فارقلیط رحمانی
لائبریرین
تزکیہ نفس کے لیے جن اعمال کاہونا اور نہ ہونا لازمی ہے یہاں پر ان سے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں گے۔
اعمال دو قسم کے ہیں۔(۱) سلبی اعمال (۲) جلبی اعمال
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ کسی عورت نے اپنے چھوٹے سے بچے کو بلایا اور کہا آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے ۔رسول اللہ ﷺنے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ اگر بلانے سے بچہ آگیا تو کیا چیز دے گی؟عورت نے کہا چھوہارہ دے دوں گی۔آپ ﷺنے فرمایا اگر کچھ دینے کا ارادہ نہ ہوتااور صرف بہلانے کے لئے ایسا لفظ نکلتا تو یہ بھی زبان کا جھوٹ شمار ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت ہوتی ہو اور وہ اس کی حمایت پر قادر ہو اور اس کی حمایت کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی حمایت فرمائےگا۔ اور اگر اس کی حمایت پر قادر ہوتے ہوئے اس کی حمایت نہ کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر گرفت فرمائےگا۔ "
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ" تم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کا آئینہ ہے پس اگر اس میں کوئی گندی بات دیکھے تو اسے اس سے دور کر دے ۔"
یعنی جس طرح آئینہ چہرہ کے داغ دھبے کو صرف عیب دارپر ظاہر کرتا ہے اور کسی پر ظاہر نہیں کرتا اسی طرح اس شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی خفیہ طور پر اصلاح کر دے اس کو رسوا نہ کرے۔ زبان اور کان کے گناہوں میں غیبت کرنا اور سننا ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ شاید ہی کوئی طبقہ اس سے بچا ہوا ہو الاّ ما شا ء اللہ ۔اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام کرنا چاہئے اور اگر غیبت ہو جائے تو جس کی غیبت کی ہے اس کو علم بھی ہو جائے تو اس سے معافی مانگنا ضروری ہے اور اگر اس کو علم نہ ہو تو کثرت سے استغفار کرے ،اور جس کی غیبت کی ہے اس کے لئے دعائے مغفرت کرے ۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ "حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ سوکھی ہوئی لکڑیوں کو جلا دیتی ہے۔"
دنیا کا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہمیشہ رنج و غم میں مبتلا رہتا ہے اور اسی غم میں گھلتا رہتا ہے کہ کسی طرح فلاں شخص کو ذلت و افلاس نصیب ہو ۔
"اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تمہارےرب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ طہ 20، آیت : 131)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "آدمی بوڑھا ہوتا رہتا ہے ،اور اس کی دو چیزیں بڑھتی رہتی ہیں ۔مال پر حرص کرنا اور عمر پر حرص کرنا۔"
انسان کا طبعی خاصہ ہے کہ اگر اس کے پاس مال کے دو جنگل بھی ہوں جن میں سونا یا چاندی پانی کی طرح بہتے ہوں پھر بھی وہ تیسرے کا طالب ہوگا ۔جتنا ہوس کو پورا کرو گے اتنا ہی بڑھے گی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اعمال دو قسم کے ہیں۔(۱) سلبی اعمال (۲) جلبی اعمال
سلبی اعمال
سلب کسی چیز کے دور کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے اخلاق رذیلہ جیسے دنیا کی محبت، ریاء ،تکبر ، حسد ،کینہ ،بغض، بے صبری ،ناشکری و غیرہ سے چھٹکارہ حاصل کرنا مطلوب ہے۔سلبی اعمال ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں : جھوٹ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
" اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو"
(قرآن مجید، سورہ حج 22، آیت 30)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" ہمیشہ سچ بولو ،اورجھوٹ سے کنارہ کش رہو"
جھوٹ کیا ہے؟
خلاف واقعہ بات کہناجھوٹ ہے ۔آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ جو بات سنے بیان کر دے ،بلا تحقیق بات کو نقل کر دے ۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ" جھوٹ بولنے سے بچو کہ جھوٹ اور فجور ساتھ ساتھ ہیں ۔اور یہ دونوں جہنم میں ہیں۔"ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ کسی عورت نے اپنے چھوٹے سے بچے کو بلایا اور کہا آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے ۔رسول اللہ ﷺنے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ اگر بلانے سے بچہ آگیا تو کیا چیز دے گی؟عورت نے کہا چھوہارہ دے دوں گی۔آپ ﷺنے فرمایا اگر کچھ دینے کا ارادہ نہ ہوتااور صرف بہلانے کے لئے ایسا لفظ نکلتا تو یہ بھی زبان کا جھوٹ شمار ہوتا۔
طریقۂ علاج
کلام میں احتیاط ہو بغیر سوچے کوئی کلام نہ کرے ۔ استحضار قبل از وقت، ہمت در عین وقت، تدارک بعد الوقت،اس کا علاج ہے یعنی وقت پر اس کا استحضار ہو کہ مجھے جھوٹ نہیں بولناہے۔ اس کے لئے کوئی نشانی مقرر کریں مثلاً کوئی چیز ہاتھ کے ساتھ باندھ لے جس سے یاد آئے کہ جھوٹ نہیں بولنا اور اگر جھوٹ بولنا شروع ہوا چاہتا ہو تو ہمت کرکے اس سے رکے ۔اگر ہوجائے تو اپنے دوستوں کو بتائے کہ میری فلاں بات جھوٹی ہے اور اپنے نفس پر کچھ جرمانہ کرے اگر نفس کو نفلوں سے زیادہ تکلیف ہو تو نفل پڑھے اور اگر پیسے کے ساتھ محبت ہو تو کچھ خیرات کردے ۔ اگر کوئی بات کبھی منہ سے خلاف شریعت نکل جائے تو فوراً خوب توبہ بھی کر لے کہ جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کا حق بھی ضائع کرنا ہے ۔غیبت
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
" تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔"
(قرآن مجید ، سورہ حجرات 49، آیت : 12)
حضور ﷺ کا ارشاد ہے :
" غیبت زنا سے بھی سخت تر ہے ۔ "
غیبت کیا ہے؟
کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا کہ اگر وہ سنے تو اس کو نا گوار ہو ،اگرچہ وہ بات اس کے اندر موجود ہی ہو اور اگر وہ بات اس میں نہیں تو وہ بہتان ہے ۔ جس طرح غیبت کرنا حرام ہے ،اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت ہوتی ہو اور وہ اس کی حمایت پر قادر ہو اور اس کی حمایت کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی حمایت فرمائےگا۔ اور اگر اس کی حمایت پر قادر ہوتے ہوئے اس کی حمایت نہ کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر گرفت فرمائےگا۔ "
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ" تم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کا آئینہ ہے پس اگر اس میں کوئی گندی بات دیکھے تو اسے اس سے دور کر دے ۔"
یعنی جس طرح آئینہ چہرہ کے داغ دھبے کو صرف عیب دارپر ظاہر کرتا ہے اور کسی پر ظاہر نہیں کرتا اسی طرح اس شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی خفیہ طور پر اصلاح کر دے اس کو رسوا نہ کرے۔ زبان اور کان کے گناہوں میں غیبت کرنا اور سننا ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ شاید ہی کوئی طبقہ اس سے بچا ہوا ہو الاّ ما شا ء اللہ ۔اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام کرنا چاہئے اور اگر غیبت ہو جائے تو جس کی غیبت کی ہے اس کو علم بھی ہو جائے تو اس سے معافی مانگنا ضروری ہے اور اگر اس کو علم نہ ہو تو کثرت سے استغفار کرے ،اور جس کی غیبت کی ہے اس کے لئے دعائے مغفرت کرے ۔
طریقۂ علاج
بات کرنے سے قبل تھوڑی دیر تأمل کرے اور سوچے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ جو سمیع و بصیر اس کے غضب کی باعث تو نہیں ہوگی؟ انشاء اللہ کوئی بات منہ سے گناہ کی نہ نکلے گی ۔غیبت صرف زبان کو ہی تو کنٹرول کرنا ہے۔ اگر ذرا سی ہمت سے انسان اتنے بڑے گناہ سے بچ سکے تو ہمت کیوں نہ کی جائے ؟اس کو سوچے اور ہمت سے کام لے کر غیبت سے رکیں۔ یہ سوچے کہ جس کی میں غیبت کررہا ہوں ان کو اپنی نیکیاں دے رہا ہوں گویا کہ میں اس شخص کو فائدہ پہنچا رہا ہوں جو مجھے پسند نہیں۔جب بھی کسی کی غیبت کرنے کو جی چاہے تو فوراً اس کے لئے دعا کرے کہ یا اللہ تو اس پر قادر ہے کہ اس شخص سے ان عیوب کو دور کرسکتا ہے اس لئے اس سے ان عیوب کو دور فرما اور مجھے غیبت سے بچا ۔اس پر ہمت کے ساتھ چند روز بھی عمل ہو تو شیطان کسی کی غیبت کا خیال ہی نہ آنے دے۔حسد
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
"کہو!میں حاسد کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب وہ حسد کرے ۔"
"کہو!میں حاسد کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب وہ حسد کرے ۔"
(قرآن مجید، سورہ فلق 112، آیت : 5)
اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
" آپس میں حسد نہ کرو ۔"
حسد کیا ہے؟
کسی شخص کی اچھی حالت کا نا گوار گذرنا اور یہ آرزو کرنا کہ یہ اچھی حالت اس کی زائل ہو جائے یہ حسد ہے ۔ البتہ دوسرے کو نعمت میں دیکھ کر حرص کرنا ،اور یہ چاہنا کہ اس کے پاس بھی یہ نعمت رہے اور مجھے بھی ایسی ہی نعمت حاصل ہو جائے تو یہ "غبطہ" اور" رشک" کہلاتا ہے اور غبطہ شرعاً جائز ہے ۔حسد قلبی مرض ہے اس میں دین کا بھی نقصان ہے اور دنیا کا بھی ۔دین کا نقصان تو یہ ہے کہ اس کے کئے ہوئے نیک اعمال ساقط ہو جاتے ہیں ۔نیکیاں چلی جاتی ہیں اور حق تعالیٰ کے غصے کا نشان بن جاتا ہے ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ "حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ سوکھی ہوئی لکڑیوں کو جلا دیتی ہے۔"
دنیا کا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہمیشہ رنج و غم میں مبتلا رہتا ہے اور اسی غم میں گھلتا رہتا ہے کہ کسی طرح فلاں شخص کو ذلت و افلاس نصیب ہو ۔
طریقۂ علاج
گو بتکلف سہی اس شخص کی خوب تعریف کی جائے اور اس کے ساتھ خوب احسان و سلوک اور تواضع سے پیش آیا جائے اور اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ اے ظالم یہ نعمت فلاں کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے کہ میرے کام پر اعتراض کیوں کیا ؟ تو میں کیا جواب دوں گا۔ایسے لوگوں کے لئے جن کے ساتھ حسد ہو ان کے لئے بتکلف مزید نعمتوں کی دعا کیجیے اور ساتھ یہ دعا بھی کیجیے کہ یہ نعمتیں( اگر جائز ہوں ) مجھے بھی عطا ہو۔حرص
ارشاد باری ہے کہ"اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تمہارےرب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ طہ 20، آیت : 131)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "آدمی بوڑھا ہوتا رہتا ہے ،اور اس کی دو چیزیں بڑھتی رہتی ہیں ۔مال پر حرص کرنا اور عمر پر حرص کرنا۔"
حرص کیا ہے ؟
حرص حب دنیا کا تقاضا ہے ۔دل کا اپنے مفادات کے ساتھ ہمہ وقت مشغول ہونا "حرص "کہلاتا ہے۔ جیسا کہ حب دنیا تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہے اس طرح حرص تمام بیماریوں کی جڑ ہے ۔یہ ایسا مرض ہے کہ اس کو "امُّ الامراض "کہاجاتا ہے۔ انسان کا طبعی خاصہ ہے کہ اگر اس کے پاس مال کے دو جنگل بھی ہوں جن میں سونا یا چاندی پانی کی طرح بہتے ہوں پھر بھی وہ تیسرے کا طالب ہوگا ۔جتنا ہوس کو پورا کرو گے اتنا ہی بڑھے گی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
"بھلا انسان کی ہر آرزو پوری ہو سکتی ہے ۔" قرآن مجید، سورہ نجم 53، آیت : 24)
یعنی کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ حریص کو کبھی راحت نہیں مل سکتی ۔اس کے ہوس کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔کیونکہ ایک آرزو ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے اور جب تقدیر پر راضی ہی نہ ہو تو ہر کام میں یوں دل چاہتا ہے کہ یہ بھی ہو جاوے اور وہ بھی ہو جاوے ۔اور سب امیدوں کا پورا ہونا دشوار ہے ۔اس لئے اس کا نتیجہ پریشانی ہی پریشانی ہے۔گو ظاہر میں اولاد اور مال سب کچھ ہو مگر حریص کا دل ہمیشہ پریشان رہتا ہے ۔طریقۂ علاج
یہ سوچے کہ حرص انسان اس لئے کرتا ہے کہ مزے میں رہے اور آرام پائے جبکہ حرص کے ساتھ ان دو چیزوں کا حاصل کرنا ممکن نہیں۔تو جس چیز سے آرام اور مزہ ختم ہو اس کوآرام و مزے کے لئے کیوں کیا جائے ؟تقدیر پر قانع رہے ۔ضروریات کے لئے اسباب کو اختیار کرنے میں حرج نہیں لیکن جو فیصلہ رب کی طرف سے ہو اس پر راضی رہے ۔ خرچ کو گھٹائے ۔تاکہ زیادہ آمدنی کی فکر نہ ہو ۔اور آئندہ کی فکر نہ کرے کہ کیا ہوگا ۔اور یہ سوچے کہ حرص و طمع کرنے والا ہمیشہ ذلیل و خوار رہتا ہے ۔جنت کے مزوں کو سوچے اور یہ کہ اگر میں نے ان لذتوں کو غلط طریقے سے حاصل کیاتو جنت کی لذتوں کو کیونکر حاصل کروں گا ۔اس طرح یہاں کا حرص وہاں کے حرص میں بدل جائے گا۔ اعمال کے فضائل کا مطالعہ کرے تاکہ اعمال کی حرص پیدا ہو اور وہ یہاں کی حرص کا توڑ کرے ۔نیز اللہ تعالیٰ کی محبت کو بڑھائے تا کہ لذات کی محبت مغلوب ہو۔ موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرے کہ وہ لذات کو توڑنے والی چیز ہے اور آخرت کی طرف راغب کرنے والی ہے ۔