بظاہر ان دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں،
"بظاہر" والی بات تو درست ہے۔ لیکن مسئلہ "باطن" کا ہے۔ جو تاریخ کا حصہ ہے۔
عزیز دوست بینا گوئندی کے گھر ڈاکٹر سہیل سے اسرائیل کی زیارت کی باتیں سنی ہیں۔ مجھے ایک عجیب بے بسی اور محرومی کا احساس ہونے لگا ہے۔
یہ احساس کہیں چاٹ ہی نہ ڈالے۔ چیک اپ کرلیاکریں۔
پاکستانی پاسپورٹ پر درج اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لئے ویلڈ (valid) کا جملہ میرا منہ چڑاتا ہے اور بہت سے سوالات میرے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
اللہ کرے ایسا ہی ہوتا رہے!
اگر اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے پس منظر میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کو جواز بنایا جائے تو فلسطینی ہم سے زیادہ ہندوستان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں۔ کئی بار ہندوستان کے ساتھ یکجہتی کے سلسلے میں وہ اپنا سفیر تک پاکستان سے واپس بلا چکے ہیں۔
یہ قوم کا نہیں حکومت کے مسائل ہے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا بلکہ فلسطینیوں سے زمین خرید کر وہاں اپنے قدم جمائے ہیں۔ اس طرح تو غلطی فلسطینیوں کی بھی ہے کہ انہوں نے خود ایسے مواقع پیدا کئے ہیں۔
ان کاروباری لٹیروں کو اب تو پوری دنیا جانتی ہے۔
مثلاً دونوں اہل کتاب ہیں اور دونوں کے درمیان مذہب تبدیل کئے بغیر شادی ہو سکتی ہے۔
آپ بھی وہی رشتہ کرکے اپنے ارمان پورے کیوں نہیں کرتی۔
بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآن میں سب سے زیادہ ہے۔ یہودیت اسلام کی طرح الہامی مذہب ہے۔ سب سے زیادہ انبیاء بنی اسرائیل میں آئے۔
اور سب سے زیادہ نافرمانی اسی قوم نے کی۔ سب سے زیادہ انبیاء بھی انہی بدبختوں نے قتل کیے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے سب سے زیادہ مذمت اسی قوم کی کی۔ پھر بھی اس قوم کی زیارت کے لیے ہارٹ اٹیک کا شکار ہورہی ہے۔ اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے۔
مسلمانوں اور یہودیوں کا جدِ امجد ایک ہے۔ مسلمان ہر عبادت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجتے ہیں مگر عملی حوالے سے مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔
کیا ان بدبختوں کو ان کے انبیاء نے مسلمانوں اور دیگر اقوام کے قتل وغارت کا حکم دیا تھا جو صرف مسلمان ہی نظر آئے۔ حالاں کہ ان کے فی زمانہ مزے بھی مسلمانوں کے مرہون ہیں۔ وگرنہ مسلمان سلاطین چاہتے تو ان کی داستاں بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔
قرآنی آیات کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام محدودیت اور زمانے سے کٹنے کا قائل نہیں۔
وسیع تر تناظر میں سمجھنا ہی تو مسئلہ ہے۔ پھر دنیا کے پیچھے نہیں دنیا اسلام سے جڑنے کی متمنی ہوگی۔
اس وقت دنیا میں زیادہ تر ایجادات کا سہرا یہودی قوم کے سر ہے۔
اس کے ثبوت کے لیے کوئ مدد کرے تو نوبل انعام دے دوں۔ البتہ انسانیت کی تباہی کے ہتھیاروں کا سہرا ضرور ان کے سر ہے۔ جن سے دنیا "مستفید" البتہ ہورہی ہے۔ شاباش خیر کے جانبازوں! شاباش
تو پھر ہمیں اسرائیل کو اپنے گھر سے بھی نکالنا ہو گا۔ ہمیں اپنی سواری سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا، اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی بغاوت کا اعلان کرنا پڑے گا بلکہ ہر اُس شے کو ترک کرنا ہو گا جس کی پیشانی پر ان کا نام اور جدوجہد درج ہے۔
مسلمانوں کی سواریوں کے کوچوان یہودی ہوتے تو ضرور گھر کا رستہ دکھا کر رخصت کردیتے۔ البتہ اگر بالفرض کسی سواری میں ان کے منحوس ہاتھ شامل ہوئے ہوں تو اس کے بنانے کے پیسے یہ وصول کر چکے ہیں۔ لہذا اب کوئی دعویٰ قابل قبول نہیں
دنیا کے گلوبل امیج میں سفارتی تعلقات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل صرف ایک ملک کا نام نہیں بلکہ ان کے خیر خواہ دنیا کے تمام طاقتور ملکوں میں موجود ہیں۔
"شر خواہ" خالہ جی۔
اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں کو بھی اس مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ معاملہ مذہب کا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام اسلامی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے مگر ماشاءاللہ ہمارے ہمسائے بھی ہمارے ساتھ نہیں۔
ایران اور افغانستان شائد براعظم انٹارکٹیکا میں واقع ہیں۔ اور مسئلہ بھی غالبا مذہب کا نہیں اس کے بوائے فرینڈز کا ہے۔ جو تل ابیب میں وافر مقدار سے دستیاب ہے۔ اور سرپرستی بھی اسی "پاکباز" قوم کی ہے!