استخارہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مختلف مجلسوں اور بیٹھکوں میں دورانِ گفتگو یہ موضوع اکثر زیرِ بحث آتا ہے کہ استخارہ کیسے کرنا چاہئے اور اس سے نتیجہ کس طرح اخذ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس سادہ سی سنت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں اور بدعات عام ہوچکی ہیں۔ اکثر لوگ استخارہ کو کوئی پیچیدہ عمل سمجھتے ہیں کہ جسے کرنے کے لئے کسی خاص علم یا وظیفے کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالانکہ استخارہ ایک دعا کے علاوہ کسی اور چیز کا نام نہیں اور ہر مسلمان یہ دعا کرسکتا ہے اور کرنا چاہئے۔ ذیل میں اس موضوع پر ایک مختصر سی تحریر افادۂ عام کے لئے پیش کررہا ہوں تاکہ استخارہ کے بارے میں پوچھے جانے والے عام سوالات و اشکالات کے جواب کا ایک مستقل ذریعہ بن جائے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
استخارہ:
استخارہ كى لغوى تعريف كسى چيز (یا چیزوں) ميں سے بہتر كو طلب كرنا ہے ۔ اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ کسی معاملے میں اللہ تعالى سے دعا کی جاتی ہے کہ وہ بہتر راہ یا فیصلہ نصیب کردے ۔ یعنی اللہ تعالىٰ كے ہاں جو کام یا امر ہمارے لئے بہتر و افضل ہے ہمیں اس كى طرف پھیر دے اور اس کے لئے راہ ہموار کردے ۔

دعائے استخارہ کا طریقہ:
یہ طریقہ متعدد احادیث میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جو بخاری اور دیگر کتب میں موجود ہیں ۔ بخاری کی حدیث میں صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح ہميں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے ۔ آپ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ميں سے كوئى شخص (کوئی) كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت (نفل) ادا كر كے يہ دعا پڑھے:

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْم ۔ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ ۔ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ فِیْ دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ ۔ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ اَرْضِنِي بِه ۔


ترجمہ: اے اللہ ميں تجھ سے تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں ، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں۔ تو جانتا ہے ، اور ميں نہيں جانتا ۔ اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے ۔ الہٰى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجامِ كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كردے اور اسے آسان كر دے ، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما ۔ اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجامِ كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے (دور کردے) اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو ، پھر مجھے اس پر راضى كردے ۔
(وضاحت: اس دعا میں اَنَّ هَذَا الأَمْرَ کی جگہ دعا مانگنے والا اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے ۔ اگر زبان سے عربی میں کہنا ممکن نہ ہو تو دل میں مطلوبہ کام کا خیال یا تصور لائے ۔)

اگرچہ استخارہ کی نماز میں قرآن کی کوئی بھی سورت یا آیات پڑھی جاسکتی ہیں لیکن جمہور کی رائے میں سورۃ فاتحہ كے بعد پہلى ركعت ميں سورۃ الكافرون اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الاخلاص پڑھى جائے تو بہتر ہے ۔ سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کے عام طریقے کے مطابق پہلے اللہ کی حمد و ثنا اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے ۔ اور پھر مندرجہ بالا دعائے استخارہ پڑھی جائے ۔ کسی کام یا امر کے لئے کئی بار اور بار بار استخارہ کرنا چاہئے ۔ یعنی اللہ سے یہ دعا بار بار مانگتے رہنا چاہئے تا وقتیکہ اس کام کا کوئی فیصلہ ہوجائے ۔

استخارہ کی غرض و غایت:
استخارہ دراصل اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سرِ تسليم خم کرتے ہوئے ، اپنی طاقت و استطاعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قادرِ مطلق اور مالک الملک سبحانہ وتعالىٰ کا دروازہ كھٹكھٹانے کا نام ہے ۔ اس التجا كے ليے نماز اور دعا سے بہتر اور کارآمد کوئی اور ذریعہ نہيں ہوسکتا ۔ نماز اور دعا میں اللہ تعالىٰ كى تعظيم ، حمد و ثنا اور اس سے اپنی محتاجگى کا اظہار کیا جاتا ہے۔ استخارہ میں اللہ تعالیٰ سے التجا كى جاتی ہے كہ وہ کسی امر میں دنيا و آخرت كى خير و بھلائى آپ کے لئے جمع كر دے۔ چنانچہ استخارہ کی نماز اور دعا کی قبولیت کے لئے (دیگر عبادات کی طرح) خشوع و خضو اور خلوصِ نیت کا اہتمام بہت ضروری ہے ۔

استخارہ کن امور میں کرنا چاہئے؟
اس بات پر کلی اتفاق ہے كہ استخارہ ان امور ميں ہوگا جن ميں آدمی كو درست چيز یا راستے كا علم نہ ہو ۔ ليكن جو چيزيں خير اور شر ميں معروف ہيں اور ان كے اچھے اور برے ہونے كا علم ہے تو ان كاموں كے ليے استخارہ كرنے كى كوئى ضرورت نہيں (مثلاً عبادات ، نیک اعمال ، برائى کا کام یا منكرات)۔ ظاہر ہے کہ برائی کے کام مثلاً جوا کھیلنا ، سود لینا یا دینا وغیرہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب نہیں کی جاسکتی ۔ ليكن نیکی کا کوئی کام اگر کسی مخصوص وقت یا موقع سے متعلق ہو تو اس كے ليے استخارہ کیا جا سكتا ہے ۔ مثلاً کسی بیماری یا فتنے کی صورت ميں یہ فیصلہ کرنا کہ اس سال حج یا عمرے کا سفر کیا جائے یا نہیں۔ یا حج و عمرہ کے لئے کسی مخصوص شخص یا گروپ كى رفاقت اختيار کی جائے یا نہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔
بہ الفاظِ دیگر كسى واجب يا حرام كام کے لئے استخارہ نہيں كيا جائے گا بلكہ استخارہ جائز اور مباح كاموں ميں كيا جائے گا۔ استخارہ اس وقت کرنا چاہئے جب کسی امر میں کوئی تعارض پیدا ہوجائے ۔ يعنى جب دو كاموں ميں تعارض یا اختلاف پيدا ہو جائے كہ ان میں سےكونسا كام کیا جائے یا دونوں ميں سے پہلے کون سا كام کیا جائے۔ وغیرہ ۔

استخارہ کب کرنا چاہئے:
استخارہ اس وقت کرنا چاہئے جب آپ خالى الذہن ہوں اور جو کام یا امر درپیش ہے اس کے سلسلے میں ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا ہو ۔ یعنی اس کام کو ابھی کسی طریقے سے سرانجام دينے كا عزم نہ کیا ہو بلکہ اس کے بارے میں سوچ بچار جاری ہو ۔ استخارہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اس کام کے لئے بہتر اور خیر و فضل والا راستہ اور طریقہ ظاہر کرنے کی درخواست مقصود ہے۔

استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا:
استخارہ كرنے سے قبل اپنے طور پر پوری طرح سوچ بچار اور جانچ پرکھ کرنا چاہئے ۔ پھر كسى صالح ، تجربہ كار اور بااعتماد شخص سے مشورہ كرنا مستحب ہے ۔ یہ مشورہ انہی لوگوں سے کرنا چاہئے کہ جو متعلقہ کام کے بارے میں علم ، تجربہ یا واقفیت رکھتے ہوں اور آپ سے مخلص ہوں ۔ مثلاً کسی سرجری کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے کسی قابلِ اعتماد ڈاکٹر سے مشاورت کرنا معقول اور مناسب امر ہوگا ۔ مشورہ كرنے كے بعد جب يہ ظاہر ہوجائے كہ یہ کام کرنے ميں مصلحت ہے تو پھر وہ اس كام ميں اللہ تعالىٰ سے استخارہ كرے ۔ ویسے بھی کوئی کام کرنے سے پہلے متعلقہ اور اہل لوگوں سے مشورہ کرنا اسلام کا ایک عام اصول ہے ۔

استخارہ کے فوائد:
استخارہ دراصل قضا و قدر پر رضامند ی کا نام ہے۔ یہ اپنے رب پر بھروسہ کی دلیل اور اس کے قرب کا وسیلہ ہے۔ یہ پریشانی اور شک سے نکلنے کا راستہ ہے۔ استخارے کی سنت پر عمل کرنے سے اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ استخارہ کرنے کے بعد آدمی اپنے میسر اور ممکنہ اسباب کے مطابق کوشش کرتا ہے اور پھر جو بھی نتیجہ حاصل ہو اس پر رضا اور قناعت کرتے ہوئے اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اپنے ہر چھوٹے بڑے کام میں استخارہ کرنا چاہئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی نصرت پر یقین پختہ ہو تا ہے۔ استخارہ کرنے والا اپنی کوشش میں ناکام اور مایوس نہیں ہوتا ، اسے ندامت سے بچاؤ نصیب ہوتا ہے ۔

استخارہ کیا نہیں ہے:
بدقسمتی سے بہت ساری اور سنتوں کی طرح استخارہ کے بارے میں بھی عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں اور بدعات پائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے اکثر غلط فہمیاں ان دین فروش مولویوں اور نام نہاد علما کی جانب سے پھیلائی گئی ہیں جو اس عمل کے ذریعے سے اپنا کاروبار چمکاتے ہیں ۔

(۱) جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے عمل سے ثابت ہے استخارہ کسی خاص " خفیہ عمل" یا "روحانی وظیفے" کا نام نہیں بلکہ دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے کام کے سلسلے میں ایک خاص دعا مانگنے کا نام ہے ۔ اور اس دعا کا مسنون طریقہ اوپر لکھ دیا گیا ہے ۔

(۲) کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے کام کے بارے میں استخارہ نہیں کرسکتا ۔ استخارے کی دعا اس شخص کو خود کرنا ضروری ہے کہ جسے کام درپیش ہے ۔ کسی اور سے استخارہ کروانا یا کسی کے لئے استخارہ کرنا ایک انتہائی فضول اور نامعقول بدعت ہے ۔ ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ان کے صحابہ یا ائمہ دین کسی سے ثابت نہیں ۔ یہ قبیہ اور جاہلانہ بدعت حالیہ دور کی ایجاد ہے اور ٹی وی کی بدولت خوب پروان چڑھ رہی ہے۔ پیر ، فقیر، مولوی اور شیطان نما "علما" اس کی بدولت خوب پیسے بٹور رہے ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

(۳) عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ استخارہ بعد استخارہ کرنے والے کو خواب میں یا کسی اور طریقے سے اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ دیا جاتا ہے جو بہتر فیصلے کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ یہ بات درست نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسم کی کسی حدیث سے ملتا ہے ۔ استخارہ کے بارے میں جتنی بھی احادیث موجود ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ بات مذکور نہیں کہ استخارے کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی خواب یا اشارہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا استخارہ پریشانی اور شک سے نکلنے کا راستہ ہے۔ استخارہ کرنے کے بعد آدمی اپنے میسر اور ممکنہ اسباب کے مطابق کوشش کرتا ہے اور پھر جو بھی نتیجہ حاصل ہو تا ہے اس پر رضا اور قناعت سے خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ استخارہ کے بعد اللہ تعالیٰ سائل کے لئے ایسے اسباب پیدا کرسکتے ہیں کہ جو اس کے حالات کو خود بخود کسی ایک سمت میں موڑ دیں ، کسی کام کے لئے راہ ہموار کردیں اور اس کے لئے فیصلہ کرنا آسان ہوجائے ۔ ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کو کسی دن کوئی خواب بھی نظر آجائے لیکن اس خواب کی مذہبی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ کوئی حجت ہے ۔ کسی بھی معاملے میں انسان کو کوئی بھی فیصلہ خوب سوچ بچار ، جانچ پرکھ اور صلاح مشورے کے بعد ہی کرنا چاہئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تمام ممکنہ اسباب اختیار کئے جائیں اور پھر نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑا جائے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی سکھایا ہے ۔ ایک حدیث کے مطابق پہلے اپنے اونٹ کو (کھونٹے پر) رسی سے باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرکے اسے (تنہا) چھوڑ جاؤ ۔

واللہ اعلم بالصواب ۔ وما علینا الا البلاغ ۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر ظہیر بھائی۔ بہت ہی معلوماتی شیئرنگ ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زرپرست مولویوں نے اسے ایک کاروبار بنا لیا ہے۔ اور بڑی ڈھٹائی سے اس پر کاربند بھی ہیں۔ بلکہ ٹی وی پر دو منٹ کے اندر اندر استخارہ کر کے سائل کو اس کا حل بھی بتا دیتے ہیں۔

اوپر جو آپ نے عربی زبان میں دعا لکھ کر اس کا ترجمہ لکھا ہے تو اس میں "۔۔۔۔ الہٰى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ۔۔۔۔۔" اس میں "اگر" کا لفظ کھٹک رہا ہے۔ اللہ تو سب جانتا ہے، تو اس میں "اگر" کی شرط کیوں؟

مزید یہ کہ "۔۔۔۔۔اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے ۔۔۔۔۔۔" یہاں بھی "اگر" تیرے علم میں کیوں، اسے تو ہر چیز کا علم ہے۔

اس کی کچھ وضاحت فرما دیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اوپر جو آپ نے عربی زبان میں دعا لکھ کر اس کا ترجمہ لکھا ہے تو اس میں "۔۔۔۔ الہٰى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ۔۔۔۔۔" اس میں "اگر" کا لفظ کھٹک رہا ہے۔ اللہ تو سب جانتا ہے، تو اس میں "اگر" کی شرط کیوں؟
مزید یہ کہ "۔۔۔۔۔اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے ۔۔۔۔۔۔" یہاں بھی "اگر" تیرے علم میں کیوں، اسے تو ہر چیز کا علم ہے۔اس کی کچھ وضاحت فرما دیں۔

یہ اور اسی قسم کے دیگر سوالات قرآن کی بعض آیتوں اور احادیث کا اردو یا انگریزی ترجمہ پڑھ کر قاری کے ذہن میں ابھر آتے ہیں ۔ اس ضمن میں دو باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن اور حدیث کی عربی کا اردو یا انگریزی ترجمہ عموماً عربی الفاظ اور جملے کی ساخت کے قریب قریب رکھا جاتا ہے ۔ یعنی یہ محض سادہ سا لفظی ترجمہ ہی ہوتا ہے اور اس ترجمے میں اصل عربی کی بلاغت اور فصاحت مفقود ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ عربی الفاظ اور نحوی ترکیبوں کی فصاحت اور بلاغت کو کسی بھی زبان میں ترجمے کی مدد سے کلی طور پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اس دعا میں "إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَا الأَمْرَ ۔۔۔ " کا جو فقرہ دو جگہوں پر آیا ہے تو یہ عربی زبان کا ایک اسلوب ہے ۔ بظاہر" إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ" کا لغوی مطلب تو یہی بنتا ہے کہ "اگر تو جانتا ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔ اگر تجھے علم ہے" لیکن اس اسلوب میں ان الفاظ کا یہ لغوی مطلب نہیں لیا جائے گا۔ اس فقرے سے پہلے اسی دعا میں یہ مطلق اقرار کرلیا گیا ہے کہ اللہ تو جانتا ہے ، اور ميں نہيں جانتا اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے ۔ سو اس کے بعد یہ کہنا کہ اگر تو جانتا ہے ۔۔۔ محض زبان کا ایک اسلوب ہے ۔ اس طرح کا اسلوب قرآن اور احادیث میں بہت ساری جگہوں پر استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے لئے میں قرآن کی دو مختلف آیات ذیل میں نقل کررہا ہوں ۔ ان آیات میں یہی لفظ "علم" استعمال کیا گیا ہے جو دعائے استخارہ میں استعمال ہوا ہے ۔

وَلَنَبۡلُوَنَّكُمۡ حَتَّىٰ نَعۡلَمَ ٱلۡمُجَ۔ٰهِدِينَ مِنكُمۡ وَٱلصَّ۔ٰبِرِينَ وَنَبۡلُوَاْ أَخۡبَارَكُمۡ (سورۃ محمد آیت:۳۱)۔ ترجمہ: اور ہم ضرور تم سب کی آزمائش کرینگے تاکہ ہم ان لوگوں کو معلوم کرلیں جو تم میں جہاد کرنے والے ہیں اور جوثابت قدم رہنے والے ہیں اور تاکہ تمہاری حالتوں کی جانچ کرلیں ۔

وَتِلۡكَ ٱلۡأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ ٱلنَّاسِ وَلِيَعۡلَمَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمۡ شُہَدَآءَ‌ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلظَّ۔ٰلِمِينَ(سورۃ آل عمران آیت:۱۴۰) ۔ ترجمہ: اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں اور تاکہ الله ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے بعضوں کو شہید کرے اور الله ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔

اب ان آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر یہ سوال ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ اللہ کو تو پہلے ہی سے ہر چیز کا علم ہے ، وہ تو سب جانتا ہے تو پھر ایسی بات کہنے کا کیا مقصد؟! جواب اس کا یہی ہے کہ یہاں لفظی اور لغوی معنی مراد نہیں بلکہ یہ عربی زبان میں بات کہنے کا ایک اسلوب ہے ۔ اسی طرح مندرجہ ذیل آیت میں عربی زبان کا ایک اسلوب دیکھئے ۔

فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحۡسَنُ ٱلۡخَ۔ٰلِقِينَ (سورۃ المومنون آیت: ۱۴)۔ ترجمہ: سو الله بڑی برکت والا ہے ، سب خالقوں سے بڑھ کر اور بہتر خالق ہے (یا سب تخلیق کرنے والوں سے بہتر تخلیق کرنے والا ہے) ۔
لفظی مطلب کو دیکھا جائے تو نعوذ باللہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے ۔ لیکن یہاں لفظی مطلب مراد نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو احسن الخالقین کہنا عربی کا ایک اسلوب ہے اور اس سے انتہائی تعریف اور مبالغہ مقصود ہے ۔
یہ مختصر سی وضاحت لکھ دی ہے ۔ تفصیلات جاننے کے لئے مذکورہ بالا آیتوں اور اسی طرح کی دیگر آیتوں کی تفسیر پڑھنا بہتر ہوگا ۔ اس ساری گفتگو سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ اللہ کے کلام کو اگر اچھی طرح سمجھنا ہے تو پھر ترجمے کی رکاوٹ کو درمیان میں حائل نہ ہونے دیا جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ عربی سیکھ کر اسے براہِ راست سمجھا جائے ۔ عربی کے ایک ایک لفظ اور فقرے میں معانی کا سمندر موجود ہوتا ہے جسے ترجمے کی مدد سے سمجھنا ازحد مشکل کام ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا کثیرا ظہیر بھائی!

استخارہ کا یہ مسنون طریقہ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچ جائے۔

اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اُن لوگوں سے بچائے جو ٹی وی پر بیٹھ کر بذریعہ لیپ ٹاپ استخارہ کیا کرتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَا الأَمْرَ ۔۔۔ " کا جو فقرہ دو جگہوں پر آیا ہے تو یہ عربی زبان کا ایک اسلوب ہے ۔ بظاہر" إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ" کا لغوی مطلب تو یہی بنتا ہے کہ "اگر تو جانتا ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔ اگر تجھے علم ہے
یہاں ان شرطیہ میں ’’اگر‘‘ کے معنی ہمارے اعتبار سے ہیں۔۔۔
سو اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ اے اللہ آپ کے علم میں یہ کام ’’اگر ہمارے لیے‘‘ خیر ہے تو!!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہاں ان شرطیہ میں ’’اگر‘‘ کے معنی ہمارے اعتبار سے ہیں۔۔۔
سو اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ اے اللہ آپ کے علم میں یہ کام ’’اگر ہمارے لیے‘‘ خیر ہے تو!!!
ٌ
جناب@سید عمران صاحب ، میں عربی کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں بلکہ مبتدی ہی کہئے ۔ :) اپنی کم علمی کا مجھے اعتراف ہے لیکن ادب کے ساتھ اختلاف کی جرات کروں گا۔ "اِن شرطیہ" کی جو تشریح آپ نے کی اور جو ترجمہ لکھا وہ تو درست نہیں ہے ۔گرامر کے لحاظ سے درست ترجمہ تو وہی بنتا ہے جو میں نے اوپر لکھا ۔
اصول کے مطابق جملہ شرطیہ میں حرفِ شرط "إِنْ"ہمیشہ فعل سے پہلے آتا ہے او آگے آنے والے جملہ جزائیہ پر اِس فعل کی شرطقائم کرتا ہے۔ چنانچہ ان جملوں کی تحلیلِ نحوی یوں ہوگی ۔
جملہ شرطیہ: إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَاالأَمْرَ خَیْرٌ ( اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر باعثِ خیر ہے)
جملہ جزائیہ: فَاقْدُرْهُ لِي (تو اسے میرے لئے مقدر کردے)
جملہ شرطیہ: إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَاالأَمْرَ شَرٌّ لِي (اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے باعثِ شر ہے )
جملہ جزائیہ: فَاصْرِفْنِي عَنْهُ ( تو مجھے اِس سے دور کردے)

یہ جو آپ نے لکھا کہ اِن شرطیہ ہمارے اعتبار سے ہے (اگر ہمارے لیے) تو گویا آپ "اِن" کو اسم سے پہلے استعمال کرکے اسم کو شرط ٹھہرا رہے ہیں جو کہ ظاہر ہے درست نہیں ہے ۔ اِن شرطیہ تو فعل سے پہلے آتا ہے اور فعل کو جزا کی شرط ٹھہراتا ہے ۔
جہاں تک شمشاد صاحب کے سوال یا اشکال کا تعلق ہے تو اجمالی طور پر اس کا جواب پہلے دیا تھا لیکن اس موقع پر کچھ تفصیل سے لکھتا ہوں ۔
اس دعا کے شرطیہ جملے میں حرفِ شرط " اِن" کے بعد دو افعال استعمال ہوئے ہیں ۔ "كُنْتَ" اور "تَعْلَمُ"۔ لفظ تَعْلَمُ مضارع کا صیغہ ہے ۔مضارع میں حال اور مستقبل کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ یعنی تَعْلَمُ کا لفظ اگر اکیلا استعمال ہوتا تو اس کے معنی ہوتے "تو جانتا ہے یا تو جانے گا"۔ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ فعل مضارع سے پہلے اگر "کَانَ" آجائے تو اس کے معنی ماضی استمراری (past continuous tense) کے ہوجاتے ہیں ۔ یعنی کسی فعل کے ماضی میں مسلسل ہوتے رہنے یا جاری رہنے کا مطلب پیدا ہوجاتا ہے۔ تو اب كُنْتَ تعْلَمُ کا مطلب یہ ہوا کہ تُو ماضی میں جانتا رہا ہے ( یعنی تجھے پہلے ہی سے علم رہا ہے) ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس مفہوم کو آسان اور معروف اردو میں کماحقہ ادا کرنا بہت مشکل ہے ۔ (جیسا کہ میں نے پہلے بھی اوپر لکھا تھا کہ عربی الفاظ اور نحوی ترکیبوں کی فصاحت اور بلاغت کو کسی بھی زبان میں ترجمے کی مدد سے کلی طور پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔) چنانچہ اس دعا کا ترجمہ اردو اور انگریزی دونوں میں شرطیہ جملے کی طرز پر اس طرح سے کردیا جاتا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا یعنی: اگر تو جانتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔الخ۔
جبکہ درحقیقت كُنْتَ تَعْلَمُ میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اللہ آپ تو پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ اس کام میں میرے لئے خیر پوشیدہ ہے سو اگر اس میں میرے لئے خیر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کردے ۔۔۔۔۔۔ الخ
شمشاد بھائی ، امید ہے کہ وضاحت ہوگئی ہوگی۔
 
Top