشاں تک جائے گی