اسرائیلی فورس کی طرف سے غزہ پر حملے کا اعلان

اکمل زیدی

محفلین
جہاں اسرائیلی غزہ پر بمباری کر رہے ہیں وہیں فلسطینیوں نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں۔ وہ بھی راکٹ پر راکٹ مار رہے ہیں۔ اسرائیل-فلسطین تنازع پر اگرخبر دینی ہی ہے تو متوازن (دونوں اطراف) سے دیں۔
عارف کریم تھیلے سے باہر آتے ہوئے۔
واپس تھیلے میں.جاتے ہوئے....:LOL:
 

فرقان احمد

محفلین
اسرائیل اور فلسطین معرکہ آرائی کا تقابل ہندوستان اور پاکستان کے مابین جاری چپقلش سے کرنا اصولی غلطی ہے۔ فلسطینی معروف معنوں میں نہتے ہیں۔ راکٹ حملوں کو تو محض جواز بنا لیا گیا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو ہر حوالے سے کمک فراہم کر رکھی ہے اور اس خطے میں حق و باطل کا اصل معرکہ جاری ہے۔ ہمیں مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ کئی غیر مسلم اقوام بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کر چکی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فلسطینی معروف معنوں میں نہتے ہیں۔ راکٹ حملوں کو تو محض جواز بنا لیا گیا ہے۔
اسرائیل میں جو راکٹ جا کر گرے ان کا سائز اور رینج چیک کریں۔ یہ 80 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
D2fEyxFWwAUf00c.jpg

D2fEzLDW0AAB121.jpg

یہ لوگ آپ کو نہتے نظر آتے ہیں؟ میں نے اسی لئے پہلی پوسٹ میں فلسطینی پراپگنڈہ والی بات کی تھی۔ لیکن کچھ احباب برا ما ن گئے تھے۔
 

فلسفی

محفلین
اسرائیل میں جو راکٹ جا کر گرے ان کا سائز اور رینج چیک کریں۔ یہ 80 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
D2fEyxFWwAUf00c.jpg

D2fEzLDW0AAB121.jpg

یہ لوگ آپ کو نہتے نظر آتے ہیں؟ میں نے اسی لئے پہلی پوسٹ میں فلسطینی پراپگنڈہ والی بات کی تھی۔ لیکن کچھ احباب برا ما ن گئے تھے۔
موازنہ کرنا ہے تو مکمل کیجیے، ورنہ دونوں طرح سے موقف یک طرفہ ہی کہلائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
موازنہ کرنا ہے تو مکمل کیجیے، ورنہ دونوں طرح سے موقف یک طرفہ ہی کہلائے گا۔
اسرائیل خطے کی ایک بڑی عسکری طاقت ہے۔ یہ سوچ کہ اسرائیلی فلسطینی راکٹوں کا جواب اسی قسم کے ہتھیاروں سے دیں گے محض خام خیالی ہے۔
اسرائیلیوں کا بیانیہ ہے کہ جب تک غزہ کی پٹی سے راکٹ چلتے رہیں گے ہم سخت جوابی کرتے رہیں گے۔
جبکہ فلسطینی کہتے ہیں کہ جب تک پورا اسرائیل فلسطین نہیں بن جاتا ہم راکٹ چلاتے رہیں گے۔
ان حالات میں امن تو دور کی بات ہے۔ امن مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔
 

فلسفی

محفلین
اسرائیل خطے کی ایک بڑی عسکری طاقت ہے۔ یہ سوچ کہ اسرائیلی فلسطینی راکٹوں کا جواب اسی قسم کے ہتھیاروں سے دیں گے محض خام خیالی ہے۔
اسرائیلیوں کا بیانیہ ہے کہ جب تک غزہ کی پٹی سے راکٹ چلتے رہیں گے ہم سخت جوابی کرتے رہیں گے۔
جبکہ فلسطینی کہتے ہیں کہ جب تک پورا اسرائیل فلسطین نہیں بن جاتا ہم راکٹ چلاتے رہیں گے۔
ان حالات میں امن تو دور کی بات ہے۔ امن مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔
ہمیشہ کی طرح سوال گندم جواب چنا۔ آپ فرقان صاحب کی عمومی بات کے جواب میں پروپیگنڈے کا رونا روتے ہوئے فلسطینیوں کو میزائل کے ساتھ دکھاتے ہو۔ پھر جب آپ سے کہا جاتا ہے کہ موازنہ تو مکمل کرو تو آپ کہتے ہو کہ اسرائیل خطے کی ایک بڑی عسکری طاقت ہے اور فلسطینیوں کی خام خیالی وغیرہ وغیرہ۔ آپ فقط مراسلہ میٹر کو تیز کرنے کی وجہ سے جواب لکھتے ہو یا کوئی اور وجہ ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
آپ فرقان صاحب کی عمومی بات
یہ عمومی بات ہی غلط ہے کہ فلسطینی نہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اسرائیل کے غزہ کی پٹی سے انخلا جو 2005 میں ہوا کے بعد سے مسلسل راکٹ نہ چل رہے ہوتے۔ راکٹوں کی شدت پر جب اسرائیلی غزہ کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو شور مچ جاتا ہے کہ دیکھیں اسرائیلیوں نے نہتے فلسطینی شہید کر دئے۔ لیکن وہ جو وہاں سے راکٹ اسرائیل پر چلے تھے اس کا ذکر گول کر دیا جاتا ہے۔
یہ پراپگنڈہ کی ایک قسم ہے جس کا سدبات ضروری ہے۔ باقی جہاں تک اسرائیل کی عسکری قوت کا فلسطین سے موازنہ کرنا ہے تو وہاں آپ کی بات درست ہے کہ ان کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ مگر صرف اس بنیاد پر فلسطینیوں کو نہتے کہہ دینا بھی غلط ہے۔
 

ربیع م

محفلین
اسرائیل میں جو راکٹ جا کر گرے ان کا سائز اور رینج چیک کریں۔ یہ 80 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
D2fEyxFWwAUf00c.jpg

D2fEzLDW0AAB121.jpg

یہ لوگ آپ کو نہتے نظر آتے ہیں؟ میں نے اسی لئے پہلی پوسٹ میں فلسطینی پراپگنڈہ والی بات کی تھی۔ لیکن کچھ احباب برا ما ن گئے تھے۔
ایسے راکٹ اجکل بچے بھی بنا لیتے ہیں
 

فرقان احمد

محفلین
اسرائیل میں جو راکٹ جا کر گرے ان کا سائز اور رینج چیک کریں۔ یہ 80 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
D2fEyxFWwAUf00c.jpg

D2fEzLDW0AAB121.jpg

یہ لوگ آپ کو نہتے نظر آتے ہیں؟ میں نے اسی لئے پہلی پوسٹ میں فلسطینی پراپگنڈہ والی بات کی تھی۔ لیکن کچھ احباب برا ما ن گئے تھے۔

اسرائیل خطے کی ایک بڑی عسکری طاقت ہے۔ یہ سوچ کہ اسرائیلی فلسطینی راکٹوں کا جواب اسی قسم کے ہتھیاروں سے دیں گے محض خام خیالی ہے۔
اسرائیلیوں کا بیانیہ ہے کہ جب تک غزہ کی پٹی سے راکٹ چلتے رہیں گے ہم سخت جوابی کرتے رہیں گے۔
جبکہ فلسطینی کہتے ہیں کہ جب تک پورا اسرائیل فلسطین نہیں بن جاتا ہم راکٹ چلاتے رہیں گے۔
ان حالات میں امن تو دور کی بات ہے۔ امن مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔
شاید یہ راکٹ ایٹم بم پھینکنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں گے ۔۔۔! اور امن عمل کی راہ میں محض یہی راکٹ رکاوٹ ہوں گے ۔۔۔! امر واقعہ یہ ہے کہ فی زمانہ راکٹوں کا استعمال چھریوں چاقوؤں کے استعمال کے برابر ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے اب فلسطینی پھول برسانے سے تو رہے ۔۔۔!
 

جاسمن

لائبریرین
یہ عمومی بات ہی غلط ہے کہ فلسطینی نہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اسرائیل کے غزہ کی پٹی سے انخلا جو 2005 میں ہوا کے بعد سے مسلسل راکٹ نہ چل رہے ہوتے۔ راکٹوں کی شدت پر جب اسرائیلی غزہ کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو شور مچ جاتا ہے کہ دیکھیں اسرائیلیوں نے نہتے فلسطینی شہید کر دئے۔ لیکن وہ جو وہاں سے راکٹ اسرائیل پر چلے تھے اس کا ذکر گول کر دیا جاتا ہے۔
یہ پراپگنڈہ کی ایک قسم ہے جس کا سدبات ضروری ہے۔ باقی جہاں تک اسرائیل کی عسکری قوت کا فلسطین سے موازنہ کرنا ہے تو وہاں آپ کی بات درست ہے کہ ان کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ مگر صرف اس بنیاد پر فلسطینیوں کو نہتے کہہ دینا بھی غلط ہے۔

فلسطینیوں سے ان کے چھرے چاقو، اینٹ روڑے لے لینے چاہییں۔ کسی بھی قسم کا کوئی ہتھیار ان کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
جب وہ مکمل نہتے ہوجائیں تو انھیں اسرائیلیوں کے سامنے لے جا کے کھڑا کر دیں۔ لیں جی اب فرمائیں کیا حکم ہے؟
حد ہے!
الفاظ بھی ہتھیار ہو سکتے ہیں۔۔۔یہ فلسطینیوں کے خلاف لکھے جانے والے مراسلوں سے پتہ چل رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور امن عمل کی راہ میں محض یہی راکٹ رکاوٹ ہوں گے
ایسا ہی ہے۔ کسی بھی تنازع میں طاقتور فریق کا حل کی جانب بڑھنا ایک مشکل ترین قدم ہوتا ہے۔ 1993 میں سخت عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل اور فلسطین مذاکرات کی میز پر آگئے تھے۔ اور امن معاہدہ بھی کر لیا۔ مگر جب اسے لاگو کرنے وقت آیا تو دونوں اطراف شدت پسند گروپوں نے اپنی کاروائیاں تیز کر دیں۔ اسرائیلیوں میں ایک انتہا پسند نے امن معاہدہ کرنے پر اپنے ہی وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ کے شہید کر دیا۔
Bill_Clinton%2C_Yitzhak_Rabin%2C_Yasser_Arafat_at_the_White_House_1993-09-13.jpg

جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں نے اسرائیلی الیکشن سے قبل یکے بعد دیگرے متعدد بم بلاسٹ کر کے حکومت کا پلڑہ حالیہ انتہا پسند وزیر اعظم نتانیاہو کی طرف جھکا دیا۔ جو تاحال فلسطینیوں پر مظالم رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا آن ریکارڈ بیان بھی موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے سابقہ اسرائیلی حکومت میں کیا جانے والا امن معاہدہ سبوتاژ کیا۔

اب کی بار بھی تاریخ دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ عین اسرائیلی الیکشن سے قبل فلسطینیوں کی جانب سے راکٹوں کے حملے اور اسرائیلی انتہا پسند وزیر اعظم کی سخت جوابی کاروائی ایک بار پھر ان کو حکومت میں واپس لے آئے گی۔ اس اسٹیٹس کو سے دونوں اطراف کے انتہا پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ اکثریت یعنی اعتدال پسند طبقہ ہر جگہ پس رہا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایسا ہی ہے۔ کسی بھی تنازع میں طاقتور فریق کا حل کی جانب بڑھنا ایک مشکل ترین قدم ہوتا ہے۔ 1993 میں سخت عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل اور فلسطین مذاکرات کی میز پر آگئے تھے۔ اور امن معاہدہ بھی کر لیا۔ مگر جب اسے لاگو کرنے وقت آیا تو دونوں اطراف شدت پسند گروپوں نے اپنی کاروائیاں تیز کر دیں۔ اسرائیلیوں میں ایک انتہا پسند نے امن معاہدہ کرنے پر اپنے ہی وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ کے شہید کر دیا۔
Bill_Clinton%2C_Yitzhak_Rabin%2C_Yasser_Arafat_at_the_White_House_1993-09-13.jpg

جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں نے اسرائیلی الیکشن سے قبل یکے بعد دیگرے متعدد بم بلاسٹ کر کے حکومت کا پلڑہ حالیہ انتہا پسند وزیر اعظم نتانیاہو کی طرف جھکا دیا۔ جو تاحال فلسطینیوں پر مظالم رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا آن ریکارڈ بیان بھی موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے سابقہ اسرائیلی حکومت میں کیا جانے والا امن معاہدہ سبوتاژ کیا۔

اب کی بار بھی تاریخ دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ عین اسرائیلی الیکشن سے قبل فلسطینیوں کی جانب سے راکٹوں کے حملے اور اسرائیلی انتہا پسند وزیر اعظم کی سخت جوابی کاروائی ایک بار پھر ان کو حکومت میں واپس لے آئے گی۔ اس اسٹیٹس کو دونوں اطراف کے انتہا پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ اکثریت یعنی معتدل طبق ہر جگہ پس رہا ہے۔
کاش یہ معاملات اس قدر سادہ ہوتے؟ اس سرزمین پر بہت خون بہا ہے۔ اسرائیل پر دباؤ میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ ظلم کا مقابلہ کرنا، باطل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا لازم ہے، نتائج کی پروا کیے بغیر۔ معتدل قوتوں کو پنپنے کا موقع امریکا بہادر اور اسرائیل نے بھی کب دیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
جب وہ مکمل نہتے ہوجائیں تو انھیں اسرائیلیوں کے سامنے لے جا کے کھڑا کر دیں۔ لیں جی اب فرمائیں کیا حکم ہے؟
مگر ان کو نہتا کرے گا کون؟ اس وقت ریاست فلسطین دو بڑے ٹکروں مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی میں تقسیم ہے۔ جہاں مختلف علاقے براہ راست فلسطینی حکومت جبکہ دیگر اسرائیلی سیکورٹی زون میں آتے ہیں۔ مغربی کنارہ میں قائم فلسطینی حکومت یاسر عرفات کی جماعت فتح پارٹی کی ہے جس نے 1993 میں اسرائیل سے امن معاہدہ کیا تھا۔ ان کی حکومت کے پا س اپنی سیکورٹی فورسز ہیں جو مسلح ہیں اور فلسطینی علاقوں میں قانون نافظ کرتی ہیں۔ اس پر اسرائیل کو کوئی اعتراض نہیں۔
جبکہ غزہ کی پٹی پر سنہ 2007 سے انتہا پسند جماعت حماس قابض ہے جو اسرائیل کے وجود کو ہی سرے سے تسلیم نہیں کرتی۔ اسی لئے اسرائیل کو اصل خطرہ یہاں سے ہے۔ اور یہیں سب سے زیادہ جھڑپوں کے بعد فلسطینی شہید ہوتے رہتے ہیں۔
oslo2000.gif
 

جاسم محمد

محفلین
معتدل قوتوں کو پنپنے کا موقع امریکا بہادر اور اسرائیل نے بھی کب دیا؟
1993 میں اوسلو امن معاہدہ کی شکل میں دیا تھا۔ اس کا تا حال عملی نتیجہ نہیں نکل سکا کیونکہ دونوں اطراف انتہا پسند موجود ہیں۔
امن کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا: حماس
Netanyahu wants peace with Arabs, not Palestinians

جب تنازع میں شریک فریقین کی اعلیٰ لیڈرشپ ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کا شدید رویہ رکھے گی تو امن کیسے ہوگا؟
 

فرقان احمد

محفلین
1993 میں اوسلو امن معاہدہ کی شکل میں دیا تھا۔ اس کا تا حال عملی نتیجہ نہیں نکل سکا کیونکہ دونوں اطراف انتہا پسند موجود ہیں۔
امن کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا: حماس
Netanyahu wants peace with Arabs, not Palestinians

جب تنازع میں شریک فریقین کی اعلیٰ لیڈرشپ ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کا شدید رویہ رکھے گی تو امن کیسے ہوگا؟
فریقین کی اعلیٰ لیڈرشپ اور انتہاپسند سبھی متشدد رویوں کے حامل ہیں تو پھر بچا کون؟ امن معاہدہ ایک ڈھکوسلا تھا؛ اگر اس میں کچھ جان ہوتی تو آج متعدل قیادت بھی شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
فریقین کی اعلیٰ لیڈرشپ اور انتہاپسند سبھی متشدد رویوں کے حامل ہیں تو پھر بچا کون؟
دونوں اطراف کی امن پسند بائیں بازو کی جماعتیں بچی ہیں جنہوں نے ماضی میں تین بار امن معاہدہ کی بھرپورکوشش کی تھی۔ پہلا معاہدہ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے 1993 میں ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں فلسطینی ایڈمنسٹریشن یعنی عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اور مغربی کنارے کے پیشتر فلسطینی علاقے اس نئی حکومت کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ دوسرا معاہدہ سنہ 2000 میں کرنے کی کوشش کی گئی جس میں امریکی صدر بل کلنٹن بھی شریک تھے۔اکثر معاملات طے پا گئے تھے اور حتمی معاہدہ قریب تھا۔ مگر پھر کسی وجہ سے یاسر عرفات ناراض ہو گئے اور سمٹ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
اس کے بعد سنہ 2008 میں ایک بار پھر دونوں فریقین مذاکرات کی میز پر پہنچے۔ یہ اب تک کا سب سے بہترین موقع تھا کہ فلسطینی اپنی ریاست اسرائیل سے آزاد کر وا لیتے۔ اسرائیل نے بھی اپنی جانب سے فلسطینیوں کے اکثر مطالبات تسلیم کیلئے۔ مگر یہاں بھی وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔ یعنی عین حتمی امن معاہدہ لکھتے وقت فلسطینیوں کے صدر محمود عباس مذاکرات ادھورے چھوڑ کر عمان چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔ یہ تاریخی موقع گنوانے کے بعد حماس نے اپنے راکٹ حملے مزید تیز کر دئے اور اس وجہ سے تاحال اسرائیل میں دوبارہ امن پسند بائیں بازو کی جماعتوں کی حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے۔
2008 کا امن معاہدہ اسرائیل کی جانب سے اب تک کی بہترین پیشکش تھی جسے فلسطینی لیڈرشپ نے قبول نہیں کیا اور اسکی جگہ جنگ کو ترجیح دی۔ نتیجتاً فلسطین مکمل آزاد کیا ہونا تھا۔ جتنا 1993 میں آزاد ہوا تھا، آج 26سال بعد وہاں مزید یہودی آباد کاری ہو چکی ہے۔ کاش اس وقت اس پر عمل کر لیا جاتا تو آج فلسطین اور اسرائیل دونوں حالت امن میں ہوتے۔
ppp.png
 

فرقان احمد

محفلین
دونوں اطراف کی امن پسند بائیں بازو کی جماعتیں بچی ہیں جنہوں نے ماضی میں تین بار امن معاہدہ کی بھرپورکوشش کی تھی۔ پہلا معاہدہ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے 1993 میں ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں فلسطینی ایڈمنسٹریشن یعنی عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اور مغربی کنارے کے پیشتر فلسطینی علاقے اس نئی حکومت کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ دوسرا معاہدہ سنہ 2000 میں کرنے کی کوشش کی گئی جس میں امریکی صدر بل کلنٹن بھی شریک تھے۔اکثر معاملات طے پا گئے تھے اور حتمی معاہدہ قریب تھا۔ مگر پھر کسی وجہ سے یاسر عرفات ناراض ہو گئے اور سمٹ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
اس کے بعد سنہ 2008 میں ایک بار پھر دونوں فریقین مذاکرات کی میز پر پہنچے۔ یہ اب تک کا سب سے بہترین موقع تھا کہ فلسطینی اپنی ریاست اسرائیل سے آزاد کر وا لیتے۔ اسرائیل نے بھی اپنی جانب سے فلسطینیوں کے اکثر مطالبات تسلیم کیلئے۔ مگر یہاں بھی وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔ یعنی عین حتمی امن معاہدہ لکھتے وقت فلسطینیوں کے صدر محمود عباس مذاکرات ادھورے چھوڑ کر عمان چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔ یہ تاریخی موقع گنوانے کے بعد حماس نے اپنے راکٹ حملے مزید تیز کر دئے اور اس وجہ سے تاحال اسرائیل میں دوبارہ امن پسند بائیں بازو کی جماعتوں کی حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے۔
2008 کا امن معاہدہ اسرائیل کی جانب سے اب تک کی بہترین پیشکش تھی جسے فلسطینی لیڈرشپ نے قبول نہیں کیا اور اسکی جگہ جنگ کو ترجیح دی۔ نتیجتاً فلسطین مکمل آزاد کیا ہونا تھا۔ جتنا 1993 میں آزاد ہوا تھا، آج 26سال بعد وہاں مزید یہودی آباد کاری ہو چکی ہے۔ کاش اس وقت اس پر عمل کر لیا جاتا تو آج فلسطین اور اسرائیل دونوں حالت امن میں ہوتے۔
ppp.png
یہ معتدل مزاج رہنما آخری وقتوں میں امن معاہدوں سے دور کیوں ہو گئے تھے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ معتدل مزاج رہنما آخری وقتوں میں امن معاہدوں سے دور کیوں ہو گئے تھے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟
اس بارہ میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ کسی بھی تنازع کے حل کیلئے مصلحت اور سمجھوتا کرنا لازم ہے۔ جسے کرنے کی قوت بدقسمتی سے دونوں اطراف کی لیڈرشپ میں نہیں ہے۔ اسرائیل زمین کی منتقلی کے حوالہ سے فلسطینیوں کےپیشتر مطالبات پہلے ہی تسلیم کر چکا ہے۔ اصل مسئلہ فلسطینی پناہ گزینوں اور مہاجرین کا ہے جو حل نہیں ہو پا رہا۔
فلسطینی اپنے مطالبہ پر بضد ہیں کہ ماضی کی جنگوں میں ہوئے بے گھر فلسطینی (جن کی تعداد اس وقت50 لاکھ کے لگ بھگ ہے) کو واپس اسرائیل میں نقل مکانی کی اجازت دی جائے۔ اسرائیل کی کل آبادی اس وقت 87 لاکھ ہےجس میں سے 20 فیصد فلسطینی ہیں اور آئینی و قانونی طور پراسرائیل کے آزاد شہری ہیں۔
اسرائیلی لیڈرشپ کہتی ہے کہ اگر وہ اس فلسطینی مطالبہ کو تسلیم کر لیں تواسرائیل کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ جو کہ فلسطینی انتہا پسندجماعت حماس کا مقصد ہے۔ یعنی اسرائیل کا مکمل خاتمہ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ اور تاحال حل نہیں ہو سکا۔
 
آخری تدوین:
Top