نیز اگر اس قسم کی کوئی تقریب بھی تھی تو امریکہ یہ تقریب اپنے ملک میں بھی منعقد کرسکتا تھا دیگر ممالک کو اس گند میں ملوث کرنے کیا ضرورت تھی جو جو لوگ بھی اس جرم کے عادی اور مبتلا تھے انہیں امریکہ مدعو کرلیا جاتا
بھلے آپ نہ مانیں لیکن امریکہ جان بوجھ کر یہ چاہتا ہے کہ دیگر ممالک کی عوام میں اس کے خلاف رد عمل اور شدت پسندی پیدا ہو تاکہ امریکہ اپنے اہداف اور مقاصد کو پورا کرسکے
خفیہ جنگ کا کُہر...ڈاکٹرملیحہ لودھی
جون 2011ء کو امریکی صدر بارک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جس اسٹریٹجی کا اعلان کیا وہ اپنے متن کے اعتبار سے تو کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن درپردہ ان کا اشارہ اور عندیہ کس طرف ہے اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہوگا۔ اس اسٹریٹجی کا بنیادی نکتہ دراصل اس براہ راست اور اہم خطرات سے متعلق ہے جو امریکہ کو القاعدہ سے لاحق ہیں۔
19 صفحات پر مشتمل اسٹریٹجی کی اس دستاویز کو پیش کرتے ہوئے بارک اوباما کے اعلیٰ مشیر برائے انسداد دہشت گردی جان برینن کا کہنا تھا کہ امریکہ کا بہترین جارحانہ رویہ ہمیشہ ہی بیرون ملک بڑی تعداد میں افواج کی تعیناتی نہیں بلکہ فوجی دباؤ کو برقرار رکھتے ہوئے اہداف کے حصول سے متعلق رہا ہے۔ یہ فوجی دباؤ ان گروپوں کے خلاف برقرار رکھا جاتا ہے جو امریکی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دو ڈھائی برس میں یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ امریکی پالیسی کسی بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے اور اب اس نے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلتوں کے بجائے اس بات کو زیادہ اہمیت اور ترجیح دینا شروع کردی ہے کہ ایسی تمام کارروائیوں کو خفیہ اور پوشیدہ رکھا جائے۔ بہرحال اسٹریٹجی کے حوالے سے کی جانے والی اس دستاویز میں اس اسٹریٹجی پر عملدرآمد کی بابت بہت ہی کم بتایا گیا ہے۔ کیا اس اسٹریٹجی پر کسی خفیہ اور پوشیدہ جنگ کا سہارا لیا جائے گا جس میں مسلح ڈرون حملے اور اسپیشل آپریشن فورسز کی کارروائیاں شامل ہوں گی؟ جان برینن نے اپنی اس دستاویز میں یہ اعتراف ضرور کیا ہے کہ ان کارروائیوں میں بغیر پائلٹ کے فضائی طیارے حصہ لیں گے جو دہشت گردی کے خطرہ کے خلاف ہمارے انوکھے ہتھیار ثابت ہوں گے۔
واشنگٹن پہلے ہی ان خفیہ ڈرون حملوں کو چھ ممالک یعنی افغانستان، پاکستان، یمن، لیبیا، عراق اور صومالیہ میں آزماچکا ہے، ان حملوں کی توسیع ان ممالک کی قومی خودمختاری کے خلاف ایک سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب ہے جو امریکہ کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اسٹریٹجی کی اس دستاویز میں ”علاقائی سیکورٹی شراکت داری“ کی تشکیل و تعمیر پر جو زور دیا گیا ہے وہ حقائق اور واقعات کو دیکھتے ہوئے کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مذکورہ اسٹریٹجی میں ان خطرات، حدود اور نتائج کا بھی قطعاً کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا جو امریکہ کو ان ممالک کے خلاف خفیہ کارروائیوں کی صورت میں لاحق ہوں گے، جن کے امریکہ کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں اور جن سے امریکہ کی کوئی جنگ نہیں ہے۔ اس بات کا بھی کوئی اعتراف نہیں کیا گیا کہ اگر اس راستے پر عملدرآمد کیا گیا تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے سیکورٹی مقاصد اور اہداف میں نمایاں کمی واقع ہوجائے گی اور ان ممالک میں امریکہ کے خلاف سخت نفرت کے جذبات جنم لیں گے، جن کا تعاون القاعدہ کو ختم کرنے کی غرض سے امریکہ کو درکار ہوگا۔
ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں پر بڑھتے ہوئے انحصار نے بڑی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں کیونکہ اوباما انتظامیہ نے ان حملوں کو دیدہ و دانستہ منتخب کیا ہے اور ہائی ویلیو ٹارگٹس کی مختصر تعداد کی بجائے ان حملوں میں ڈرامائی پیمانے پر کافی توسیع کرکے بڑی تعداد میں لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اوباما انتظامیہ نے یہ منصوبہ جارج بش کی اسٹریٹجی کی جگہ لینے کی غرض سے پیش کی ہے جو اسامہ بن لادن کی وفات کے بعد منظر عام پر آیاہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یہ اسٹریٹجی انتہائی اہم اسٹریٹجک سنگ میل ہے جو القاعدہ کو شکست فاش سے دوچار کرنے کی غرض سے وضع کی گئی ہے۔ اگرچہ القاعدہ اپنی شکست کے خطرے سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی اسے ایک نمایاں خطرہ تصور کیا جاتا ہے جس کے خاتمے کی غرض سے ایسی ہدف یافتہ فورس ضروری ہے جو اس اسٹریٹجی کے عین مطابق ہو۔ جان برینن نے اسٹریٹجی دستاویز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ القاعدہ کو شکست دینے کیلئے کسی عالمی جنگ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے مخصوص علاقوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ فی الوقت امریکہ نے اپنی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز کررکھی ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کے محفوظ ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب امریکہ کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کرتے ہوئے ڈرون طیاروں کے میزائل حملوں میں مزید شدت پیدا کی جائے گی اور پاکستان کے قبائلی اور سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا جائے گا جس کے سبب پہلے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہوچکے ہیں۔
ڈرون طیاروں کے ذریعے کئے جانے والے ان حملوں پر امریکی حکومت کا بڑھتا ہوا انحصار نسبتاً ایک کم خرچ طریقہ تصور کیا جارہا ہے جس میں امریکیوں کی زندگی کو قطعی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا کیونکہ ڈرون طیارے بغیر کسی پائلٹ کے پرواز کرتے ہیں۔چونکہ اس امریکی اسٹریٹجی کا ابھی باقاعدہ طور سے کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا گیا لہٰذا اس پر بین الاقوامی قانون کا اطلاق فی الوقت نہیں ہوتا۔ حالانکہ واشنگٹن اس بات پر مصر ہے کہ اسے ان افراد کو ہدف بنانے کا قانونی حق حاصل ہے جو امریکہ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس قسم کے اہداف کو قتل کرنے کا سلسلہ سب سے پہلے اسرائیل نے شروع کیا تھا اور مقبوضہ علاقوں نیز لبنان میں کوئی تین عشروں تک وہ اس حربے پر عمل کرتا رہا تھا۔ بہرنوع وہ فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ چنانچہ اس نے اس طریقے کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ امریکہ نے خفیہ حملوں کی جو تازہ ترین اسٹریٹجی تشکیل دی ہے اس کے تین پہلو خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ان حملوں کی حدود کیا ہوں گی؟ دوم، اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ اور سوم، یہ کہ اس قسم کے حملوں کا پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر کیا اثر ہوگا؟ اس اسٹریٹجی میں صرف ایک ہی سمت کے بارے میں غوروفکر کیا گیا ہے یعنی کتنے عسکریت پسند اور دہشت گرد ان ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں؟ اس اسٹریٹجی میں اس چیز کی بابت سوچا ہی نہیں گیا کہ اس کے نتیجے میں مزید کتنے افراد ان دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرلیں گے؟ علاوہ اس دستاویز میں نظریاتی اور سیاسی سمت کے حل کی جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ وہ کون سے حالات ہیں جو ان دہشت گردوں کو پروان چڑھاتے ہیں؟
امریکن سی آئی اے کے ایک جائزے کے مطابق فی الوقت پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں دو سو سے لے کر تین سو کے قریب القاعدہ کے جنگجو موجود ہیں۔ اگر ایسا ہے تو 2004ء سے لے کر اب تک 257 میزائلوں کے حملے پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں پر کئے جاچکے ہیں جس کے نتیجے میں اس تحریک کے بیشتر لیڈروں اور ارکان کا خاتمہ ہوجانا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
امریکی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے یہ ڈرون حملے جنگجو نیٹ ورکس کو یہ ترغیب فراہم کریں گے کہ وہ اسے ایک مشترکہ مقصد تصور کرتے ہوئے القاعدہ سے اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں سویلین افراد ہی ہلاک ہوتے رہے ہیں جن کی بنا پر القاعدہ کو اپنے مقامی اتحادیوں پر سبقت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ القاعدہ کو الگ تھلگ کرنے کا یہ مقصد اس کے کہُرے میں ہی پوشیدہ نہ رہ جائے؟ اس قسم کے یکطرفہ ڈرون حملے متعدد نتائج کا سبب ہوئے ہیں جن میں سے نمایاں ترین یہ ہے کہ اس طرح مقامی آبادی میں امریکی حکومت کے خلاف مخالفانہ جذبات نے جنم لیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 62 فیصد پاکستانی باشندے ان امریکی حملوں کے خلاف ہیں جبکہ 89 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ ڈرون طیاروں کے ان حملوں میں زیادہ تر معصوم شہری مارے جاتے ہیں۔ اس ماحول اور فضا میں امریکی حکومت کے دہشت گردی کے خلاف یہ اقدامات کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے، نہ ہی اسے وہ تعاون فراہم ہوسکتا ہے جس کی وہ امید لگائے بیٹھا ہے۔ انسداد دہشت گردی صرف اور صرف اچھی اور ٹھوس انٹیلی جنس کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی۔ بہرنوع واشنگٹن نے اس اسٹریٹجی کے طویل میعاد نتائج اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو سرے سے نظرانداز کردیا ہے۔ ان تمام نتائج سے بے خبر اوباما انتظامیہ ایک ایسے راستے پر چل رہی ہے جو اس دستاویز میں بیان کئے گئے۔ اس کے اپنے الفاظ سے کافی مختلف اور متضاد ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ”ہم القاعدہ کو پاکستان کی مستقل شراکت داری کے ذریعے شکست فاش سے دوچار کریں گے“۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=541702