اسلامی نظام معیشت کو اپنایا جائے ؛ امیر جماعت اسلامی سراج الحق

الف نظامی

لائبریرین
پشاور 27مارچ2014ء : سینئر وزیر خیبرپختونخواور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے اس لیے آئین کا تقاضاہے کہ اقتصاد سمیت تمام شعبوں کو قرآن و حدیث کے تابع کیا جائے ۔ 1973 ء کے آئین کا تقاضاہے کہ سودی نظام کو ختم کر کے اسلامی نظام معیشت کو اپنایا جائے ۔
ملک میں دیگر المیوں کی طرح سودی نظام بھی ایک المیہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں استحصالی نظام قائم ہے اور پانچ فی صد سیاسی برہمنوں اور معاشی دہشت گردوں نے 95 فی صد وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے ۔حقیقی آزادی کے لیے معاشی آزادی ناگزیر ہے ۔
وہ اقتصادی کونسل واکنامک ریفارمز کمیشن کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرر ہے تھے ۔اجلاس کی صدارت چیئر مین اقتصادی کونسل جسٹس محمد فدا کررہے تھے ۔
متعلقہ:
اسلامی معاشیات
پاکستان میں اسلامی بینکاری کیلئے اقدامات ؛ ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
اسرائیل میں یہودیوں کا آپس میں سود کا لین دین منع ہے بلکہ یہودیوں نے اپنی شریعت اسی بنائی کہ کوئی یہودی دوسرے یہودی کو قرض دے تو سود میں نہ دے اور لے تو سود میں نہ لے۔
یہود ی وہ قوم ہے جنہوں نے بے شمار نبیوں کو تنک کیا اور کئیں ایک کو قتل بھی کیاگیا، اور قرآن الکریم میں بہت زیادہ آیتیں انکے بارہ میں ہیں اللہ نے نعمت دی اور ان لوگوں نے ناشکری کی حتی کہ لعنت کا شکار ہوگئے۔
سود ایک لعنت ہے اس سے ہم سچے مسلمان جس کے لئے جنت اللہ پاک نے لکھ دی تھوڑی کوشش سے جہنم کی سزا سے بچ سکتے ہیں
بہت شکریہ ، جزاک اللہ ،،، محترم الف نظامی
 

الف نظامی

لائبریرین
دنیا کا کوئی بھی بڑا ماہر معاشیات خواہ وہ کینز ہو یا ملٹن فریڈ مین ، سود کی حمایت نہیں کرتا۔یہ سب سود کو معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں دنیا کا ہر بڑا ماہر معاشیات صرف ایک ہی نعرہ بلند کرتا ہے کہ اس دنیا کی معاشی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار سود پر مبنی بینکاری کا نظام ہے۔ سٹیو کین کا لگایا ہوا یہ نعرہ " آو بینکوں کو دیوالیہ کرو" اس وقت ایک مقبول ترین پکار بن چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کا سرمایہ کار 43 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہے جن کو پانچ سو کے قریب بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک مخصوص گروہ کنٹرول کرتا ہے۔ پھر ان سب کو بیس بڑے بینک کنٹرول کرتے ہیں جو عوام کی بچت اور اس بچت سے پیدا شدہ مصنوعی دولت ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دے کر پوری دنیا کی معیشت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ پھر اسی مصنوعی دولت سے دنیا کی سیاست ، کاروبار بلکہ معاشرت کو بھی قابو کیے ہوئے ہیں۔ انہی بینکوں کی دولت سے جنگیں ہوتی ہیں ،"اخلاق یافتہ" میڈیاچلتا ہےاور لوگوں کی معاشرت میں زبردستی چال چلن متعارف اور مقبول کروایا جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبال جنہیں اللہ تعالی نے قرآن کے علم کا امین بنایا تھا ، انہوں نے 1906ء میں اس پورے مکروہ معاشی نظام پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام "علم الاقتصاد" ہے۔ یہ کتاب لوگوں کی نظروں سےچھپا دی گئی تھی لیکن اب اسے لاہور کے ایک ناشر نےدوبارہ چھاپا ہے۔ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی تھی جب یہ بینکاری کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔اقبال کا ادراک اس نظام اور مصنوعی دولت کے بارے میں اس قدر وسیع تھا کہ وہ لکھتے ہیں:
""بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سود کے عوض ایک سے روپیہ مستعار لیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کبھی روپیہ قرض نہیں دیتا بلکہ ساکھ کے بل پر اپنی موجود زرِ نقد کی مقدار سے زیادہ کے اوراق جاری کر کے یا اعتبار کی اور صورتیں پیدا کر کے فائدہ اٹھاتا ہے"
یہ ہے وہ ادراک اور علم جو اللہ تعالی نے اقبال کو عطا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پورے سودی نظام کو صرف ایک شعر میں سمو دیتے ہیں:
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا ، لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

بحوالہ: ہمارے جوتے ، ہمارے سر
 

Rehmat_Bangash

محفلین
در حقیقت سود ہی وہ بنیادی ناسور ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ہر برائی جنم لیتی ہے، یوری یوری قوم کی دولت لوٹ لینے کا سب سے آسان طریقہ، مہذب ڈاکہ جو تیسری دنیا کی آبادی کو کنگال کر چکا ہے۔اس نظام میں فائدے میں صرف وہی رہتے ہیں جو پہلے سے دولت مند ہوں، ارتکاز دولت کی نا پاک خواہش اس نظام کی آبیاری کرتی ہے،اور اپنے بھا ئی کی جیب خالی کر لینے کی آرزو اس کے لیے کھاد کاکام کرتی ہے۔ یونہی تو نہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس نظام کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔
 

arifkarim

معطل
علامہ محمد اقبال جنہیں اللہ تعالی نے قرآن کے علم کا امین بنایا تھا ، انہوں نے 1906ء میں اس پورے مکروہ معاشی نظام پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام "علم الاقتصاد" ہے۔ یہ کتاب لوگوں کی نظروں سےچھپا دی گئی تھی لیکن اب اسے لاہور کے ایک ناشر نےدوبارہ چھاپا ہے۔ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی تھی جب یہ بینکاری کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔اقبال کا ادراک اس نظام اور مصنوعی دولت کے بارے میں اس قدر وسیع تھا کہ وہ لکھتے ہیں:
""بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سود کے عوض ایک سے روپیہ مستعار لیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کبھی روپیہ قرض نہیں دیتا بلکہ ساکھ کے بل پر اپنی موجود زرِ نقد کی مقدار سے زیادہ کے اوراق جاری کر کے یا اعتبار کی اور صورتیں پیدا کر کے فائدہ اٹھاتا ہے"
یہ ہے وہ ادراک اور علم جو اللہ تعالی نے اقبال کو عطا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پورے سودی نظام کو صرف ایک شعر میں سمو دیتے ہیں:
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا ، لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

متفق۔ اقبال کی یہ کتاب علم القتصاد یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے:
http://urdu-elibrary.blogspot.no/2013/06/ilm-al-iqtesaad.html

مجھے حیرت ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان کے باقی سیکٹرز کی طرح بینکاری اور معاشی نظام کو بھی اسلامی کیا گیا اور سود کے نظام کو ختم کیا گیا تو پھر کس طرح یہ پروگرام بینظیر اور نواز شریف کے دور میں معاشی نظام کی تباہی کے بعد بند کرنا پڑا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_economics_in_Pakistan#Failure_and_collapse_of_the_system

آخر کیوں یہ اسلامی معاشی و بینکاری نظام جو سود کے بغیر تھا، پاکستان میں ناکام ہوا اور قومی سطح پر بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکا؟
 

arifkarim

معطل
اسرائیل میں یہودیوں کا آپس میں سود کا لین دین منع ہے بلکہ یہودیوں نے اپنی شریعت اسی بنائی کہ کوئی یہودی دوسرے یہودی کو قرض دے تو سود میں نہ دے اور لے تو سود میں نہ لے۔
یہود ی وہ قوم ہے جنہوں نے بے شمار نبیوں کو تنک کیا اور کئیں ایک کو قتل بھی کیاگیا، اور قرآن الکریم میں بہت زیادہ آیتیں انکے بارہ میں ہیں اللہ نے نعمت دی اور ان لوگوں نے ناشکری کی حتی کہ لعنت کا شکار ہوگئے۔
سود ایک لعنت ہے اس سے ہم سچے مسلمان جس کے لئے جنت اللہ پاک نے لکھ دی تھوڑی کوشش سے جہنم کی سزا سے بچ سکتے ہیں
بہت شکریہ ، جزاک اللہ ،،، محترم الف نظامی

یہ یہود اور اسرائیل مخالف پراپیگنڈا کہاں سے حاصل کیا ہے؟ اسرائیل میں بھی وہی لعنتی سودی بینکاری اور معاشی نظام نافذ ہے جو باقی دنیا میں موجود ہے۔ اور اسکا خمذیادہ وہ 1985 کے بینک اسٹاک کریش کے بعد بھکت بھی چکے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Bank_stock_crisis_(Israel_1983)
 

arifkarim

معطل
پشاور 27مارچ2014ء : سینئر وزیر خیبرپختونخواور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے اس لیے آئین کا تقاضاہے کہ اقتصاد سمیت تمام شعبوں کو قرآن و حدیث کے تابع کیا جائے ۔ 1973 ء کے آئین کا تقاضاہے کہ سودی نظام کو ختم کر کے اسلامی نظام معیشت کو اپنایا جائے ۔
ملک میں دیگر المیوں کی طرح سودی نظام بھی ایک المیہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں استحصالی نظام قائم ہے اور پانچ فی صد سیاسی برہمنوں اور معاشی دہشت گردوں نے 95 فی صد وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے ۔حقیقی آزادی کے لیے معاشی آزادی ناگزیر ہے ۔
وہ اقتصادی کونسل واکنامک ریفارمز کمیشن کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرر ہے تھے ۔اجلاس کی صدارت چیئر مین اقتصادی کونسل جسٹس محمد فدا کررہے تھے ۔
متعلقہ:
اسلامی معاشیات

تمام اسلامی جماعتوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہی اسلامی بغیر سود والا معاشی اور بینکاری نظام 1980 کی دہائی میں ضیاء الحق کے دور میں پاکستان میں نافذ کیا گیا تھا لیکن اسکا نتیجہ وہی صفر نکلا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور میں قومی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے اس نظام کو واپس سود پر کرنا پڑا تاکہ بین الاقوامی بینکوں کی طرف سے قرضہ اور سرمایہ کاری کروانے میں آسانی ہو:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_economics_in_Pakistan#Failure_and_collapse_of_the_system
 

Rehmat_Bangash

محفلین
متفق۔ اقبال کی یہ کتاب علم القتصاد یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے:
http://urdu-elibrary.blogspot.no/2013/06/ilm-al-iqtesaad.html

مجھے حیرت ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان کے باقی سیکٹرز کی طرح بینکاری اور معاشی نظام کو بھی اسلامی کیا گیا اور سود کے نظام کو ختم کیا گیا تو پھر کس طرح یہ پروگرام بینظیر اور نواز شریف کے دور میں معاشی نظام کی تباہی کے بعد بند کرنا پڑا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_economics_in_Pakistan#Failure_and_collapse_of_the_system

آخر کیوں یہ اسلامی معاشی و بینکاری نظام جو سود کے بغیر تھا، پاکستان میں ناکام ہوا اور قومی سطح پر بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکا؟

کتاب کا لنک فراہم کرنے کا شکریہ عارف کریم صا حب
 

الف نظامی

لائبریرین
تمام اسلامی جماعتوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہی اسلامی بغیر سود والا معاشی اور بینکاری نظام 1980 کی دہائی میں ضیاء الحق کے دور میں پاکستان میں نافذ کیا گیا تھا لیکن اسکا نتیجہ وہی صفر نکلا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور میں قومی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے اس نظام کو واپس سود پر کرنا پڑا تاکہ بین الاقوامی بینکوں کی طرف سے قرضہ اور سرمایہ کاری کروانے میں آسانی ہو:
میری نظر میں جب بھی کوئی نیا نظام قائم کیا جاتا ہے تو وہ بتدریج کامیابی یا ناکامی کی طرف بڑھتا ہے ، یکدم نہیں۔
موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لینا ہو تو اس ربط کو دیکھیے
مزید:-
سابق گورنر اسٹیٹ بینک یٰسین انور نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا نظام 1980ء میں قائم ہوا تھا اور اب ملک میں اسلامی بینکاری انڈسٹری 30% سالانہ کی شرح سے ترقی کررہی ہے جبکہ مجموعی بینکاری میں اسلامی بینکاری کا حصہ 10% اور اثاثوں کا حجم 8.5 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
بحوالہ : پاکستان میں اسلامی بینکاری کیلئے اقدامات ؛ ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
تمام اسلامی جماعتوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہی اسلامی بغیر سود والا معاشی اور بینکاری نظام 1980 کی دہائی میں ضیاء الحق کے دور میں پاکستان میں نافذ کیا گیا تھا لیکن اسکا نتیجہ وہی صفر نکلا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور میں قومی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے اس نظام کو واپس سود پر کرنا پڑا تاکہ بین الاقوامی بینکوں کی طرف سے قرضہ اور سرمایہ کاری کروانے میں آسانی ہو:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_economics_in_Pakistan#Failure_and_collapse_of_the_system

ٰیہودی کا ساتھ آپکا کیا واسطہ ہے ذرا کھل کربتائیے،
 

arifkarim

معطل
ٰیہودی کا ساتھ آپکا کیا واسطہ ہے ذرا کھل کربتائیے،
میرا یہودی کیساتھ وہی واسطہ ہے جو ہندو، بدھمت، زرتشت، عیسائی یا دہریا کیساتھ ہے۔ ہمارے ہاں خاص کر اسلامی حلقوں میں غیر مسلمین کیخلاف بغض اور تعصب عام ہے۔ یہاں مغربی آزاد سیکولر معاشروں میں بیسیوں سال زندگی گزارنے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت غیر مسلمین کیخلاف غیر فطری بغض، تعصب، حقارت، نفرت اپنے دلوں میں پالے رکھتی ہے جو گاہے بگاہے نئی پود میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ادھرنظریہ یہی ہوتا ہے کہ غیرمسلمین خاص کر یہودی و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے وغیرہ۔ اسکے باوجود جب ہجرت کی بات آتی ہے تو ہماری پہلی اور آخری منزل یہی "مشرکین" کے مغربی ممالک ہی ہوتے ہیں۔ وہ اسلئے کہ یہاں بلاجواز، بغیر کسی تفریق کے تمام حقوق انسانی مہیا ہوتے ہیں۔ امیر عرب تیلی ممالک سے بھی بہتر۔
اب آجائیں آپکے اصل سوال کی طرف۔ آپکو اس سوال کا جواب کسی بھی مغربی ممالک میں جاکر وہاں کچھ عرصہ زندگی گزارنےکے بعد ہی مل سکتا ہے۔ یہاں ہر فرد واحد خواہ وہ کسی بھی مذہب، فرقہ، مسلک سے تعلق رکھتا ہو کہ حقوق و فرائض یکساں ہو تے ہیں۔ کسی خاص مذہبی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں، کسی خاص قومیت رکھنے، کسی خاص زبان بولنے والوں کو یہاں کی جمہوری حکومتیں سیاسی و معاشرتی نشانہ نہیں بناتی۔ یہاں خواہ آپ مسلمان ہوں، یہودی ہوں، ہندو ہوں، عیسائی ہوں، آپکا دین آپکا دین ہوتا ہے اور میرا دین میرا دین۔ اسی لئے یہاں پر اسلامی لشکر، یہودی جنگجو، عیسائی دہشت گرد وغیرہ پیدا نہیں ہوتے۔ اور وہ تمام اقوام جو اپنے آبائی علاقوں میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں جیسے پاکستان اور بھارت، وہ یہاں خوشی خرم بغیر کسی تعصب اور نفرت کے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ اس نظام کو سیکولر جمہوری نظام کہا جاتا ہے جسکے خلاف تمام اسلامی جماعتیں متحد ہیں تاکہ مملکت خداداد پاکستان کو عراق اور شام کی خانہ جنگی میں تبدیل کیا جا سکے۔
 

x boy

محفلین
یہ بھائی میرا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں، یہودیوں سے ہم یہاں دبئی میں مال امپورٹ کرتے ہیں کیونکہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں انکے ہاتھ ہیں
ہم انکوں وقت پر ادائیگی کرتے ہیں وہ ہمیں پروڈکٹ دیتے ہیں ہم ان سے مال مفت نہیں لیتے وہ مختاج ہیں کہ وہ اپنا پروڈکٹ کسی طرح بھی بیچیں خریدنے والوں
کے پاس بہت سے متبادل ہیں کہ وہ کس کو خریدتے ہیں

مغربی دنیا میں بہت امن ہے لوگوں کے ساتھ معاملات اچھے ہیں معاشی تخفظ حاصل ہے جن کو تخفظ دے رہے ہیں وہ انکے لوگ ہیں اور بہت کچھ لیتے بھی ہیں
اسکول فری لیکن میڈیکل فری نہیں ہے اس کا انشورنس ہوتا ہے، لیکن ذندگی بڑے مزے کی ہے

آپ وہاں رہیں اور وہاں کو گن گائیں یہ تو آپ کا اول فرض ہے کہ جس تھالی میں کھائینگے اس کو سوراخ نہیں کرینگے، آپ کی ان لوگوں سے محبت اور گورنمنٹ کی چاہت میں اس کو کبھی برا نہیں سمجھونگا کیونکہ یہاں آکر آپ کو سب کچھ مل گیا ہے کیا کھویا وہ اللہ اور آپ جانتے ہیں میں اس کو نہ جاننا چاہتا ہوں اور نہ کوشش کرونگا۔

مسلمانوں نے اللہ کے ساتھ جھگڑا نہیں کیا، اور نہ ہی اس رب العزت جو جہانوں مالک ہے اس اکلوتے رب کی تعریف اسی طرح کی ہے جسطرح وہ اپنے احد ہونے کا حق رکھتا ہے ، ہم مسلمانوں اللہ کی تذلیل کبھی نہیں کی، میں ان لوگوں کی باتیں نہیں کررہا جو اسلام کا لباس پہن کر اسلام کو سرعام بیچتے ہیں،
چونکہ ہم مسلمانوں کا رشتہ اللہ سے اسی طرح ہے جسطرح وہ چاہتا ہے اس لئے مسلمانوں کی محبت بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہونی چاہیے
دنیاوی لخاظ سے میں ان کو اسی طرح دیکھتا ہوں جسطرح مسلمانوں کو حکم ہے، کئیں ایک ہندو، عیسائیوں، بدھ مت والوں کے ساتھ حلال کھانا کھانے کا اتفاق ہوا
اور کئیں ایک پارٹیوں میں یہود نصارا کے ساتھ بزنس ڈسکیشن بھی رہی، انکو کبھی یہ گمان ہونے نہیں دیا کہ وہ مسلمان ملک میں غیر تخفظ ہیں

ایک دو کو تو میں نے اللہ کے کلام کے ساتھ خط و کتابت بھی کی جومیرا کام تھا یعنی مسلمانوں کا کام۔ اور میں جھگڑا والی کوئی بات نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ سب سے پہلے ان لوگوں کو ایک اللہ کی طرف لاؤ یعنی کائنات کا مالک ایک ہی ہے اس طرف لانے کی کوشش کروں اگر وہ مان گئے اس بات پر آگئے کہ ایک ہی اللہ رب العالمین ہے اسی نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہی انتظام کائنات کرتا ہے اسی کے حکم سے سب کام ہوتے ہیں
پھر ان کو دعوت دو کہ اللہ رب العالمین نے انسانوں کے اندر ہر دور میں انسانوں کو شعور دینے کے لئے جو وہ بھول چکے رسول اور انبیاء نازل کیے ہیں اور عالمین کی آخری نبی اور رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو سب کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں، تھے ،،
جب اس بات پر متفق ہوجائے تو ان کے لئے نماز پانچ وقت لیل و النھار میں فرض کیے ہیں پھر روزے وغیرہ کا حکم۔

دبئی میں تو بہت آسان ہے کسی کو اسلام کی دعوت دینا، ماننا نہ ماننا اس کی مرضی، مجھے یورپ کا نہیں معلوم۔
باقی یہود دشمنی مسلمان نہیں یہودی کرتے ہیں تاریخ اٹھالیں اور جھانکیں تو ہمیشہ کافروں نے ہی جھنگ شروع کی ہے، اب تک تاریخ کا ایک ایک باب صرف انہیں لوگوں کے جھگڑوں کی بات کریگا جو غیر مسلم ہیں، اگر مسلمانوں میں بھی پھوٹ ہوئی کم عقلی کی وجہ سے تو لگائی انہی کی ہے،

ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ قطع تعلق ہوجائیں ہم اسی دنیا میں ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فرانس میں کورٹ کے اندر ایک باپردہ مسلمان عورت کی بے دردی سے قتل اور اس شخص کو کچھ کہا بھی نہیں گیا، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ چلتے پھرتے مسلمان عورت کو اس وجہ سے ذلیل کیا جائے کہ وہ باپردہ ہے یہ تو چند لوگوں کی شرارتیں ہیں جن کو بھلانا اچھی بات ہے اور ہمیں مختاط رہنا ہے،

یہود و نصارا وہ قوم ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تذلیل کی، ان میں لیڈروں کا ٖقصور ہے جیسے فرعون نے اپنے ساتھ اپنی قوم کو بی غرق کیا، جبکہ ملکہ سبا نے سلیمان علیہ السلام کی دعوت کو قبول کرکے اپنے آپ کو اور قوم کو بچالیا اس وقت اس کے قوم کے سرداروں نے کہا تھا کہ ہم لوگ تیار ہیں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے، اس کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے جسکوں اللہ نے زمین اور ہوا کے مخلوق پر بھی حکومت دی تھی۔

ہمیں اللہ پاک نے جن سے منع کیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے رکنے کیلئے کہا گیا ہے ان سے رک جانا ہی بہتر ہے
اور جس کی اجازت دی ہے وہ ہی بہتر ہے،
یہ سارا معاملہ سود کا ہے بنی اسرائیل نے عیسی علیہ السلام کی بغاوت اس لئے کی کہ وہ یہودیوں کے علماء کو سود سے روکتے تھے اور ڈھیڑ سارے ایسے واحیات کام کرتے تھے جو انسانیت کے خلاف ہے اور ان یہودیوں نے اپنے نبی کو چھوڑ کر رومیوں کو دعوت دی کہ ان کی قوم میں ایک ایسا شخص ہے جو ان کی حکومت میں بغاوت کررہا ہے باقی تو ہم سب جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کیا ہوا،

عیسی علیہ السلام کی رخصتی کے چھ سو سال تک کوئی رسول یا نبی نازل نہیں ہوا ، اسی دوران بنی اسرائیل کے کچھ علماء یہ دعاء کرنے لگے کہ کوئی رسول آئے اور ہمیں راستہ دکھائے، ان کے کچھ لوگ مدینۃ المنورہ کی طرف ھجرت کی اور وہاں بس گئے کیونکہ انکے صحیفے میں کچھ اسی جگہہ کی نشاندہی کی گئی تھی
یہودیوں کو بہت تکبر ہے اور یہی تکبر انکو لے ڈوبتی ہے اس دفعہ بھی یہی ہوا، اللہ نے عرب میں بنی اسمائیل علیہ السلام کی روٹ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا خاندان مدینۃ المنورہ میں بسے ہوئے تھے اور والد کا تعلق مکۃ المعظمہ سے تھا،

جب ان یہودیوں تک اس بات کی خبر ہوئی تو وہ اس تکبر میں بغاوت کردی کہ وہ ان کی قوم بنی اسرائیل سے کیوں مبعوث نہیں ہوئے،
وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح جانتے تھے جیسے وہ اپنی اولادوں کو جانتے تھے، بس تکبر ہی انکو لے ڈوبا۔
اور اس بغض میں یہودیوں نے کیا کیا چال چلی پوری تاریخ گواہ ہے اور یہ اپنے چال میں بہت ہوشیار اور تیز ہوتے ہیں کچھ عرصے مسلمانوں کے ساتھ
براہ راست لڑکر دیکھا شکست کھائی ،، جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو شکست دینا ممکن نہیں تو انہوں نے وہ کام شروع کردیئے جیسا ابلس شیطان کرتا ہے
اور اب تک چل رہا ہے۔

اگر کوئی بات اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کے علاوہ محسوس ہوا ہے تو معذرت ، تصحیح کی درخواست،
میں یہودیوں کو کبھی اپنا دوست و شفیق نہیں بنا سکتا میرا راستہ اور انکا راستہ ایک نہیں، لیکن ان کے ساتھ دنیاوی امور جو چلا آرہا ہے جس کے کرنے سے میرے ایمان میں کوئی خرابی نہیں آتی اسکو نبھائوں گا ، ان شاء اللہ

واللہ اعلم
 

arifkarim

معطل
مغربی دنیا میں بہت امن ہے لوگوں کے ساتھ معاملات اچھے ہیں معاشی تخفظ حاصل ہے جن کو تخفظ دے رہے ہیں وہ انکے لوگ ہیں اور بہت کچھ لیتے بھی ہیں
اسکول فری لیکن میڈیکل فری نہیں ہے اس کا انشورنس ہوتا ہے، لیکن ذندگی بڑے مزے کی ہے

آپ وہاں رہیں اور وہاں کو گن گائیں یہ تو آپ کا اول فرض ہے کہ جس تھالی میں کھائینگے اس کو سوراخ نہیں کرینگے، آپ کی ان لوگوں سے محبت اور گورنمنٹ کی چاہت میں اس کو کبھی برا نہیں سمجھونگا کیونکہ یہاں آکر آپ کو سب کچھ مل گیا ہے کیا کھویا وہ اللہ اور آپ جانتے ہیں میں اس کو نہ جاننا چاہتا ہوں اور نہ کوشش کرونگا۔


یہاں میڈیکل بھی فری ہے۔ بس ایک حد تک سالانہ فیس جمع کروانی ہوتی ہے ڈپوزٹ کی صورت میں۔ باقی علاج مفت ہوتا ہے۔

جہاں تک معاشی صورتحال کا تعلق ہے تو وہ تو پوری مغربی دنیا میں اسوقت ڈاواں ڈول ہے۔ مسئلہ وہی ہے سودی قرضہ کا عالمی نظام۔
 

x boy

محفلین
10154168_696244473754838_934808353_n.png
10154175_648656565213917_1514857365_n.jpg
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
یہ جماعت اسلامی کی فنڈنگ کون کون سی بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں؟ مصر کے اخوان المسلمین کا تو مجھے پتا ہے۔ باقی ممالک تلاش کرنے پڑیں گے۔
 
Top