ایسا ہی ہے۔ کسی بھی تنازع میں طاقتور فریق کا حل کی جانب بڑھنا ایک مشکل ترین قدم ہوتا ہے۔ 1993 میں سخت عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل اور فلسطین مذاکرات کی میز پر آگئے تھے۔ اور امن معاہدہ بھی کر لیا۔ مگر جب اسے لاگو کرنے وقت آیا تو دونوں اطراف شدت پسند گروپوں نے اپنی کاروائیاں تیز کر دیں۔ اسرائیلیوں میں ایک انتہا پسند نے امن معاہدہ کرنے پر اپنے ہی وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ کے شہید کر دیا۔
جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں نے اسرائیلی الیکشن سے قبل یکے بعد دیگرے متعدد بم بلاسٹ کر کے حکومت کا پلڑہ حالیہ انتہا پسند وزیر اعظم نتانیاہو کی طرف جھکا دیا۔ جو تاحال فلسطینیوں پر مظالم رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا آن ریکارڈ بیان بھی موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے سابقہ اسرائیلی حکومت میں کیا جانے والا امن معاہدہ سبوتاژ کیا۔
اب کی بار بھی تاریخ دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ عین اسرائیلی الیکشن سے قبل فلسطینیوں کی جانب سے راکٹوں کے حملے اور اسرائیلی انتہا پسند وزیر اعظم کی سخت جوابی کاروائی ایک بار پھر ان کو حکومت میں واپس لے آئے گی۔ اس اسٹیٹس کو دونوں اطراف کے انتہا پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ اکثریت یعنی معتدل طبق ہر جگہ پس رہا ہے۔