زیک
مسافر
اسلامی فنانس پر فوربز میگزین نے کئی اچھے مضامین شائع کئے ہیں۔
میں نے موجودہ دور میں چلنے والی اسلامی معیشت کو جیتنا دیکھا ہے اسے ایک دھکاوے سے زیادہ نہیں سمجھتا- بنیادی طور پر پرڈکٹ وہی ہے صرف لفافہ بدلہ گیا ہے۔ اور ان میں سے اکثر حیلوں سے سود کو جائز کرنے کی کوشش ہیں۔
سعود صاحب پہلے تو اپنے ذہن پر اتنا ذورنہ دیں آپکے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے صحیح غلط اور غلط صحیح نہیں ہوگا پاکستان میں تمام اسلامی بینک بڑے علماء کے ذیرے نگرانی کام کررہیں ہیں اور اگر آپ کولگتا ہے کہ وہ غلط ہیں تو ان علماء کو سمجھائیں کہ وہ غلط کررہے ہیں اور آپ بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں
بھائی قتل کرنے کی سزا اسلام میں بھی موت ہے اب آپ اس کو گولی مار کر دیں ، لٹکا کر دیں ، زہر دیں کر دیں یا سر قلم کر کے دیں بات تو ایک ہی ہے
لیکن اسلام میں طریقہ بیان ہے کہ سر قلم کرکے دیا جائے اگر آپکے نذدیک اسلام نظام ضابطائے حیات نہیں تو پھر آپ جو کچھ بھی کہ سکتیں ہیں یہ آپکی اپنی مرضی پر ہے
میرا تایازاد بھائی ایک اسلامی بینک میں ملازم ہے وہ بھی اکثر آپ جیسے لوگوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہے کہ ایک اسلامی طریقہ ہے اور ایک غیر اسلامی طریقہ ہے اور اب تو وہ کسی سے اس بارے میں بحث بھی نہیں کرتا کہ یہ کرنا فضول ہے ان پر االلہ رحم کریں آمین
میرے دوست میں جب یہ پوسٹ کررہا تھا تو مجھے ایسے ہی کسی ردعمل کی امید تھی۔ میں عام طور پر اس طرح کے موضوعات جن سے لوگوں کی جزباتی وابستگی ہوتی ہے پر بحث سے ہر ممکن بچتا ہوں، لہٰزا میں یہ پوسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں کر گیا- تمہیں اور دوسرے لوگ جن کا اس پوسٹ سے دل دکھا ہے ان سے معزرت خواہ ہوں۔
لیکن آپ نے جس انداز میں یہ پوسٹ لکھی ہے ، اور میرے اور شائد معیشت اور اسلامی معیشت اور اسلامی بنکاری، اسلامی انشورنس کے متعلق کچھ نہ جانتے ہوے جو طرز تخاطب اختیار کیا ہے اس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔بحرحال میری کوشش یہی ہوگی کہ میری تحریر میں تلخی نہ آے۔
سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کرادوں، آپ نے کہا کہ میں اپنے زہن پہ زور نہ دوں، اب اتفاق یہ ہے کہ میرا کام ہی زہن پر زور دینا ہے، میں ایک ٹیکس پروفیشنل ہوں ، اور بہت بڑی اکاونٹنٹ فرم میں تقریبا دس سال سے کام کررہا ہوں۔
اتفاق سے پاکستان میں اسلامی معیشت پر کام کے حوالے سے میری فرم سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی ہے، مزید اتفاق یہ ہے کہ پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اکثر بڑے بینک اور انشورنس کمپنیز اور کی اسلامی بنک اور انشورنس کمپنیز میری پورٹفولیو میں شامل ہیں۔ اور میں انہیں مختلف ٹرانزیکشنس کے سلسلے میں ٹیکس ایڈوایز دیتا رہتا ہوں۔اور اس دوران اکثر ان کے ٹیکس اور فانینشل ہیڈس اور کبھی کبھار شریعہ بورڈ کے ممبر سے بھی ملاقات یا فون پر گفتگو ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اسلامی نظام حکومت و معیشت اور اس کے نفاز کا مطالہ کرنا بھی میرا شوق ہے۔ اور پھر ایک وکیل کی حثیت سے بھی اسلامی قوانین کا کافی مطالعہ کیا ہے۔
امید ہے میرے اس پس منظر کو دیھکتے ہوے اب آپ مجھے کم از کم اپنے زہن پر زور دینے کی اجازت تو مرحمت فرما ہی دینگے ۔
جناب میرے خیال میں، میں شاید آپ سے زیادہ اسلامی معیشت اور اسلامی نظام کے نفاز کا متمنی ہوں گا، لیکن اس کے لیے میں سیاہ کو سفید نہیں کہ سکتا-
میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیوں کہ اس کے لیے میں خود کو اخلاقی طور پر پابند سمجھتا ہوں۔
یہ پوسٹ اس امید کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اس کہ اس جواب میں آپ کم از کم مجھے کافر قرار نہیں دے دیں گے۔
عارف کریم صاحب پاکستانی معیشت کی بگڑی ہوئی شکل کی مثال صرف سود پر نہیں آتی کیا ہم اس کے قصور وار نہیں
کبھی ہم اپنا محاسبہ بھی کرکے دیکھے تو بہت ساری برائیاں نظر آئیں گی
میں نے آج کل میں ہی ایک آرٹیکل پڑھاہے جس میں لکھاہے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی ایک ہزار روپیہ قرض دیتاہے اورایک سال کے بعد وہ اس رقم میں اضافہ کرکے ایک ہزار تین سو لیتاہے تویہ سود نہیں ہے کیونکہ آج کل جس طرح افراز زر لگاتاربڑھ رہاہے اورروپئے کی قیمت ہرگزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ توآج قرض دینے والے شخص کے ایک ہزار کی جو قیمت ہے کیا ایک سال بعد اس ایک ہزار روپئے کی قیمت اتنی ہی ہوگی یا گھٹ جائے گی۔ گھٹنے کی صورت میں جو یقینی ہے۔ توپھر قرض دینے والا ہمیشہ نقصان میں ہی رہے گا۔پھر کوئی قرض دیناکیوں چاہے گا۔لہذا مضمون نگار کا کہنا ہے کہ آج کل جو اضافی رقم قرض پر لی جاتی ہے وہ سود میں شامل نہیں ہے۔امید ہے کہ تمام احباب اس پر غور کرکے اپنے علم کی روشنی میں مزید نئی باتیں سامنے رکھیں گے۔ والسلام