فارقلیط رحمانی

لائبریرین
تزکیہ نفس کے لیے جن اعمال کاہونا اور نہ ہونا لازمی ہے یہاں پر ان سے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں گے۔
اعمال دو قسم کے ہیں۔(۱) سلبی اعمال (۲) جلبی اعمال
سلبی اعمال
سلب کسی چیز کے دور کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے اخلاق رذیلہ جیسے دنیا کی محبت، ریاء ،تکبر ، حسد ،کینہ ،بغض، بے صبری ،ناشکری و غیرہ سے چھٹکارہ حاصل کرنا مطلوب ہے۔سلبی اعمال ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں :
جھوٹ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :​
" اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو"​
(قرآن مجید، سورہ حج 22، آیت 30)​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا​
" ہمیشہ سچ بولو ،اورجھوٹ سے کنارہ کش رہو"​
جھوٹ کیا ہے؟
خلاف واقعہ بات کہناجھوٹ ہے ۔آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ جو بات سنے بیان کر دے ،بلا تحقیق بات کو نقل کر دے ۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ" جھوٹ بولنے سے بچو کہ جھوٹ اور فجور ساتھ ساتھ ہیں ۔اور یہ دونوں جہنم میں ہیں۔"
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ کسی عورت نے اپنے چھوٹے سے بچے کو بلایا اور کہا آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے ۔رسول اللہ ﷺنے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ اگر بلانے سے بچہ آگیا تو کیا چیز دے گی؟عورت نے کہا چھوہارہ دے دوں گی۔آپ ﷺنے فرمایا اگر کچھ دینے کا ارادہ نہ ہوتااور صرف بہلانے کے لئے ایسا لفظ نکلتا تو یہ بھی زبان کا جھوٹ شمار ہوتا۔
طریقۂ علاج
کلام میں احتیاط ہو بغیر سوچے کوئی کلام نہ کرے ۔ استحضار قبل از وقت، ہمت در عین وقت، تدارک بعد الوقت،اس کا علاج ہے یعنی وقت پر اس کا استحضار ہو کہ مجھے جھوٹ نہیں بولناہے۔ اس کے لئے کوئی نشانی مقرر کریں مثلاً کوئی چیز ہاتھ کے ساتھ باندھ لے جس سے یاد آئے کہ جھوٹ نہیں بولنا اور اگر جھوٹ بولنا شروع ہوا چاہتا ہو تو ہمت کرکے اس سے رکے ۔اگر ہوجائے تو اپنے دوستوں کو بتائے کہ میری فلاں بات جھوٹی ہے اور اپنے نفس پر کچھ جرمانہ کرے اگر نفس کو نفلوں سے زیادہ تکلیف ہو تو نفل پڑھے اور اگر پیسے کے ساتھ محبت ہو تو کچھ خیرات کردے ۔ اگر کوئی بات کبھی منہ سے خلاف شریعت نکل جائے تو فوراً خوب توبہ بھی کر لے کہ جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کا حق بھی ضائع کرنا ہے ۔
غیبت
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:​
" تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔"​
(قرآن مجید ، سورہ حجرات 49، آیت : 12)​
حضور ﷺ کا ارشاد ہے :​
" غیبت زنا سے بھی سخت تر ہے ۔ "​
غیبت کیا ہے؟
کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا کہ اگر وہ سنے تو اس کو نا گوار ہو ،اگرچہ وہ بات اس کے اندر موجود ہی ہو اور اگر وہ بات اس میں نہیں تو وہ بہتان ہے ۔ جس طرح غیبت کرنا حرام ہے ،اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت ہوتی ہو اور وہ اس کی حمایت پر قادر ہو اور اس کی حمایت کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی حمایت فرمائےگا۔ اور اگر اس کی حمایت پر قادر ہوتے ہوئے اس کی حمایت نہ کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر گرفت فرمائےگا۔ "
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ" تم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کا آئینہ ہے پس اگر اس میں کوئی گندی بات دیکھے تو اسے اس سے دور کر دے ۔"
یعنی جس طرح آئینہ چہرہ کے داغ دھبے کو صرف عیب دارپر ظاہر کرتا ہے اور کسی پر ظاہر نہیں کرتا اسی طرح اس شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی خفیہ طور پر اصلاح کر دے اس کو رسوا نہ کرے۔ زبان اور کان کے گناہوں میں غیبت کرنا اور سننا ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ شاید ہی کوئی طبقہ اس سے بچا ہوا ہو الاّ ما شا ء اللہ ۔اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام کرنا چاہئے اور اگر غیبت ہو جائے تو جس کی غیبت کی ہے اس کو علم بھی ہو جائے تو اس سے معافی مانگنا ضروری ہے اور اگر اس کو علم نہ ہو تو کثرت سے استغفار کرے ،اور جس کی غیبت کی ہے اس کے لئے دعائے مغفرت کرے ۔
طریقۂ علاج
بات کرنے سے قبل تھوڑی دیر تأمل کرے اور سوچے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ جو سمیع و بصیر اس کے غضب کی باعث تو نہیں ہوگی؟ انشاء اللہ کوئی بات منہ سے گناہ کی نہ نکلے گی ۔غیبت صرف زبان کو ہی تو کنٹرول کرنا ہے۔ اگر ذرا سی ہمت سے انسان اتنے بڑے گناہ سے بچ سکے تو ہمت کیوں نہ کی جائے ؟اس کو سوچے اور ہمت سے کام لے کر غیبت سے رکیں۔ یہ سوچے کہ جس کی میں غیبت کررہا ہوں ان کو اپنی نیکیاں دے رہا ہوں گویا کہ میں اس شخص کو فائدہ پہنچا رہا ہوں جو مجھے پسند نہیں۔جب بھی کسی کی غیبت کرنے کو جی چاہے تو فوراً اس کے لئے دعا کرے کہ یا اللہ تو اس پر قادر ہے کہ اس شخص سے ان عیوب کو دور کرسکتا ہے اس لئے اس سے ان عیوب کو دور فرما اور مجھے غیبت سے بچا ۔اس پر ہمت کے ساتھ چند روز بھی عمل ہو تو شیطان کسی کی غیبت کا خیال ہی نہ آنے دے۔
حسد
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
"کہو!میں حاسد کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب وہ حسد کرے ۔"​
(قرآن مجید، سورہ فلق 112، آیت : 5)​
اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا:​
" آپس میں حسد نہ کرو ۔"​
حسد کیا ہے؟
کسی شخص کی اچھی حالت کا نا گوار گذرنا اور یہ آرزو کرنا کہ یہ اچھی حالت اس کی زائل ہو جائے یہ حسد ہے ۔ البتہ دوسرے کو نعمت میں دیکھ کر حرص کرنا ،اور یہ چاہنا کہ اس کے پاس بھی یہ نعمت رہے اور مجھے بھی ایسی ہی نعمت حاصل ہو جائے تو یہ "غبطہ" اور" رشک" کہلاتا ہے اور غبطہ شرعاً جائز ہے ۔حسد قلبی مرض ہے اس میں دین کا بھی نقصان ہے اور دنیا کا بھی ۔دین کا نقصان تو یہ ہے کہ اس کے کئے ہوئے نیک اعمال ساقط ہو جاتے ہیں ۔نیکیاں چلی جاتی ہیں اور حق تعالیٰ کے غصے کا نشان بن جاتا ہے ۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ "حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ سوکھی ہوئی لکڑیوں کو جلا دیتی ہے۔"
دنیا کا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہمیشہ رنج و غم میں مبتلا رہتا ہے اور اسی غم میں گھلتا رہتا ہے کہ کسی طرح فلاں شخص کو ذلت و افلاس نصیب ہو ۔
طریقۂ علاج
گو بتکلف سہی اس شخص کی خوب تعریف کی جائے اور اس کے ساتھ خوب احسان و سلوک اور تواضع سے پیش آیا جائے اور اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ اے ظالم یہ نعمت فلاں کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے کہ میرے کام پر اعتراض کیوں کیا ؟ تو میں کیا جواب دوں گا۔ایسے لوگوں کے لئے جن کے ساتھ حسد ہو ان کے لئے بتکلف مزید نعمتوں کی دعا کیجیے اور ساتھ یہ دعا بھی کیجیے کہ یہ نعمتیں( اگر جائز ہوں ) مجھے بھی عطا ہو۔
حرص
ارشاد باری ہے کہ
"اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تمہارےرب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ طہ 20، آیت : 131)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "آدمی بوڑھا ہوتا رہتا ہے ،اور اس کی دو چیزیں بڑھتی رہتی ہیں ۔مال پر حرص کرنا اور عمر پر حرص کرنا۔"
حرص کیا ہے ؟
حرص حب دنیا کا تقاضا ہے ۔دل کا اپنے مفادات کے ساتھ ہمہ وقت مشغول ہونا "حرص "کہلاتا ہے۔ جیسا کہ حب دنیا تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہے اس طرح حرص تمام بیماریوں کی جڑ ہے ۔یہ ایسا مرض ہے کہ اس کو "امُّ الامراض "کہاجاتا ہے۔
انسان کا طبعی خاصہ ہے کہ اگر اس کے پاس مال کے دو جنگل بھی ہوں جن میں سونا یا چاندی پانی کی طرح بہتے ہوں پھر بھی وہ تیسرے کا طالب ہوگا ۔جتنا ہوس کو پورا کرو گے اتنا ہی بڑھے گی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
"بھلا انسان کی ہر آرزو پوری ہو سکتی ہے ۔" قرآن مجید، سورہ نجم 53، آیت : 24)​
یعنی کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ حریص کو کبھی راحت نہیں مل سکتی ۔اس کے ہوس کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔کیونکہ ایک آرزو ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے اور جب تقدیر پر راضی ہی نہ ہو تو ہر کام میں یوں دل چاہتا ہے کہ یہ بھی ہو جاوے اور وہ بھی ہو جاوے ۔اور سب امیدوں کا پورا ہونا دشوار ہے ۔اس لئے اس کا نتیجہ پریشانی ہی پریشانی ہے۔گو ظاہر میں اولاد اور مال سب کچھ ہو مگر حریص کا دل ہمیشہ پریشان رہتا ہے ۔
طریقۂ علاج
یہ سوچے کہ حرص انسان اس لئے کرتا ہے کہ مزے میں رہے اور آرام پائے جبکہ حرص کے ساتھ ان دو چیزوں کا حاصل کرنا ممکن نہیں۔تو جس چیز سے آرام اور مزہ ختم ہو اس کوآرام و مزے کے لئے کیوں کیا جائے ؟تقدیر پر قانع رہے ۔ضروریات کے لئے اسباب کو اختیار کرنے میں حرج نہیں لیکن جو فیصلہ رب کی طرف سے ہو اس پر راضی رہے ۔ خرچ کو گھٹائے ۔تاکہ زیادہ آمدنی کی فکر نہ ہو ۔اور آئندہ کی فکر نہ کرے کہ کیا ہوگا ۔اور یہ سوچے کہ حرص و طمع کرنے والا ہمیشہ ذلیل و خوار رہتا ہے ۔جنت کے مزوں کو سوچے اور یہ کہ اگر میں نے ان لذتوں کو غلط طریقے سے حاصل کیاتو جنت کی لذتوں کو کیونکر حاصل کروں گا ۔اس طرح یہاں کا حرص وہاں کے حرص میں بدل جائے گا۔ اعمال کے فضائل کا مطالعہ کرے تاکہ اعمال کی حرص پیدا ہو اور وہ یہاں کی حرص کا توڑ کرے ۔نیز اللہ تعالیٰ کی محبت کو بڑھائے تا کہ لذات کی محبت مغلوب ہو۔ موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرے کہ وہ لذات کو توڑنے والی چیز ہے اور آخرت کی طرف راغب کرنے والی ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
روشن نصیحتیں شریک محفل کرنے پر دلی شکریہ اور دلی دعائیں محترم فارقلیط بھائی
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
شہوت
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے​
"اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے روکے رکھا ، تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔" (قرآن مجید، سورہ نازعات 79، آیت :40)
آپﷺکا ارشاد مبارک ہے کہ
"رہے مہلکات تو وہ، وہ خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے۔ "​
شہوت کیا ہے؟
شدیدنفسانیخواہش نفسانی کا نام شہوت ہے اس کو "ہویٰ" بھی کہتے ہیں ۔اس کا اعلیٰ درجہ کفر و شرک ہے ۔اوروہ اسلام ہی سے خارج کر دیتا ہے اور جو ادنیٰ درجہ ہے وہ کمال اتباع سے ڈگمگا دیتا ہے ۔نیزہر خواہش نفس میں یہ خاصیت ہے کہ راہ مستقیم سے ہٹا دیتی ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے :
"اور نفسانی خواہشات کی پیروی مت کرنا ورنہ تو وہ راہ خدا سے تم کو ہٹا دے گی " (قرآن مجید، سورہ ٔص 38، آیت : 26)
انسان نفس کی فوری خواہش کی تسکین کے لئے اسی نفس ہی کے مستقبل کے خواہشات کو داؤ پر لگا دیتا ہے نیز اسی فوری خواہش کے لئے دوسروں کے نقصان کے درپے ہوجاتا ہے ۔اسی حقیقت کے پیش نظر لادین حکومتیں بھی قوانین بنانے پر مجبور ہوتی ہیں ۔اس سے یہ پتہ چلا کہ نفس کو اگر قابو نہیں کیا گیا تو یہ نہ صرف ملک دشمن قوم دشمن ہے بلکہ خود اپنا بھی دشمن ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے مصالح کو ہم سے زیادہ جانتا ہے اس لئے دونوں جہاں میں ہمیں خیر پہنچانے کے لئے کچھ قوانین جن کو شریعت کہا جاتا ہے پر عمل کرنے کے لئے حکم دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
"اسی (شریعت ) پر چلو اور جاہلوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔" (قرآن مجید ، سورہ جاثیہ 45، آیت : 18)
کیونکہ یہ لوگ اپنے فائدہ نقصان سے غافل ہیں اس لئے ان کی خواہشات کا اتباع کرنے میں سراسر نقصان ہے ۔​
طریقہ ٔعلاج
نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ : یعنی کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں حق تعالیٰ کے پاس سے لایا ہوں یعنی شریعت۔
مرض کا علاج یہی ہوتا ہے کہ اس کے مادہ اور سبب کو قطع کیا جائے لہذا جو کام کیا جائے سوچ کر کیا جائے کہ کہیں یہ شریعت کے خلاف تو نہیں۔ مجاہدہ کرنا ہے ،یعنی جائز اُمور میں بھی تربیتاً اپنے نفس کو روکے تو ناجائز اُمور میں نفس کو روکنا آسان ہوجائے جیسے روزہ میں نفس کی تربیت کی جاتی ہے اورمجاہدہ نام ہے نفس کے تقاضوں کو روکنا بتکلف ہو یا بلا تکلف ۔
غصہ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
" اور غصہ کو ضبط کرنے والے اور لوگوں کے قصور معاف کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو پسند فرماتا ہے۔"​
(قرآن مجید ، سورہ آل عمران 3، آیت : 134)​
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ، " غصہ مت کر و۔"​
غصہ کیا ہے؟
بدلہ لینے کے لئے دل کے خون کا جوش مارنا" غصّہ" کہلاتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاکہ "بڑا پہلوان اور طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑے بلکہ قوی اور پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے ۔"ایک روایت میں ہے "قوی وہ ہے جو غصے کا مالک ہو" یعنی غصے پر غالب ہو ،یہ نہ ہو کہ غصہ کے منشاء کے مطابق فوراً عمل کرے بلکہ اس کو شریعت کی تعلیم کے مطابق استعمال کرے اس لئے کہ غصہ میں جوش پیدا ہونا طبعی امر ہے ۔اس میں ملامت نہیں مگر انسان کو خدا تعالیٰ نے اختیار بھی دیا ہے اس لئے اس کو روکنا چاہئے ۔اسی لئے حدیث شریف میں ہے کہ: " حاکم کو چاہئے کہ غصہ کی حالت میں ہرگز فیصلہ نہ کرے۔"
بلکہ اس وقت مقدمہ ملتوی کر دے اور تاریخ بڑھادے ۔یہاں حاکم سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کی دو آدمیوں پر حکومت ہو اس میں معلم استاد اور گھر کا مالک بھی شامل ہے ۔لہٰذا غصہ کی حالت میں بچوں یا دیگر ماتحتوں اور کمزوروں کو کسی جرم میں بھی سزا دینے میں جلدی نہ کریں ۔بلکہ غصہ ختم ہونے کے بعد سوچ سمجھ کر سزا دی جائے ۔
ક્રોધ એટલે શું ? * ગુસ્સો, કોપ, રીસ, ઉશ્કેરાટ. * ધાર્યુ ન થવાથી કે ન મળવાથી થતો રોષ. પ્રતિકૂળ વસ્તુ બનવાથી અથવા ઇચ્છેલ અર્થનો નાશ થવાથી મનમાં જાગ્રત થતી તીક્ષ્ણતા, બીજાનું અનિષ્ટ કરવાની મનોવૃત્તિ, વેર લેવાનો જુસ્સો, ક્રોધ એટલે પ્રગટ અગ્નિ.
ક્રોધ શુ કરે છે ? * સમજણનો છેદ ઉડાદે છે. * વિચારનો દરવાજો બંધ કરે છે અથવા વિચાર શક્તિનો દિપક બુજાવી દે છે.


طریقۂ علاج
یہ یاد کریں کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ پر زیادہ قدرت ہے اور میں اس کی نافرمانی بھی کرتا ہوں ،اگر وہ بھی مجھ سے یہ معاملہ کرے تو کیا ہو اور یہ سوچیں کہ خدا کے ارادہ کے بغیر کچھ واقع نہیں ہوتا تو میں کیا چیز ہوں کہ مشیت الٰہی سے مزاحمت کروں ۔اگر اس وقت میں صبر کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے اس پر اجر دے گا میں کیوں اجر کے اس موقع کو ضائع کردوں اور یہ حقیقت ہے کہ جس کو جلدی جلدی غصّہ آتا ہو اور وہ اس پر قابو پانے پر قادر ہوجائے تو اس کے لئے یہ اجر اتنا زیادہ ہے کہ اس کے لئے ہزارہا نوافل پڑھنے کے اجر سے زیادہ نافع ہوگا بس تھوڑی سی فکر اورسمجھ کی ضرورت ہے۔
اگر طبعی طور پر غصہ زیادہ ہو اور ذرا سی بات پر حد سے زیادہ غصہ آجاتا ہو تواگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور اگر بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں اور ٹھنڈے پانی سے وضو کر ڈالیں ۔یا ٹھنڈا پانی پی لیں ۔ فوراً کسی ایسے جائز کام میں لگ جائے جو دل کو جلدی مشغول کرے مثلاً مطالعٔہ کتب میں مصروف ہو جائیں ۔اگر اس سے بھی غصہ نہ جائے تو اس شخص سے علیٰحدہ ہو جائیں یا اس کو علیٰحدہ کر دیں ،زبان سے استغفار کا ورد کریں۔
بخل
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :​
"جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر تا ہے۔" (قرآن مجید، سورہ محمد 47، آیت : 38)
اور رسول اللہﷺنے فرمایا کہ: "کنجوس اللہ تعالیٰ سے دور ہے ،جنت سے دور ہے ،لوگوں سے دور ہے، دوزخ کے قریب ہے۔"
بخل کیا ہے ؟
جس چیز کا خرچ کرنا شرعاً یا مروتاً ضروری ہو اس میں تنگ دلی کرنا "بخل" ہے ۔بخل کے دو درجے ہیں۔ایک خلاف مقتضائے شریعت ہے اور یہ معصیت ہے اور دوسرا مقتضائے مروت کے خلاف ہے اور معصیت نہیں ہے ۔لیکن خلاف اولیٰ ہے ۔ فضیلت تو یہ ہے کہ یہ بخل بھی نہ ہو نیز جو ضرورتیں اتفاقیہ طور پر پیش آجائیں ،ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "جس مال کے ذریعے سے آدمی اپنی آبرو کو بچائے وہ بھی صدقہ[1] ہے ۔"
بخل بہت بڑا مرض ہے اس لئے نبی کریم ﷺفرماتے ہیں کہ "اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ کہ اس نے پہلی اُمتوں کو ہلاک کر دیا۔"لہذا مسلمان کو شایاں نہیں کہ بخل کرے اور جہنم میں جائے اور چونکہ بخل در حقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت دنیا کی طرف متوجہ کر دیتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا علاقہ ضعیف اور کمزور ہو جاتا ہے اور بخیل مرتے وقت حسرت بھری نظروں سے اپنا جمع کیا ہوا محبوب مال دیکھتا اور جبراً و قہراً آخرت کا سفر کرتا ہے اس لئے اس کو خالق جل جلالہ کی ملاقات محبوب نہیں ہوتی اور حدیث میں آیا ہے کہ "جو شخص مرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ملاقات پسند نہ کرے وہ جہنمی ہے ۔"
طریقۂ علاج
مال کی محبت کو موت کی یاد کی کثرت سے دل سے نکالنا اس کا علاج ہے۔فضائل صدقات کا مطالعہ کرنا اور سننا سخی لوگوں کے واقعات پڑھنا ۔بتکلف لوگوں پر جائز طریقے سے خرچ کرنا چاہے دعوت کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں اور اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا زیادہ مفید ہے ۔
حب دنیا
جس چیز میں فی الحال حظ نفس ہو اور آخرت میں اس کا کوئی نیک ثمرہ مرتب نہ ہو وحب دنیا ہے ۔ ہر چند ہمارے اندر مختلف امراض پائے جاتے ہے ۔لیکن حسب فرمان نبی اکرمﷺتمام امراض کی جڑ صرف ایک ہی چیز "حب دنیا "ہے ۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے "
جڑ یعنی اصل مرض ہی بقیہ امراض کا سبب ہوا کرتی ہے ۔اور اصل کا علاج کرنے سے جملہ امراض خود ہی دفع ہو جائیں گے ۔جس میں حب دنیا ہوگی اس کو آخرت کا اہتمام ہی نہ ہوگا ۔اور جب آخرت کا اہتمام ہی نہ ہوگا تو وہ شخص نہ تو اعمال حسنہ کو انجام دے گا اور نہ برائیوں سے بچے گا ۔ اور اس کے برعکس جب آخرت کی فکر ہوتی ہے ۔تو جرائم صادر نہیں ہوتے کیونکہ حب دنیا میں فکر دین کم ہوتی ہے۔ جس درجہ کی حب دنیا ہو گی اسی درجہ فکر دین کم ہوگی ۔اگر کامل درجہ کی حب دنیا ہوگی ۔تو کامل درجہ کی دین سے بے فکری ہو گی ۔مگر یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ حقیقت میں دنیا مال و دولت زن و فرزند کا نام نہیں ۔بلکہ دنیا کسی ذی اختیار کے ایسے مذموم فعل یا حالت کا نام ہے جو اللہ سے غافل کرا دے خواہ کچھ بھی ہو ،اسی کو کہا ہے کہ حب دنیا کے تین شعبے ہیں ،حب مال ،حب باہ اور حب جاہ ۔ان کی تفصیل عنقریب آرہی ہے ۔ طلب دنیا یعنی دنیا کمانا تو بری بات نہیں البتہ اگر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈالے تو یہ واقعی جرم ہے ،مال مثل پانی کے ہے اور قلب مثل کشتی کے ہے ۔یعنی پانی کشتی کا معین بھی ہے اور اس کو ڈبونے والا بھی ہے اس طرح کہ کشتی سے باہر اور نیچے رہے تو معین اور مددگار ہوتا ہے اور اگر کہیں پانی کشتی کے اندر آجائے تو کشتی کو ڈبو دیتا ہے ۔ اسی طرح مال ہے کہ اگر قلب سے باہر صرف ہاتھ میں ہے تو معین ہے اور اگر قلب کے اندر اس کی محبت ہے تو مہلک ہے۔
چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو ایک مثال میں بیان فرمایا ہے۔" مجھ کو دنیا سے کیا علاقہ ہے میری مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی سوار راستے میں جا رہا ہواور کسی درخت کے سائے میں سستانے کے لئے ٹھہر جائے اور سستا کر اپنی راہ لے ۔"
طریقۂ علاج
موت کو کثرت سے یاد کرتے رہنا ۔اور مدتوں کے لئے منصوبے اور سامان نہ کرنا اور نہ سوچنا اس کا علاج ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے : یعنی مرجانے سے پہلے مرجاؤ جس کا مطلب ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے میں مرنے والوں کے اوصاف پیدا کرو۔

[1] مثلاً کسی مال دار کو یہ اندیشہ ہو کہ یہ شاعر یا بہروپیہ میری ہجو کرے گا اور اگر اس کو کچھ میں دے دوں گا تو اس کا منہ بند ہو جائے گا اور با وجود اس علم کے اگر اس کو کچھ نہ دے تو وہ شخص بخیل سمجھا جائے گا ۔کیونکہ اس نے اپنی آبرو محفوظ رکھنے کی تدبیر نہ کی ۔اور بد گو کو بد گوئی کا موقع دیا ۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
حُب جاہ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :​
"وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرتے ہیں ۔ اور انجام کی بھلائی متقیوں ہی کے لیے ہے۔" (قرآن مجید، سورہ القصص 28، آیت :83)​
حب جاہ کیا ہے ؟
دل میں دوسروں سے اپنی تعظیم کا خواہشمند ہونا حب جاہ کہلاتا ہے۔ حب جاہ ایسا مرض ہے کہ اس کا پتہ چلنا مشکل ہے ۔جب کوئی واقعہ پیش آئے جس کی وجہ حب جاہ ہو تب پتہ چلتا ہے کہ میرے اند ر حب جاہ کا مرض ہے ۔ یہ مرض محض وہمی ہے اور محض دوسرے کے خیال سے قائم ہے ۔کیونکہ جاہ دوسرے کی نظر میں معزز ہونے کا نام ہے ۔جس کا مدار دوسرے کے خیال پر ہے۔وہ جب چاہے اپنا خیال بدل دے تو ساری جاہ خاک میں مل جاتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود طالب جاہ خوش ہے کہ آہا لوگ مجھے اچھا کہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ معزز ہونا بیماری نہیں کیونکہ یہ تو فی الحقیقت دوسروں کا فعل ہے جس میں ضروری نہیں کہ اس معزز شخص نے اس کی طلب کی ہو۔ بہت سارے لوگ ہیں جو کہ اپنی نگاہوں میں گرے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے میں کوئی کمال نہیں پاتے لیکن لوگوں کی دلوں میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ عزت اور رعب ڈال دیتا ہے ۔
جاہ مذموم وہ ہے جس کی طلب اور خواہش میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پرواہ نہ کی جائے ۔ اور ظاہر ہے یہ وہ بلا ہے جو دین و دنیا دونوں کو مضر ہے ۔دینی ضرر تو یہ ہے کہ جب آدمی دیکھتا ہے کہ دنیا مجھ پر فدا ہے تو اس میں عجب و کبر پیدا ہو جاتا ہے ۔آخر کار اس عجب و کبر کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے ۔بہت سے لوگ آکر اس میں ہلاک ہو گئے ۔یہ تو دین کا ضرر ہوا اور دنیا کا ضرر یہ ہے کہ مشہور آدمی کے حاسد پیدا ہو جاتے ہیں ۔نتیجۃً صاحب جاہ کا دین بھی خطرے میں رہتا ہے اور دنیوی خطروں کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہے ،تو حق تعالیٰ کی طرف سے بدون طلب کے جاہ حاصل ہو وہ تو نعمت ہے لیکن خود سے اس کا اپنے آپ کو مستحق سمجھنا اور اپنے کمالات کی طرف اس کا نسبت کرنا مذموم ہے ۔ ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ مال کی طرح انسان جاہ کا بھی بقدر ضرورت محتاج ہے ۔تاکہ اس کی وجہ سے مخلوق کے ظلم و تعدی سے محفوظ اور بے خوف ہو کر بااطمینان قلب عبادت میں مشغول رہ سکے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں یہ دعا منقول ہے
اللّٰھم اجعل فی عینی صغیراً و فی اعین الناس کبیراً
یعنی اے اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں چھوٹا اور دوسروں کی نگاہوں میں معزز کردے ۔
اس میں یہی جاہ مطلوب ہے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا ہونے کا توڑ اس میں موجود ہے کہ اپنی نظروں میں آدمی چھوٹا ہو۔لہٰذا اتنی طلب جاہ میں بھی مضائقہ نہیں ۔ اس لئے قاعدہ یہ ہوا کہ: خود سے جوجاہ حاصل ہو اور عمل شریعت کے مطابق ہو یہ تو خدا کی طرف سے انعام ہے ۔عمل شریعت کے مطابق نہ ہو اور خود سے جاہ حاصل ہو یہ خدا کا امتحان ہے اور ابتلاء ہے ۔جاہ کی ایسی طلب کہ لوگوں کو اپنا مطیع بنانے کا جذبہ ہو اس میں بھی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔
(1) کہ لوگوں سے اپنی اطاعت ان کو خیر پہنچانے کے لئے ہو جیسے حاکم عادل ،استاد مربی شیخ وغیرہ یہ جائز اور بعض اوقات ضروری ہے ۔
(2)لوگوں کو صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے مطیع کرنا چاہتا ہو یہ نہ صرف ناجائز بلکہ اکثر بیماریوں کی جڑ ہے۔
خلاصہ یہ کہ جاہ شریعت سے ہٹا دے چاہے طلب میں یا نتیجے میں اس سے باز آنا چاہیئے اور جو شریعت پرچلنے میں مدد کرے وہ اللہ تعالیٰ کا کرم اور احسان ہے ۔مختصراً آدمی اس جاہ کا طالب بنے کہ جو منجانب اللہ ایسی عطا ہو کہ اس میں اپنے کمال پر نظر نہ جائے۔
طریقۂ علاج
یوں سوچے کہ اس وہمی کمال سے کیا حاصل جو پائیدار نہیں ۔اس کی بجائے اس کمال کو حاصل کرنا چاہیئے جو پائیدار ہو یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ کرم فرماکر عزت مند بنادے اور اس کے لئے چونکہ اپنے کو چھوٹا سمجھنا ضروری ہے اس لئے ہر اس تدبیر کو اختیار کرنا جس سے آدمی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے مثلاً اپنے نقائص پر نظر رکھنا ۔جو لوگ اپنے پر تنقید کرنے والے ہوں ان کی باتیں غور سے سننا کہ مبادا کوئی کام کی بات اس میں نکل آئے ۔تکبر کے بارے میں وعیدوں کو پیش نظر رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔یہ سوچنا کہ نہ تعظیم و اطاعت کرنے والے رہیں گے اور نہ میں رہوں گا ۔ پھر ایسی موہوم اور فانی چیز پر خوش ہونا نادانی ہے اس سے بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔
حب باہ
ویسے تو باہ ایک خاص قسم کی جنسی لذت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں تمام لذات دنیاوی کی محبت حب باہ کہلاتی ہے۔ نفس لذت کا طالب ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ ساری لذات کو اپنے لئے جمع کرے۔ اس کے لئے وہ پرواہ نہیں کرتا کہ وہ جائز طریقے سے حاصل کی جائیں یا ناجائز طریقے سے۔ حب باہ بھی چونکہ ایک وقتی جذبہ ہوتا ہے اس لئے اس کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اس پر بعد میں انسان نادم ہوتا ہے لیکن ان کا چھوڑنا بھی آسان نہیں ہوتا کیونکہ لذات کا خوگر نفس مجاہدہ کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اس میں بڑی برائی یہ بھی ہے کہ ان لذات کی طلب بڑھتی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ عام طریقوں سے ان لذات سے بد کار نفس مطمئن ہی نہیں ہوتا ۔اس وقت انسان مجسم شیطان بن جاتا ہے اور اس سے ایسی ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔اسی کو جدید اصطلاح میں (Perversion)کہتے ہیں ۔
جاہ کی طرح اگر باہ کی تسکین منجانب اللہ جائز طریقے سے نصیب ہوجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیًے ۔اس لئے کہ لذات سے بالکل منہ موڑنا مطلوب نہیں لیکن ان میں اتنا انہماک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ٹوٹ جائے مذموم ہے۔روزہ میں خواہش نفس کی مخالفت کرائی جاتی ہے لیکن افطار میں جب وقت ہوجائے، جلدی مستحب ہے ۔اس طرح عید کی خوشی ،ولیمے کی خوشی وغیرہ وغیرہ ۔نیز شادی میں باکرہ کے ساتھ شادی کی پسندیدگی ، اور شادی میں جلدی کرنے کا حکم یہ سب تسکین باہ ہی کے جائز ذرائع ہی تو ہیں ۔ اسلام میں نہ تو رہبانیت ہے کہ خود کو اذیت دینا ہی دین ٹھہرے اور نہ ہی اباحیت ہے کہ ہر چیز جائز ہوجائے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا ایک راستہ ہے جس پر چلنا مطلوب ہے ۔
طریقہ ٔعلاج
اس کا علاج ضبط نفس ہے ۔روزہ رکھنا اور شرعی قیود مثل غض بصر یعنی نیچے نگاہ رکھنا وغیرہ اس کا علاج ہے ۔موت کی یاد ان لذات کا مؤثر توڑ ہے ۔ایسی محفلوں سے بچنا جن میں لذات نفس کے لئے ترغیب ہو بہترین پرہیز ہے ۔اپنے نفس پر ہر وقت بد گمان رہنا چاہیئے اور دل میں یہ سوچا جائے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے اگر اس وقت میری موت واقع ہوجائے تو کیا ہوگا۔بعض لوگ ایسے حالات میں مرجاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں کہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجاتے ہیں ۔اس لئے ایسے عبرتناک موت کو سوچ کر ایسی چیزوں کے قریب بھی نہیں جانا چاہیئے جس میں اتنے خطرات ہوں۔
حب مال
مال کی ایسی محبت کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے جائز ناجائز کی تمیز نہ رہے "حب مال "کہلاتا ہے۔​
مال کا جمع کرنا فی نفسہ مطلوب ہے کیونکہ اس کے ساتھ بہت سارے منافع وابستہ ہیں لیکن اس کے ساتھ دل نہیں لگانا چاہیئے۔اس کا امتحان یہ ہے کہ مال ہو لیکن کار خیر میں اس کے خرچ سے دل مانع نہ ہو تو یہ مال کی محبت نہیں ہے۔بخل اسی حب مال ہی کا اثر ہے ۔
طریقۂ علاج
کار خیر میں نفس پر جبر کرکے مال کو خرچ کرنا اس کا علاج ہے ۔کم ازکم زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے ادائیگی کا التزام ہونا چاہیئے۔ کبھی کبھی نیک لوگوں کی دعوت کرنا ، اور عزیزوں کو تحفے وغیرہ پیش کرتے رہنا بھی کافی کارآمد ہوتا ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
حب مال
مال کی ایسی محبت کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے جائز ناجائز کی تمیز نہ رہے "حب مال "کہلاتا ہے۔​
مال کا جمع کرنا فی نفسہ مطلوب ہے کیونکہ اس کے ساتھ بہت سارے منافع وابستہ ہیں لیکن اس کے ساتھ دل نہیں لگانا چاہیئے۔اس کا امتحان یہ ہے کہ مال ہو لیکن کار خیر میں اس کے خرچ سے دل مانع نہ ہو تو یہ مال کی محبت نہیں ہے۔بخل اسی حب مال ہی کا اثر ہے ۔
طریقۂ علاج
کار خیر میں نفس پر جبر کرکے مال کو خرچ کرنا اس کا علاج ہے ۔کم ازکم زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے ادائیگی کا التزام ہونا چاہیئے۔ کبھی کبھی نیک لوگوں کی دعوت کرنا ، اور عزیزوں کو تحفے وغیرہ پیش کرتے رہنا بھی کافی کارآمد ہوتا ہے۔
ریا
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : "یقیناًتھوڑی ریا بھی شرک ہے ۔"
ریا کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لوگوں کی پسند اور ناپسند پر نظر ہونا "ریا" کہلاتا ہے۔ ریا کی اصلیت یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اپنی عبادت اور عمل خیر کے ذریعے سے وقعت اور منزلت کا خواہاں ہو ۔اور یہ عبادت کے مقصود کے بالکل خلاف ہے ۔کیونکہ عبادت سے مقصود حق تعالیٰ کی رضا مندی ہے ۔اور اب چونکہ اس مقصد میں دوسرا شریک ہو گیا جو کہ رضاء خلق اور حصول منزلت ہے ، لہٰذا اس کا نام "شرک اصغر "ہے ۔
نیز حدیث شریف میں آیا ہے " کہ قیاُمت کے دن جب اللہ تعالیٰ بندوں کو جزا اور سزا اور انعامات عطافرمائے گا تو ریا کاروں کو حکم دے گا کہ انہیں کے پاس جاؤ جن کے دکھلانے کوتم نمازیں پڑھتے تھے اور عبادتیں کیا کرتے تھے ،اپنی عبادتوں کا ثواب اور طاعت کا صلہ بھی انھیں سے لو اور دیکھو کیا دیتے ہیں ؟ "
نیز رسول مقبول ﷺفرماتے ہیں کہ" جس عمل میں ذرہ برابر بھی ریا ہوگا اس کو اللہ تعالیٰ قبول نہ فرمائے گا۔"
حدیث کی مندرجہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ریا بہت سنگین گناہ ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ کسی عمل میں نہ اظہار کا قصد کریں نہ اخفاء کا، اپنے کا م سے کام رکھیں ۔اپنے اختیار سے ہر کام میں رضاء حق کا قصد اوراپنے اختیار سے رضاء خلق کا قصد نہ کریں بلا قصد کے اگر رضاء خلق کا وسوسہ یا خیال آئے تو اس کی مطلق پرواہ نہ کریں ۔اور عمل سے پہلے مراقبہ و محاسبہ کرتے رہیں کہ اس میں میرا کیا قصد ہے آیا رضاء حق ہے یا رضاء خلق ،اور نیت کو خالص کر کے عمل کیا کریں ۔ریا اختیاری عمل ہے اس لئے اگر کوئی اپنے اختیار سے کرتا ہے تو گنہگار ہے اور اگر اس کو صرف ریا کا وسوسہ آتا ہے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ۔اس کو خوب سمجھ لیا جائے کیونکہ اس میں بہت سارے غلطی کرتے ہیں۔
طریقۂ علاج
حب جاہ کو دل سے نکالیں ،کیونکہ ریا اسی کا ایک شعبہ ہے اور اس کے علاج کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس عبادت میں ریا ہو اس کو کثرت سے کریں ،پھر نہ کوئی التفات کرے گا نہ اس کو یہ خیال رہے گا ۔ چند روز میں ریا سے عادت پھر عادت سے عبادت اور اخلاص بن جائے گی ۔​
تکبّر
ارشاد خدا وندی ہے کہ
"بے شک اپنی بڑائی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔"​
(قرآن مجید، سورہ نحل16، آیت : 23)​
رسول اللہﷺنے فرمایا کہ :​
" یعنی جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔"​
تکبر، کبر کیا ہے ؟
اپنے آپ کو صفات کمال میں دوسرے سے بڑھ کر سمجھنا یا دوسروں کو کسی بھی وجہ سے خقارت سے دیکھنا۔ تکبر کے اقسام بہت ہیں ۔اور اکثر ان میں بہت باریک اور مخفی ہیں کہ کسی کی نظر سوائے معلم کامل کے وہاں تک نہیں پہنچتی اور اس میں علماء ظاہر کو بھی کسی محقق کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ تکبر کا حاصل یہ ہے کہ کسی کمال دینی یا دنیوی میں اپنے آپ کو با اختیار خود دوسرے سے اس طرح افضل سمجھنا کہ اپنے مقابلے میں دوسرے کو حقیر سمجھے تو اس میں دو جز ہوں گے ۔اول اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،دوم دوسرے کو اپنے سے حقیر سمجھنا ۔یہ تکبر کی حقیقت ہے جو حرام ہے اور ایک تکبر کی صورت ہے کہ اس میں سب اجزاءہیں ،بجز ایک جزو اختیار کے یعنی بلا اختیار ان اجزاءکا خیال آگیا ۔یہاں تک تو معصیت نہیں لیکن اگر اس کے بعد اس خیال کو با اختیار خود اچھا سمجھا یا با وجود اچھا نہ سمجھنے کے با اختیار خود اس کو باقی رکھا تو یہ حقیقت کبر کی ہو جائے گی ۔اور معصیت ہو گی اور جو قید لگائی گئی ہے کہ دوسرے کو حقیر سمجھے یہ اس لئے ہے کہ اگر وہ واقعی کوئی بڑائی چھوٹائی کا اس طرح معتقد ہو کہ دوسرے کو ذلیل نہ سمجھے تو وہ تکبر نہیں ہے جیسا کہ ایک بیس برس کی عمر والا دو برس کے بچے کو سمجھے کہ یہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے مگر اس کو حقیر نہیں سمجھتا تو یہ کبر نہیں۔
الغرض جو شخص با اختیار خود اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا سمجھتا ہے اس کا نفس پھول جاتا ہے اور پھر اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں مثلاً دوسروں کو نظرِ حقارت سے دیکھنا یا اگر کوئی سلام کرنے میں پیش قدمی نہ کرے تو اس پر غصہ ہونا ،کوئی اگر تعظیم نہ کرے تو ناراض ہونا ،کوئی اگر نصیحت کرے تو ناک بھوں چڑھانا ،حق بات کے معلوم ہونے کے بعد بھی اس کو نا ماننا ۔ تکبر سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے یہ بہت برا مرض ہے ۔ تکبر ہی سے کفر پیدا ہوتاہے۔تکبر ہی سے شیطان گمراہ ہوا ۔
طریقہ علاج
اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرے ۔ تاکہ اپنے کمالات ہیچ نظر آئیں ،اور جس شخص سے اپنے کو بہتر سمجھتا ہے اس کے ساتھ تواضع اور تعظیم سے پیش آئے ۔ذہن میں یہ بات جمادے کہ مجھے یہ ساری نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں اور ان کا بقا بھی اس کے حکم سے ہے ۔اگر وہ نہ چاہے تو یہ نعمتیں آن کی آن میں چھن سکتی ہیں۔اگر کسی کے اعمال اپنے سے کم نظر آئیں تو یہ سوچے کہ ممکن ہے میرے اعمال اس سے زیادہ ہوں لیکن کامیابی زیادہ اعمال پر نہیں بلکہ اس کی فضل پر ہے نیز جیسے آگ تمام چیزوں کو آن کی آن میں خاکستر کرتی ہے اس طرح میرے اس تکبر سے ممکن ہے میرے تمام اعمال ہیچ ہوجائیں اور اس کے پاس جو تھوڑے بہت اعمال ہیں وہ اس کی عاجزی کے سبب قبول ہوجائیں۔یا یہ نہ ہو تو آخر کا کسے پتہ کہ خاتمہ کیسے ہو ممکن ہے میں مارا جاؤں اور وہ کامیاب ہو۔
عُجب
رسول اللہ ﷺنے فرمایا​
"رہے مہلکات ،تو وہ خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے اوروہ بخل ہے جس کے موافق عمل کیا جائے اور آدمی کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا اور یہ سخت ترین ہے ۔"​
عجب کیا ہے؟
اپنے کمال کا اپنی طرف نسبت کرنا اور اس کا خوف نہ ہونا کہ شائد سلب ہو جائے ۔یہ عجب ہے ۔ عجب کی حقیقت یہ ہے کہ نفس کی ایک چال ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ممتاز ہو کر رہے اور اس میں اس کو مزا آتا ہے ۔سو یہ عجب ہے اور عجب ایسی بری چیز ہے کہ جس وقت کوئی شخص اپنی نظر میں پسندیدہ ہو جاتا ہے اس وقت اللہ کی نظر میں نا پسندیدہ ہوتا ہے ۔ البتہ اگر اللہ کی نعمت پر خوش ہوئے اور اس کے چھن جانے کا خوف بھی دل میں رکھے اور اتنا ہی سمجھے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے فلاں علم یا عمل کے سبب مجھ کو مرحمت فرما دی ہے اور وہ مالک مختار ہے جس وقت چاہے اس کو مجھ سے لے لے تو یہ خود پسندی اور عجب نہیں ہے ۔کیونکہ خود پسند شخص نعمت کا منعم حقیقی کی جانب منسوب کرنا ہی بھول جاتا ہے ۔اور جملہ نعمتوں کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے ۔ عجب میں صرف ایک قید کم ہے یعنی اس میں دوسروں کو چھوٹا سمجھنا نہیں صرف اپنے کو بڑا سمجھنا ہے باقی سب اجزاء وہی ہیں جو تکبر کے ہیں ۔
حدیث شریف میں ہے کہ" جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اتراتا ہوا چلتا ہے وہ قیاُمت کے روز خدا تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا ۔"
طریقۂ علاج
اس کمال کو عطائے خدا وندی سمجھے اور اس کی قدرت کو یاد کر کے ڈرے کہ شاید سلب ہو جائے دوسرا علاج یہ ہے کہ کسی کامل کا اعلیٰ درجہ پیش نظر رکھ کر غور سے اپنی لغز ش اور کوتاہی ظاہری و باطنی دیکھے تاکہ اپنی بزرگی اور کمال کا گمان پیدا نہ ہو ۔اس کا بھی اصل علاج اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنا ہے ۔شیطان کے دل میں بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں تھی اس لئے سب کمالات کی نسبت اپنے طرف کی ۔
خود رائی
جب کوئی شخص کسی خوبی کا سن کر اس کو اپنے میں سمجھنا شروع کرے تو سمجھ لو کہ یہ خود رائی میں مبتلا ہے۔ یہ بھی بڑا عیب ہے۔اس کی وجہ سے انسان کی نظر اپنے عیوب سے اور دوسروں کے محاسن سے اٹھ جاتی ہے۔وہ صرف اپنے ذات میں مگن رہتا ہے ۔اپنے منہ میاں مٹھو بنا رہتا ہے ۔جب بھی کسی کی کوئی خوبی سنتا ہے تو بجائے اس کے اس کی تحسین کرے کوشش کرتا ہے کہ اس وقت اپنی کوئی خوبی چاہے وہ واقعی ہو یا من گھڑت سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریف کی بجائے اس کی تعریف کرے۔اللہ تعالیٰ اس بیماری سے ہر ایک کو بچائے ۔یہ اصلاح کے راستے میں بہت رکاوٹ بن جاتی ہے کیونکہ اس کا مریض اپنی اصلاح کے لئے محنت نہیں کرتا اور ان محاسن کو جن کے حاصل کرنے کا حکم ہے اپنے میں موجود سمجھ کر اس سے غافل ہوتا ہے نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔یہ عجب کی بھی ماں ہے کیونکہ عجب میں تو انسان اپنے محاسن پر ناز کرتا ہے یہاں تو عیوب کو بھی محاسن سمجھنے لگتا ہے ۔یہ دونوں سراب ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو ان سے بچائے ۔
طریقہ ٔ علاج
اس کی وجہ بھی دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت کا نہ ہونا ہے ۔اس لئے ایسے شخص کو چاہیئے کہ جلد از جلد اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اس کے لئے اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنا جاری رکھے ۔علماء کی صحبت میسر ہو تو وہ تو نور علی ٰ نور ہے۔ اپنے اعمال کو انتہائی کمزور سمجھےاور اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو اور جب تک زندہ ہے اپنی اصلاح کی فکر میں لگارہے۔اس مراقبہ سے دل کے گرہیں کھلیں گی ۔اپنے محاسن بھی عیوب نظر آئیں گے اور حقیقی توبہ کی دولت نصیب ہوجائے گی ۔
کینہ(عداوت، بغض)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
" نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔"
(قرآن مجید، سورہ اعراف 7، آیت : 199)
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
"آپس میں بغض نہ رکھو ۔"
کینہ کیا ہے؟
جب غصہ میں بدلہ لینے کی قوت نہیں ہوتی تو اس کے ضبط کرنے سے اس شخص کی طرف سے دل پر ایک قسم کی گرانی کا ہو جانا جس کی سبب سے اس کو کسی تکلیف دینے کا درپے ہونا۔ کینہ صرف ایک عیب نہیں بلکہ بہت سے گناہوں کا بیج ہے ،جب غصہ نہیں نکلتا تو اس کا خمار دل میں بھرا رہتا ہے ۔اور بات بڑھتی اور رنجشیں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ کینہ یہ ہے کہ اپنے اختیار اور قصد سے کسی کی برائی یا بد خواہی دل میں رکھی جائے اور اس کو ایذا پہنچانے کی تدبیر بھی کرے ۔اگر کسی سے رنج کی کوئی بات بھی پیش آئے اور طبیعت اس سے ملنے کو نہ چاہے تو یہ کینہ نہیں بلکہ انقباضِ طبعی ہے جو گناہ نہیں ۔ کینہ کے متعلق حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:" ان دو آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی جن کے درمیان عداوت و کینہ ہو ۔ "
طریقہ علاج
جس شخص سے کینہ ہو اس شخص کا قصور معاف کر دینا اور اس سے میل جول شروع کر دینا گو بتکلف ہی ہو ۔کینہ میں چونکہ مخفی طور پر غصّہ شامل ہے بس فرق یہ ہے کہ غصّہ وقتی طور پر ہوتا ہے اور اس میں سوچ کا عنصر کم ہوتا ہے جبکہ کینہ مستقبل کے لئے ہوتا ہے اور اس میں سوچ کا عنصر شامل ہوتا ہے اس لئے روحانی طور پر کینہ زیادہ قابل مذمت ہے ۔سوچ کا علاج سوچ ہے اس لئے اپنے آپ کو رب کا قصور وار سمجھ کر یہ سوچا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ حساب کیا تو میں کیسے بچ سکتا ہوں ؟ لہذا مجھے بھی اس کے مخلوق کو معاف کرنا چاہیئے تاکہ وہ میرے اوپر رحم فرمائے ۔
 
Top