اسد عمر پر اندھا اعتماد اور اس کا انجام

جاسم محمد

محفلین
اسد عمر پر اندھا اعتماد اور اس کا انجام
سلمان نثار شیخ پير 8 اپريل 2019
1620315-asadumarparaitmaad-1554462519-259-640x480.jpg

نئے پروجیکٹس عمران خان کی خواہش یا سوچ ہیں، اسد عمر کی نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نواز حکومت بھی چین اور ترکی جیسے دوست ملکوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری لایا کرتی تھی۔ لیکن اس کا بنیادی شعبہ ٹرانسپورٹیشن ہی ہوتا تھا، یعنی سڑکیں، پل، انڈرپاسز، میٹروز، اورنج لائنز، ریلویز اور ایئرپورٹس وغیرہ۔ عمران حکومت بھی ملک میں سرمایہ کاری لانے میں کوشاں ہے لیکن اب بات آئل ریفائنریز، کار سازی کے پلانٹس اور اسی طرح کے چند دیگر پروجیکٹس کی بھی ہورہی ہے، جو بلاشبہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے لیکن یہ پروجیکٹس عمران خان کی خواہش یا سوچ ہیں، اسد عمر کی نہیں۔

میاں برادران اپنے دور کو ترقی کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں۔ میاں صاحب کے دور میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے زیرسایہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کےلیے بے شمار منصوبے لگائے اور بلاشبہ یہ بھی سچ ہے۔

لیکن پھر غلطیاں کہاں ہوئیں؟ پاکستان میں اگر چین نے اکنامک کوریڈور کی خاطر کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تو اس کی بنیادی یا واحد وجہ گوادر ہے۔ لیکن نواز شریف نے چین سے کروڑوں ڈالر لے کر اپنے بھائی کو دے دیئے جنہوں نے لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں میٹروز بنا دیں۔ حالانکہ پنجاب کا سی پیک کے تحت آنے والی سرمایہ کاری پر اتنا بڑا حق کسی طور نہیں بنتا تھا۔ کیا نوازشریف نے بلوچستان کےلیے میٹرو جتنا بڑا کوئی منصوبہ بنایا؟ کیا نوازشریف نے بلوچستان میں کوئی دانش اسکول بنایا؟ کیا شریف دور میں بنائی گئی 10 ہزار میگاواٹ بجلی میں سے چوتھائی بھی بلوچستان کے حصے میں آئی؟ کیا گزشتہ دور میں ن لیگ کی حکومت صرف پنجاب میں تھی؟ کیا نواب ثناء اللہ زہری ن لیگ کے وزیراعلیٰ نہیں تھے؟

اگر بلوچستان کے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرانا نواز حکومت کے بس سے باہر تھا تو کیا وہاں بجلی، پانی اور گیس مہیا کرنا، یونیورسٹیاں، کالج، اسکول اور اسپتال بنانا بھی اس کے بس سے باہر تھا؟ اور کیا وہاں کے طالب علموں کو بھی اسی فراوانی سے لیپ ٹاپس دینا، جیسے پنجاب کے طلبا میں بانٹے گئے، بھی ان کے بس میں نہ تھا؟ اور اگر واقعی ایسا تھا تو انہوں نے ’’ووٹ کی عزت‘‘ کی خاطر جو تحریک اپنی معزولی کے بعد چلائی، کیا وہ انہیں بہت پہلے نہیں چلانی چاہئے تھی؟

قرض لے کر میٹرو بنائی گئی، پھر اس کا کرایہ کم رکھا گیا۔ اس کا نظام چلانے کےلیے ایک بہت بڑا محکمہ بنایا گیا، ہزاروں ملازمین رکھے گئے اور اس کے ساتھ بیش قیمت مشینیں اور دیگر لوازمات منسلک کرکے پورے منصوبے کا روزانہ کا خرچ بھی بہت زیادہ بڑھا دیا گیا۔ منصوبہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل نہیں تھا، چنانچہ سفید ہاتھی بن گیا اور ہر ماہ پنجاب حکومت سے سبسڈی لینے لگا، بالکل اسی طرح جیسے ریلویز، پی آئی اے، اسٹیل ملز، بجلی کی پیداواری کمپنیاں اور دیگر سرکاری ادارے سفید ہاتھی بن کر سالہا سال سے اس ملک کے وسائل کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔

پھر چھوٹے میاں نے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی، صاف پانی کمپنی، لاہور پارکنگ کمپنی اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سمیت تقریباً 56 کمپنیاں بنائیں، جن میں سے شاید ہی کوئی ایسی کمپنی ہو جو اپنا خرچ خود اٹھاتی ہو۔ تقریباً ہر کمپنی میں کروڑوں کی کرپشن کے اسکینڈل عدالتوں میں زیرسماعت و زبان زد خاص و عام ہیں اور سب کا بجٹ خسارہ الگ مستقل قومی مصیبت بن چکا ہے۔

شہبازشریف نے کبھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ انہیں اس ملک کے ذرائع آمدن اور ذرائع پیداوار بڑھانے پر محنت کرنے کی ضرورت تھی، نہ کہ شبانہ روز غیرپیداواری اور سبسڈی کے محتاج منصوبے لگا لگا کر ملک کے بجٹ خسارے میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے اور پھر اسے پورا کرنے کےلیے وفاق کو مسلسل اندرون و بیرون ملک سے قرض لیتے رہنے اور اس کا سود در سود ادا کرتے رہنے اور عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگا کر اور نوٹ چھاپ چھاپ کر روپے کو بے وقعت کرنے اور نتیجتاً ریاست کے ہر شہری کی کاسٹ آف لیوِنگ میں ہوشربا اضافہ کرتا رہنے پر مجبور کرتے رہنے کی ضرورت تھی۔

سب سے بڑے صوبے میں شہباز شریف ریاست کے اخراجات میں اضافہ کرتے رہے اور نواز شریف اسحٰق ڈار کو یہ کہہ کہہ کر تنگ کرتے رہے کہ نہ تو تیل، گیس اور بجلی کی قیمت بڑھے اور نہ ڈالر مہنگا ہو اور نہ میرے چھوٹے بھائی کے عظیم منصوبوں کےلیے پیسے کی فراہمی میں کمی آئے۔ چنانچہ اسحٰق ڈار نے پورا زور دوست ملکوں، ملکی و غیرملکی بینکوں سے قرض در قرض لینے، بانڈ در بانڈ جاری کرنے، پوشیدہ اور ظاہری ٹیکس در ٹیکس لگانے اور پنجاب کے ترقیاتی منصوبے، جن کا سی پیک کے تحت سرمایہ کاری پر بلوچستان کے مقابلے میں دس فیصد حق بھی نہیں تھا، کو نوے فیصد رقم فراہم کرنے پر لگائے رکھا۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود اسحٰق ڈار نے مسلسل مصنوعی طور پر اسٹیٹ بینک کو روپے پر گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور رکھا۔

اسحٰق ڈار کا روپے پر گرفت مضبوط رکھنے کا بالکل وہی طریقہ تھا کہ جیسے کوئی موٹا آدمی اپنے پیٹ پر زور سے رسی باندھ کر کہے کہ دیکھو میری کوئی توند نہیں۔ چنانچہ جیسے ہی نگراں حکومت آئی اور اس نے اسٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی کرنسی کے نحیف ذخائر دیکھے اور محسوس کیا کہ اگر روپے پر یہ جعلی گرفت برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن ہم کسی غلط فہمی میں ہی مارے جائیں اور ہماری کرنسی کاغذ بن کر رہ جائے، کاروباری افراد اسے بیرون تو کیا اندرون ملک بھی لینے سے انکار کردیں تو اس نے یہ رسی ڈھیلی کرنی شروع کردی اور پھر اگلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ آج جب ڈالر 142 روپے کا ہوچکا ہے تو اب اس تباہی کے کلیدی ذمے داران صرف موجودہ حکومت کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اسد عمر اور ان کی حکومت اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کےلیے کیا کررہی ہے؟

ایک تو دوست ملکوں اور آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے، روپے کو گرا رہی ہے، بجلی، گیس، پٹرول مہنگا کررہی ہے اور مزید ٹیکس لگارہی ہے، جو کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ لیکن اس سب کے علاوہ یقیناً کچھ مختلف اقدامات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جنہیں ہم عمران خان ماڈل کہہ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نواز، شہباز ماڈل سے بالکل جداگانہ سوچ کے عکاس ہیں۔

درآمد کنندہ باہر سے چیز خرید کر اندرون ملک لاتا ہے جبکہ اپنی جیب، یعنی اپنے بینک اکاؤنٹ سے، یعنی اندرون ملک سے ڈالروں کی صورت میں باہر والوں کو رقم بھجواتا ہے۔ لیکن خود اس نے اندرون ملک اپنا مال فروخت کرکے عوام سے روپے کمائے ہوتے ہیں، چنانچہ اگر ڈالر سستا ہوگا تو اس کے کم روپے زیادہ ڈالر خریدنے میں اس کی مدد کریں گے اور اسے فائدہ ہوگا۔ ڈار دور میں ایسا ہی ہوتا رہا۔

برآمد کنندہ مال باہر بھیج کر وہاں سے ڈالروں میں رقم کما کر اسے اندرون ملک لاتا ہے اور پھر اسے روپوں میں تبدیل کروا کر اپنی ضروریات و کاروبار کےلیے اندرون ملک خرچ کرتا ہے۔ اگر ڈالر مہنگا ہو تو اسے اپنے باہر سے کمائے ڈالروں کے بدلے اندرون ملک زیادہ روپے مل جاتے ہیں اور وہ اپنے اندرون ملک موجود کاروبار کو مزید وسعت دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا کاروبار پھلتا پھولتا ہے ویسے ویسے وہ زیادہ لوگوں کو ملازمتیں دینے اور باہر سے زیادہ منافع کما کر اندرون ملک لانے کے قابل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور موجودہ حکومت کی جانب سے ڈالر مہنگا کیا جانے کا فائدہ بھی برآمدکنندہ اور اندرون ملک موجود صنعت و دیگر کاروباروں ہی کو ہوگا۔

موجودہ حکومت نے منی بجٹ میں خام مال پر درآمدی ڈیوٹی کم جبکہ کچھ پر مکمل طور پر ختم بھی کردی ہے۔ اس کا فائدہ بھی مقامی صنعت ہی کو ہوگا۔

فائلرز کےلیے بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے فوری خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹیکس دینے والے ایسے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ریلیف کے حقدار ہیں۔

500 اسکوائر فٹ کے شادی ہالوں کے ٹیکس کو 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا ہے۔ اس سے بھی معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوگا۔

ہر نان بینکنگ کمپنی کا سپر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، جس سے یقینی طور پر سرمایہ کار کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔

نیوز پرنٹ کو درآمدی ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دیا گیا ہے، جس سے ’شریف اشتہارات‘ کے طاقت کے ٹیکوں سے محروم، گرتی ہوئی اخباری صنعت کو کچھ سہارا ملے گا۔

بڑی گاڑیوں پر درآمدی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں لگژری اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی رہتی ہیں اور ان کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگا کر اپنی آمدن بڑھانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

نئے پروجیکٹس کے پلانٹس اور مشینری پر مکمل کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس پر 5 سال کےلیے چھوٹ ہو گی، جس سے صنعت پھلے پھولے گی۔

سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز جیسی تمام مینوفیکچرنگ کےلیے 5 سال تک سرمایہ کاری پر کسٹم، سیلز و انکم ٹیکس کا مکمل استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔

کسانوں کےلیے ڈیزل پر ڈیوٹی و کھادوں کے ریٹ میں کمی، ویزہ پالیسی میں نرمی اور سیاحت کی صنعت کے فروغ کی دیگر کوششوں جیسے اقدامات معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور مقامی صنعت، زراعت و تجارت کو توانائی دے کر قومی معیشت کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششیں لوگوں کو سستی روٹی اور بہتر سفری سہولیات دینے کی شہباز/ نواز سمت سے یکسر مختلف حکمت عملی ہے۔

عمران خان ماڈل کامیاب ہو گا یا ناکام؟ اس کا فیصلہ تو کم از کم دو چار سال بعد ہی ہوسکے گا، لیکن سردست مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کو اپنی حکمت عملی کو درست ثابت کرنے کےلیے یہ وقت ملے گا بھی یا نہیں؟

اگر عمران خان خاموشی اور اپوزیشن سے مفاہمت کی حکمت عملی اپناتے ہیں، اپنی اصل قوت یعنی پارلیمان کو زیادہ وقت دیتے ہیں اور اسد عمر پر اندھے اعتماد کا راستہ ترک کرکے پٹرول، بجلی، گیس اور دواؤں کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے عوام کو مشتعل ہونے اور اپوزیشن کی ممکنہ کال پر باہر نکلنے سے روک لیتے ہیں تو پھر تو شاید انہیں یہ وقت مل جائے، ورنہ شاید مؤرخ ان کے دور حکومت کا ذکر قائم چاند پوری کے ان الفاظ کے ساتھ کرے…

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

نوازشریف نے شہباز اور ڈار پر اندھا اعتماد کیا۔ نتیجہ قومی معیشت کی تباہی پر منتج ہوا۔ اب خان صاحب اسد عمر پر اندھا اعتماد کررہے ہیں۔ کیا ان کا انجام نوازشریف سے مختلف ہوسکے گا؟ اور ان تجربات میں عوام اور معیشت کا کیا ہوگا؟ فیصلہ تو عمران خان ہی کو کرنا ہے، لیکن اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے پاس ان فیصلوں کےلیے بہت وقت ہے تو صریحاً غلطی کررہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
پچھلی حکومت کی ان پالیسیوں اور جعلی اقدامات کے بہت منفی نتائج نکلے اور ظاہر ہے کہ بہت عرصہ تک نکلتے رہیں گے۔ اللہ کرے کہ عمران خان صاحب سے متعلق جو امیدیں ظاہر کی گئی ہیں، وہ پوری ہوں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کے۔ آمین!
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب کی محبت میں سرشار ہو کر لکھا گیا ایک اور شاہکار ۔۔۔! تاہم، سچ بات یہ ہے کہ گزشتہ حکومت کی کارکردگی ایسی ناقص بھی نہ تھی۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی بات ہے تو ان کی معاشی پالیسی اب تک سامنے نہ آ سکی ہے اس لیے کوئی بھی تبصرہ عبث ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں تک موجودہ حکومت کی بات ہے تو ان کی معاشی پالیسی اب تک سامنے نہ آ سکی ہے اس لیے کوئی بھی تبصرہ عبث ہے۔
معاشی پالیسی واضح ہے:
  • آمدن اور اخراجات میں توازن
  • برآمداد میں اضافہ
  • درآمداد میں کمی
چیخیں تو نکلیں گی :)
Trade deficit dips 14pc to $23.4bn in nine months - Newspaper - DAWN.COM
 

جاسم محمد

محفلین
اللہ کرے کہ عمران خان صاحب سے متعلق جو امیدیں ظاہر کی گئی ہیں، وہ پوری ہوں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کے۔ آمین!
نئی حکومت زرمبادلہ بڑھانے کیلئے ہر طرف ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ دیکھتے ہیں اس میں سے کچھ سالوں تک کیا نکلتا ہے۔ ویسے صرف سیاحتی انڈسٹری سے پاکستان اپنے تمام اخراجات پورے کر سکتا ہے۔ پتا نہیں سابقہ حکومتیں اس معاملہ میں کیا پی کر سوتی رہی ہیں :)
دو دانت ہمارا قرضہ اتار سکتے ہیں
جاوید چوہدری منگل 9 اپريل 2019
1624477-JavedChaudhryNew-1554782383-563-640x480.JPG


مہاتما بودھ 483 قبل مسیح میں اترپردیش کے شہر کوشی نگر میں انتقال فرما گئے‘ ہندوستان اس وقت آٹھ ریاستوں میں تقسیم تھا‘ بودھ علماء نے مہاتما بودھ کی راکھ کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا اور یہ آٹھ ریاستوں کے اسٹوپوں میں دفن کر دی‘ مہاتما بودھ کی راکھ سے ان کے سات دانت ملے تھے‘ یہ سات دانت بودھ مت کے مقدس ترین اثاثے ہیں‘ ان میں سے چار ٹیکسلا لائے گئے تھے‘ یہ ٹیکسلا کیوں لائے گئے؟

وجہ بہت دلچسپ تھی‘ ٹیکسلا بودھ گیا اور کوشی نگر کے بعد بودھوں کا مقدس ترین شہر تھا‘ بودھوں نے مہاتما کی زندگی میں یہاں بودھ مت کی پہلی یونیورسٹی بنائی تھی‘ یونیورسٹی کا سینٹر جولیاں میں تھا جب کہ اس کی فیکلٹیز سوات‘ پشاور‘ تخت بھائی اور افغانستان کے شہر بامیان تک پھیلی تھیں‘ یہ علاقہ گندھارا کہلاتا تھا اور ہنڈ اس کا دارالحکومت تھا‘ ہنڈ آج بھی آپ کو موٹروے پر پشاور جاتے ہوئے دریائے سندھ سے ذرا پہلے نظر آتا ہے تاہم یہ شہر وقت کے ہاتھوں برباد ہو کر چھوٹا سا گائوں بن چکا ہے۔

سوات بھی اس زمانے میں گندھارا کا حصہ ہوتا تھا‘ بودھ ازم کے تین فرقے بہت اہم ہیں‘ مہایانا‘ ہنیانا(تھیرواڈا) اور تنتریانا(واجریانا)‘ بودھوں کے تیسرے فرقے تنتریانا نے سوات میں جنم لیا تھا‘ اس کا بانی پدماسمباوا کا تعلق سوات سے تھا‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی بودھ مت چین‘ تبت اور کوریا میں ٹیکسلا سے پہنچا تھا‘ ٹیکسلا کے بھکشو تبت‘ چین اور کوریا پہنچے اور یہ ان کی کوشش تھی جس کے نتیجے میں ایشیا کے جنوبی ممالک نے بودھ مت قبول کیا۔

بھوٹان میں آج بھی صبح کی عبادت سوات کے نام سے شروع ہوتی ہے‘آپ بھوٹان‘ کوریا‘ تبت اور سری لنکا جائیں‘ آپ وہاں سوات کانام لیں لوگ آپ کے ہاتھ چومنے لگیں گے‘ چانکیہ کا تعلق بھی ٹیکسلا سے تھا‘ چندر گپت موریہ نے بھی 322 قبل مسیح میں چانکیہ کے ساتھ مل کرٹیکسلا میں موریہ سلطنت کی پلاننگ کی تھی‘ اشوک اعظم اسی موریہ سلطنت سے تعلق رکھتا تھا اور یہ ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس نے 260 قبل مسیح میں بنگال سے لے کر کابل تک پورے برصغیر پر حکومت کی‘ ٹیکسلا اڑھائی ہزار سال سے بودھ مت کا مقدس ترین شہر چلا آ رہا ہے۔

یہ اس دوران اجڑتا اور آباد ہوتا رہا، یہاں تک کہ یہ مٹی کا ڈھیر بن کر زمین کا رزق بن گیا‘ جان مارشل نے 1913ء میں ٹیکسلا کے آثار کھودنا شروع کیے اور کمال کر دیا‘ وہ بودھوں کے مقدس ترین اثاثوں یعنی مہاتما کے چار دانتوں تک بھی پہنچ گیا‘ جان مارشل نے ایک دانت وائسرائے کو پیش کر دیا اور وائسرائے نے یہ اوڑیسہ میں رکھوا دیا‘ اوڑیسہ آج بھی اس دانت کی وجہ سے بودھوں کے مقدس ترین مقامات میں شامل ہے‘ دوسرا دانت چٹا گانگ پہنچ گیا جب کہ باقی دو ٹیکسلا میں ہی رکھ دیے گئے۔

مہاتما بودھ کے باقی تین دانت سفر کرتے کرتے سری لنکا‘ چین اور تائیوان پہنچ گئے اور یہ بودھوں کی مقدس زیارت گاہ بن گئے‘ سری لنکا کا دانت کینڈی میں ہے‘ یہ سونے کی دیوار کے پیچھے سونے کے صندوق میں رکھا ہے‘ دنیا کا کوئی شخص اس کی براہ راست زیارت نہیں کر سکتا‘ ایوب خان نے چٹاگانگ کا دانت جاپان کو گفٹ کر دیا تھا‘ جاپان کی پوری کابینہ اور بادشاہ نے ایئرپورٹ پر آ کراس دانت کا استقبال کیا تھا اور پورے ملک نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر اس کی زیارت کی تھی‘ وہ دانت کاماکوراشہر میں خصوصی ٹمپل بنا کر رکھ دیا گیا۔

جاپان اس تحفے کی وجہ سے آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت کرتا ہے یوں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس مہاتما بودھ کے دو دانت ہیںاوریہ دو مقدس ترین دانت آج بھی ٹیکسلا کے میوزیم میں موجود ہیں‘ یہ دونوں کتنے مقدس ہیں آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے‘ پاکستان یہ دانت 2016ء اور 2018ء میں دو مرتبہ سری لنکا لے کر گیا‘ لاکھوں لوگوں نے ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا‘ صدر اور وزیراعظم نے آ کر یہ وصول کیے اور لاکھوں لوگوں نے قطار میں کھڑے ہو کر ان کی زیارت کی‘ یہ کتنی بڑی دولت ہیں۔

ہم یہ جانتے ہی نہیں ہیں‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے ٹیکسلا بودھوں کے لیے کتنا اہم ہے‘ آپ ٹیکسلا میں جولیاں جائیں‘ آپ کو وہاں مہاتما بودھ کا ایک ایسا مجسمہ ملے گا جس کی ناف میں سوراخ ہے‘ بودھوں کا عقیدہ ہے جو شخص اس سوراخ میں انگلی ڈال کر شفاء کی دعا کرے وہ صحت یاب ہو جاتا ہے‘ یہ مجسمہ پوری دنیا میں ایک ہے اوراڑھائی ہزار سال سے جولیاں میں پڑا ہے‘ جولیاں میں دیواروں میں بڑے بڑے طاق بھی ہیں۔

یہ مانسٹک سیل کہلاتے ہیں اور یہ بودھوں کے لیے اتنے ہی مقدس ہیں جتنا ہمارے لیے ریاض الجنہ‘پاکستان کے پاس اس وقت لاکھوں کی تعداد میں بودھ مورتیاں‘ مجسمے اور مہاتما بودھ کی راکھ بھی ہے‘ یہ تمام اشیاء اتنی قیمتی ہیں کہ یہ پاکستان کے سارے قرضے اتار سکتی ہیں لیکن ہم ان خزانوں کے باوجود کنگال ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم مارکیٹنگ میں بری طرح ناکام ہیں‘ ہمیں چیزوں کو بیچنا نہیں آتا‘ ہم اگر مہاتما بودھ کے یہ دونوں دانت فروخت کر دیں تو پاکستان کا سارا قرضہ ادا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ظاہر ہے عقل چاہیے اور وہ ہم میں نہیں۔

حکومت ملک میں سیاحت کو انڈسٹری بنانا چاہتی ہے‘ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے‘ سیاحت اس وقت دنیا کی طاقتور ترین انڈسٹری ہے‘ دنیا اس سے اربوں ڈالر سالانہ کماتی ہے‘ فرانس صرف لوہے کے ڈھانچے آئفل ٹاور سے سالانہ 22 ارب ڈالر کما لیتا ہے اور یہ رقم پاکستان کی کل برآمدات کے برابر ہے جب کہ ہم دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے‘ہمارے پاس نو ہزار سال کی ہسٹری بھی ہے۔

دنیا کے پانچ بلند ترین پہاڑ بھی ہیں‘سمندر بھی ہے‘ صحرا بھی‘ میدان بھی ‘برفستان بھی‘ گلیشیئرز بھی اور جنگل بھی لہٰذا ہمیں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا تاہم دیر آئد درست آئد لیکن میں کیونکہ دائمی سیاح ہوں چنانچہ میرا خیال ہے ہم روایتی سیاحت میں پٹ جائیں گے‘ ہمارے ملک میں اچھے بیچ ایریاز ہیں‘ صاف ستھرے شہر اور نہ ہی پہاڑوں میں انفرااسٹرکچر‘ ہم بین الاقوامی اسٹینڈر کے ہوٹل اور واش رومز تک نہیں بنا سکے۔

سیکیورٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں اور دوسرا سیاحوں کو شام کے وقت ایکٹویٹیز بھی درکار ہوتی ہیں اور ہم مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے انھیں یہ ایکٹویٹیز فراہم نہیں کر سکتے‘ہمارے خطے میں بھارت‘ ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ ترکی اور آذر بائیجان جیسے لبرل ملک موجود ہیں‘یہ ملک سستے بھی ہیں اور ٹورازم فرینڈلی بھی‘ ہم روایتی سیاحت میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے لہٰذا ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچتا ہے اور وہ آپشن ہے تاریخی اور مذہبی سیاحت‘ ہم اگر اس پر توجہ دیں تو ہم بڑی آسانی سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں‘ پاکستان کے پاس بودھ مت کے مقدس ترین اثاثے ہیں۔

ہم اگر اسلام آباد میں مہاتما بودھ کے دانتوں کا ٹمپل بنائیںاور بودھ دنیا کو دعوت دیں تو لاکھوں سیاح پاکستان آ سکتے ہیں‘ ہم اسی طرح جاپان‘ چین‘ تھائی لینڈ‘ تائیوان اور کوریا جیسے بودھ ملکوں میں مہاتما بودھ کے دانتوں کی نمائش بھی کر سکتے ہیں اور ہم اس سے بھی کروڑوں ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں‘ہمارے ملک میں ہندوئوں کے مقدس ترین مقامات بھی ہیں‘آپ ٹلہ جوگیاں اور راج کٹاس کو لے لیجیے‘یہ دونوں مقامات ہندو پرانوں اور گیتا کا حصہ ہیں‘ہردوار ہندوئوں کا یوروشلم ہے‘ یہ مقام 1947ء میں ٹلہ جوگیاں کے جوگیوں نے ہندوستان جاکر آباد کیا تھا۔

ہم اگر واہگہ سے راج کٹاس تک سیاحتی کوریڈور بنا دیں اور بھارتی زائرین کو دو دن کے لیے فری انٹری دے دیں تو ہم اس سے بھی کروڑوں ڈالر کما سکتے ہیں‘ سکھر میں دریائے سندھ کے عین درمیان سادھ بیلا کا مندر ہے‘ یہ مندر بھی ہندوئوں کی مقدس جگہ ہے‘ ہم یہ بھی سیاحت کے لیے کھول سکتے ہیں‘ آپ اگر کوسٹل ہائی وے پر کراچی سے گوادر جائیں تو راستے میں ہنگول آتا ہے‘ یہ 6100 مربع کلو میٹر کا نیچرل پارک ہے‘ اس میں ہنگلاج ماتا کا مندر ہے‘ یہ بھی ہندوستان کے قدیم ترین مندروں میں شمار ہوتا ہے‘ اپریل کے مہینے میں یہاں تیرتھ یاترا ہوتی ہے اور اس یاترا میں چالیس ہزار ہندو آتے ہیں۔

ہم زائرین کی اس تعداد کو چار پانچ لاکھ تک بڑھا سکتے ہیں‘ سکھ مت کے تمام مقدس مقامات پاکستان میں ہیں‘ ننکانہ صاحب گرونانک کی جنم بھومی ہے‘ آپ نے کرتار پور میں انتقال فرمایا‘ یہ دونوں مقامات گولڈن ٹمپل بن سکتے ہیں‘ آپ یہ دونوں شہر سکھوں کو فروخت کر دیں یا پھر جدید سہولتیں دے کر یاتریوں کے لیے اوپن کر دیں‘ چالیس پچاس لاکھ سکھ ہر سال یہاں آ جائیں گے‘ مہر گڑھ اور موہن جو داڑو بھی سونے کی کانیں ہیں‘ مہر گڑھ بلوچستان میں ہے اور یہ نو ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔

دنیا میں دانت کا پہلا آپریشن اور ہندوستان کی پہلی مورتی مہر گڑھ میں بنائی گئی تھی جب کہ موہن جو داڑو دنیا میں ساڑھے چار ہزار سال پرانا واحد شہر ہے‘ یہ شہر ہندو مت سے بھی قدیم ہے‘ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں اناج کے اجتماعی ذخیرے کا بندوبست کیا گیا اور سوئمنگ پول بنایا گیا‘ اس میں دو اور تین منزل کے مکانات بھی تھے‘ یہ تھیوری بھی موجود ہے آسٹریلیا بلوچستان کا حصہ ہوتا تھا‘ یہ آج سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے بلوچستان سے ٹوٹا اور سمندر پر تیرتا ہوا قطب جنوبی کے قریب پہنچ گیا۔

ہم اس تھیوری پربھی کام کر کے بلوچستان کو آسٹریلیا کے لیے کھول سکتے ہیں اور پاکستان میں وار برٹن‘ جیکب آباد‘ لائل پور (فیصل آباد)‘ منٹگمری (ساہیوال)‘ ایبٹ آباد اور کیمبل پور (اٹک) جیسے گوروں کے بے شمار شہر موجود ہیں‘ ہم ان شہروں کوبھی پرانی وضع میں تبدیل کر کے یورپی سیاحوں کو متوجہ کر سکتے ہیں‘ ہم اگر سارا شہر نہیں بدل سکتے تو بھی ہم شہروں کے چند حصوں کو پرانی طرز میں تعمیر کر کے سیاحوں کو ضرور بلا سکتے ہیں اور ہمیں جلد یا بدیر کراچی اور گوادر کے درمیان نئے انٹرنیشنل سیاحتی شہر بھی آباد کرنا پڑیں گے لیکن یہ اتنی جلدی نہیں ہو سکے گاتا ہم ہم فوری طور پر مذہبی سیاحت کھول سکتے ہیں۔

ہمیں اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ہم یہ موقع بھی کھو دیں گے اور آخری تجویز ‘ہم شاہراہ ریشم کا پاکستانی حصہ بھی کھول سکتے ہیں‘ سیاح آئیں‘ شاہراہ ریشم پر سفر کریں اور دوسرے ملکوں میں نکل جائیں‘ یہ بھی ہمارے ریونیو میں اضافہ کرے گا‘باقی جو عمران خان چاہیں‘ یہ عقل کل ہیں۔
 

جان

محفلین
صرف سیاحتی انڈسٹری سے پاکستان اپنے تمام اخراجات پورے کر سکتا ہے۔
سیاحت وہاں فروغ پاتی ہے جہاں امن پسند لوگ آباد ہوں۔ جس ملک میں ہر روز کبھی غیرت کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی سیاست کے نام پر، کبھی احتساب کے نام پر اور کبھی دفاع کے نام پر انتشار ہی انتشار ہو وہاں سیاحوں نے آ کے مرنا ہے؟ ملک وہی ترقی کر پاتے ہیں جو امن پسند ہوں، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہو، نیشنل انٹیگریشن اور معاشرے میں انٹرنل کوھیسیونیس ہو، معاشرہ یکجان ہو، زبان، مذہب، کلچر کے اختلافات کے باوجود نیشنل یونیٹی ہو۔ یہاں تو ہر وقت بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت ہے۔ ایسے ماحول میں نہ تو سیاح آتے ہیں اور نہ سرمایہ کار۔ حالانکہ قائدِ پاکستان کی سٹیٹمنٹس آن ریکارڈ ہیں۔

“Democracy is in the blood of the Muslims, who look upon complete equality of mankind, and believe in fraternity, equality, and liberty.”
― Muhammad Ali Jinnah

“You are free; you are free to go to your temples. You are free to go to your mosques or to any other places of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion, caste or creed—that has nothing to do with the business of the state.”
― Muhammad Ali Jinnah

“The great majority of us are Muslims. We follow the teachings of the Prophet Mohammed (may peace be upon him). We are members of the brotherhood of Islam in which all are equal in rights, dignity and self-respect. Consequently, we have a special and a very deep sense of unity. But make no mistake: Pakistan is not a theocracy or anything like it.”
― Muhammad Ali Jinnah

“Do not forget that the armed forces are the servants of the people. You do not make national policy; it is we, the civilians, who decide these issues and it is your duty to carry out these tasks with which you are entrusted.”
― Muhammad Ali Jinnah

“No nation can rise to the height of glory unless your women are side by side with you. We are victims of evil customs. It is a crime against humanity that our women are shut up within the four walls of the houses as prisoners. There is no sanction anywhere for the deplorable condition in which our women have to live.”
― Muhammad Ali Jinnah
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سیاحت وہاں فروغ پاتی ہے جہاں امن پسند لوگ آباد ہوں۔
اسرائیل کی کل آبادی : 87 لاکھ
2018 میں 40 لاکھ سیاحوں نے اسرائیل کا رُخ کیا۔ جس سے ملک نے 6 ارب ڈالر کمائے۔
The ministry said the increase is due in part to a NIS 350 million ($93 million) marketing campaign promoting Israel as a travel destination around the world, including, in the US, Germany, Russia, Italy, England, China, Ukraine, Brazil, and the Philippines. The investment yielded an average increase of 13% in the number of tourists from those countries, said the ministry​
Israel saw record-breaking 4 million tourists in 2018, says tourism ministry

اسرائیلی میڈیا عبرانی کے علاوہ دیگر زبانوں میں اپنے ملک کو ہمیشہ مثبت رنگ میں پیش کرتا ہے۔ حالانکہ یہ ملک چاروں اطراف سے جنگ و تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود سیاحوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی کہیں تو کچھ غلط کر رہے ہیں۔
 

جان

محفلین
اسرائیل کی کل آبادی : 87 لاکھ
2018 میں 40 لاکھ سیاحوں نے اسرائیل کا رُخ کیا۔ جس سے ملک نے 6 ارب ڈالر کمائے۔
The ministry said the increase is due in part to a NIS 350 million ($93 million) marketing campaign promoting Israel as a travel destination around the world, including, in the US, Germany, Russia, Italy, England, China, Ukraine, Brazil, and the Philippines. The investment yielded an average increase of 13% in the number of tourists from those countries, said the ministry​
Israel saw record-breaking 4 million tourists in 2018, says tourism ministry

اسرائیلی میڈیا عبرانی کے علاوہ دیگر زبانوں میں اپنے ملک کو ہمیشہ مثبت رنگ میں پیش کرتا ہے۔ حالانکہ یہ ملک چاروں اطراف سے جنگ و تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود سیاحوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی کہیں تو کچھ غلط کر رہے ہیں۔
حضورِ والا اسرائیل کے اندر امن ہی امن ہے اور وہ اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ انہوں نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے آرٹیفیشل بیچز تک بھی بنائے۔ ٹیکنالوجی اور انڈسٹری اتنی بڑھ چکی ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ دار وہاں کا رخ کرتے ہیں اور اسے "سیفسٹ" ملک مانا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے ہر طرف دشمن ہے اور وہ دشمنوں کے دل میں بیٹھا ہے لیکن کسی ایک میں بھی جرات نہیں اس کا مقابلہ کر سکے چاہے وہ دفاعی میدان ہو یا تکنیکی یا سائنسی۔ وہاں مسلمان ملکوں کی "سازش" یا "دفاع" کیوں کامیاب نہیں ہوتا؟ صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ان کے ملک کی عوام میں باہمی ہم آہنگی ہے اور انتہا درجے کی سٹیبیلیٹی ہے۔
سازشیں مسلمان ملکوں میں ہی کامیاب ہوتی ہیں؟ انسیکیورٹی کی فضا مسلمان ملکوں میں ہی کیوں ہے؟ اس کی صرف وہی وجہ ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔ مسلمان ملکوں کی آبادی میں تفریق کیوں ہے، انتشار کی فضا کیوں ہے؟ سارے غدار یہیں کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ جب ایک عام آدمی کا مفاد اور سٹیٹ کا مفاد یکجان ہو جائے تو اس ملک کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں ذاتی مفادات کی جنگ ہے، معاشرے میں اتحاد اور امن کی فضا کو پروان چڑھانے کی بجائے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے، اختلافات کو بخوشی قبول کرنے کی بجائے بزور بازو دبایا جاتا ہے جس سے نیا ٹیلنٹ کبھی سامنے نہیں آ پاتا، لوگوں میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں، بنگلہ دیش کا الگ ہونا کیا ایک دن کا واقعہ ہے؟ بلوچستان میں آزادی پسند تحریکوں کا اٹھنا کیا اچانک ہو جاتا ہے؟ پشتون تحفظ مومنٹ کیا اسرائیل کی سازش ہے؟ ان سب کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے دانشمندی سے کام لینے کی بجائے طاقت کا بے دریغ استعمال۔ سازشی تھیوریوں کا راگ الاپنا اپنی ناکامیوں پہ پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ صرف اس بات پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سازشیں ہمارے ہاں ہی کامیاب کیوں ہیں؟ یورپ تو دور کی بات، اسرائیل میں کارگر کیوں ثابت نہیں ہوتیں؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
’اصلاحات نہ کیں تو 2024 تک پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار مزید کم ہو جائے گی‘
خلیق کیانیاپ ڈیٹ 10 اپريل 2019

اسلام آباد: وزیر خزانہ اسد عمر انٹرنیشنل مانیٹر فنڈ(آئی ایم ایف) کے 3سالہ بیل آؤٹ پیکج پر حتمی گفتگو کے لیے واشنگٹن میں موجود ہیں جہاں عالمی مالیاتی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پروگرام منظور نہ کیا گیا تو پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح موجودہ اور آئندہ مالی سال کم ہو کر بالترتیب 2.9 اور 2.8فیصد ہو جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسد عمر کی سربراہی میں جانے والے وفد میں گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ، سیکریٹری فنانس یونس ڈھاگا، ڈویژن سیکریٹری معاشی امور نور احمد اور ان اداروں کے سینئر آفیشلز موجود ہیں جو 9 سے 14اپریل تک ہونے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے موسم بہار کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور اسی کے دوران ملکی معیشت میں استحکام کے لیے بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دیں گے۔

واشنگٹن روانگی سے قبل وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے مجوزہ پروگرام کو اس اجلاس کے دوران ہی حتمی شکل دی جائے گی جس کے بعد رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں آئی ایم ایف کا اسٹاف مشن پاکستان کا دورہ کر کے معاہدے پر دستخط کرے گا۔

وزارت خزانہ کے ترجمان اس بارے میں گفتگو کے دستیاب نہ ہو سکے لیکن وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور اس کی شرائط پر گفتگو کے لیے اسد عمر واشنگٹن میں موجود ہیں لیکن آئندہ چند دنوں میں مذاکرات کا ایک اور دور ہو گا جس میں معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی جبکہ وزیر خزانہ کی وطن واپسی کے بعد ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو باقاعدہ لانچ کیا جائے گا۔

اپنے عالمی معاشی منظر نامے میں آئی ایم ایف نے پاکستان پر معاشی اصلاحات کرنے پر زور دیتے ہوئے پیشگوئی کی ہے کہ مڈ ٹرم میں پاکستان کی شرح نمو 2024 تک 2.5فیصد سے نہیں بڑھے گی لیکن اگلے سال کے لیے آئی ایم ایف نے عالمی بینک کی طرح 2.75 فیصد کی شرح نمو کی پیشگوئی کی ہے، البتہ آئی ایم ایف کی جانب سے رواں سال 2.9فیصد شرح نمو کے مقابلے میں عالمی بینک نے 3.6فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے ان منفی پیشگوئیوں کی وجہ توانائی کی قیمتوں، میکرو اکنامک چیلنجز اور آہستہ ہوتی عالمی معیشت کے اثرات کو قرار دیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق رواں مالی سال کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس 7.6فیصد تک رہے گا جبکہ اگلے مسالی سال کے دوران یہ کم ہو کر 7فیصد اور 2024 تک مستحکم ہو کر 5فیصد تک پہنچ جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں سال کے دوران جی ڈی پی کا تقریباً 5.2فیصد رہے گا جو اگلے سال کم ہو کر 4.3 فیصد تک آ جائے گا لیکن پھر 2024 تک بڑھ کر 5.4فیصد تک پہنچ جائے گا۔

بیروزگاری کی شرح موجودہ سال کے دوران 6.1فیصد پر برقرار رہے گی البتہ یہ اگلے سال بڑھ کر 6.2 ہو جائے گی اور 2024 تک اسی شرح پر برقرار رہے گی۔

حکومت آئی ایم ایف کو اپنے میکرو اکنامک اعدادوشمار کے ساتھ ساتھ استحکام اور شرح نمو کے حوالے سے حکمت عملی سے آگاہ کر چکا ہے جو اس پروگرام میں پاکستان کے معاشی منظرنامے کی بنیاد تصور کیے جا رہے ہیں۔
 
Top