یہاں ان شرطیہ میں ’’اگر‘‘ کے معنی ہمارے اعتبار سے ہیں۔۔۔
سو اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ اے اللہ آپ کے علم میں یہ کام ’’اگر ہمارے لیے‘‘ خیر ہے تو!!!
ٌ
جناب@سید عمران صاحب ، میں عربی کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں بلکہ مبتدی ہی کہئے ۔
اپنی کم علمی کا مجھے اعتراف ہے لیکن ادب کے ساتھ اختلاف کی جرات کروں گا۔ "اِن شرطیہ" کی جو تشریح آپ نے کی اور جو ترجمہ لکھا وہ تو درست نہیں ہے ۔گرامر کے لحاظ سے درست ترجمہ تو وہی بنتا ہے جو میں نے اوپر لکھا ۔
اصول کے مطابق جملہ شرطیہ میں حرفِ شرط "إِنْ"ہمیشہ فعل سے پہلے آتا ہے او آگے آنے والے جملہ جزائیہ پر اِس فعل کی شرطقائم کرتا ہے۔ چنانچہ ان جملوں کی تحلیلِ نحوی یوں ہوگی ۔
جملہ شرطیہ: إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَاالأَمْرَ خَیْرٌ ( اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر باعثِ خیر ہے)
جملہ جزائیہ:
فَاقْدُرْهُ لِي (تو اسے میرے لئے مقدر کردے)
جملہ شرطیہ: إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَاالأَمْرَ شَرٌّ لِي (اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے باعثِ شر ہے )
جملہ جزائیہ: فَاصْرِفْنِي عَنْهُ ( تو مجھے اِس سے دور کردے)
یہ جو آپ نے لکھا کہ اِن شرطیہ ہمارے اعتبار سے ہے (اگر ہمارے لیے) تو گویا آپ "اِن" کو اسم سے پہلے استعمال کرکے اسم کو شرط ٹھہرا رہے ہیں جو کہ ظاہر ہے درست نہیں ہے ۔ اِن
شرطیہ تو فعل سے پہلے آتا ہے اور فعل کو جزا کی شرط ٹھہراتا ہے ۔
جہاں تک شمشاد صاحب کے سوال یا اشکال کا تعلق ہے تو اجمالی طور پر اس کا جواب پہلے دیا تھا لیکن اس موقع پر کچھ تفصیل سے لکھتا ہوں ۔
اس دعا کے شرطیہ جملے میں حرفِ شرط " اِن" کے بعد دو افعال استعمال ہوئے ہیں ۔ "كُنْتَ" اور "تَعْلَمُ"۔ لفظ تَعْلَمُ مضارع کا صیغہ ہے ۔مضارع میں حال اور مستقبل کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ یعنی تَعْلَمُ کا لفظ اگر اکیلا استعمال ہوتا تو اس کے معنی ہوتے "تو جانتا ہے یا تو جانے گا"۔ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ فعل مضارع سے پہلے اگر "کَانَ" آجائے تو اس کے معنی ماضی استمراری (past continuous tense) کے ہوجاتے ہیں ۔ یعنی کسی فعل کے ماضی میں مسلسل ہوتے رہنے یا جاری رہنے کا مطلب پیدا ہوجاتا ہے۔ تو اب كُنْتَ تعْلَمُ کا مطلب یہ ہوا کہ تُو ماضی میں جانتا رہا ہے ( یعنی تجھے پہلے ہی سے علم رہا ہے) ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس مفہوم کو آسان اور معروف اردو میں کماحقہ ادا کرنا بہت مشکل ہے ۔ (جیسا کہ میں نے پہلے بھی اوپر لکھا تھا کہ عربی الفاظ اور نحوی ترکیبوں کی فصاحت اور بلاغت کو کسی بھی زبان میں ترجمے کی مدد سے کلی طور پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔) چنانچہ اس دعا کا ترجمہ اردو اور انگریزی دونوں میں شرطیہ جملے کی طرز پر اس طرح سے کردیا جاتا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا یعنی: اگر تو جانتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔الخ۔
جبکہ درحقیقت كُنْتَ تَعْلَمُ میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اللہ آپ تو پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ اس کام میں میرے لئے خیر پوشیدہ ہے سو اگر اس میں میرے لئے خیر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کردے ۔۔۔۔۔۔ الخ
شمشاد بھائی ، امید ہے کہ وضاحت ہوگئی ہوگی۔