]میں کسی مذہبی بحث ميں ملوث ہونے کا متمنی نہيں ہوں کيونکہ جو موضوع زير بحث ہے وہ اس احاطے ميں نہيں آتا۔
س کے علاوہ امريکی سفارت خانے کی جانب سے اس تقريب کے انعقاد کا مقصد اور ان کی نيت کسی بھی موقع پر مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئ بيان دينا، کسی مذہبی تعليم کو چيلنج کرنا يا کسی تنازعے کو جلا دينے کی ہرگز نہيں تھی۔ يہ محض امريکی حکومت کی عوامی سطح پر جاری سفارتی کوششوں کا حصہ تھی جس کا مقصد معاشرے کے ہر فرقے اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر اثر انداز ہونے والی بنيادی انسانی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کے ضمن میں ہمارے مصمم ارادوں کا اعادہ کرنا تھا۔
دنيا بھر ميں ہمارے سفارت خانوں، قونصل خانوں اور سفارتی مشنز کے مقاصد ميں يہ شامل ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ممالک کی رضامندی سے طے شدہ فریم ورک اور سفارتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہماری قدروں کو اجاگر کر کے بہتر شعور کو فروغ ديں۔ امريکی سفارت خانے ميں منعقد کی جانے والی تقريب نا تو اس اصول سے ماروا تھی اور نا ہی يہ کسی خاص ملک يا خطے سے متعلق تھی۔ جيسا کہ میں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی طے شدہ حدود کے اندر کی گئ تھی اور اس ميں کسی کو بھی شرکت کے لیے مجبور نہيں کيا گيا تھا۔
امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
[/QUOTE]فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
میں کسی مذہبی بحث ميں ملوث ہونے کا متمنی نہيں ہوں کيونکہ جو موضوع زير بحث ہے وہ اس احاطے ميں نہيں آتا۔ اس کے علاوہ امريکی سفارت خانے کی جانب سے اس تقريب کے انعقاد کا مقصد اور ان کی نيت کسی بھی موقع پر مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئ بيان دينا، کسی مذہبی تعليم کو چيلنج کرنا يا کسی تنازعے کو جلا دينے کی ہرگز نہيں تھی۔ يہ محض امريکی حکومت کی عوامی سطح پر جاری سفارتی کوششوں کا حصہ تھی جس کا مقصد معاشرے کے ہر فرقے اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر اثر انداز ہونے والی بنيادی انسانی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کے ضمن میں ہمارے مصمم ارادوں کا اعادہ کرنا تھا۔
دنيا بھر ميں ہمارے سفارت خانوں، قونصل خانوں اور سفارتی مشنز کے مقاصد ميں يہ شامل ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ممالک کی رضامندی سے طے شدہ فریم ورک اور سفارتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہماری قدروں کو اجاگر کر کے بہتر شعور کو فروغ ديں۔ امريکی سفارت خانے ميں منعقد کی جانے والی تقريب نا تو اس اصول سے ماروا تھی اور نا ہی يہ کسی خاص ملک يا خطے سے متعلق تھی۔ جيسا کہ میں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی طے شدہ حدود کے اندر کی گئ تھی اور اس ميں کسی کو بھی شرکت کے لیے مجبور نہيں کيا گيا تھا۔
امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
قربان جاؤں آپ کی منطق اور استدلال کے۔ ہم جنس پرست اگر انسانی معاشرے کا حصہ ہیں اور آپ جس طریقے سے ان کی وکالت یہاں کرنے چلے آئے ہیں اور اس گندے فعل کو ارتقاء کا عمل قرار دے رہے ہیں تو چور ، ڈاکو ، رسہ گیر ، قاتل اور اسی قماش کے دیگر رذیل بھی تو اسی انسانی معاشرے کا حصہ ہیں تو پھر آئیے ان کے لئیے بھی تنظیمیں بنائیے کیوں کہ یہ بھی تو ارتقاء کے عمل میں معاشرے کے دیگر طبقوں کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ ان کے پاس بھی اپنے جرائم کی وکالت کرنے کے لئیے کوئی نہ کوئی دلیل تو ہوتی ہے۔ جن کے خلاف آپ نے جنگ چھیڑ رکھی ہے وہ بھی تو معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے پاس بھی اس کی ایک سے زیادہ دلیلیں ہیں۔ شاید ان کا ارتقاء انہیں قاتل بنا گیا ہو اس لئیے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ ان سے لڑائی کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کی جائے تا کہ معاشرے سے تشدد ختم کیا جا سکے؟۔اور کیا معلوم یہ ارتقاء آنے والے وقتوں میں کس کو کیا بنا دے۔امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
کسی جہاں دیدہ انسان نے کہا تھا کہ جب دلیل نہ ہو تو انسان تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔اپنی جارحیت کے حوالے سے افغانستان کے ویرانوں سے لے کر عراق کے نخلستانوں یا پھر اقوام متحدہ کے ایوانوں تک امریکہ کبھی بھی دلیل سے کسی کو قائل نہیں کر سکا۔ اندھی طاقت کے استعمال سے تشدد کو فروغ دیتا جا رہا ہے۔ اور اب محفل پہ بھی ہم یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ دلیل ندارد تضدید وافر۔برادرم فواد !
آپ کی تمام وضاحتیں اور بیانات تضادات کا ایک حسین شاہ کار ہوتے ہیں
میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں محفل پر موجود امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے جو آپ نے بیانات جاری کیے ہیں ان سب کا مجموعہ تاریخ وار تیار کرکے شائع کرنا چاہیے
یقینا یہ امریکہ اور پاکستان دونوں کی عوام کے لیے خاصی دلچسپی کی چیز ہوگی