استاد کا مقام

جاسمن

لائبریرین
بس جی یہی سب سوچ کر تو ہم بھی پریشان ہوتے رہتے ہیں۔
پھر ہر بار کی پریشانی کے بعد خود کو تھپکتے ہیں، ہمت بندھاتے ہیں۔۔۔
"اپنے حصہ کا چراغ جلاتے چلیں۔" ہم نے اپنی جواب دہی کرنی ہے۔ خود کی اصلاح،کسی کو روک، کسی کو ٹوک، کہیں پند و نصاح، کہیں عملی مدد۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرا بیٹا اردو کی استانی کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ بہت ڈانٹتی ہیں اور اکثر ان کی ڈانٹ بغیر وجہ کے ہوتی ہے۔
مجھے توقع نہیں تھی کہ کبھی اسے بھی ڈانٹ پڑے گی کہ وہ بہت چہیتا اور لاڈلا شاگرد ہے سب کا۔ لیکن
ایک دن بتانے لگا کہ میں آرام سے سرجھکائے کچھ کر رہا تھا کہ اردو کی استانی نے آکر مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں۔ آپ ایسے آپ ویسے ۔۔۔ پانچ منٹ ڈانٹ ڈانٹ کر چلی گئیں۔
"تم نے تو انھیں جواب میں کچھ کہا تو نہیں؟"
"نہیں۔ میں بس سنتا رہا۔"
ہاں بیٹا! استاد بھی والدین کی طرح کبھی بغیر قصور کے ڈانٹ لیتے ہیں۔ خیر ہے۔ بڑا درجہ ہے ان کا۔"
"جی۔ تو میں نے نہیں کہا ناں انھیں کچھ۔۔۔"
لیکن کبھی میرے بچے بھی اساتذہ کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ باتیں سننا اس لیے مجبوری ہے کہ ہمیں صورتحال پتہ چلتی رہے۔ پھر اس کے مطابق بچوں کو ہدایت نامہ جاری کریں اور اگر سکول میں حالات کی بہتری میں کچھ کردار ادا کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی کریں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تعلیم، صحت، سیکیورٹی، صاف پانی، روزگار
یہ ہر شہری کا بنیادی انسانی حق ہے اور یہ سب مہیا کرنا امیرالمومنین کی ذمہ داری ہے
استاد والی بات اور اسکے مراتب کے سلسلے میں امیر المومنین یعنی کہ عمران خان:) کیا ذمہ داری ہوسکتی ہے؟ م
خان نے اسکولز کا آڈٹ کروا کے سالانہ فیسوں کی شرح میں کمی کرائی جس سے ہر کلاس میں دس گنا تعداد بڑھا کے سیکشنز ختم کردیے اور ٹیچر بے روزگار، انکریمنٹ میں کمی ...وغیرہ وغیرہ .....

کیا خان کا short term plan بھی کامیاب ہے کہ longer term پر خان نے ماسوا اچھی تقریر کے کچھ کرنا نہیں ہے

اساتذہ کو sufferکرنا پڑا ہے اس وجہ سے
ہم brandsکو چھوڑیں تو مر نہ جائیں:) ہمارا بچہ branded school میں پڑھتا ہے. اسکولز کی branding کیا ضروری ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا بیٹا اردو کی استانی کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ بہت ڈانٹتی ہیں اور اکثر ان کی ڈانٹ بغیر وجہ کے ہوتی ہے۔
مجھے توقع نہیں تھی کہ کبھی اسے بھی ڈانٹ پڑے گی کہ وہ بہت چہیتا اور لاڈلا شاگرد ہے سب کا۔ لیکن
ایک دن بتانے لگا کہ میں آرام سے سرجھکائے کچھ کر رہا تھا کہ اردو کی استانی نے آکر مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں۔ آپ ایسے آپ ویسے ۔۔۔ پانچ منٹ ڈانٹ ڈانٹ کر چلی گئیں۔
"تم نے تو انھیں جواب میں کچھ کہا تو نہیں؟"
"نہیں۔ میں بس سنتا رہا۔"
ہاں بیٹا! استاد بھی والدین کی طرح کبھی بغیر قصور کے ڈانٹ لیتے ہیں۔ خیر ہے۔ بڑا درجہ ہے ان کا۔"
"جی۔ تو میں نے نہیں کہا ناں انھیں کچھ۔۔۔"
لیکن کبھی میرے بچے بھی اساتذہ کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ باتیں سننا اس لیے مجبوری ہے کہ ہمیں صورتحال پتہ چلتی رہے۔ پھر اس کے مطابق بچوں کو ہدایت نامہ جاری کریں اور اگر سکول میں حالات کی بہتری میں کچھ کردار ادا کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی کریں۔

Corporate sector and branding

میں نے جاب .. اک ماہ پہلے جوائن کی تھی ... تعلیمی نظام سے suffocation محسوس کرتے ہوئے کچھ لکھ رہی

پری اولیول ٹیچنگ اور کریمنگ؟ cram

میں کلاس 7 کے بچوں کو پڑھا رہی تھی ...
انہوں نے کہا: teacher write the answers on the board

میں نے کوشش کی ان کو actively discussion میں engage کروں ..

Teacher -Student discussion and student student discussion اور Quiz


اسطرح کی سرگرمیاں تو کلاس نرسری سے کرادی جاتی ہیں ...


They were not prepared for such type of activities

نتیجتہ کلاس کا ڈسپلن خراب

اسکو maintain کرنے کے لیے کچھ Incentives اور کچھ Imagination tool استعمال کیے ان کے mindکو کنٹرول کرنے کے لیے

مجھے احساس ہونے لگا کہ بچے مجھے اپنا استاد سمجھنے لگ گئے یہ صرف پندرہ دن کی.باتیں ہیں ...ان کو دوست چاہیے تھا وہ ٹین ایج میں ...جبکہ ان کو لڑکا سمجھتے yelling and shouting تو اک استاد نے لازمی سمجھ لی ہے ..مگر اسکو لازم کیوں سمجھا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے


سب اساتذہ جب کلاس 7 کے بچے کو بھی white board پر لکھ کے دیں گے تو

To hell with this system

تعلیم کا مقصد فوت!
تعلیم کا اصل مقصد بچوں میں analytical skills کو بڑھانا اور opinion making کی.طرف جانا ہے


مضمون.چاہے انگلش ہو، میتھس ہو، کیمسٹری یا کچھ بھی ہو

ہم group work کرائیں، peer workہو یا presentation ہو یا کچھ بھی سرگرمیاں ...ان کا مقصد ہوتا کیا ہے؟ بچوں میں سوچنے کی صلاحیت بیدار کرنا ...یہ بچے سوچیں

If?
Why?
When?
Where?
How?

پھر ان سوالوں سے رائے بنانا سیکھیں، ان سے ڈیٹا بنانا سیکھیں، اور معلومات کو ذہن میں store کرنا سیکھیں ..جب معلومات feedہوتی ہیں تو یہ مسلسل سوال جواب سے ہم خود سے کچھ حاصل کرتے ہیں، جوابات پاتے ہیں اور اعتماد بڑھتا ہے

یقین ...

تعلیمی کا.بنیادی مقصد بچوں کو
Creative and self confidence دینا ہے
کیا رٹا سسٹم یہ دے سکتا ہے؟
کیا.بچوں کی grading اس بات کی ذمہ دار ہے ان میں یہ صلاحیتیں بیدار ہوگئیں

یہ text books کچھ نہیں ہے


یہ تو بچوں کی طرف سے ہوگئی بات ...

ٹیچر اک corporate sector میں کام کرتا ہے ...سب بزنس ہے ...بچے کلائنٹس ... آج کل استاد بچوں سے exploit ہو رہا ہے

میں نے سنا ..اک بچی کہتی کلاس میں سب کے سامنے میری ساتھی ٹیچر کو

ٹیچر آپ کتنی بدتمیز ہیں


یہ اک سوالیہ نشان ہے!

اک ٹیچر سے art work, cooking work, thematic assembly, poetic recitals, debates, quiz, inter and intra class activities, planning, parents association, notebook workاور جانے مزید کیا کیا کرنا پڑتا ہے. ٹیچر اب بس ٹیچر نہیں بلکہ اک ایسا پرزہ ہےہے جس سے ہزارہا فائدے لینے ہوتے ہیں ... پھر ان کے ساتھfixtures

آج کل اسکولز subsitution teacher کو نہیں رکھنا پسند کر رہے اس لیے اک ٹیچر کو سارا دن کھڑے رہ کے acting کرنی پڑتی کہ ٹیچر اک اینٹر ٹینر بھی ہے ...


اک ٹیچر کس طرح بچوں کی تعمیر کرے ...؟ بچے بھی brands کا حصہ، ٹیچرز بھی

We are in market or we are market

یہاں پر اک ٹیچر کا خالص ہونا کتنا کام آسکتا جب کہ وہ آفیشلی ان ٹاسکز کو سر انجام دے یا اسکی تربیت کرے

بچہ کبھی بھی counselling کے بغیر نہیں پڑھتا ..اب عمران خان کی پالیسز کی وجہ سے اک کلاس میں 40 بچہ بھی ہوتا ہے .. ٹیچر کس کس کی کرے؟ کس کس کو وقت دے ...ہر اک کو وقت چاہیے جبکہ ٹیچر کے لیسن پلان میں اک اک منٹ اک بنیادی سرگرمی کے planned ہوتا ہے
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
اصل خرابی کہاں ہے ۔۔۔؟؟

تعلیمی گھوڑے
عائشہ یاسین
آج میں نے اپنے بچے کے اسکول جانے کا ارادہ کیا۔ اسکول کے باہر رش تھا۔ میں وین اور ان کے ڈرائیور حضرات کی بھیڑ کو چیرتی ہوئی اسکول کے اندر داخل ہوئی۔ اسکول کافی صاف ستھرا تھا اور کینٹین بظاہر کشادہ اور صاف نظر آرہی تھی پر ہر شے کی قیمت دگنی تھی۔ خیر میں چھٹی کی گھنٹی کا انتظار کرنے لگی۔
میرا بیٹا کسی کونے سے ہانپتا کانپتا بر آمد ہوا اور میری بے وقت آمد سے بہت خوش بھی۔ اس نے بتایا کہ ابھی کلاس میں کام چل رہا ہے میں تو صرف پرنسپل کے آفس میں ٹیچر کی ڈائری داخل کروانے آیا تھا۔
اس کی حالت سے لگ نہیں رہا تھا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو صبح میں نے صاف ستھرا گھر سے بھیجا تھا۔ اسے دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھاکہ وہ کلاس میں پنکھے کے نیچے اپنی بینچ پر بیٹھ کر اپنی درسی کتاب پڑھتا ہوگا اور ساتھ میں کاپی میں سوال جواب بھی حل کرتا ہوگا۔ وہ کہیں سے طالب علم نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی شخصیت ہر گز ایسی نہیں لگ رہی تھی جو کلاس کے ایک قابل بچے کی نظر آنی چاہیے بلکہ وہ تو تھکا ماندہ ایک مزدور لگ رہا تھا۔ معقول صحت کا مالک ہونے کے باوجود ایک چاق و چوبند طالب علم نظر آنے کے بجائے، ایک کسان لگ رہا تھا جو کھیت میں کام کرکے آیا ہو بس اس کے لباس پر مٹی کے بجائے قلم کی سیاہی کے داغ نمایاں تھے۔

ذہن عجیب سوچوں میں الجھ گیا۔ وہ اپنی کلاس میں چلا گیا اور میں چھٹی کا انتظار کرنے لگی۔ گھنٹی بجی تو بچے اپنی جماعتوں سے باہر نکلنے لگے۔ تمام طلبہ اپنے بستوں کے وزن سے عاجز نظر آئے۔ ان بستو ں کا وزن اس قدر زیادہ تھا کہ ان کو اٹھانا محال تھا۔ کوئی اپنے بستے کو گھسیٹ رہا تھا تو کسی نے آدھی کتابیں ہاتھوں میں اٹھا رکھیں تھی اور کسی کے کندھے تعلیم کے بوجھ سے جھکے جارہے تھے۔ یہی حال میرے بیٹے کا بھی تھا۔
آج مجھے بے حدافسوس ہورہا ہے خود پر اور اس فرسودہ تعلیمی نظام پر۔ کیا یہ ہے تعلیم جس میں ہم نے اپنے بچوں کو جھونک رکھا ہے؟ ان معصوم بچوں کو طالب علم کے بجائے ایک مزدور بنادیا ہے جو تعلیم کے بوجھ کو اپنے نا توان کاندھوں پر اٹھائے گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کے چکر لگا رہاہے۔
کیا ہم ان کو علم و فہم دینے میں کامیاب ہیں؟ یہ آخر ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں۔ ہماری منزل کیا ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو کسی ریس میں دوڑنے والا گھوڑا تو نہیں بنا رہے ہیں؟ اور وہ بے چارہ سرپٹ دوڑے چلا جارہا ہے۔ کبھی ہم والدین چابک مارتے ہیں کبھی اساتذہ اور کبھی یہ معاشرہ، جہاں عزت کا معیار مہنگی تعلیم سے حاصل کردہ ڈگری سے ہوتا ہے۔
کیا کبھی میں نے سوچا کہ میرے 10سال کے بچے پر ظلم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ میں خود اس کی ماں ہوں۔ وہ بچہ جو صبح اٹھتا ہے بغیر ناشتہ کیے جلدی اسکول اس لیے بھاگتا ہے کہ اسکول کا دروازہ بند کردیا جائے گا اور اسکول پہنچتے ہی اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ کا شکار میرا بچہ جب لنچ خریدنے کے لیے کینٹین پر جائے گا تو قطار میں کھڑے کھڑے ہی گھنٹی بج جائے گی کیوں کہ میں اس کو گھر کا لنچ صرف اس لیے بنا کے نہیں دے پائی کہ میرا موڈ گھر کے تنازع اور سسرال والوں کی وجہ سے خراب رہا۔
اگر میرا بچہ دس منٹ وقفے میں کینٹین سے لنچ لے بھی لے گا تو اس کی استانی اس کو کھانے نہیں دے گی۔ گھر آکے بھی اس بچے کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اپنی الجھنوں یا سسرال کے اختلافات میں گھری بیٹھی ہوں گی یا مجھے اپنی سوشل میڈیا کے دوستوںکی فکر لاحق ہوگی اور میں بچے کو ایک پیکٹ میگی بنا کے خوش کر دوںگی اور تعلیم کی اینٹوں سے بھرا بستہ بنا کے دوبارہ ریس کورس کے میدان میں یعنی ٹیوشن چھوڑ آئوں گی۔
کیا ہمیں شرم نہیں آنی چاہیے؟ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟ کیا کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے اسکول میں پڑھا کر ان کو قابل بنانے کے بجائے اس دوڑ میں شامل کرنا چاہ رہے ہیں جہاں اگر وہ پیچھے رہ گیا یا خدا نا خواستہ گر گیا تو زندگی کیسے گزارے گا؟
کیا یہ بچے کا حق نہیں کہ وہ ایک آرام دہ زندگی گزارے؟ کیا برقی آلات کی فراہمی آسائش کے زمرے میں آتی ہے؟ کمپیوٹر، ٹیب، موبائل، زنگر برگر، پزا یا ائرکنڈیشن روم میں بٹھا دینا اور برانڈڈ لباس پہنا دینے سے ہم اپنی ذمے داریوں پر پورے اترتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں، بچہ ہم سے یہ سب ہرگز نہیں مانگتا بلکہ ہم خود اپنی انا اور اس سوسائٹی میں اپنی ساخت کو بنانے کے لیے اپنے بچوں کو جھانسہ دیتے ہیں۔

ہمارے بچے جیسے تیسے پل رہے ہیں۔ ہم ان کو پال نہیں رہے۔ ہم نے ان کو اپنی گود سے نکال پھینکا ہے۔ ان کو ان کے توتلی زبان سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے چھوٹے بچوں کو چھوٹا آدمی اور عورت بنا دیا ہے۔
بچوں کو صرف پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں باقی قدرت ان کو ان کی عمر کے مطابق شعور دیتی چلی جاتی ہے۔

بچوں میں تحقیق کا عنصر سب سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہ ہر شے کو توڑ کر مروڑ کر اس کو جائزہ لیتے ہیں۔ ہم نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اپنے بچوں کو قدرتی حسن سے محروم کر کے ان کے ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ تھما دیا ہے۔ ان کے ہاتھوں کو مٹی کی نمی اور خوشبو میں بسانے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں موبائل اور ٹیب دے دیا۔
ہم ماؤں نے اپنی گود چھین لی اور باپ نے اپنے کاندھے۔ اب ان گود اور ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور موبائل کا بسیرا ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ بچوں کو وقت نہیں دیتے وہ توجہ نہیں دیتے جن پر ان کا حق ہے۔
بچہ ہماری توجہ پانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے پر ہم والدین ان کی بات سنیں، یہ تو دور کی بات ہے، ہم ان کے پیارے اور معصوم چہروں کی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ہم خود اپنے ساتھ اور اپنی نسل کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی تو نہیں کر رہے؟ اس گناہ کی سزا کس کو اور کیا بھگتنی پڑے گی یہ بھی سوچیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
.
 
ایک حکایت آپ سب کے پیش نظر ہے۔ بناء کسی تبصرے کے۔ استاد کے بارے میں اپنے نتائج آپ خود اخذ کرسکتے ہیں، ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ آپ کے استاد ہونے پر فخر ہے مجھے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اساتذہ ٓاس کہانی سے کچھ نا کچھ حاصل کرسکیں گے ۔

ایک جوان مرد، ایک بوڑھے مرد کے پاس آیا ۔
جوان مرد: استاد محترم اعجاز صاحب، میرا نام انور ہے، آپ نے مجھےٓ پہچانا
اعجاز صاحب: جی نہیں
انور: آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں، آپ میرے پانچویں جماعت کے استاد تھے ، میں بہت بٓدل گیا ہوں ، لیکن آپ نے مجھے کچھ اس طرح متاثر کیا کہ میں بھی ٹیچر بن گیا ہوں۔
اعجاز صاحب: بہت خوب، میں نے کیسے متاثر کیا؟
انور : شائید آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے نذیر کی گھڑی چوری کی تھی، آپ نے سب لڑکوں کو دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا اور کہا کہ سب اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ پھر آپ ٓنے ہر لڑکے کی تلاشی لی، میری جیب سے آپ نے گھڑی برآمد کی ، لیکن آپ نے پھر بھی سارے لڑکوں کی جیب کی تلاشی لی۔ اور پھر کہا کہ جا کر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جاؤ۔ اور پھر آپ نےٓ گھڑی نذیر کو دے دی اور مٓجھے کچھ بھی نا کہا۔ آپ نے اس طرح مجھے ساری کلاس کے سامنے ہی نہیں بلکہ ساری عمر کی بے عزتی سے بچا لیا ۔ مجھے آپ کے معاملے کو اس طرح ہینڈل کرٓنے کی صلاحیت نے بہت متاثر کیا۔ ۔۔۔۔ آپ کو یاد آیا؟

اعجاز صاحب: جی نہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایسا تقریباً ہر سال ، ہر جماعت میں کم و ٓبیش ہوتا تھا اور دوسری وجہ یہ کہ ایسا کرے ہوئے میں بھی اپنی آنکھیں بند رکھتا تھا۔ تاکہ مجھے بھی نا پتہ ہو کہ ایسا کس نے کیا۔ اور میرا طالب علم دائمی بے عزتی سے بچ جائے۔
 
Top