جاسم محمد
محفلین
اسد عمر پر اندھا اعتماد اور اس کا انجام
سلمان نثار شیخ پير 8 اپريل 2019
نئے پروجیکٹس عمران خان کی خواہش یا سوچ ہیں، اسد عمر کی نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
نواز حکومت بھی چین اور ترکی جیسے دوست ملکوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری لایا کرتی تھی۔ لیکن اس کا بنیادی شعبہ ٹرانسپورٹیشن ہی ہوتا تھا، یعنی سڑکیں، پل، انڈرپاسز، میٹروز، اورنج لائنز، ریلویز اور ایئرپورٹس وغیرہ۔ عمران حکومت بھی ملک میں سرمایہ کاری لانے میں کوشاں ہے لیکن اب بات آئل ریفائنریز، کار سازی کے پلانٹس اور اسی طرح کے چند دیگر پروجیکٹس کی بھی ہورہی ہے، جو بلاشبہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے لیکن یہ پروجیکٹس عمران خان کی خواہش یا سوچ ہیں، اسد عمر کی نہیں۔
میاں برادران اپنے دور کو ترقی کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں۔ میاں صاحب کے دور میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے زیرسایہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کےلیے بے شمار منصوبے لگائے اور بلاشبہ یہ بھی سچ ہے۔
لیکن پھر غلطیاں کہاں ہوئیں؟ پاکستان میں اگر چین نے اکنامک کوریڈور کی خاطر کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تو اس کی بنیادی یا واحد وجہ گوادر ہے۔ لیکن نواز شریف نے چین سے کروڑوں ڈالر لے کر اپنے بھائی کو دے دیئے جنہوں نے لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں میٹروز بنا دیں۔ حالانکہ پنجاب کا سی پیک کے تحت آنے والی سرمایہ کاری پر اتنا بڑا حق کسی طور نہیں بنتا تھا۔ کیا نوازشریف نے بلوچستان کےلیے میٹرو جتنا بڑا کوئی منصوبہ بنایا؟ کیا نوازشریف نے بلوچستان میں کوئی دانش اسکول بنایا؟ کیا شریف دور میں بنائی گئی 10 ہزار میگاواٹ بجلی میں سے چوتھائی بھی بلوچستان کے حصے میں آئی؟ کیا گزشتہ دور میں ن لیگ کی حکومت صرف پنجاب میں تھی؟ کیا نواب ثناء اللہ زہری ن لیگ کے وزیراعلیٰ نہیں تھے؟
اگر بلوچستان کے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرانا نواز حکومت کے بس سے باہر تھا تو کیا وہاں بجلی، پانی اور گیس مہیا کرنا، یونیورسٹیاں، کالج، اسکول اور اسپتال بنانا بھی اس کے بس سے باہر تھا؟ اور کیا وہاں کے طالب علموں کو بھی اسی فراوانی سے لیپ ٹاپس دینا، جیسے پنجاب کے طلبا میں بانٹے گئے، بھی ان کے بس میں نہ تھا؟ اور اگر واقعی ایسا تھا تو انہوں نے ’’ووٹ کی عزت‘‘ کی خاطر جو تحریک اپنی معزولی کے بعد چلائی، کیا وہ انہیں بہت پہلے نہیں چلانی چاہئے تھی؟
قرض لے کر میٹرو بنائی گئی، پھر اس کا کرایہ کم رکھا گیا۔ اس کا نظام چلانے کےلیے ایک بہت بڑا محکمہ بنایا گیا، ہزاروں ملازمین رکھے گئے اور اس کے ساتھ بیش قیمت مشینیں اور دیگر لوازمات منسلک کرکے پورے منصوبے کا روزانہ کا خرچ بھی بہت زیادہ بڑھا دیا گیا۔ منصوبہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل نہیں تھا، چنانچہ سفید ہاتھی بن گیا اور ہر ماہ پنجاب حکومت سے سبسڈی لینے لگا، بالکل اسی طرح جیسے ریلویز، پی آئی اے، اسٹیل ملز، بجلی کی پیداواری کمپنیاں اور دیگر سرکاری ادارے سفید ہاتھی بن کر سالہا سال سے اس ملک کے وسائل کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔
پھر چھوٹے میاں نے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی، صاف پانی کمپنی، لاہور پارکنگ کمپنی اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سمیت تقریباً 56 کمپنیاں بنائیں، جن میں سے شاید ہی کوئی ایسی کمپنی ہو جو اپنا خرچ خود اٹھاتی ہو۔ تقریباً ہر کمپنی میں کروڑوں کی کرپشن کے اسکینڈل عدالتوں میں زیرسماعت و زبان زد خاص و عام ہیں اور سب کا بجٹ خسارہ الگ مستقل قومی مصیبت بن چکا ہے۔
شہبازشریف نے کبھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ انہیں اس ملک کے ذرائع آمدن اور ذرائع پیداوار بڑھانے پر محنت کرنے کی ضرورت تھی، نہ کہ شبانہ روز غیرپیداواری اور سبسڈی کے محتاج منصوبے لگا لگا کر ملک کے بجٹ خسارے میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے اور پھر اسے پورا کرنے کےلیے وفاق کو مسلسل اندرون و بیرون ملک سے قرض لیتے رہنے اور اس کا سود در سود ادا کرتے رہنے اور عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگا کر اور نوٹ چھاپ چھاپ کر روپے کو بے وقعت کرنے اور نتیجتاً ریاست کے ہر شہری کی کاسٹ آف لیوِنگ میں ہوشربا اضافہ کرتا رہنے پر مجبور کرتے رہنے کی ضرورت تھی۔
سب سے بڑے صوبے میں شہباز شریف ریاست کے اخراجات میں اضافہ کرتے رہے اور نواز شریف اسحٰق ڈار کو یہ کہہ کہہ کر تنگ کرتے رہے کہ نہ تو تیل، گیس اور بجلی کی قیمت بڑھے اور نہ ڈالر مہنگا ہو اور نہ میرے چھوٹے بھائی کے عظیم منصوبوں کےلیے پیسے کی فراہمی میں کمی آئے۔ چنانچہ اسحٰق ڈار نے پورا زور دوست ملکوں، ملکی و غیرملکی بینکوں سے قرض در قرض لینے، بانڈ در بانڈ جاری کرنے، پوشیدہ اور ظاہری ٹیکس در ٹیکس لگانے اور پنجاب کے ترقیاتی منصوبے، جن کا سی پیک کے تحت سرمایہ کاری پر بلوچستان کے مقابلے میں دس فیصد حق بھی نہیں تھا، کو نوے فیصد رقم فراہم کرنے پر لگائے رکھا۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود اسحٰق ڈار نے مسلسل مصنوعی طور پر اسٹیٹ بینک کو روپے پر گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور رکھا۔
اسحٰق ڈار کا روپے پر گرفت مضبوط رکھنے کا بالکل وہی طریقہ تھا کہ جیسے کوئی موٹا آدمی اپنے پیٹ پر زور سے رسی باندھ کر کہے کہ دیکھو میری کوئی توند نہیں۔ چنانچہ جیسے ہی نگراں حکومت آئی اور اس نے اسٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی کرنسی کے نحیف ذخائر دیکھے اور محسوس کیا کہ اگر روپے پر یہ جعلی گرفت برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن ہم کسی غلط فہمی میں ہی مارے جائیں اور ہماری کرنسی کاغذ بن کر رہ جائے، کاروباری افراد اسے بیرون تو کیا اندرون ملک بھی لینے سے انکار کردیں تو اس نے یہ رسی ڈھیلی کرنی شروع کردی اور پھر اگلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ آج جب ڈالر 142 روپے کا ہوچکا ہے تو اب اس تباہی کے کلیدی ذمے داران صرف موجودہ حکومت کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اسد عمر اور ان کی حکومت اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کےلیے کیا کررہی ہے؟
ایک تو دوست ملکوں اور آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے، روپے کو گرا رہی ہے، بجلی، گیس، پٹرول مہنگا کررہی ہے اور مزید ٹیکس لگارہی ہے، جو کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ لیکن اس سب کے علاوہ یقیناً کچھ مختلف اقدامات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جنہیں ہم عمران خان ماڈل کہہ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نواز، شہباز ماڈل سے بالکل جداگانہ سوچ کے عکاس ہیں۔
درآمد کنندہ باہر سے چیز خرید کر اندرون ملک لاتا ہے جبکہ اپنی جیب، یعنی اپنے بینک اکاؤنٹ سے، یعنی اندرون ملک سے ڈالروں کی صورت میں باہر والوں کو رقم بھجواتا ہے۔ لیکن خود اس نے اندرون ملک اپنا مال فروخت کرکے عوام سے روپے کمائے ہوتے ہیں، چنانچہ اگر ڈالر سستا ہوگا تو اس کے کم روپے زیادہ ڈالر خریدنے میں اس کی مدد کریں گے اور اسے فائدہ ہوگا۔ ڈار دور میں ایسا ہی ہوتا رہا۔
برآمد کنندہ مال باہر بھیج کر وہاں سے ڈالروں میں رقم کما کر اسے اندرون ملک لاتا ہے اور پھر اسے روپوں میں تبدیل کروا کر اپنی ضروریات و کاروبار کےلیے اندرون ملک خرچ کرتا ہے۔ اگر ڈالر مہنگا ہو تو اسے اپنے باہر سے کمائے ڈالروں کے بدلے اندرون ملک زیادہ روپے مل جاتے ہیں اور وہ اپنے اندرون ملک موجود کاروبار کو مزید وسعت دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا کاروبار پھلتا پھولتا ہے ویسے ویسے وہ زیادہ لوگوں کو ملازمتیں دینے اور باہر سے زیادہ منافع کما کر اندرون ملک لانے کے قابل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور موجودہ حکومت کی جانب سے ڈالر مہنگا کیا جانے کا فائدہ بھی برآمدکنندہ اور اندرون ملک موجود صنعت و دیگر کاروباروں ہی کو ہوگا۔
موجودہ حکومت نے منی بجٹ میں خام مال پر درآمدی ڈیوٹی کم جبکہ کچھ پر مکمل طور پر ختم بھی کردی ہے۔ اس کا فائدہ بھی مقامی صنعت ہی کو ہوگا۔
فائلرز کےلیے بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے فوری خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹیکس دینے والے ایسے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ریلیف کے حقدار ہیں۔
500 اسکوائر فٹ کے شادی ہالوں کے ٹیکس کو 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا ہے۔ اس سے بھی معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوگا۔
ہر نان بینکنگ کمپنی کا سپر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، جس سے یقینی طور پر سرمایہ کار کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔
نیوز پرنٹ کو درآمدی ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دیا گیا ہے، جس سے ’شریف اشتہارات‘ کے طاقت کے ٹیکوں سے محروم، گرتی ہوئی اخباری صنعت کو کچھ سہارا ملے گا۔
بڑی گاڑیوں پر درآمدی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں لگژری اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی رہتی ہیں اور ان کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگا کر اپنی آمدن بڑھانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
نئے پروجیکٹس کے پلانٹس اور مشینری پر مکمل کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس پر 5 سال کےلیے چھوٹ ہو گی، جس سے صنعت پھلے پھولے گی۔
سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز جیسی تمام مینوفیکچرنگ کےلیے 5 سال تک سرمایہ کاری پر کسٹم، سیلز و انکم ٹیکس کا مکمل استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔
کسانوں کےلیے ڈیزل پر ڈیوٹی و کھادوں کے ریٹ میں کمی، ویزہ پالیسی میں نرمی اور سیاحت کی صنعت کے فروغ کی دیگر کوششوں جیسے اقدامات معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور مقامی صنعت، زراعت و تجارت کو توانائی دے کر قومی معیشت کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششیں لوگوں کو سستی روٹی اور بہتر سفری سہولیات دینے کی شہباز/ نواز سمت سے یکسر مختلف حکمت عملی ہے۔
عمران خان ماڈل کامیاب ہو گا یا ناکام؟ اس کا فیصلہ تو کم از کم دو چار سال بعد ہی ہوسکے گا، لیکن سردست مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کو اپنی حکمت عملی کو درست ثابت کرنے کےلیے یہ وقت ملے گا بھی یا نہیں؟
اگر عمران خان خاموشی اور اپوزیشن سے مفاہمت کی حکمت عملی اپناتے ہیں، اپنی اصل قوت یعنی پارلیمان کو زیادہ وقت دیتے ہیں اور اسد عمر پر اندھے اعتماد کا راستہ ترک کرکے پٹرول، بجلی، گیس اور دواؤں کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے عوام کو مشتعل ہونے اور اپوزیشن کی ممکنہ کال پر باہر نکلنے سے روک لیتے ہیں تو پھر تو شاید انہیں یہ وقت مل جائے، ورنہ شاید مؤرخ ان کے دور حکومت کا ذکر قائم چاند پوری کے ان الفاظ کے ساتھ کرے…
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
نوازشریف نے شہباز اور ڈار پر اندھا اعتماد کیا۔ نتیجہ قومی معیشت کی تباہی پر منتج ہوا۔ اب خان صاحب اسد عمر پر اندھا اعتماد کررہے ہیں۔ کیا ان کا انجام نوازشریف سے مختلف ہوسکے گا؟ اور ان تجربات میں عوام اور معیشت کا کیا ہوگا؟ فیصلہ تو عمران خان ہی کو کرنا ہے، لیکن اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے پاس ان فیصلوں کےلیے بہت وقت ہے تو صریحاً غلطی کررہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سلمان نثار شیخ پير 8 اپريل 2019
نئے پروجیکٹس عمران خان کی خواہش یا سوچ ہیں، اسد عمر کی نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
نواز حکومت بھی چین اور ترکی جیسے دوست ملکوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری لایا کرتی تھی۔ لیکن اس کا بنیادی شعبہ ٹرانسپورٹیشن ہی ہوتا تھا، یعنی سڑکیں، پل، انڈرپاسز، میٹروز، اورنج لائنز، ریلویز اور ایئرپورٹس وغیرہ۔ عمران حکومت بھی ملک میں سرمایہ کاری لانے میں کوشاں ہے لیکن اب بات آئل ریفائنریز، کار سازی کے پلانٹس اور اسی طرح کے چند دیگر پروجیکٹس کی بھی ہورہی ہے، جو بلاشبہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے لیکن یہ پروجیکٹس عمران خان کی خواہش یا سوچ ہیں، اسد عمر کی نہیں۔
میاں برادران اپنے دور کو ترقی کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں۔ میاں صاحب کے دور میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے زیرسایہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کےلیے بے شمار منصوبے لگائے اور بلاشبہ یہ بھی سچ ہے۔
لیکن پھر غلطیاں کہاں ہوئیں؟ پاکستان میں اگر چین نے اکنامک کوریڈور کی خاطر کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تو اس کی بنیادی یا واحد وجہ گوادر ہے۔ لیکن نواز شریف نے چین سے کروڑوں ڈالر لے کر اپنے بھائی کو دے دیئے جنہوں نے لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں میٹروز بنا دیں۔ حالانکہ پنجاب کا سی پیک کے تحت آنے والی سرمایہ کاری پر اتنا بڑا حق کسی طور نہیں بنتا تھا۔ کیا نوازشریف نے بلوچستان کےلیے میٹرو جتنا بڑا کوئی منصوبہ بنایا؟ کیا نوازشریف نے بلوچستان میں کوئی دانش اسکول بنایا؟ کیا شریف دور میں بنائی گئی 10 ہزار میگاواٹ بجلی میں سے چوتھائی بھی بلوچستان کے حصے میں آئی؟ کیا گزشتہ دور میں ن لیگ کی حکومت صرف پنجاب میں تھی؟ کیا نواب ثناء اللہ زہری ن لیگ کے وزیراعلیٰ نہیں تھے؟
اگر بلوچستان کے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرانا نواز حکومت کے بس سے باہر تھا تو کیا وہاں بجلی، پانی اور گیس مہیا کرنا، یونیورسٹیاں، کالج، اسکول اور اسپتال بنانا بھی اس کے بس سے باہر تھا؟ اور کیا وہاں کے طالب علموں کو بھی اسی فراوانی سے لیپ ٹاپس دینا، جیسے پنجاب کے طلبا میں بانٹے گئے، بھی ان کے بس میں نہ تھا؟ اور اگر واقعی ایسا تھا تو انہوں نے ’’ووٹ کی عزت‘‘ کی خاطر جو تحریک اپنی معزولی کے بعد چلائی، کیا وہ انہیں بہت پہلے نہیں چلانی چاہئے تھی؟
قرض لے کر میٹرو بنائی گئی، پھر اس کا کرایہ کم رکھا گیا۔ اس کا نظام چلانے کےلیے ایک بہت بڑا محکمہ بنایا گیا، ہزاروں ملازمین رکھے گئے اور اس کے ساتھ بیش قیمت مشینیں اور دیگر لوازمات منسلک کرکے پورے منصوبے کا روزانہ کا خرچ بھی بہت زیادہ بڑھا دیا گیا۔ منصوبہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل نہیں تھا، چنانچہ سفید ہاتھی بن گیا اور ہر ماہ پنجاب حکومت سے سبسڈی لینے لگا، بالکل اسی طرح جیسے ریلویز، پی آئی اے، اسٹیل ملز، بجلی کی پیداواری کمپنیاں اور دیگر سرکاری ادارے سفید ہاتھی بن کر سالہا سال سے اس ملک کے وسائل کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔
پھر چھوٹے میاں نے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی، صاف پانی کمپنی، لاہور پارکنگ کمپنی اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سمیت تقریباً 56 کمپنیاں بنائیں، جن میں سے شاید ہی کوئی ایسی کمپنی ہو جو اپنا خرچ خود اٹھاتی ہو۔ تقریباً ہر کمپنی میں کروڑوں کی کرپشن کے اسکینڈل عدالتوں میں زیرسماعت و زبان زد خاص و عام ہیں اور سب کا بجٹ خسارہ الگ مستقل قومی مصیبت بن چکا ہے۔
شہبازشریف نے کبھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ انہیں اس ملک کے ذرائع آمدن اور ذرائع پیداوار بڑھانے پر محنت کرنے کی ضرورت تھی، نہ کہ شبانہ روز غیرپیداواری اور سبسڈی کے محتاج منصوبے لگا لگا کر ملک کے بجٹ خسارے میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے اور پھر اسے پورا کرنے کےلیے وفاق کو مسلسل اندرون و بیرون ملک سے قرض لیتے رہنے اور اس کا سود در سود ادا کرتے رہنے اور عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگا کر اور نوٹ چھاپ چھاپ کر روپے کو بے وقعت کرنے اور نتیجتاً ریاست کے ہر شہری کی کاسٹ آف لیوِنگ میں ہوشربا اضافہ کرتا رہنے پر مجبور کرتے رہنے کی ضرورت تھی۔
سب سے بڑے صوبے میں شہباز شریف ریاست کے اخراجات میں اضافہ کرتے رہے اور نواز شریف اسحٰق ڈار کو یہ کہہ کہہ کر تنگ کرتے رہے کہ نہ تو تیل، گیس اور بجلی کی قیمت بڑھے اور نہ ڈالر مہنگا ہو اور نہ میرے چھوٹے بھائی کے عظیم منصوبوں کےلیے پیسے کی فراہمی میں کمی آئے۔ چنانچہ اسحٰق ڈار نے پورا زور دوست ملکوں، ملکی و غیرملکی بینکوں سے قرض در قرض لینے، بانڈ در بانڈ جاری کرنے، پوشیدہ اور ظاہری ٹیکس در ٹیکس لگانے اور پنجاب کے ترقیاتی منصوبے، جن کا سی پیک کے تحت سرمایہ کاری پر بلوچستان کے مقابلے میں دس فیصد حق بھی نہیں تھا، کو نوے فیصد رقم فراہم کرنے پر لگائے رکھا۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود اسحٰق ڈار نے مسلسل مصنوعی طور پر اسٹیٹ بینک کو روپے پر گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور رکھا۔
اسحٰق ڈار کا روپے پر گرفت مضبوط رکھنے کا بالکل وہی طریقہ تھا کہ جیسے کوئی موٹا آدمی اپنے پیٹ پر زور سے رسی باندھ کر کہے کہ دیکھو میری کوئی توند نہیں۔ چنانچہ جیسے ہی نگراں حکومت آئی اور اس نے اسٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی کرنسی کے نحیف ذخائر دیکھے اور محسوس کیا کہ اگر روپے پر یہ جعلی گرفت برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن ہم کسی غلط فہمی میں ہی مارے جائیں اور ہماری کرنسی کاغذ بن کر رہ جائے، کاروباری افراد اسے بیرون تو کیا اندرون ملک بھی لینے سے انکار کردیں تو اس نے یہ رسی ڈھیلی کرنی شروع کردی اور پھر اگلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ آج جب ڈالر 142 روپے کا ہوچکا ہے تو اب اس تباہی کے کلیدی ذمے داران صرف موجودہ حکومت کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اسد عمر اور ان کی حکومت اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کےلیے کیا کررہی ہے؟
ایک تو دوست ملکوں اور آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے، روپے کو گرا رہی ہے، بجلی، گیس، پٹرول مہنگا کررہی ہے اور مزید ٹیکس لگارہی ہے، جو کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ لیکن اس سب کے علاوہ یقیناً کچھ مختلف اقدامات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جنہیں ہم عمران خان ماڈل کہہ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نواز، شہباز ماڈل سے بالکل جداگانہ سوچ کے عکاس ہیں۔
درآمد کنندہ باہر سے چیز خرید کر اندرون ملک لاتا ہے جبکہ اپنی جیب، یعنی اپنے بینک اکاؤنٹ سے، یعنی اندرون ملک سے ڈالروں کی صورت میں باہر والوں کو رقم بھجواتا ہے۔ لیکن خود اس نے اندرون ملک اپنا مال فروخت کرکے عوام سے روپے کمائے ہوتے ہیں، چنانچہ اگر ڈالر سستا ہوگا تو اس کے کم روپے زیادہ ڈالر خریدنے میں اس کی مدد کریں گے اور اسے فائدہ ہوگا۔ ڈار دور میں ایسا ہی ہوتا رہا۔
برآمد کنندہ مال باہر بھیج کر وہاں سے ڈالروں میں رقم کما کر اسے اندرون ملک لاتا ہے اور پھر اسے روپوں میں تبدیل کروا کر اپنی ضروریات و کاروبار کےلیے اندرون ملک خرچ کرتا ہے۔ اگر ڈالر مہنگا ہو تو اسے اپنے باہر سے کمائے ڈالروں کے بدلے اندرون ملک زیادہ روپے مل جاتے ہیں اور وہ اپنے اندرون ملک موجود کاروبار کو مزید وسعت دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا کاروبار پھلتا پھولتا ہے ویسے ویسے وہ زیادہ لوگوں کو ملازمتیں دینے اور باہر سے زیادہ منافع کما کر اندرون ملک لانے کے قابل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور موجودہ حکومت کی جانب سے ڈالر مہنگا کیا جانے کا فائدہ بھی برآمدکنندہ اور اندرون ملک موجود صنعت و دیگر کاروباروں ہی کو ہوگا۔
موجودہ حکومت نے منی بجٹ میں خام مال پر درآمدی ڈیوٹی کم جبکہ کچھ پر مکمل طور پر ختم بھی کردی ہے۔ اس کا فائدہ بھی مقامی صنعت ہی کو ہوگا۔
فائلرز کےلیے بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے فوری خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹیکس دینے والے ایسے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ریلیف کے حقدار ہیں۔
500 اسکوائر فٹ کے شادی ہالوں کے ٹیکس کو 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا ہے۔ اس سے بھی معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوگا۔
ہر نان بینکنگ کمپنی کا سپر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، جس سے یقینی طور پر سرمایہ کار کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔
نیوز پرنٹ کو درآمدی ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دیا گیا ہے، جس سے ’شریف اشتہارات‘ کے طاقت کے ٹیکوں سے محروم، گرتی ہوئی اخباری صنعت کو کچھ سہارا ملے گا۔
بڑی گاڑیوں پر درآمدی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں لگژری اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی رہتی ہیں اور ان کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگا کر اپنی آمدن بڑھانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
نئے پروجیکٹس کے پلانٹس اور مشینری پر مکمل کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس پر 5 سال کےلیے چھوٹ ہو گی، جس سے صنعت پھلے پھولے گی۔
سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز جیسی تمام مینوفیکچرنگ کےلیے 5 سال تک سرمایہ کاری پر کسٹم، سیلز و انکم ٹیکس کا مکمل استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔
کسانوں کےلیے ڈیزل پر ڈیوٹی و کھادوں کے ریٹ میں کمی، ویزہ پالیسی میں نرمی اور سیاحت کی صنعت کے فروغ کی دیگر کوششوں جیسے اقدامات معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور مقامی صنعت، زراعت و تجارت کو توانائی دے کر قومی معیشت کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششیں لوگوں کو سستی روٹی اور بہتر سفری سہولیات دینے کی شہباز/ نواز سمت سے یکسر مختلف حکمت عملی ہے۔
عمران خان ماڈل کامیاب ہو گا یا ناکام؟ اس کا فیصلہ تو کم از کم دو چار سال بعد ہی ہوسکے گا، لیکن سردست مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کو اپنی حکمت عملی کو درست ثابت کرنے کےلیے یہ وقت ملے گا بھی یا نہیں؟
اگر عمران خان خاموشی اور اپوزیشن سے مفاہمت کی حکمت عملی اپناتے ہیں، اپنی اصل قوت یعنی پارلیمان کو زیادہ وقت دیتے ہیں اور اسد عمر پر اندھے اعتماد کا راستہ ترک کرکے پٹرول، بجلی، گیس اور دواؤں کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے عوام کو مشتعل ہونے اور اپوزیشن کی ممکنہ کال پر باہر نکلنے سے روک لیتے ہیں تو پھر تو شاید انہیں یہ وقت مل جائے، ورنہ شاید مؤرخ ان کے دور حکومت کا ذکر قائم چاند پوری کے ان الفاظ کے ساتھ کرے…
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
نوازشریف نے شہباز اور ڈار پر اندھا اعتماد کیا۔ نتیجہ قومی معیشت کی تباہی پر منتج ہوا۔ اب خان صاحب اسد عمر پر اندھا اعتماد کررہے ہیں۔ کیا ان کا انجام نوازشریف سے مختلف ہوسکے گا؟ اور ان تجربات میں عوام اور معیشت کا کیا ہوگا؟ فیصلہ تو عمران خان ہی کو کرنا ہے، لیکن اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے پاس ان فیصلوں کےلیے بہت وقت ہے تو صریحاً غلطی کررہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔