استاد کا مقام

نور وجدان

لائبریرین
اک استاد کا مقام آج کل کم ہوگیا ہے. آج کے دور میں سب کمرشلائز ہوگیا ہے.. استاد پہلے بنانے کے لیے پڑھاتے تھے. اب استاد کمانے کے لیے پڑھاتے ہیں. استاد کا مقام بھی بدل گیا ہے. پہلے اک استاد کے ہزار شاگرد اک مجلس میں بیٹھ جاتے تھے اور ادب ایسا ہوتا تھا کہ مجال سر اٹھے کہ استاد کو گراں گزر جائے. آج کل استاد کو شکایت ہے بچے اسکی سنتے نہیں .یہ کس قدر مشکل مرحلہ انسانیت پر آچکا ہے .. استاد کا مقام صفر ہوچکا ہے کیونکہ شاگرد جانتا ہے کہ استاد کمرشل ہوچکا ہے ... استاد پہلے دلوں میں اتر جانے کا فن جانتے تھے مگر آج کل کے استاد ہزارہا حیلے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں. استاد کا مقام کم ہوگیا ہے ..

استاد کو کیا کرنا چاہیے؟ کچھ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں. رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی شروع کردے ...بچوں کی تربیت ایسے کرے نسل سدھر جائے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے استاد تربیت کیسے کرے؟

اک بچہ اک استاد کے پاس آیا اور کہا کہ یہ سوال سمجھا دیں! استاد نے جواب دیا کہ ابھی تو فارغ نہیں. کلاس میں آکے سمجھا دوں گا تو بچہ کبھی استاد کے پاس سوال لیے آئے گا؟

اللہ سے بھی تو ہم سوال کرتے اور اللہ کہے دو چار سال بعد سنوں گا. صرف سننے کے لیے سالوں کا عرصہ ...لوگوں نے اللہ سے بھاگنا شروع کردینا کہ اللہ تو سنتا ہی نہیں .. اللہ نے اس لیے تو کہا کہ میں شہ رگ سے قریب ہوں ... خدارا! مقام کو پہچانیں! سمجھیں استاد نے اپنی عزت خود نہیں کروائی .. استاد اپنے مرتبے سے خود گرگیا ہے ...

یہ بہت مقدس پیشہ ہے! افسوس یہ پیشہ ہے. اسکو شوق ہونا چاہیے تھا ..وہ شوق جس سے معاشرے کی اصلاح ہو جائے!
 

ام اویس

محفلین
استاد کا حال بھی اس معاشرے نے مولوی جیسا کر دیا ہے ۔۔۔۔
اور تعلیم اب کاروبار ہے یا مال کمانے کا وسیلہ
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
 

محمد وارث

لائبریرین
پچھلے بارہ تیرہ چودہ سو سال میں ہر قسم کے معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی ارتقا یا مشکلات کو نظر انداز کر کے صرف ایک مسئلے کو پکڑ لینے سے نہ کچھ بہتر ہوگا نہ حاصل۔ اساتذہ کا مسئلہ ان کے ہر طرح کے معاشی، معاشرتی، سماجی مسائل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آج کل کے زمانے میں کسی استاد کے دل میں لاکھ قوم کے بچوں کو 'انسان' بنانے کا جذبہ ہو لیکن جب تک وہ سب سے پہلے اپنی معاش کا نہیں سوچے گا اس کے اپنے بچے بھوکے رہ جائیں گے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پچھلے بارہ تیرہ چودہ سو سال میں ہر قسم کے معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی ارتقا یا مشکلات کو نظر انداز کر کے صرف ایک مسئلے کو پکڑ لینے سے نہ کچھ بہتر ہوگا نہ حاصل۔ اساتذہ کا مسئلہ ان کے ہر طرح کے معاشی، معاشرتی، سماجی مسائل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آج کل کے زمانے میں کسی استاد کے دل میں لاکھ قوم کے بچوں کو 'انسان' بنانے کا جذبہ ہو لیکن جب تک وہ سب سے پہلے اپنی معاش کا نہیں سوچے گا اس کے اپنے بچے بھوکے رہ جائیں گے۔
بالکل درست لیکن یہ مسئلہ معاشرے کے ہر عامل کردار پر یکساں صادق آتا ہے ۔ہر فرد دراصل اپنی صلاحیتیں بہ روئے کا رلانے میں معاشی بوجھ کی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہے اور یوں معاشرے کے عناصر میں اعتدال نہیں رہتا۔ ہماری سوسائٹی بھی شاید انہی بے اعتدالیوں کا شکار ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نور جی ۔دیکھیے۔یہ اقبال نے تقریبا سو سال قبل کہا تھا ۔
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹرسے کہ بل پیش کیجیئے
اس حال کا ذمہ دار کون ہے؟
سرمایہ درانہ نظام کیا اسکی وجہ ہے؟
کیا branded اسکولز کا کوئی ً دخل ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
استاد کا حال بھی اس معاشرے نے مولوی جیسا کر دیا ہے ۔۔۔۔
اور تعلیم اب کاروبار ہے یا مال کمانے کا وسیلہ
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
مال کمانے کے ساتھ ساتھ، ٹیچر کے جذبات کیوں سو جاتے؟ ضمیر کیوں سوجاتا؟
 

نور وجدان

لائبریرین
پچھلے بارہ تیرہ چودہ سو سال میں ہر قسم کے معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی ارتقا یا مشکلات کو نظر انداز کر کے صرف ایک مسئلے کو پکڑ لینے سے نہ کچھ بہتر ہوگا نہ حاصل۔ اساتذہ کا مسئلہ ان کے ہر طرح کے معاشی، معاشرتی، سماجی مسائل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آج کل کے زمانے میں کسی استاد کے دل میں لاکھ قوم کے بچوں کو 'انسان' بنانے کا جذبہ ہو لیکن جب تک وہ سب سے پہلے اپنی معاش کا نہیں سوچے گا اس کے اپنے بچے بھوکے رہ جائیں گے۔
یہ بات ہے جس میں سو فیصد سچائی ہے مگر آج کل کا استاد دیگر ملٹی نیشنل کمپینیز کی طرح اچھا کما رہا ہے ..اس کے بچوں کو بھی فری کردیا جاتا ہے یا کنسیشنز ...میرا خیال آدھا خرچہ جو بچوں کے تعلیمی اخراجات پر آتا ہے وہ تو پورا ہوجاتا ہے ...بچے مفت پڑھتے ..کہاں دس پندرہ ہزار فیس تو کہاں مفت پڑھنا وغیرہ ..اک استاد کے لیے ادارہ سہولت تو دیتا ہے. ادارہ خود بھی کمرشل ہے ..ریٹنگ بس بنانی ... ٹیچر کی ریٹنگ بھی ساتھ ہوتی ..تو کیا بس یہی ریس لگانی ہے استاد نے یا وہ کچھ کر بھی سکتا ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
تینوں طرف ہی کچھ کمزوریاں ہیں۔ والدین وہ نہیں رہے جو اساتذہ کا ادب کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ طلبہ کے دلوں میں بھی احترامِ استاد نہیں رہا اور اساتذہ بھی بدل گئے۔۔۔
جب معاشرہ میں مجموعی لحاظ سے بگاڑ آرہا ہے تو معاشرے کا یہ حصہ بھی اثرانداز ہوگا۔
اب معاش کے زیادہ مسائل نہ بھی ہوں تب بھی بہت سے لوگ ہوس میں مبتلا مزید کی جستجو میں اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
*اگر کلاس میں طلبہ کو اچھی طرح پڑھا دیا جائے تو ٹیوشن کی ضرورت نہیں رہتی۔
*استاد کو اخلاقی تربیت دینے سے پہلے خود عمل کرنا ہوتا ہے۔
* استاد کو بہت ایثار و قربانی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
*والدین کو بھی اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ استاد کے حقوق اور طالب علم کے کیا فرائض ہیں۔
*اگر والدین کو اساتذہ سے شکایت ہے تو بچوں کے سامنے بات نہ کریں۔ ادارہ میں جا کر استاد سے براہِ راست بات کریں یا معاملہ اس نوعیت کا ہے کہ انتظامیہ کے علم میں لایا جانا چاہیے تو انتظامیہ کو بتائیں۔
*طلبہ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کے اساتذہ بھی انسان ہیں، فرشتہ نہیں۔ ان میں بھی بشری کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اساتذہ کا احترام ان پہ واجب ہے۔ کوئی بڑا مسئلہ ہے تو کلاس کے انچارج یا متعلقہ انچارج/پرنسپل کو بتائیں۔ معاملہ حل نہیں ہوتا تو والدین کو بتائیں۔۔لیکن بدتمیزی بالکل بھی نہ کریں۔
*استاد پڑھاتے وقت کچھ وقت اخلاقی تربیت جو ضرور دیں۔۔۔لیکن وہی بات کہ پہلے خود عمل کریں۔
*ہر شخص اپنے حصہ کے فرائض ادا کرے تو صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
میری پہلوٹھی کی کلاس میں ایک شاگرد میرے لیے ساگ اور مکھن لائی۔ بہت محبت سے مجھے پیش کیا۔ میں حیران و پریشاں کھڑی کہ اسے کیسے منع کروں۔ بچی دل شکستہ ہو گی۔۔۔
"بیٹا! مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں۔ میں بھی آپ سے محبت کرتی ہوں۔ آپ بہت اچھی شاگرد ہیں۔ لیکن میں آپ کا یہ تحفہ نہیں لے سکتی۔اس کو لینے سے دو نقصانات ہوں گے۔
1:مجھے بچوں سے تحائف لینے کی عادت پڑ جائے گی۔ آج میں مجبوراََ لوں گی تو خدانخواستہ کل خوشی سے لیا کروں گی۔ انسان بہت کمزور ہے۔
2:جب میں آپ کو سرزنش کرنا چاہوں گی یا آپ کے پرچے چیک کرنے لگوں گی تو میری آنکھوں کے سامنے یہ ساگ اور مکھن جائے گا۔
وہ سمجھدار بچی تھی۔۔۔ماشاءاللہ۔ سمجھ گئی اوراپنی چیزیں واپس لے گئی۔
 

جاسمن

لائبریرین
نوکری کی جواننگ سے پہلے ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ کبھی پیسوں پہ ٹیوشن نہیں دوں گی۔ اگر بہت مجبوری ہوئی تو باقی کوئی مضمون فیس کے عوض پڑھا دوں گی لیکن کم از کم اپنے مضمون کی ٹیوشن فیس کبھی نہیں لوں گی۔
الحمداللہ۔ الحمداللہ۔ کئی مضامین پڑھائے۔ کبھی بھی ٹیوشن فیس نہیں لی۔ اپنا مضمون کلاس میں ہی اچھی طرح پڑھایا تو ضرورت ہی نہیں پڑی۔
تین شاگردوں نے تھوڑی سی مدد لی جبکہ ایک شاگرد بہت دیر سے داخل ہوئی تو اس نے پچھلے اسباق پڑنے تھے۔ ادارے میں نہ اس کے پاس وقت تھا نہ میرے پاس۔
اس کی امی نے مجھ سے بات کی۔ وہ میرے گھر آکر پڑھنے لگی۔
اختتام پر اس کی امی نے فیس پوچھی (وہ خاصے امیر، مربعوں کے مالک لوگ ہیں۔) تو میں نے بتایا کہ میں اپنی شاگردوں سے فیس نہیں لیتی۔ ایک ملاقات میں میرے بیٹے کو پہلی بار دیکھا تو انھوں نے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی۔میں نے انکار اور انھوں نے اصرار کیا تو میں نے دو سو روپے لے کے باقی واپس کر دیے۔
 

ام اویس

محفلین
مال کمانے کے ساتھ ساتھ، ٹیچر کے جذبات کیوں سو جاتے؟ ضمیر کیوں سوجاتا؟
پتہ نہیں یہ کمی کب سے معاشرے کے اکثر افراد کے ذہنوں میں در آئی۔ ٹیچر بننا استاذ ہونا ایک رتبے کا نام ہے جس پر اپنے سٹوڈنٹس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی ذمہ داری ہے۔
اِدھر والدین اولاد کی تربیت سے غافل ہیں اُدھر سکول کالج کے اساتذہ کا عجب حال ہے۔ سارا معاشرہ نفسا نفسی، لاپرواہی ، بے حسی کی لپیٹ میں اور حرص و ہوس کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
نصاب تعلیم ہے تو اس میں سے مذہبی اقدار نکال رہے ہو تو کم از کم تہذیب سکھانے کا اہتمام تو کرو۔ چلو آخرت نہ سہی دنیا ہی سنور جائے۔ بس رٹو طوطے تیار کرنے پر زور ہے۔ اس رٹا سسٹم سے تعلیم حاصل کرنے والا جب اگلی نسل کے اساتذہ میں تبدیل ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟
آج تک یہ ہی ڈیسائڈ نہیں کر پائے کہ کیا پڑھائیں اور کیا نہ پڑھائیں ، نہ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے نہ شاگردوں کی بس ہر طرف ڈنگ ٹپاؤ ماحول ہے۔
 

ام اویس

محفلین
نوکری کی جواننگ سے پہلے ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ کبھی پیسوں پہ ٹیوشن نہیں دوں گی۔ اگر بہت مجبوری ہوئی تو باقی کوئی مضمون فیس کے عوض پڑھا دوں گی لیکن کم از کم اپنے مضمون کی ٹیوشن فیس کبھی نہیں لوں گی۔
الحمداللہ۔ الحمداللہ۔ کئی مضامین پڑھائے۔ کبھی بھی ٹیوشن فیس نہیں لی۔ اپنا مضمون کلاس میں ہی اچھی طرح پڑھایا تو ضرورت ہی نہیں پڑی۔
تین شاگردوں نے تھوڑی سی مدد لی جبکہ ایک شاگرد بہت دیر سے داخل ہوئی تو اس نے پچھلے اسباق پڑنے تھے۔ ادارے میں نہ اس کے پاس وقت تھا نہ میرے پاس۔
اس کی امی نے مجھ سے بات کی۔ وہ میرے گھر آکر پڑھنے لگی۔
اختتام پر اس کی امی نے فیس پوچھی (وہ خاصے امیر، مربعوں کے مالک لوگ ہیں۔) تو میں نے بتایا کہ میں اپنی شاگردوں سے فیس نہیں لیتی۔ ایک ملاقات میں میرے بیٹے کو پہلی بار دیکھا تو انھوں نے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی۔میں نے انکار اور انھوں نے اصرار کیا تو میں نے دو سو روپے لے کے باقی واپس کر دیے۔
الله کریم آپ کو خیر وبرکت عطا فرمائے مجھے اپنی ایک استاد یاد آگئیں۔ میٹرک میں میں نے ان کے گھر جا کر ایک دو مضامین کی کمی کوتاہی دور کی لیکن ٹیوشن کی مد میں انہوں نے ایک روپیہ لینا گواراہ نہ کیا۔ میرے دل میں آج بھی ان کی بہت عزت اور مقام ہے۔ ایسے استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کے دل میں رہتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میری پہلوٹھی کی کلاس میں ایک شاگرد میرے لیے ساگ اور مکھن لائی۔ بہت محبت سے مجھے پیش کیا۔ میں حیران و پریشاں کھڑی کہ اسے کیسے منع کروں۔ بچی دل شکستہ ہو گی۔۔۔
"بیٹا! مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں۔ میں بھی آپ سے محبت کرتی ہوں۔ آپ بہت اچھی شاگرد ہیں۔ لیکن میں آپ کا یہ تحفہ نہیں لے سکتی۔اس کو لینے سے دو نقصانات ہوں گے۔
1:مجھے بچوں سے تحائف لینے کی عادت پڑ جائے گی۔ آج میں مجبوراََ لوں گی تو خدانخواستہ کل خوشی سے لیا کروں گی۔ انسان بہت کمزور ہے۔
2:جب میں آپ کو سرزنش کرنا چاہوں گی یا آپ کے پرچے چیک کرنے لگوں گی تو میری آنکھوں کے سامنے یہ ساگ اور مکھن جائے گا۔
وہ سمجھدار بچی تھی۔۔۔ماشاءاللہ۔ سمجھ گئی اوراپنی چیزیں واپس لے گئی۔
آپ پر رشک آتا ہے
اتنے اچھے انسان دنیا میں موجود ہیں
سچ ہے آپ میرے لیے مثال ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
نوکری کی جواننگ سے پہلے ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ کبھی پیسوں پہ ٹیوشن نہیں دوں گی۔ اگر بہت مجبوری ہوئی تو باقی کوئی مضمون فیس کے عوض پڑھا دوں گی لیکن کم از کم اپنے مضمون کی ٹیوشن فیس کبھی نہیں لوں گی۔
الحمداللہ۔ الحمداللہ۔ کئی مضامین پڑھائے۔ کبھی بھی ٹیوشن فیس نہیں لی۔ اپنا مضمون کلاس میں ہی اچھی طرح پڑھایا تو ضرورت ہی نہیں پڑی۔
تین شاگردوں نے تھوڑی سی مدد لی جبکہ ایک شاگرد بہت دیر سے داخل ہوئی تو اس نے پچھلے اسباق پڑنے تھے۔ ادارے میں نہ اس کے پاس وقت تھا نہ میرے پاس۔
اس کی امی نے مجھ سے بات کی۔ وہ میرے گھر آکر پڑھنے لگی۔
اختتام پر اس کی امی نے فیس پوچھی (وہ خاصے امیر، مربعوں کے مالک لوگ ہیں۔) تو میں نے بتایا کہ میں اپنی شاگردوں سے فیس نہیں لیتی۔ ایک ملاقات میں میرے بیٹے کو پہلی بار دیکھا تو انھوں نے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی۔میں نے انکار اور انھوں نے اصرار کیا تو میں نے دو سو روپے لے کے باقی واپس کر دیے۔
آپ جیسے تو اک یا دو ہیں. آپ سے یا آپ جیسوں سے اساتذہ کا جاتا بھرم قائم ہے وگرنہ پریشر میں بیشتر ٹیچر قبل از وقت پیپر لیک کردیتے ان بچوں کے لیے بالخصوص جو ان کے پاس ٹیوشن پڑھتے ہیں ...آپ کی رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت مثالی ہے. آپ اک بہت اچھی شخصیت ہیں ..
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ
تینوں طرف ہی کچھ کمزوریاں ہیں۔ والدین وہ نہیں رہے جو اساتذہ کا ادب کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ طلبہ کے دلوں میں بھی احترامِ استاد نہیں رہا اور اساتذہ بھی بدل گئے۔۔۔
جب معاشرہ میں مجموعی لحاظ سے بگاڑ آرہا ہے تو معاشرے کا یہ حصہ بھی اثرانداز ہوگا۔
اب معاش کے زیادہ مسائل نہ بھی ہوں تب بھی بہت سے لوگ ہوس میں مبتلا مزید کی جستجو میں اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
*اگر کلاس میں طلبہ کو اچھی طرح پڑھا دیا جائے تو ٹیوشن کی ضرورت نہیں رہتی۔
*استاد کو اخلاقی تربیت دینے سے پہلے خود عمل کرنا ہوتا ہے۔
* استاد کو بہت ایثار و قربانی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
*والدین کو بھی اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ استاد کے حقوق اور طالب علم کے کیا فرائض ہیں۔
*اگر والدین کو اساتذہ سے شکایت ہے تو بچوں کے سامنے بات نہ کریں۔ ادارہ میں جا کر استاد سے براہِ راست بات کریں یا معاملہ اس نوعیت کا ہے کہ انتظامیہ کے علم میں لایا جانا چاہیے تو انتظامیہ کو بتائیں۔
*طلبہ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کے اساتذہ بھی انسان ہیں، فرشتہ نہیں۔ ان میں بھی بشری کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اساتذہ کا احترام ان پہ واجب ہے۔ کوئی بڑا مسئلہ ہے تو کلاس کے انچارج یا متعلقہ انچارج/پرنسپل کو بتائیں۔ معاملہ حل نہیں ہوتا تو والدین کو بتائیں۔۔لیکن بدتمیزی بالکل بھی نہ کریں۔
*استاد پڑھاتے وقت کچھ وقت اخلاقی تربیت جو ضرور دیں۔۔۔لیکن وہی بات کہ پہلے خود عمل کریں۔
*ہر شخص اپنے حصہ کے فرائض ادا کرے تو صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے۔



یہ کمزوریوں والی بات بالکل بجا ہے ...والدین مہنگے اسکول میں ڈالتے تو سمجھتے اساتذہ نگران ..وہی پرائمری گروپ سے زیادہ سیکنڈری گروپ پرورش کرے اور سیکنڈری گروپ کیوں کرے؟ ان کے اپنے بچے نہیں! غرض ہر کوئ ذمہ داری سے بھاگ رہا. یہاں تک کہ دو ڈھائ سال کی عمر کا بچہ داخل کرادیا جاتا کہ گھر میں ذمہ داری. اسکول میں ٹیچر فیڈر لیے کھڑی ہوتی ....ہمارا معاشرہ تنزلی کا شکار ہے ..بچے کے پاس جو "خلا " ہے رشتوں کا وہ کون پورا کرے. یہ بھی سوال ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
تو یہاں سوال اٹھتا ہے!
تعلیمی نظام کا مقصد ہے کیا آخر؟


پتہ نہیں یہ کمی کب سے معاشرے کے اکثر افراد کے ذہنوں میں در آئی۔ ٹیچر بننا استاذ ہونا ایک رتبے کا نام ہے جس پر اپنے سٹوڈنٹس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی ذمہ داری ہے۔
اِدھر والدین اولاد کی تربیت سے غافل ہیں اُدھر سکول کالج کے اساتذہ کا عجب حال ہے۔ سارا معاشرہ نفسا نفسی، لاپرواہی ، بے حسی کی لپیٹ میں اور حرص و ہوس کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
نصاب تعلیم ہے تو اس میں سے مذہبی اقدار نکال رہے ہو تو کم از کم تہذیب سکھانے کا اہتمام تو کرو۔ چلو آخرت نہ سہی دنیا ہی سنور جائے۔ بس رٹو طوطے تیار کرنے پر زور ہے۔ اس رٹا سسٹم سے تعلیم حاصل کرنے والا جب اگلی نسل کے اساتذہ میں تبدیل ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟
آج تک یہ ہی ڈیسائڈ نہیں کر پائے کہ کیا پڑھائیں اور کیا نہ پڑھائیں ، نہ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے نہ شاگردوں کی بس ہر طرف ڈنگ ٹپاؤ ماحول ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تعلیمی نظام کا مقصد تو معاشرے کے لیے کارآمد انسان تیار کرنا ہی ہے۔
وہ تو ہے!
کیسے بنانا ہے
اسکے لیے اسکول میں بھیجا جاتا ہے
ماں کی گود بھی درسگاہ ہے
وہ اک ultimate goal ہے جس کے لیے aims & objectives بھی تو ہو سکتے ...
ہمارا تو تعلیمی نظام بھی رٹے یا نقالی پر مشتمل ہے
وژنری پرسنز بہت کم ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
تعلیم، صحت، سیکیورٹی، صاف پانی، روزگار
یہ ہر شہری کا بنیادی انسانی حق ہے اور یہ سب مہیا کرنا امیرالمومنین کی ذمہ داری ہے
 
Top