اسلام اور آج کا نظام

صرف علی

محفلین
مقدمہ​

اللہ تعالی نے انسان کو آزمائش کے لئے خلق فرمایا اور دنیا کو گزرگاہ قرار دیا تاکہ انسان کی اخروی جگہ' آخرت'میں اس کو سزا یا جزا دی جائے ۔ اسی لئے مجر م اور نیک اشخاص کو آزاد چھوڑدیا ورنہ اگر مجر م کو گناہ کے ترک کر نے پر مجبور کیا جاتا توانسان مجبور ہوجاتا تو اس صورت میں ثواب وعذاب کا کو ئی فائدہ نہ ہو تا اس وقت انسان انسان نہ ہو تا بلکہ اس پتھر کی طر ح ہوتا جواپنے طبعی وزن کے ساتھ ہوتا ہے اور کسی جبرکے مقابلے کی صورت میں صلاحیت نہیںرکھتا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسا ن کی دوطرح سے ہدایت فرمائی ہے : ١۔ ہدایت باطنی و وجدانی جو انسان کو ہمیشہ ڈراتی ہے کہ تم گمراہی کے راستے پر ہوغرضیکہ زندگی کے ہرقدم پر اسکی ہدایت کرتی ہے پس باطنی ہدایت آنکھ کی طرح ہے کہ جو جس چیز کو دیکھتی ہے دل کو گزارش کرتی ہے چاہے انسان اس مشاہدہ پر عمل کرے یا نہ کرے مثلا ً اگر آنکھ شیر کو دیکھے تو ا نسان سے کہتی ہے کہ یہ شیر ہے اس سے دوری اختیا ر کرو اب چاہے وہ انسان دوری اختیا ر کرے یا نہ کرے۔اگر باطن کسی ظلم کو دیکھتا ہے کہ یہ ظلم ہے اب چاہے وہ اس کو انجام دے یا نہ دے یہ ہے پہلی ہدایت ٢۔ دوسری ہدایت کہ جو خدانے پیغمبروں علیہم السلام کے ذریعہ انسان کو عطا کی، چونکہ انبیاء علیہم السلام وحی الہی کے ذریعہ جانتے تھے کہ کس طرح انسانی زندگی گزاری جائے ؟اگرکوئی انسان اس راہ کو 'جو پیغمبر وں علیہم السلام نے بتائی ہے' انتخاب کرے تو وہ دنیا میں سعادتمنداور جہل کی آلودگی ، بیماری ،فقر ،سزا،ذلت ورسوائی سے محفوظ رہے گا ۔ اور آخرت میں اسلامی نظام کے علاوہ کو ئی اور نظام انسان کو سعادت اور خوشبختی کا پروانہ نہیں دے سکتا ۔ یہ کتاب (اسلام اور جدید نظام ) ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ جس میں اسلا می نظام اور دیگر تما م نظاموں کو پیش کیا گیا ہے اگرچہ تما م غیر اسلامی نظام ایک ہی نکتے یعنی سیسٹم سرمایہ داری پر ملتے ہیں ۔ البتہ فرق ہے سیسٹم سرمایہ داری فردی و سیسٹم سرمایہ داری حکومتی سیسٹم سرمایہ داری (کمیو نسٹی) میں۔ اور ان کے ہم پلہ نظام بادشاہت میں یہ تمام چیزیں آشکار ہیںاور وہ چیز جو سامراجی اور امپریالسی کے طرض نظام کی طغیا نیت کی وجہ سے جو تمام مراحل میں معرض وجودمیں آتا ہے۔ خدا وند متعال سے دعا ہے کہ وہ انسا ن کو اسلامی نظام اور مسلمین کی پیروی کرنے کی ہدایت دے جو ہر طرح سے انسانی معاشرت کے لئے دونوںجہانوں دنیا و آخرت میں خیر وسعادت اور کامیابی ہے وہو المستعان ۔​

التماس دعا
آیۃ اللہ العظٰمٰی السید محمد الحسینی شیرازی(رح)
 

صرف علی

محفلین
(کارزار دو عناصر )​
عرصہ کائنات میں یہودی و نصرانی دو دین ظاہر ہوئے ہیں جیسے حضر ت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام لائے تھے ۔ ان کو خدا وند متعال کی طرف سے انسان کی اصلاح وہدایت ، جہاں میں صلح وامن کے قیا م اور دنیا وآخرت میں لوگوں کو سعادتمندی کی بلندیوں تک پہنونچانے کے لئے بھیجا تھا ۔ (مگر) افسوس کہ ان دوعظیم پیامبروں کے معاصرین گمراہ ترین وخود پسند ترین انسان تھے ۔ مثلاً فرعون حضرت موسی علیہ السلام اور یہودی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ہم زمان تھے ۔ جہالت وخود پسندی کی دلدلوں میں پاؤں سے لے کر سر تک پھنسے ہوئے تھے۔ لہذا پیغمبروں کو ڈھیل نہیں دی تاکہ وہ حقیقت کو روشن اور دین خدا کوآشکار اور انسان کی سعادت ابدی کے لئے پروگرام بناتے رہیں ۔ اس کے بعد ان دو ادیا ن کے پیروکاروںتک نوبت پہنچی ، جو معاصرین کی تاریخی شہادت کی روسے کو ئی نچلی سطح کے منکر نہ تھے ۔انھوں نے تو روز اول سے ہی ان دینوں میںتحریف کا ارتکا ب کیا اور اس کے بعد خود غرضی اور خود طمعی کے ساتھ بغیر پہیے کے زندگی کی گاڑی کوڈھکیلتے رہے ۔ مثلاً یہودیوں کی نافرمانی ، ادارہئ تحقیق عقاید مسیحی (inquisitions) وغیر ہ کا ضرر (نقصان ) بشریت کے لئے فرعون او رمعاصرین حضرت مسیح علیہ السلام سے کچھ کم نہیںتھا ۔ اگر نہ بھی کہیں تو بھی زیادہ تھا ۔​
(دین اور دنیا )​
مذکورہ دو ادیا ن کے پیروکا ر وں کی یہ بھی ایک کج رفتاری وناہنجاری تھی کہ دین کو دنیا سے جدا کردیا اور صرف آخرت اور وجدان کے ساتھ اس کو وابستہ قراردے دیا۔ لہذا انھوں نے کہا (چھوڑدو ،جو قیصر کا ہے وہ اس کو مبارک اور جو خداکے لئے ہے وہ اس کے لئے مناسب ) اس دوران بدلے ہوئے دین نے مظالم ، گمراہیوں ، کمر توڑ ٹیکسوں،تخت نشین پوپ کے برابر آدابوں کے ذریعے لوگوں کے قدم ڈگمگادئے اور (ان کے ) افسانوی چہروںاور باؤلاپن کی حالت میں اپنے پنجہ گرفت میں پھانسا ڈالا ۔ لہذا دانشورومفکرین ہمیشہ اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ اپنے آپ کو اس آفت سے نجات دلائےں۔مصنف کتاب (عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن ) فرماتے ہےںکہ : ''امریکی لوگوں نے مظالم کلیساسے رہائی پانے کے لئے بارہ ہزار قربانیاں پیش کیں ۔'' خلاصہ یہ کہ عدالت، امن ، استقرار اور بھلائی جیسے امور جو ہرانسان ان کی تلاش میں رہتا ہے ان دوادیان کی روشنی میں شاذ ونادر نظر آئے تھے۔​
(نوید اسلام )​
یہاںتک کہ اسلام کا سورج نکلا ،جس کا شعا ریہ تھا کہ خداتعالی نے انسان کو اعزاء واقارب کےلئے انصاف ، حسن سلوک اور ان کی پرسان حالی کا حکم دیا ہے اور برائی ،بے حیا ئی اور پلیدی سے روکا ہے ۔ اس طرح لوگ اسلام کے ارگردگرد جمع ہوگئے ۔اسلام نے استحصالی قوتوں کی زنجیر و ںکو توڑ دیا اور دوسری طرف سے اسلام نے انسان کی حالت، خاندانی فضاء اور لوگوں کے اجتماعی روابط کو جس انداز سے منظم واستوار کیا کہ اس کی مثال نہ اسلام سے پہلے اور نہ اس کے بعد ملتی ہے ۔ اسلام نے نبی(ص) اور امام علیہ السلام میںعصمت کو مشروط قراردیا،اوررہبر ،حاکم اور قاضی میںعدالت وپاکیزگی کا اعتبار کیاہے ۔ اور خو د قانون اور اس کی توانائی جو کہ زندگی کے شعبوں کے نظم ونسق پر (مرتب ہوتی ہے وہ رہبر ، حاکم اورقاضی کی ) عدالت سے زائد اور الگ ہے ۔ اسلام کی دور اندیشی اور گہری نظر یہ تھی کہ نظام کو' ایک اندرونی نگہبانی ،جو تکوینی توانائی سے انسان کے اندر موجود ہے،اسے وابستہ کردیا ۔ اس طرح جب کوئی مثقال بھر اچھا یا برا عمل کرتاہے تو (وہ باطنی نگہبان ) اس کی جزاوسزا کو دیکھتا ہے ۔ (چنانچہ )اگر مسلمانوں کے حقیقی پیشوا حضرت علی علیہ السلام کو ساتوں آسمان اس لئے دئے جائیں کہ وہ چیونٹی کے دہن سے ''جَو'' کا چھلکا چھینیں تووہ ہرگز ایسا نہیں کرینگے ۔ اور اسلام عظمت مادی وشوکت سلطانی کو ناپسند کرتا ہے کیونکہ اس طرح کا ٹھاٹ باٹ،رعب ودبدبہ اس کو لوگوں کی داد رسی کی راہ سے روکتا ہے ۔ چنانچہ پیغمبر(ص)،امام علیہ السلام اور دیندار حاکموںان کے پیروکاروںکی زبان حال یہ تھی کہ''میں بے سرو سامان ہوں اوربے سروسامان ہم نشینوں کے ساتھ بےٹھتا ہوں'' اسلام اس پر حکمت طرز عمل کے ذریعہ نظام اور قوۃنفاذ میںیہ کرسکتا تھا کہ انسان کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلے۔ حتی کہ اس بلندی تک پہنچائے جس کو ہم خود بھی حق ہی سمجھیں کیونکہ اسلام کی رو سے جوانسان ہے اور دوسرے مکاتب کی روسے انسان، کے درمیان وہی نسبت ہے جو انسان اور بندر میںہے اور شاید یہ بھی نسبت نہ ہو کیونکہ بندر بھی کچھ موارد میں انسان سے شباہت رکھتا ہے ۔ لہذا'' پلد یواراث'' اسلام کے بارے میں کہتا ہے :'' اسلام مردوں کو انسانوں، عوام کولائق ہم وطنوں، خالی سینوں کو آرزومندوں بہادروں اور مطمئن ومعتمد عقلوں کو بدلنے میں کامیاب ہوگیا ۔ اسلام نے وہی کچھ چھوڑا ہے جو انسان کی دانائی اور بلندی کی ترقی کے لئے ہوسکتا تھا '' اس سے پہلے قرآن کریم نے فرمایا ہے:( یہ پیغمبر تمہیں اس چیز کی طرف بلاتا ہے جو تمہاری نگاہ کو زندہ رکھے)دوسری آیت میں فرماتا ہے :( وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ گمراہ ترہیںبس انسان بغیر اسلام کے حیوان سے زیادہ بدتر تھا اورمردہ وبے روح تھا ۔​
 

صرف علی

محفلین
(استعمار کی فریبکاری )​
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے تمام شعبوں میں عمل کرنا ترک کردیا تھا جس زمانے میںخواب وغفلت اور خود غرضی نے تمام اسلامی سرحدوںکو گھیرلیا تھا ، تو لوگ اپنے پیشروکاروان سے پیچھے رہ گئے تھے ۔اگر چہ ان کی حکومت اب تک استوار و قائم ہے جس کے زیر سایہ برائے نام عزت ، آن بان اور استحکام رکھتے ہیں ۔ مگر جس دن سے کلی طور پر اسلام کی پیروی کی چادر اتا ر پھینکی اور قوانین آسمانی و الٰہی کو مغربی وانسانی قوانین میںبدل ڈالا تو ایک اےسے کٹھن مرحلے میں داخل ہوگئے جبکہ امت ان کی طرح اس میں گرفتا ر نہ ہوئی اور نتیجۃً ان کی حکومت ، استقلال ،سلطنت اور سعادت سب مرمٹ گئی اور ( دوسری اقوام ) میں جاملے اور بکھرے پرزے کے مانند ہو کر رہ گئے تاآنکہ ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگا ہے ۔ اور دوسری طرف سے کافر حکومتیں اپنے استعمار کے ذریعہ ان کی ہلاکت کی گھات میں ہیں ۔اور احتکاری سوسائٹیاں بھی ان سے مفاد حاصل کررہی ہےں ۔ اور بیچارے کوئی یار و مددگا ر نہیں پاتے نہ آسمان میںاور نہ روئے زمیں پر۔ بالآخر کچھ فرانس کا نصیب ،کچھ برطانیہ،بعض سویت یونین کے اجزا اور چند امریکا کے اور کوئی حصّہ کافر ،غیر مسلم حکومتوں کے ہاتھ آیا جیسے ہند ،ایتھوپیا ،کچھ حصہ یہود اور کچھ امپیریلزم کے تحت دار پر چڑھ گئے اور آگے اسی طرح بٹتے رہے۔ کچھ لوگ تو حقائق تک پہنونچ نہیں پاتے ،گمان کرتے ہیں کہ ان دشمنوں کی گستاخی میں خسارہ و نقصان ہے۔(ہاں)مگر دو پہلوؤں سے مسلمانوں کو (ہی) فائدہ پہنچے گا:
١۔تمدّن ،تہذیب وصنعت کا پہلو۔
٢۔صلح،استقرار و امن کا پہلو۔
لیکن ان لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے کہ پہلا پہلو یہ ہے کہ اگر مسلمان اسلام کی پیروی کرتے تو تمام جہتوں سے قوی ترین،بہترین متمدن حکومتوں کے مالک ہوتے۔اور آیا اس حال میں جو مثلاً جب ریتیلی اور غیر آباد زمین دس دینار سے دس ملین تک پہنچ چکی ہو اور آباد زمین ایک ہزار سے دس ہزار دینار تک پہنچ چکی ہو توکہہ سکتے ہےں کہ آباد زمین مہنگی ہوچکی ہے ؟
شرق وغرب سخت زبوں حالی کا شکار ہوگئے تھے اور یہ ان کی پیش قدمی دوسری دفعہ کا ثمرہ ہے اورمسلمان ان خوابوں میں ہی رہ گئے کہ ان کی شاہراہیں ڈامر کے ساتھ پختہ اور ان کے بعض مصالح استوار ہوچکے ہیں ۔ افسوس کہ یوں بے آبرو اورایک افتادہ قوم بنے رہ گئے۔ مگر دوسرا پہلو ایک انگریز مفکر نے اپنے عزائم ہمارے متعلق رکھنے کے بارے میں ( ظاہر کیا ہے ) اور ( بڑی بات تو یہ ہے کہ ) انگریزوں کے زیر تسلط رہنے سے ہمیںکیا ملا ہے 'غور سے سنئیے ، یہ شخص ( ویلزید سکاون بلنت ہے) کہتا ہے : ''سواے ظلم و ستم ،سیا ست اذیت و آزار کے ہم سے کو ئی اور امید نہ رکھیں ،ہم تمہارے مالوں کو چھینیں گے اور تمہار ے اخلاق کو فاسد کر یں گے' ہم تمہیں ایک ایسے جہنم میںجو ہند کی طرح ہو گا (کیو نکہ وہ بھی ہماری پیروی میں ہوا ہے)میں ڈلوائیںگے ،ہم تمہارے لئے اچھائی نہیںچاہتے اور ہماری طرف سے تم پر نہ قانون ،نہ آزادی خواہشات ، نہ آزادی تعلیم اور حتی مانچسٹر کے مالیخولیا کے مریض جو لاہوںکے سبب شخصی آزادی بھی تم پر عائد نہ ہوگی ، یہودی و انگریز تاجر جتناتم پر تسلط حاصل کرچکے ہےں اس سے کہیں بڑھ کر ہم ( ان کو تم پر ) مسلط کریں گے ۔''
آقائے ''دژفارا'' کہتا ہے :''انگلستا ن دور سینو ٹو کے سات صدیو ں کے بعد وہ فارمولاجو '' سینوٹو ''اپنے دماغ میں تیا ر کررہا تھا اور اپنی کتاب میںبھی تحریر کیا تھا ، حاصل ہوسکے گا ،وہ فارمولا مسلمانوں کے قتل اور ان کی حکومت کو جڑ سے کھودنے پر اکساتاہے ''شاید آپ یہ سمجھیں کہ یہ فقط مغرب کے خواب مسلمانوں کے بارے میںتو پھر ایک نظر ( ڈفرنو ) مشرقی کی بات پر کریں ، جو کسی سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : ''اگر روسی شہنشاہیت نے ان مسلم ریاستوں کو جو ان کے نوآبادیاتی نظام میںشامل ہیں ، گنوادیا تو اس کے لئے کوئی چیز باقی نہیںرہ جاتی کیو نکہ تیل ، کپاس ،اور تمام معدنی مصنوعات ان اسلامی سرزمینوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ '' لہذا آج اگر ان اسلامی ملکو ں کو دےکھئے جو اب تک اسلامی ملک رہتے ہوئے چلے آئے ہیںتو کوئی بھی زراعت ، صنعت ، تجارت ،ترقی و خوشحالی کہ جس سے ایک اسلامی ملک مالامال ہوجائے استعمار کو نہیں بھاتی کافروںنے مسلمانوں کو افتادہ اور درماندہ رکھنے کی پیش بندی کی تھی جس کے بہت سے عوامل تھے ، جن میںسے کچھ کا ذکر کر تے ہیں:
١۔ قوانین کفر کو مسلمان ملکوں میں رائج کرنا تاکہ ان کا اپنے مکتبہئ فکر سے رابطہ ٹوٹ جائے ۔
٢۔ گناہوں اور ناشائستہ کاموں کو عام کرناتاکہ اسلامی ملکوں کے مسلمان ان برائیوں کے ذریعہ اسلام کے تصور کو ہی بھول جائیں ۔ جب اس قدر معنائے اسلام مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام بنے تو مرحوم محقق کرکی فرماتا ہے : ''فلان ملک اسلامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ جس کے احترام کے سبب نہیں چاہتا کہ اس کا نام لوں ، مناسب نہیں ہے کہ اس کو اسلامی کہا جائے کیو نکہ سنا ہے کہ اس کے تاجر بازارو ں میں دھو کہ کرتے ہیں۔''
٣۔اسلام کو بدنام کرکے مسلمانوں کے ذہن میں بٹھا نا ۔ لہذا دیکھا جاتا ہے کہ انھوں نے اسلام کو ایک ایسے دین کا عنوان دیا کہ جس کا زمانہ گذر چکا ہو ، مدت بیت چکی ہو اور خصوصاً نوجوانوں کو تو اسلام سے اس طرح دور بھگا تے ہیں جیسے لومڑی شیر سے بھاگتی ہے ان کو تو اس حد تک قابو کرلیا ہے کہ اگر ان سے کہا جائے کہ اسلام نظام و قانون رکھتا ہے تو تمسخرانہ انداز سے گھورنے لگتے ہیں۔ ایک اسلامی ملک کے وزیر عدل وانصاف نے مجھ سے کہا کہ اسلام میں کوئی قانون نہیں ہے اور جب میں نے اس سے کہا کہ پھر کیونکر چوڑے چپڑے ملکوں پر (اسلام ) حکومت کرتا ہے ؟ تو' 'وزیر ''گھبراگیا اور بات کو گھما کر کہا کہ : میر ا مقصد یہ تھا کہ اساسی و بنیا دی قانون نہیں رکھتا تو اس پر بھی میں نے جب اسے کہا کہ کیا یہ سیاست نہیں رکھتا یعنی ادارہئ نظام ملک ، جنگ ،صلح اور روابط ممالک ؟ جبکہ اسلام نے تو ان تمام امور کےلئے قانون سازی کی ہے۔ خاموش ہوگیا جواب نہ دے سکا ۔​
(تمدن یاتنزل )​
دیکھیںکہ نیا (ماڈرن) تمدن کہ جس نے اسلامی تمدن کو ایک طر ف کردیاہے کیا وہ اسلامی تمدن کے بغیر بشریت کو مقام ترقی تک لے جاسکتا ہے یا وہ اجاڑنے والا ہی نہیں بلکہ تعمیر زندگی پر بھی قادر نہیں ؟ کہا جاسکتا ہے کہ نیا تمدن اپنے اندر دو پہلوسموئے ہوئے ہے ۔ ١۔صنعتی پہلو ٢ انسانی پہلو
اور تازہ تمدن (اگر) موضوعات علم، ایجاد اور صنعت میںوہ بلند قدم ا ٹھا تا کہ نوع بشر کے لئے ماضی میںکوئی مثال نہ ہوتی ( ہمارے علم کی رسائی تک ) تو ایک بات تھی لیکن اس کے برعکس اس نے انسان کو اس درجہ پستی میں ڈھکیل دیا کہ اس سے بدتر کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔ کافی ہے جویہ جانیں کہ پہلی اور دوسری عالمگیر لڑائی تنھا بیس(٢٠) صدیوں کی قربانیو ں سے زیادہ قربانیاں ہضم کرچکی ہے چناچہ اہل تاریخ اور علم اعداد وشمار بیا ن کرتے ہیں۔
اور وہ تمدن جو سعادت کے ساتھ نہ ہو کیا فائدہ دے سکتا ہے !اگر کوئی شخص آپ کو ایک ایسا محل عطاکر ے جوتمام ماڈرن وسائل و آرائشوں کا مرقع ہواور آپکو ڈرائے کہ کل موت کے گھاٹ اتار دئے جاؤگے کیا تم اسکی مدح کروگے یا مذمت ؟ آیا تمہاری نظر میںجھونپڑی اطمینان قلب کے ساتھ بہتر نہیں ہے اس محل و قصر سے کہ جس میں خوف و اضطراب دامن گیر ہو ۔ ماڈرن اور تازہ تمدن کی مثال ٹھیک اسی مثال کی طرح ہے ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ بات ہر اس شخص کےلئے کہ جو تھوڑا سا بھی فکر اورشعور رکھتا ہوقابل احساس ہے ، جس کی تائید دانشوروںکی آراء بھی کرتی ہےں مثلاً ( رابرٹ ہشنس ) کہتا ہے: '' علم (مادی)ایک ہی لمحے میںدریافت و آگاہی ، ٹیکنالوجی اور تسلط ، طبیعت کے بلند ترین نقطے تک پہنچ چکا ہے مگر اخلاقی و سیاسی زندگی میں اس کی راہ دوپہاڑوں کے درمیا ن جاکر مسدود ہوچکی ہے ۔''
(جارج واشنگٹن )کہتا ہے: دین و اخلاق مہمترین و لازم ترین حالات و عادات میں سے ہیں جو توسیع سیاست سے انجام پائینگے ۔جو شخص قومی رغبت کا مدعی ہو ا اگر بشری سعادت کے ستونوں میںسے ان دو ستونوں کو نابود کرنے کی کوشش کرے تو وہ بیہو دہ کام سرانجام دے گا ۔ لہذا دیکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب جب سے دین و اخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں (اگر چہ مغر ب ابھی مدعی ہے کہ متدین و بااخلاق ہے ) بشریت کے لئے ناپاک ترین جرائم کے مرتکب ہو ئے ہیں ، وہ اپنی ایجنٹ حکومتوں کی نسبت ہی نہیںبلکہ باہم بھی ۔لیکن نقصان و ضرر ان کی ایجنٹ حکومتوں کا زیادہ اور شدید ہو ا ہے ۔ اس بنا پر مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر انسانی اور آرامدہ زندگی چاہتے ہیںتو اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف پھر سے پلٹ کر آئیں ۔ اگر اسلام کی طرف لوٹیںگے تو اس کی نورانی مشعلوں کو مشرق ومغرب پر لہرا سکیں گے جس طرح ان کے آباو اجداد نے لہرایا تھا ورنہ دوسری صورت میںبشریت کو فاتحہ پڑھی جائے


اسلام روئے زمین کے اور نظاموں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے :
١۔ عقیدہ
٢۔شریعت
٣ حکومت

١۔ (عقیدہ )​
عقائد اسلامی پانچ ہیں ، یعنی توحید ،عدل ،نبوت ، امامت اور قیامت لہذا ان عقائد کو قبول کرنا چاہئیے تاکہ منزل سعادت سے ہم کنار ہوں یہ سعادت صرف اخروی ہی نہیںبلکہ سعادت دنیوی کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کیونکہ نظام اسلامی کا اجراء و انصرام انسان کو اس کی زندگی میں سعادتمند بنادیتا ہے یہ اسی عقیدہ کیا سرچشمہ ہے ۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جس آدمی نے اس مسلک سیاسی و اجتماعی (آئیڈیولاجی ) کو قبول نہ کیا ہو تو وہ بار اعتقاد کو اٹھانے سے محفوظ ہے مگر یہ گمان اشتباہ ہے ۔ جب ذہن طبعاً کسی چیز کو مقدس ، مثال اور نمونہ قرار دینا چاہتا ہے۔ اور دےکھتے ہےںکہ اس لئے کچھ لو گ بتوں کی پرستش کرتے تھے اور حتٰی بے دین کمیونسٹ در حقیقت اسٹالین ، مارکس ولینن کو پوجتے تھے اب اس میںفرق یہ ہے کہ ایک آئیڈیولاجی میں امکان ہے کہ دلائل و براہین کے ساتھ ثابت ہو یا وہ بکواس و بے مغز ہو اور اس کو تقلیدوں ،وہموں اور کینوں نے جنم دیا ہو ۔ مثال کے طور پر کسی نے ''نہرو'' ہندستان کے معروف لیڈر سے پوچھا کہ آپ روشن فکر انسان ہیںپھر کیونکر'' گائے ''کی پرستش کرتے ہیں؟ کہا تقلید کرتا ہوں۔ اور کسی شخص نے روشن فکر'' ژاپنی ''سے پوچھا تم بادشاہ کو کیوں خدا سمجھتے ہو؟ کہا یہ میر ا گمان ہے۔ اورایک آدمی نے ایک کمیو نسٹ جو ''مارکس'' کو مقدس سمجھتا تھا ، اس سے کہاکہ تم میںاور مارکس میں کیا مناسبت ہے جبکہ تو عیسائی ہے اور وہ یہودی ؟ کہا اس کینے کے سبب سے جو سرمائیداروں اور استعمار کے آقاؤں سے مجھے میر ے دل میںہے۔ اسی بنا پراگر کوئی دلیل و برہان کی رسی کو نہ تھامے تو پھر اس کو تقلید ، وہم یا اس کا کینہ جس چیز کی اسے تلقین کرے گا اس پر وہ ایما ن لائے گا ۔ قرآن کریم ان کی زبان سے فرماتا ہے کہ:''ہم نے اپنے آباو اجداد کو (اسی ) مسلک پر دیکھا اور ہم ان کے آثار کی پیروی کرتے ہیں ۔''''یہ اس کے سوا نہیںجس کا ہم گمان کرتے ہیں ''ایک اور آیت میںفرماتا ہے : ''ان لوگوں کو، جو غیر خدا کی طرف بلاتے ہیں، ناسزا مت کہو ،کیونکہ وہ بھی از روئے دشمنی و نادانی خدا کو ناسزا کہتے ہیں۔''یہ آیات تقلید ،گمان اورکینے کی طرف اشار ہ کرتی ہےں۔ مگر عقیدہ صحیح کے بارے میںقرآن کریم فرماتا ہے :''جان لو کہ کوئی خدا نہیںسوائے اللہ کے ''دوسری آیت میںمخالفین اسلام کو خطاب کرکے فرماتا ہے :'' اپنی دلیل لے آؤ ''اور تیسری آیت میں کفار کی آئیڈیولاجی کے بارے میں فرماتا ہے : ''جہالت کی وجہ سے ہیں نہ ہدایت اور نہ ہی کوئی کتاب روشن ان کے پاس موجو د ہے ۔''​
 

صرف علی

محفلین
٢۔(شریعت )​

شریعت عبارت ہے ان مقررات( قواعد واصول ) سے جن پر عمل کرنا ممکن ہے حتی کہ اگر حکومت بھی لازمی نہ ہو خواہ مقررات عبادتی ہوںجیسے نماز وروزہ یا مقررات تحریمی جیسے حرمت مشروبات الکحلی ( الکحل سے بنے ہوئے مشروبات )زنا یا مقررات اخلاقی جیسے اچھائی ،سچائی امانت داری اور بدی ، خیانت ،رشوت یا مقررات اجتماعی جیسے مسائل خرید و فروخت ،طرز زندگی اپنوں اور دوستوں پڑوسیوں کے ساتھ اور جوان کی طرح ہےں ۔اور یہ دو عقیدے ( عقیدہ و شریعت ) ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں خواہ اسلام او راس کے آئین پر عمل کرنے والی حکومت ، موجود ہو یا نہ ہو ۔اور مسلمانوںکی آج تک بقا کا سبب ،باوجود اس کے کہ مسلمانوں پر سخت اندھیاں چلی ہیں ، یہی ہے کیو نکہ ان اندھیوں کا ہدف تخت وتاج ،حکومت و ثروت تھا لہذا عقید ہ و شریعت آفت سے امان میں باقی رہتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ ہاں بعض خطرناک مواقع کہ جن کا ہدف عقیدہ و شریعت تھا پیش ائے ہیںجیسے دوران سقوط اندلس ، صلیبی حملے اور اسی صدی میں کمیونسٹوں کے ہجوم و حملے ۔ جبکہ اسلام عقیدہ و شریعت کے لحاظ سے دین فطرت ہے لہذا اجتماعی زندگی میںبدرجہ اتم کارآمد ہے۔جبکہ منکرین نے حکومت اسلام کو مٹانے کی سازشیں کی ہیں ۔ انسان کی فطرت حکم کرتی ہے کہ جہان کا بنانے اورسنوارنے والا دانا و توانا ہے ۔ اور اس کی عدالت کے آثار طبیعت پر آشکار ہےں ۔ اور یہ کہ سنوارنے میں ضرور کوئی ہدف ہے جو اس کو ظاہر کرنے کی خاطر ان لوگوں کو بھیجتا ہے جو عوام کو(وہ ہدف) بتا دیں ، اور فرستادہئ خدا کے لئے ضروری ہے کہ اس کے خلفاء ہوں جو اس کے جانشین ہوجائےں ۔ اس طرح خدا وندعالم ، تابعداروں کو جزا اور عاصیوںکو سزادے سکے گا ۔ کیونکہ اس دنیا میں جزا و سزا کا فی نظر نہیںآتی لہذا لازم ہے کہ دوسرے عالم میں تمام ہوجائے ۔(یہ پہلا رخ تھا ) اوردوسر ا رخ یہ ہے کہ وہ کونسا آدمی ہے جو جھوٹ ، ناحق لوگوں کے مال ہضم کرنے اور دوسروں کے مال کی چوری وغیر ہ کوترجیح دے ؟ اور کونسا شخص ہے جو خدا ئے جہان کے سامنے نماز اور روزے کے طریقے سے سرجھکانے کی استعداد وآمادگی نہیںرکھتا ؟ ہم انکار نہیںکرتے کہ بہت سے لوگ وظائف کو انجام دینے کے لئے حاضر اور منکرات سے دوری نہیںکرتے (لیکن ) ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ : یہ امور کہ جن کانام شریعت ہے وہ انسان طبعی کےلئے ہے جو باعقل و ذہن ہوجس کی طبیعت شناسا ہو اور اس کے ذہن یا اعضاء پر بوجھ نہ ڈالیں ۔ اس بیا ن کے ساتھ جو کوئی چاہے عمل کرے اور جو چاہے نہ کرے اور اکثر عمل ہوتا ہے ترک عمل نہیں ۔ مسلمانوں کا اپنی آئیڈیولاجی و شریعت کی نسبت سے وہی حال ہے جو بیماروںکا ڈاکٹر وںکی نسبت ہے ۔ اور یہ طبعی امر ہے کہ بیمار اپنی تندرستی کو پسند کرتے ہےں اس لئے طبیب و ڈاکٹرر کے نسخے پر عمل کرتے ہیں ۔ اور یہ ان بیماروں کی تعداد جو نسخے پر عمل کرتے ہیںان لوگوںکے برابر ہے جو (شریعت پر )عمل کرتے ہیں۔
٣۔(حکومت)
حکومت سے مراد و طاقت ہے جولوگوںپر دو ہداف نافذ کرسکے :
١۔ان کے کاموں کا نظم و نسق : ایک گروہ کادوسرے گروہ پر تجاوز ان پر غیر مکیوںکے تجاوز سے روک تھام
٢۔ لوگوںکو ان کی زندگی کے مختلف شعبوں میںآگے لے جانااور مزید اس پر کہنے کی کوئی ضرورت نہیںہے کہ تشکیل حکومت ضرورت اجتماعیت ہے ۔ (مگر یہ کہ اجتماعیت بغیرحکومت کے معجزہ کے ساتھ ہی تشکیل پاسکتی ہے اور یہ بھی سوائے آخرت کے امکان نہیںرکھتی) لہذا امام علی علیہ السلام نے خارجیوں کوجھٹلایا تھا جو وہ کہہ رہے تھے کہ : حکومت خدا کے سوا کسی کےلئے نہیں ۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ حکام و فرمانرواؤںکی کوئی ضرورت نہیںہے ۔ امام نے اس جملے کے ذریعے ان کو جھٹلایا کہ (چاہیے کہ لوگوںکےلئے کوئی حاکم ہو) مزید یہ کہ خود خوارج بالآخر تضاد بیانی اور ہرزہ سرائی (بکواس ) میںپڑگئے اور بے عقل لوگ ان کی چال چلنے لگ گئے ۔ مگر ان کی رفتا ر ان کی گفتارسے کچھ مختلف تھی اوران کے قدم غیر مضبوط تھے لہذا تمام شعبوں میں انھیںسخت عصبیت اور بے پناہ قربانیوںکی آمادگی کے باوجود ناکامی اور شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ یہاںپر حکام خوارج اور ان کے ہوا خواہوںکی بے راہ رویوںکی دوتاریخی مثالیںذکر کرتے ہیں :
١۔ ایک حاکم نے خوارج کے حاکم کا سر نیچا کرنے کے لئے پیش بندی کی، اس طریقے سے کہ ایک شخص کو اس حاکم کی طرف بھیجا اور حکم دیاکہ خارجیوں کے سامنے حاکم کو سجدہ کرے ۔ جب اس نے یہ کام انجام دیا توخارجی اٹھے اور اپنے حاکم کو قتل کرنے کاارادہ کیا۔ جس شخص نے سجدہ کیاتھا وہ تو بھا گ چلا ۔ حاکم حیران ہوگیا کہ اس کے طرفدار اس کی جان کے درپے ہوگئے ہیں ۔سبب پوچھا۔کہا توجہنمی ہوگیاہے اور اہل جہنم کو مار دیناچاہیئے حاکم نے پوچھا کیونکر میں اہل جہنم سے ہوگیا ہوں ؟ در آنحالیکہ میںنے اس کو سجدہ کرنے کا حکم تو نہیںدیا اور اس کے ارادے سے بھی پہلے واقف نہ تھا اور اب اس کے کئے ہوئے پر راضی نہیں ہوں۔ انہوںنے کہا کہ:مسئلے میںعلم رضامندی اور ناراضگی شرط نہیںہے ، کیونکہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ :''تم اور تم جس چیز کی سوائے خدا کے عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن بنو گے ۔''اور تیری عبادت اور پرستش ہوچکی ہے اس بناپر جہنم کا ایندھن بن چکے ہوالغرض اس وہم گناہ کی وجہ سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٢۔ایک شخص نے حاکم خوارکی ہلاکت کے لئے سازش کی اور منصوبہ اس طرح بنایا کہ حاکم کے نزدیک اس کے حاشیہ نشینوںکے سامنے آیا اور پوچھا کہ حضرت امیر المئومنین علی ؑ کو کیوںکافر کہتے ہو؟حاکم نے کہا : کیوںکہ دین خدا میں فیصلہ (قضاوت )کرچکے ہیں(اس نے کہا: ) کس دلیل کے ساتھ وہ آدمی کافر ہے جودین خدا میںقضاوت کر چکا ہے؟کہا :اب تمہارے لئے دلیل دیتا ہوں(وہ یہ ہے کہ ) جوتیری دلیل ہے اس کو میںرد کرتا ہو ںاب اس صورت میں کیسے معلوم ہوگا کہ حق پر تو ہے یا میںہوں؟ حاکم نے کہا کہ یہ جو میرے درباری بےٹھے ہیںفیصلہ کریں گے ۔ اس وقت اس شخص نے فاتحانہ مصاحبوںکی طرف دیکھا اور کہاکہ : تمہارے حاکم اپنے اقرار سے کافر ہوگئے ہیںکیو نکہ انھوںنے پہلے کہا تھا کہ جو آدمی دین خدا میںقضاوت و فیصلہ کرتا ہے وہ کافر ہے اور اب انھوںنے خود دین میںقضاوت و فیصلہ کیا ہے ، کیونکہ تمہیںمیر ے اور تمہارے درمیان قاضی بنایا ہے ۔ پس یہاںپران کے یاروں نے حملہ کرکے اس کوموت کی نیند سلا دیا۔ اس بناپر اگر کوئی کہتا ہے کہ تشکیل حکومت کی ضرورت نہیںہے تو اولاً تو جھوٹ بولتا ہے اور ثانیاً پسند کرے یا نہ کرے ضروری ہے کہ کسی حکومت کے جھنڈے تلے جائے ورنہ اس کی حکومت ناتجربہ کار اور غیر محفوظ ہوگی، جس طرح زمانہ گذشتہ میںخارجی اس بڑے شک وشبہ سے دوچار ہوئے تھے ان اواخر میں بہت سی جماعتیںبھی اسی شک و شبہ میںمبتلاہوئی ہیں۔ مثلاً نیچہ کہتا ہے : بنیاد حکومت ایک درندہ صفت اوروحشی لوگوںکا گروہ تھا جو تدابیر جنگی رکھنے کی وجہ سے ایک کثیر جماعت جن کی تعداد ان درندوںسے (کئی گنا )زیادہ تھی ، اپنے خوفناک پنجوںسے حملہ کرکے ان پر غالب آگئے ہیںکیونکہ ان لوگوں کی کثیر جماعت کے پاس ابتک ایسا نظام نہیںہے جو ان کی ہیئت و شکل کوترتیب دے ۔ اور ا س کے بعد خیانتکار وفتنہ ساز لوگ آئے اور (خام خیالی) میںسونچا کہ یہ مقولہ ٹھیک اور درست ہے کہ لوگوں کی شخصی حکومت خود ان پر سوائے حاکم کے ممکن ہے ۔ گویا اجتماعیت عبارت ہے ان پتھروںسے جو آپس میں ملے ہوئے تو ہوںلیکن ایک دوسرے سے احتیاج نہ رکھتے ہوں اور ایک دوسرے کے حقوق پر ظلم و زیادتی نہ کرسکتے ہوں اور وہ ترقی کہ جوسوائے حکومت وطاقت کے ناممکن ہے ، کی ضرورت نہ رکھتے ہوں۔ اس طرح (خصوصاً روس میں)نظام قیصری کے خلاف اقلا ب کے دوران میںحکومتی عیب گنوانا شروع کرتے تھے اور لوگوں کے لئے حکومت کی عدم ضرورت جتلا کرکہتے تھے کہ : انسان کی طبیعت عقلمند اور ہدایت یافتہ ہے پھر کیا ضرورت ہے قوانین ، حکام ،اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی ۔مزید برآن ،حکومت لوگوں کے مختلف طبقات و مفاد پرستوںکی مصلحتوںکی سرپرستی کرتی ہے۔ اس بنا پرحکومت، ملت وقوم کی اکثریت پر نقصان تھوپنے والی ہے ۔ مزید برآں کہ نجی آزادی کی روک تھام کرتی ہے اور یہ بھی انسان کے مفاد میں نہیں ہے ۔ کیونکہ انسان کو آزاد پیدا کیاگیا ہے ۔ آگے چل کرحکومت کے مخالفوں نے آپس میںاختلاف پیداکیا ہے ۔ ایک گروہ جو کمیونسٹوںکی طرح ہے، اس نے کہا: ''طاقت کے ذریعے (حکومت ) کو مٹا دیا جائے۔''اور دوسرے گروہ نے کہاکہ :''حکومت کو بتدریح اور مصلحت کے ذریعے ختم کیا جائے ''اور آپ قارئین محترم ! ان کی بے مغز آراء ودلائل اور خود ان کااپنی آراء پر عمل نہ کرنے کوعنقریب مشاہدہ کریںگے ۔ ا۔ انسان کی طبیعت کا ہدایت یافتہ ہونا ، بہت سے جرائم کے ساتھ کہ موجب تشکیل حکومت ہے، سے منافات نہیںرکھتا۔
٢۔ایسا نہیںکہ ساری حکومتیںصرف اقلیت کی مصلحتیں مقدم سمجھیں ۔ یہ فیصلہ سب پرجلد بازی کا بغیر دلیل ہے '
٣۔ نقصان دینے والی آزادی سے روک تھام عیب نہیںہے بلکہ کمال ہے۔ جی ہاںنافع اور بے ضرر آزادی کی روک تھام اچھی نہیں ہے ۔​
(ضوابط حکومت )​

خود فتنہ و فساد کھڑا کرنے والے لوگوں نے نظام قیصری کو ختم کرنے کے بعد تشکیل حکومت کے معاہدے پر دستخط کئے ، مگر کونسی حکومت؟ حیوانیت ، ضرر اور گلا کاٹنے والی ، ایک عجیب ترین حکومت جوحتی اقلیت کی رعایت کو بھول گئے اور جو صرف حکومتی جماعت (حزب اقتدار)کے مفادات کا تحفظ کرتی ہو۔ اور نہ صرف یہ کہ جو آزادی سابق حکومتوںکی روایت میںممنوع تھی بلکہ تمام آزادیوںکو ختم کردیا جیسا کہ اس وقت کے انقلاب اکتوبر کی تاریخ کے تمام صفحات گواہ ہیں ، اور مذہب کے مخالف وہاں کے لیڈر آج تک کمیونسٹ ممالک میں اسی طرز کوباقی رکھے چلے آرہے ہیں۔ جی ہاں! صرف اور صرف اکیلااسلام ہی ہے جوایک درست نظریہئ حکومت پیش کرتا ہے جس نے عناصر ، اہداف اور اپنے طرز عمل کو واضح بیان کیا ہے ۔ اگر پوری انسانیت اس پر عمل پیرا ہوجائے تو سب کے دل خوش و مسرور ہو کراٹھیں ۔ اسلام نے حکومت کی مثبت رائے پیش کی ہے لیکن اس کے باوجود نظام اور قوانین کی وضاحت کے ساتھ فسادی عناصر کو حکومت سے باہر نکال پھینکا ہے ۔ اور کچھ اسلامی حکومتوں کا ان شرائط و قواعد کا نافذ العمل نہ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیںکہ ان میں کو ئی نقص ہے اور ان کو اسلامی اسلوب سے نکال دیاجائے ۔ چنانچہ مثلاً ایک حاکم ڈیمو کریسی کے قوانین کو چھوڑدے تو قصور ڈیمو کریسی کا نہیںہے بلکہ اس حاکم کو ڈیمو کریسی کی رفتار سے خارج کیا جائے
١۔اسلام وحشی درندوںکو تخت حکومت پر نہیںبٹھاتا (جیسا کہ دانشورنیچہ کا نظریہ تھا ) بلکہ (پیغمبر(ص)اور امام علیہ السلام کے بعد) سربراہ حکومت میںشرط کرتا ہے کہ : عالم ،عادل ، مدبرِ امور دین و دنیا ہواور حکومت کے چرخے کو بہتر طور پر چلائے ۔
٢۔ اسلامی حاکم لوگوں کے تمام طبقوںکے مفاد کے لئے سرگرم عمل ہوتا ہے ، کسی خاص طبقے کے لئے نہیں۔ اور حاکم کو چاہیے کہ جملہ اصول وقواعد اسلامی ایک مرحلے مین ان پر نافذ کرے ، مفاد پرستی ، ذخیرہ اندوزی ،سود ، چور بازاری میں ان جیسی چیزوں کی روک تھام کرے جوافسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے آج کے تمام حکومتوںکا معمول بن چکی ہےںمثلاًسرمائیدارانہ حکومتوں ،ملوک الطوائف ، کمیونسٹ حکومتوںمین تنھا حکام اور بادشاہ ان امور کوبدترین طریقے سے انجام دےتے ہیں۔
٣۔اسلام ،کمیونزم کی طرح ساری آزادیاں سلب نہیں کرتا اور سرمائیداری کی روایت کی طرح ہر چیز کو بے لگام نہیںچھوڑتا بلکہ شائستہ آزادیوںکی اجازت دیتا ہے جبکہ ضرر رساں آزادیوں کی روک تھام پر عمل پیرا ہوتا ہے مثلاًلوگ حکومت اسلامی کے زیر سایہ معاملات ، سفر ، عمارت ، تعمیر زندگی ، صنعت ،کھیتی باڑی اور ان جیسی چیزوں میںآزادہیں اور اسی حال میںکسی کو اجازت نہیں دی جاتی ہے کہ دوسرے سے مفاد حاصل کرے یا کسی کوپست کرے، یا ایسا مواد جو اعضاء کو سست وبے حس کرنے والا ہو ، مورد معاملہ و تجارت قرار دے ۔ حال یہ کہ یہ فائدہ رساں آزادیاں کمیونسٹ حکومتوں میں ممنوع او رضرر رساںآزادیاں سرمائیدارانہ حکومتوں میںجائز و عام ہیں۔ ممکن ہے کہ جوکچھ ہم نے کہا ہے اس پر آپ تعجب کریں کہ آیا اس قسم کی آزادی ، سرمایہ داری کی روایت و روش میں ہے ! جی ہاں۔مگر اخبار و رسائل کے حملے کسی فرد مخصوص یا گروہ پرآزادی کی آڑمیںتوہین اور دشنام طرازی نہیں ہے ؟۔​
 

صرف علی

محفلین
(حاکمیت سسٹم یا فرد)​

ان نکات کے ذکر کرنے کے بعد حکومت کے ان اقسام کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے جو فلاسفہ ،حکماء اور صاحبان نظر نے بیان کی ہیں البتہ نا موزوں نہ ہو گا کہ ذہن کی شناسائی کیلئے حکومت کے بنیادی ڈھانچے کی طرف اشارہ کریں کلّی طور پر حقوق انسانی و سیاسی کے لحاظ سے اصیل ہونے کی صورتیں : ١۔فرد اصیل ہے،حکومت نہیں ۔ ٢۔حکومت اصیل ہے ،فرد نہیں۔ ٣۔حکومت و فرد ایک ساتھ دونوں اصیل ہیں۔ مگر وہ مذہب جوفرد کو اصیل قرار دیتا ہے :گذشتہ صفحات میںہم نے کہا تھا کہ ایک جماعت کے نظریہ کے مطابق انسان پوری آزادی کے ساتھ تمام شعبوں میں زندگی بسر کرے ،سوائے اس حکومت کے جو اس کی آزادیوں کو کچل دے۔ اس نظریہ کی عدم صحت اس کے مفاسد کے علاوہ ہے جو بیان ہوچکا ۔ مگر وہ مذہب جو تنہا حکومت کے اصیل ہونے کا قائل ہوا ہے : یہ مذہب ان لوگوں کا ہے جنہوںنے حکومت کو ناپسند سمجھا ہے اورکسی طور پر کسی فرد کی اہمیت وارزش کے قائل نہیںہےں۔اس بنیا د پر جوحکومت چاہے گی عمل کرے گی ۔ جس میںشخصی آزادی ،خوشی اور اس کے مطالبات کا کوئی لحاظ نہ ہو گا ۔
مگر وہ لوگ جو حکومت اور فرد دونوںکے ساتھ ساتھ اصیل ہونے کے قائل ہوئے ہیں: وہ مراد ہیں:
الف ۔وہ لوگ ہیںجنہوںنے فرد کوصلاحیتوں کے دینے میں افرا ط کیا ہے
ب۔ وہ لوگ ہیںجنہوںنے حکومت کو صلاحیتوں کے دینے میںافراط کیا ہے
ج۔وہ لوگ ہیںجنہوںنے دونوں کے درمیا ن عدالت سے فیصلہ کیاہے ، جس کو اختصار کے ساتھ واضح کرتے ہیں:
١۔جن لوگوں نے حکومت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ تر صلاحیتیںفردکو دی ہیںیہ اس کا رگذاری کا عکس ہے جواٹھارویں صدی عیسوی میںحکومت نے ہرشعبے میں حتی کہ لباس اور اس کے ماڈلوں کے منتخب کرنے میں دخل اندازی کررکھی تھی۔ لوگ اپنی پسند پر لباس وغیرہ پہننے پرقادر نہیںتھے ۔ چناچہ اس مذہب کے ہواخواہوںسے ایک گروہ نے کہا کہ حکومت کوفردی اقتصادی شعبوںمیںدخل اندازی سے دور رکھنا چاہیے تاکہ سامان درآمد ، برآمد کرنے کااور تجارتی معاملات میںحکومت کوئی دخل نہیںرکھتی ہو ۔ اسی مذہب کے ہواخواہوں سے دوسرے گروہ نے کہا کہ : سوائے ان موارد کے کہ فرد واحد سب کو نقصان پہنچائے ، حکومت اس کے معاملات میںدخل اندازی کا حق نہ رکھے ۔ کیونکہ اگر انسان کی آزادی کچل دی جائیں تو اس کی ایجاد ، صنعت اور بہت سی چیزیںبنانے کی صلاحیت ختم ہوکررہ جائے گی ۔ آخر کار دوسرے ایک گروہ نے کہا کہ ہر فرد پر لازم ہے کہ اقتصادی وعملی امور کی اپنی فہرست معین کرلے سوائے اس قسم کے امور کے کہ جن میںحکومت حق دخالت رکھتی ہو۔
٢۔وہ لوگ جنہوںنے حکومت کو صلاحیتوںکے دینے میںتجاوز کیا ہے دلیل لاتے ہیں کہ انسان کا اجتماعی پہلواس کے شخصی وانفرادی پہلوسے اہم ہے لہذا فرد واحد کو حق نہیں ہے کہ زیادہ مقدار ،یا بقدر مساوی صلاحیت کو اپنے لئے مخصوص کرے ۔ بلکہ اگر صلاحیت کے دس حصے کریںتو نوحصے حکومت کے لئے اور ایک حصہ فرد سے متعلق ہوجائے گا ۔ مزید برآں حکومت زیادہ واضح اور گہرا تجربہ رکھتی ہے ہیئت حکومت کی مجموعہئ آراء ،فرد واحد کی رائے سے تمام موضوعات میںدرست تر اور صحیح تر ہیں ۔
٣جس نے حکومت اور فرد دونوںکے درمیان میںعدالت کو روا رکھا ہے ، اسلام ہے ۔ جس نے ہر ایک حکومت اور فرددونوں کے لئے حقوق مقرر کئے ہیں ،اسطرح کہ حکومت لوگوں کے امور کی نگرانی، ان کی بدنظمیوںکا خاتمہ ، ان کو راہ خداپر گامزن اور مجوزہ ترقی کی طرف رہبری کرتی ہے اس کے بعد ہر فرد زندگی کے مختلف شعبوںمیںسارے حقوق اور پوری آزادی رکھتا ہے اور اسلام نے انفرادی آزادی کی حمایت کی خاطر دو قانون وضع کئے ہیں۔جوعبارت ہیں :
١۔ لوگ اپنی جان پرمسلط ہیں ۔ ٢۔ لوگ اپنے اموال پرمسلط ہیں ،سے۔
جس طرح لوگوںکو حکومت کے جاری کرنے کاحکم (حکومت کو سننے اور اس کی اطاعت کا ) دیا۔یقینا اسلام کا اہم امتیا ز اس موضوع پر یہی ہے کہ اس نے حکومت کی صلاحیتوںکو پرکشش نہیں بنایا جتنا کہ ہر فرد کی آزادیوں اور خود مختاریوں میں توسیع دی ہے ۔ کیونکہ اسلام نے قانون سازی کی سپردگی کا ہاتھ لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں تھمایا تاکہ انفرادی خود مختاری خطرے میں نہ پڑے ، جیساکہ آج کے معاصر حکومتوں میں نظر آرہا ہے

(اہداف حکومت )​

جوکچھ گزر چکا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اسلامی کا ہدف عبارت ہے :
١۔لوگوں میں، عدالت میںتوسیع ، تاکہ کوئی دوسر ے پر تعدی و تجاوز نہ کرے ۔
٢۔ لوگوںکے لئے مناسب فضا ء مہیاکرنا ، زندگی کے تمام شعبوں میںان کوآگے بڑھانے کے لئے ۔ یہ دوہدف اس اعتبار سے تھے کہ اسلام حکومت ہے ، مگراس اعتبار کے ساتھ کہ حکومت حاکم و فرمانروا ہے ،تیسرا ہدف بھی رکھتا ہے : وہ ہے لوگوںکو اطاعت خدا کے لئے قریب کرنا اور معصیت سے دورکرنا تاکہ پاداش الہی سے بہرہ مند ہوسکےں (اورطبعا) یہ ہدف ان تمام مفروضات سے جداگانہ ہے جن کو حکومتیںاہداف بنائے پھرتی ہیں ۔مثال کے طور پر :
١۔کسی گروہ کی نظر میںحکومت کا ہدف قومی برتری کی حمایت ،شہریوںکی آزادی کی محافظت اور لوگوںکی ترقی کی کوشش ہوتا ہے ۔
٢۔دوسرا گروہ کہتا ہے : حکومت کا ہدف امن کا قیام لوگوںکے درمیان نظم وعدالت کی برقراری ،قوم کی ضروریات کوپورا کرنا ،عام آسائش کی فراہمی کے لئے کوشش کرنا اورلوگوں کی سطح بلند کرنا ہے ۔
٣۔ تیسرے گروہ کے عقیدے کے مطابق : ہدف حکومت عام آسودگی کی کھوج ، لوگوں کو خودمختاری دینا، انسان کی سعادتمندی کی راہ استوارکرنا اور اخلاق کی حمایت کرنا۔ یقینا تین نکاتی اہداف جو ہم نے اسلام کےلئے ذکرکئے ہیں وہ ان کو ہی نہیںبلکہ ان کے علاوہ کوبھی شامل ہیںجوان لوگوں نے بیان کئے ہیں ۔
(تین رنگی عناصر )​

لیکن حکومت کو تشکیل دینے والے عناصر جوان کے بغیر تشکیل حکومت ناممکن ہے وہ عبارت ہیں:
١۔امت فرمانبردار۔(ہیئت اقتدارکی )
٢۔ہیئت اقتدار
٣۔سرزمین کہ جس میںسکونت پذیر ہوں،سے۔
اس میںکوئی فرق نہیںہے کہ امت ، ہیئت اقتدارکے دین پر ہو یا نہ ہو۔ اس میںاختلاف ہے کہ اسے حکومت کہنا صحیح ہے یا نہیں جب امت کےلئے کو ئی خاص سرزمین نہ ہو مثلاً کوئی مسلمان کسی کافر ملک میںزندگی بسر کرے لیکن کسی دوسرے ملک کی ہیئت اقتدار کا فرمانبردار ہو۔ دوسرا بھی اختلاف ہے کہ اگر ایک ہی سرزمین پر دوحکومتیںہوںاور امت دونوںکی فرمانبرداری کرے سوائے اس کے کہ دونوںحکومتوںکے درمیان تصادم ہوجائے۔ توآیا ایسی صورت میںاس کوحکومت کہنا صحیح ہے یا نہیں۔ مگر یہ بحث اور پچھلے دو فرضوںپر جو بحث مترتب ہوتی ہے ، دونوںہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ اور ہم تو اسلام کی روسے (اس) بیان کے متعلق جوکہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر فرد مسلمان کوچاہیے کہ ہیئت اقتدار اسلامی کا مطیع اور پابند ہو خواہ ہیئت اقتدار کے لئے کوئی حکومت ہو یا نہ ہو یا ایک ہی سرزمین پر دوحکومتیںہوںیاایک ہی حکومت ۔ ان ملکی توانائیوںکے ذکرکرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے جوایک کامل حکومت میںمہیا کرنی چاہیںجیسے :
دولت وثروت ، اسلحہ ،فوج ، نظام، قبیلہ ، دین،زراعت ،صنعت ،تعمیر ،تعلیم وتربیت اور اجتماعی رابطہ امت اور حکومت کے درمیان ۔​
(ڈیموکریسی )​

مناسب ہے کہ مشہور حکومتوں کے اقسام کا جلدی اور واضح ذکر کریں۔ دانشمندوں کے ایک گروہ کی نظر میں حکومت اور دولت میں فرق ہے ۔ اس بیان کے ساتھ کہ حکومت وہی ہیئت امقتدارہے اور دولت سرحدوں کے اندر مجموعہ ملت کا نام دولت ہے ۔ مگر اس کتاب میں ہمارے لئے اصطلاح اہمیت نہیں رکھتا لہذا اس کی بحث کو چھوڑ دیا۔ مگر اقسام حکومت عبارت ہیں:​
١۔ڈیموکریٹک حکومت:​
یہ یو نانی لفظ ہے او راس کا معنی لوگوں کی حکومت ہے گزشتہ قدیم زمانے میںیہ حکومت یو نان و اسپانیہ میںتھی اور اس کو فرانسیسی انقلاب نے دور جدید میںزندہ کردیا۔ انقلابی ، بادشاہوںکے ظلم و جبر اور تعدی وتجاوز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ڈیموکریسی سے مراد ہے پارلیمنٹ کی تشکیل کے لئے قوم کے آزاد نمائندوںکے انتخابات ، تاکہ پارلیمنٹ کے نمائندگان کی اکثریت کے احکام وقوانین صحیح کے ذریعے مملکت پر اندر اور باہر حکومت کی جائے ۔ اور بالکل واضح ہے کہ اسلام اس نظام کوقبول نہیں کرتا کیونکہ ڈیمو کریسی ،حکومت کا سرچشمہ، عوام کو قراردیتی ہے کہ وہ جوچاہیںکریںاور اسلا م خد ا کے سوائے کسی کی حکومت مناسب نہیںسمجھتا ہے اور جدید جمہوریت کے لئے ممکن ہے جبکہ سارے شہری ایک ہی خطے سے تعلق رکھنے والے ہوںتو خون کے رشتوں ، اصل و نسب ، زبان اور ان کی مشترک عادتوں کواپنی گرہ باندھ لے ۔اس مفہوم کے ساتھ ڈیموکریسی اسی قوم اور اصل ونسل پرستی کے فکرکے ساتھ ہے لہذا اسلام اس کو سند قبولیت نہیں دیتا ۔ اور یہ مہمترین اعتراضات ہیں مگر اختصار کی وجہ سے پیش نہیں کرسکتے۔
٢۔ارستوکریسی :
جس کامعنی اقلیتی حاکم کے ہیںجو لوگوں پر منتخب کیا گیا ہو اس کا انتخاب علم ودانش ، دین یا فوجی گروہ کی مانند یا ایسے کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ارسطو کے نظریے کے مطابق یہ حکومت بہترین حکومتی اسلوبوںمیںسے ہے ۔ صرف اس میںیہ شرط ہے کہ اقلیت حاکم منصب ہو ۔ اس پر بھی اسلام دستخط نہیںکرتاگزشتہ مشکلات کی وجہ سے اور مزید برآںاقلیت حاکم کے لئے کوئی معیار قرار نہیں دیا ہے اور اکثر ایسی اقلیت خود پرستی و فضول خرچی کا شکار ہوتی ہے جس طرح انگلستان میںبھی دیکھا جاتا ہے کہ وہاںپر دو مجلسیں (parliaments) قائم ہیں۔ مجلس لارڈس ، مجلس عوام ۔اور برطانیہ کے مراکز استعمار میںسے بہت سے مراکز جو استعماری حکومتوںکے اندر ہیںوہ انہیں لارڈوں سے منسلک ہیں، جواپنی اقتصادی و اجتماعی مراکز کے خواستگار ہیں ۔ اور یہ اپنی خواہشات کے لئے دوسرے ملکوںکے استعمار کومجبور کرتے ہیں۔​
(سوشلزم )​
٣۔سوشلسٹ حکومتیں :
سوشلزم سے مراد ہے دولت و ثروت کوقومی تحویل میںلینا ۔ اس معنی کے ساتھ کہ ساری دولت وثروت حکومت سے منسلک ہوجائے اور اس کے دوحصے ہیں:
١۔ سوشلسٹ کمیونسٹ حکومتیں ٢۔سوشلسٹ غیر کمیونسٹ حکومتیں
اور فی الحال ہمارامقصود دوسرے نمبرکی حکومتیںہےں جس کایہ مطلب ہے کہ حکومت کاتسلط عام منابع ثروت پر ہوجیسے ریلویز،بجلی ،بڑے کارخانے ،زمین ، فاریسٹ ،دریا ،معادن ،بڑی نہریںاور ایسے پیدائشی ذارئع ۔ اس سسٹم کی چند طریقوںسے تعریف کی گئی ہے ۔مثلاً ''دےکنسون ''کہتا ہے : تنظیم اقتصادی قوم ، کی نگرانی میںملک کے ذرائع آمدنی پوری قوم کی ہونی چاہئیے۔ان ذرائع و وسائل کو ایک ایسی ہیئت کہ جوقوم کی نمائندہ ہوسکے اور اس پر نگران ہو ،کے ذریعے چلایا جائے اور یہ کام ایک عام اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے وہ۔چنانچہ اس مشتر ک ومنظم ذریعہ معاش کے معاملات افراد قوم سے ہر فرد کا حق عدالت کے ساتھ ہونا چاہےے۔اور غالبا ًکمیونزم اور سوشلزم کے درمےان اہم فرق یہی ہے کہ پہلا نظام سارے وسائل کے علاوہ ہر قسم کی دو لت و ثروت حتی رہائشی گھر اور اس طرح کی جائیدادکو مشترک سمجھتا ہے جبکہ دوسرا عام وسائل ثروت کو ہی ہتھیانے کا نظریہ پیش کرتا ہے۔اور خود سوشلزم کا نظام مختلف ملکوں میں مختلف ہے۔مثلاً ہر کمیونسٹ ملک انگلستان ،ہند ،عرب وغیرہ جیسے ممالک منابع ثروت میں کوئی جدید طرز ایجاد کر تے ہیں ۔ بالآخر نظام سرمایہ داری اور سوشلزم میں دوسرا فرق نظر نہیں آتا مگر کچھ موارد میں چونکہ سوشلزم حکومتوں (بمع کمیونسٹ حکومتیں)اور سرمایہ دار ممالک میں سے ہر ایک اسی طرز واسلوب سوشلزم پر رواں دواں ہے۔جی ہاں جس تفاوت کو ذکر کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ:
١۔کچھ حکومتیں روس جیسی کمیونزم کی طرف زیادہ میل ورجحان رکھتی ہیں۔
٢۔ کچھ حکومتیں جیسے انقلابی عرب ممالک زیادہ رغبت سوشلزم کی طرف رکھتی ہیں۔
٣۔اور حکومتوں کی کچھ تعداد جیسے امریکہ کا رجحان نظام سرمایہ داری کی طرف ہے۔​
 

صرف علی

محفلین
(کمیونزم)​
٤۔ کمیونسٹ حکومت:
کمیونسٹ حکومت دیرینہ زمانے سے یونان میں ظاہر ہوئی لوگ اس کے بر خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اور اس کی آواز دبا دی۔اس کے بعددوسری دفعہ فارس کی زمین پر''مزدک''نامی شخص اور اس کے ہواخواہوں کے ذریعے ظاہر ہوئی(مگر)پھر اس کے خلاف لوگوں کی جدوجہد نے اسے خاموش کر دیا،تا آنکہ آئندہ ساٹھ سالوں کے عرصے میں تیسری دفعہ روس میں ظاہر ہوئی اور دوسری حکومتوں مثلاًچین،یوگوسلاویہ مشرقی المانیا،کیوبا وغیرہ نے اس کی پیروی کی اور اب رو بہ زوال ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اگر امریکہ دوسری عالمگیر لڑائی میں روس کی المانی نازیوں کے خلاف مدد نہ کرتا تو اس وقت ہی کمیونزم(ان)قوموںسے نابود ہو جاتی۔مگر وہ مدد کمیونزم کے لئے اس کی بقا اور اب تک کے پھلنے پھولنے کا سبب بنی۔مگر ظاہر ہے کہ کمیونزم اندر اور باہر آخری نیستی کی طرف گامزن ہے۔اور کیونکہ کمیونسٹ حکومتیں اور ان کا نگہبان روس سرمایہ داری نظام کی طرف مائل ہو گئے ہیں اور ایک طرف سے مہلک چوٹیں باہر سے اس نظام کے خلاف ان کو سہنی پڑتی ہیں اور اگر تیسری عالمگیر لڑائی شعلہ زن ہو جائے تو کمیونزم مٹ جائے گی۔چنانچہ شواہد اور سیاسی پیش گوئی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ شروع میں کمیونزم ایک اقتصادی پروگرام کے تحت تھی بعد میں تھوڑا تھوڑا پھیلتی گئی تا آنکہ عام فلسفے کی صورت اختیار کرلی اور زندگی کے تمام شعبوں میں مداخلت کرنے لگی ۔
اس کا جوہر حقیقتاً دو اہداف میں ملخّص ہو جاتا ہے:
١۔لا دینیت نسبت بہ آئیڈیالاجی
٢۔دولت وعورت کا سب میںپھیلاؤ ۔ بعد میں یوں کروٹ بدلی کہ پوری دولت وثروت حکومت کی ڈیوڑھی کے اندر ہو جائے۔اور لوگ تا حدّ امکان زیادہ کام کریں اور خرچ کم کریں اور عورتیں بھی خاندان کے نظام میں اور عام پھیلاؤ کیلئے تقسیم ہوئیں اور آخر نتےجتہً نہ کوئی خاندان باقی رہا نہ کامل پھیلاؤ ۔ ''اسٹالین ''کے کہنے کے مطابق مارکسزم ایک ایسا علم ہے جو طبیعت اور قوم کی ارتقاء کے قوانین اور ستم رسیدہ اور استحصال شدہ طبقات کو انقلاب کے قوانین سکھاتا ہے اور یہ وہ علم ہے جو سوشلزم کی کامیابی کی تمام ملکوں میں خوش خبری سناتا ہے۔آخر کارمارکسزم وہ علم ہے جو کمیونسٹ قوم کی تعمیر کا ہمیں سبق دیتا ہے۔​
(مارکس کی تھیوری)​

مارکس کی نظر میں عوامل مادی واقتصادی ہی ہیں جو تعمیر قانونی ،اجتماعی ،سیاسی ،ہنری ،دینی وغیرہ کو وجود میں لاتے ہیں ۔اس بنا پر امور مذکورہ کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔بلکہ مادیات کی تکمیل کے حساب سے یہ بھی پایہ تکمیل تک پہونچ پاتے ہیں ۔ اور خود مادیات ، وسائل پیدائش کی تکمیل کے حساب تکمےل پاتی ہےں۔ اور ان کی نظر میںتاریخ نے بھی مادہ سے جنم لیا ہے اسی مفہوم کو ''تفسیر مادی تاریخ'' نام دےتے ہیں اسی طرح مارکس (مارکسزم کا بانی )''ہگل ''کی پیروی میں کہتا ہے : فکر انسانی ڈائلیکٹک (علم منطق یا سقراط کا طرز محاورہ )کی پیر وی میں ارتقاء کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کی نظر میں ڈائلیکٹک سے مراد یہ ہے کہ ہر تھیو ری اور تھیسس اپنے ظاہر و آشکار نتائج کے ساتھ حاملہ ہوتی ہے ۔ چونکہ ہر تھیسس کا ایسا ضد بھی ہوتا ہے جو اس پر غالب آجاتا ہے (یہ تھیسس بار آور نہیںہوپاتی ) ہا ںکوئی تھیو ری اس قدر استمرار ودوام پالیتی ہے جو اگر اس کی ضد بھی اپنے طمطراق کے ساتھ سر اٹھائے تو اس کو کچل دے ( تو یہ بار آور ہوسکتی ہے ۔) ''مارکس ''نے اس تھیوری کوعالم افکار سے عملی طور پر اجتماعی نظاموںکی طرف منتقل کیا اور اس کے نظریہ کے مطابق ہر اجتماعی نظام میں چلتے چلتے فنا کے اسباب بھی پیدا ہوجاتے ہیںجو اس نظام کو فنا کردیتے ہیںاور بعد میںآنے والانظام اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔ یوں فکرو نظام بدل اور نقص و کمال کی دوڑ دھوپ میںہمیشہ رواں دواں رہیںگے ۔ مارکس کی نظر میںصرف دوطبقے وجود رکھتے ہیں :
ا۔مزدورں کا طبقہ
٢۔مالکوں کاطبقہ یا سرمائیدار۔
اور ہمیشہ دوسراطبقہ پہلے سے مفاد حاصل کرتا رہا ہے۔ لہذا سرمایہ داروںاور مالکوںکے ہاتھ سے دولت و ثروت کو چھیننے کے لئے ان کے خلاف انقلاب لانا ضروری ہے'' مارکس'' کہتا ہے کہ : تمام اخلاق و ادیان ، سرمائیداری نظاموںکی پیدائش ہےںاس بناپر سوائے خرافات و سود خوری کچھ نہیں۔اس کے نظریہ میں پہلے وسائل پیدائش ، اسکے بعد زمینوںکوقومیانہ چاہیے۔بعد ازین شخصی مالکیت کے نام کلی طور پر بتادئے جائیں، چنانچہ خاندانی نظام بے کار اور عورتیں عام ہوجائےں اور سب کے درمیا ن مشتر ک ہوجائےں کیونکہ خاندان تو سرمائیداری نظام کی پیدائش ہے ۔ ان اہداف تک رسائی کے لئے اور کمیونسٹی نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پہلے نظم و نسق پیدا کرنا چاہیئے اورتوانائی کوزور آوری کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے۔ تب آمریت ان کار گزاریوںکا بدترین طریقہ ہو۔ لہذا ''اسٹالن ''نے قتل ،آوارگی اور قید خانے کورواج دیاجیسے ( ابوالاعلی مودودی )نقل کرتے ہیں کہ تقرباً بیس(٢٠) ملین انسانوں کومنتشر اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔
(گفتار ''مارکس'' پر نقد و نظر )
کمیونسٹ تھیوری پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ منجملہ:
١۔چرخہ تاریخ کوکچھ وجوہات کی بناپر وجود میںلاتی ہے ۔ جیسے دین ، مردانگی ،اپنوں کی دوستی، گروہ بندی ،وطن پرستی اور ایسی اور چیزیں ، صرف اقتصاد نہیں(کمیونسٹوںکے بقول )
٢۔ دین حقیقت ہے وہم نہیںہے جیسا کہ علم فلسفہ سے ثابت ہو چکاہے
٣۔اخلاق حقیقت ہیںوہم نہیں ہیں۔کیا کیمو نسٹ قبول کریںگے کہ کوئی ان سے خیانت کرے یا ان سے جھوٹ بولے تجارت میں دھوکا کرے ؟
٤۔ خاندان فطرت بشریت کا سربستہ راز ہے مزید برآںگھر انہ لائق اولاد کی تربیت کا آشیانہ ہے ۔
٥۔ وسائل پیدائش کا اشتراک باعث کوتاہی پیدائش ہے ۔ جب انسان جان لے کہ اس کی کمائی سے دوسرا بہرہ ور ہوگا تو کام کرنے کے لئے ضرورت آمادگی پیدانہ کر سکیں گا
٦۔کمیونسٹوںکی گفتا ر میںتضاد بےانی نظر آتی ہے کیونکہ ان کے بقول کمیونزم آخری نظام ہے جس کو باقی رہنا چاہیے اور دوسری طرف سے کہتے ہیںکہ ہر نظام اپنی رفتار کے دوران اپنا ضد اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ اس بنا پر دوسرے قول کا قہری نتیجہ یہ ہے کہ کمیونزم اور سو شلزم مرمٹ کردوسرے نظام میںتبدیل ہو جائیں گی ۔
٧۔قوم صرف دوطبقوںسے تشکیل نہیں پاتی بلکہ اس میں ملازم ، طالب علم ، ہادی ، مزدور،زمیندار ،تاجر ،عالم ،ہنرمند،شاعر ،کاتب اور ان کے علاوہ بہت سے طبقے موجود ہیں ۔
٨۔ لوگوں کے ضبط کئے ہوئے مال جب تک حکومت کے خزانے میںجمع کئے جائیں ، بڑے سرمائے کے نام پر چھوٹے سرمائے کوناس کرنے کے مترادف ہے
٩ ۔آمریت ، طبیعت بشر کے لئے سازگارنہیں ہے اس کو مٹا دینا چاہیے ۔
١٠۔جس طرح سرمائیداروں پر ظالم و ستمگر ہو نے کا اعتراض ہے ۔ کمیو نسٹوں پر بھی یہی شدید طریقے سے عائد ہے ، کیونکہ ان کا ظلم ستم زیادہ ہے ۔​
(سرمایہ داری)​
٥۔حکومت سرمایہ داری :
اس سے مراد ہے : سود کمانے اور مالی بہرہ وری کی پوری آزادی ۔ اور حقیقت میںیہ نظام کسی حکومت کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ساری حکومتیں اس عنوان کی خاص شرائط واصول کے ساتھ اجازت دیتی ہےں۔ اسلام مروجّہ سرمایہ داری کی طرز کوقبول نہیںکرتا بلکہ اسلام تمام قسموںکی منفعت حاصل کرنے کو مخصوص ضابطوں کے ساتھ جائز سمجھتا ہے جیسا کہ اس کو ہم بیان کریں گے ۔​
(حاکمیت اسلام )​
٦۔حکومت اسلامی :
حکومت اسلامی زندگی کے تمام شعبوںمیں مخصوص پروگرام رکھتی ہے ۔یہاںپر منا سب ہے کہ اس پروگرام کے اصولوںکی طرف اشارہ کریں ۔
١۔ مطالعہ جہان :
اسلام کی رو سے جہان کا ایک ایسا پیدا کرنے و الا ہے جو عاقل ، طاقت ور اور عادل ہے ۔ اس جہان کے فنا ہونے کے بعد پوری مخلوقات اسی کی طرف پلٹے گی تاکہ نیکوکاروںکو اچھی جزاملے اور بدکاروںکو ان کے کیفر کردار تک پہنچایاجائے ۔ اسلام کی رو سے ابوالبشر حضرت آدم ؑ کی پیدائش کے ساتھ انسان ایک جگہ اور موجود ہ صورت کے ساتھ پیدا ہوگیا ، نہ یہ کہ تدریجاًانسان نے آکریہی صورت اختیا ر کی جو کہ ''ڈارون ''فکرکرتا ہے ۔​
٢۔قوانین وضوابط :
اسلام کی رو سے قانون سازی فقط خدا کے ہاتھ میںہے۔ ہرحکم اور قانو ن کہ جس کا سرچشمہ کتاب ،سنت ، اجماع اور عقل نہ ہوکوئی قیمت نہیںرکھتا ۔ کتاب سے مراد قرآن کر یم اور سنت سے رواےا ت و احادیث ہیںجوکہ نبی اکرم ؐاور بارہ اماموں ؑ کی گفتار ، کردار اور رفتا ر سے منقو ل ہیں۔اجماع سے مر اد ہے فقہاء کے ایسے گروہ کا کسی حکم پر اتفاق کہ معصوم ؑ بھی اس کا جزء ہو ۔ اور آخری عقل سے مراد وہ علل احکا م ہیں کہ جن کو عقل درک کرسکتی ہے مثلاً جھوٹ کی برائی ، احسان کی اچھائی اور ایسی اور چیزیں ۔ مگروقتی حادثات جیسے جنگ اور صلح وغیرہ ، اس کے بعد جو اسلام کے قوانین کلیہ ان امور کوشامل ہیں باخبر حکومت اسلامی وقت کے شرائط کے مطابق ان امور پرحکم عائد کریگی ۔​
٣۔نظام حکومت اسلامی :
اسلام کی رو سے مملکت اسلامی پر خدا کی طرف سے حکومت ہوگی ۔خدا نے یہ اختیار پیغمبرؐ اور اس کے بعد بارہ اماموں کودے دیا ہے ۔اور امام نے خدا کے دستور کے مطابق یہی اختیا ر ایسے مرد کو سونپ دیا ہے جو احکام کو جان لے اور( ان کو ) جاری کرے ، اور مزید برآں وہ مرد عادل بھی ہو(یعنی نفسی حالت ایسی رکھتا ہو کہ اس کو واجبات کی ادائیگی اور محرّمات کے ترک پر ابھارے ) یہ اسلامی حاکم حق رکھتا ہے کہ کسی مرد یا گروہ کو امور مسلمین چلانے کے لئے وکیل کرے اگروہ اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر حاکم جامع الشرائط بہت سے ہوںتو ہر کوئی لوگوں کے انتخاب کے شرط کے ساتھ ان کے امور کی باگ دوڑ سنبھال سکتا ہے اور احکام میں مراجع تقلید کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔ اگر کسی اسلامی ملک میںدو حاکم ہو ں ، اور ہر ایک ان میں سے موازین اسلام کے مطابق حکم کرتا ہے تو کوئی مشکل نہیںہے اور تاوقتیکہ حاکم مذکور ہ شرائط کے ساتھ متصف ہو اپنے مقام پر باقی رہے گا ۔ پس اگر کچھ شرائط مفقود ہوگئے مثلاً عدالت سے گر گیاخود بخود حکومت کی صلاحیت سے ساقط ہوجائےگا ۔​
٤۔زراعت :
زمین اسلام کی رو سے دوحصوںمین تقسیم ہوتی ہے وہ زمین جوحکومت کی ملک یعنی حکومت کے ہاتھ میںہوتی ہے مثل اس زمین کے جومسلمانوںنے جنگ کے ذریعے حاصل کی ہے اور اصطلاح شرع میں اسے ''مفتوح بعنوۃ''نام دیا جاتا ہے ۔ دوسرا حصہ مباح زمینیں ہےں ۔ پہلی قسم کی زمین سے حکومت فصل لیتی ہے اور اس کی پیداوار سارے مسلمانوںکے لئے ہے ۔اور دوسرے قسم کی زمین اس شخص کی ملکیت ہوتی ہے کہ جس نے اس پر سبقت کی ہو۔اس بناپرزمین خدا ہر اس شخص کی ملکیت ہے جواسے آباد کرے ۔جب اسلام نے لوگوںکو زراعت کی طرف رغبت دلائی ہے اوراس میںکوئی قید وبند قرار نہیںدیالہذا حکومت اسلای کی ساری زمینیں آباد اور سود مند ہوسکتی ہےں۔ اسلام میں''ملوک الطوئفی'' اپنی طرز وروش (یورپ کے اندر جاگیردار طبقہ رعایا پرحق تسلط و حکومت رکھتا تھا ) کے ساتھ اور زرعی اصلاحات جواس زمانے میںمعمول بن چکی ہے وجود نہیںرکھتیں۔٥۔سودا گری و تجارت:
جبکہ اسلام آزادی فراہم کرتا ہے ، ہرآدمی حق رکھتا ہے کہ جوچاہے اور جس طرح چاہے تجارت کرے۔اس طریقے سے اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے ۔ جیساکہ سرمایہ داری نظام کے ساتھ بھی مندرجہ ذیل موارد میںفرق رکھتا ہے :
١۔نقصان دہ مواد جیسے ہیروئن کی تجارت کا کوئی حق نہیںرکھتا ۔
٢۔اسلام میں حرام چیزو ن جیسے الکحل کے مشروبات اور سور کی تجارت کا کوئی حق نہیںرکھتا۔
٣۔کوئی حق نہیںرکھتا کہ کسی کواقسام تجارت او رمنفعت کمانے سے روکے ۔
٤۔جوکوئی منافعہ کماتا ہے اس پر واجب ہے کہ ''خمس''یعنی پانچواں حصہ منفعت اور اسی طرح اپنی زکاۃ حکومت اسلامی کوادا کرے ۔ حکومت بھی اس آمدنی کوضرورتوںکے رفع کرنے میںخرچ کرے تاکہ نہ کوئی ضرورتمند باقی رہے نہ کوئی ضرورت ۔
٥۔حکومت تجارت و کسب منفعت کا حق رکھتی ہے البتہ ان موارد میںکہ قانون (لاضرر ولاضرار )ان کو شامل ہو ، حکومت دوسروں کو نقصان دینے کی مجاز نہیںہے ۔
٦۔جیساکہ حکومت تجارت کواپنانے کا حق نہیںرکھتی، اس دلیل کے ساتھ کہ تجارت کے سارے اقسام آزاد ہیں ۔​
٦۔صنعت اور اسلام :
صنعت کسی بھی نوعیت کی ہواسلام اس کی رغبت دلاتاہے ۔ صنعتوں،کارخانوںپرکوئی قید و حد ، شرط و ٹیکس ، جواب تمام حکومتوںمیں معمول ہے، عائد نہیں کرتا ۔ اس لئے صنعت اسلام کی روشنی میںتیزی کے ساتھ منزل ارتقاء کی طرف بڑھے گی ۔​
٧۔آزادی اور اسلام :
آزادی اسلام کے لحاظ سے کوئی آئین کوئی فکرماضی میںہوخواہ مستقبل میںاسلام کے آسمان سطح کوچھونہیںسکتا ۔ہرآدمی اسلام کی روشنی میں سفر، رہائش، زراعت،تجارت ،اقتصاداورتمام امور میںآزاد ہے ۔ اور کوئی شخص ان کاموںسے اسے روک نہیںسکتا ۔ہاںاس صورت میںکہ وہ حرام کام انجام دے (ایسے امور بھی بہت کم ہیں ) لہذا کوئی محدودیت ، ٹیکس ،قید ،شناختی کارڈ،پاسپورٹ ، تعارفی کارڈ ،نوکری سے معافی کارڈ اور ایسی چیزیںاسلام میںاعتبار نہیںرکھتیں۔​
٨۔اقتصاد اور اسلام :
اقتصاد اسلام میںوسیع طریقے سے ترقی کرتی ہے ، مندرجہ ذیل عوامل کی وجہ سے :
الف۔اسلام تجارت،زراعت اور صنعت میںآزادی دیتا ہے اور ظاہرہے کہ یہ آزادی و خودمختاری مملکت کی اقتصاد کی سطح کو کس درجے بلند کرنے میںمدد گار ہے !
ب۔خود حکومت اسلامی جہاںتک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ مقدارمیںزمین وخاک وطن کی فصل اگانے کاکام سرانجام دے گی ، جوکہ ارتقاء ورونق اقتصاد کاایک اہم سبب ہے ۔
ج۔ حکومت اسلامی میںملازمین بہت کم ہوتے ہیںاور ان کی تنخواہیںحکومت کے خزانے سے دی جاتی ہےں،کیونکہ اسلام بہت سے اداروںکوشرعی اور ضروری نہیںسمجھتا اس لئے اسلام میںادارہ جات سادگی کے ساتھ اور کم تعداد میںہیں ۔
د۔حکومت اسلامی کا فرض ہوتا ہے کہ ضرورت ، فقر اور بےروزگاری کوقوم سے دور کرے اور انسانی او رطبیعی توانائیوںکوکسب منفعت او رتجارت پر لگائے ۔ یہی اقدام خودملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کاباعث ہے ۔​
٩۔فوج اور اسلام :
فوج کا کردار بہت ہی مفید او رفعال ہے۔ اسلام میںفوجی بھرتی جبری نہیںہے بلکہ اسلام تمام لوگوںکوفوج کے لئے آمادہ کرتا ہے مندرجہ ذیل ان دوطریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ:
اول :فوجی آمادگی او راسلحہ و فوجی جنگی مشقوںکی نوعیت میںترقی البتہ بطور رضاو رغبت ،نہ بالجبر و اکراہ
دوم : زمین کی ایک بڑی اراضی مہیا کرنا کہ جس میںہرخواہشمند آدمی کی تعلیم کے لئے بہترین ماڈرن وسائل ہو ں ۔ اور ظاہرہے کہ لوگ ایسی تربیت وتعلیم گاہ کہ جوان کا چند گھڑیوںسے زیادہ وقت نہیں لیتی او رپھر ان کو مضبوط او رتوانا بنادے ، بڑا استقبال کریںگے، جیساکہ پہلے زمانے میںلوگوںنے قدیمی اسلحے کی تربیت اسی انداز سے لی ہے۔​
١٠۔صلح و اسلام :
اسلام دین صلح و امن ہے لہذا کسی پر تجاوز نہیںکرتا ۔ جنگ کی نچلی سطح پر اکتفاکرتا ہے ۔ اگر مظلوم قوم ہو تو اسلام ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس کو استعمار و استحصال کے آقاؤں اور ظالموں کی آلودگی سے پاک و نجیب کردیتا ہے ۔
١١۔صحت اور اسلام :
اسلام نے صحت کے لئے ارشادات فرمائے ہیں ۔جیسے روزہ ،ازدواج ، نظافت اور نمک کااستعمال وغیر ہ اور کچھ چیزوں سے روکا ہے جیسے پیٹ بھر کر کھانا اور اپنے کو خطرے میںڈالنا اور نقصان دہ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جیسے الکحل کے مشروبات اور سور اور ان چیزوںکو جو باعث اضطراب وناخوشی ہوں۔ اسلام نے صحتمندی اور خوش عیشی کے لئے ہرچیز کی صحیح سمت اور اس کے پہلو کو اجا گر کردیا ہے ۔ مزید برآں اسلام نے بیماروں کے ساتھ خصوصاً ان میں جو محتاج ہےں، خاص رعایت برتی ہے حتی کہ میڈیکل ٹیموں ، ہسپتالوںدواخانوںوغیرہ کی بنیا د یہیںسے سرچشمہ پاتی ہے ۔
١٢۔علم و ادب اور اسلام :
اسلام میںعلم و ادب کی سطح بلند کرنے کے لئے کوئی چیز اسلام کے اس قانون سے بہتر نہیں آئی جو فرماتا ہے کہ:''علم و دانش کی طلب ہر مسلمان مرد و عورت پرواجب ہے ۔''​
١٣۔ عورت اور اسلام :
عورت حد کمال تک خود مختاری اور شخصیت رکھتی ہے ۔ اس طرح کہ سوائے بے پردگی اور اسکولوں، تالابوں وغیر ہ میںمردوںکے میل جول کے ،مردوںکی طرح تمام حقوق سے بہرور ہوسکتی ہے ۔ اس بنا پر کوئی پیشہ اختیا ر کرسکتی ہے ، درس پڑھ سکتی ہے ، زراعت کرسکتی ہے ،تجارت کرسکتی ہے ،ڈاکٹریانرس ہوسکتی ہے یا ان کے علاوہ کوئی اور کام ۔ اسلام کے احکام کا ایک خاصا حصہ عورت کو ایک مخصوص اہمیت دیتا ہے ، جوعمیق فلسفہ کے مطابق اس کی زنانہ طبیعت سے سرچشمہ پاتا ہے ۔
١٤۔ قضاوت اور اسلام :اسلام نے تا حدکمال سستا انصاف دینے کی حمایت کی ہے اور بڑی سادگی کے ساتھ ۔چنانچہ ایک قاضی سات معاونوں(یاکمتر) کے ساتھ ایسے شہر کی مشکلات کی تفتیش کرسکتا ہے جس میںایک ملین آدمی رہتے ہوں، جس کے چند اسباب ہیں:
الف۔جرائم کی کمی :اسلام ایسی صالح اور شائستہ فضاء پیدا کرتا ہے کہ جس میںجرائم کی کمی آجاتی ہے ۔
ب۔قضاوت کی بہت سادگی ۔
ج۔اسلام بہت سے ایسے قوانین کوقبول نہیںکرتا کہ جو جرائم کا باعث بن جاتے ہیںجیسے سرحدوںاور کسٹمس وغیرہ کے قوانین ۔​
١٥۔ادارے اور اسلام :
اسلام میںادارے بہت کم ہیں مثلاً ادارہئ اوقاف اور یتا میٰ اور ایسے قاضی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے الگ اور مخصوص ادارے نہیںہیں۔اگر یہ کہیںکہ ادارہ جات اسلامی آج کی دنیا میں معمول ادارہ جات سے ١٠/١ہیںتو حقیقت سے ہٹ کربات نہیںکی ہے ۔حقیقتاً اس پندرہ نکاتی مواد سے ہر نکتہ کی ایک ضخیم جلد کتاب بن سکتی ہے تاکہ اسلام کے اس عنوان پر سارے امتیازات کو بیان کرے اور اس مختصرکتاب میںجوہم نے ہر موضوع کے بارے میںذکر کیا ہے یہ تو ایک انتہائی خلاصہ اور اجمال ہے ۔ یاد آوری کے لئے لازم ہے کہ جب اسلام ادارہ عدل و انصاف کو مضبوط کرتا ہے اور ضروتوںکو پورا کرنے کے لئے بیت المال قرار دیتا ہے ، لوگوںکے اکثر کاموںکی نگرانی کرتا ہے بااس طریقے سے کہ زیادہ سامان وسرمائے کی ضرورت نہ رکھتے ہوں، مثلاً کاؤنسل (syndicate) وغیر ہ ، بے بسی کو ختم کرنے یامحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے وجود میںآتی ہے اور بے نظمیوںاور مجبوریوںکو جلد اور منصفانہ قضاوت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے اوربیت المال کے ذریعے مدد بھی مہیا کی جاسکتی ہے ۔​
(نفاذاسلام )​

یہاںپر ایک سوال پیش آتاہے کہ اگر اسلام ایسا ہی ہے جیسے آپ کہتے ہیںتو کس زمانے میںاسے نافذ کیاگیا ہے ؟کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ حقیقی اسلام کسی زمانے میںنافذ نہیںہوا ہے ۔ اس سوال کا جواب واضح ہے کہ اسلام اکثر ادواراسلامی میںنافذ ہوچکا ہے مگر بطور ناقص سوائے چند زمانوں کے کہ جن میںاسلام بطور کامل نافذ ہوچکا تھا، جیسے خود پیغمبر ؐ کا زمانہ اور انکے بعض حقیقی خلفاء کے ادوار میں۔ مگر تمام اسلامی ادوار میںتجارت ،زراعت ،اقتصاد، فوج اورثقافت وغیرہ کے موضوعات میںمملکت کا عام نظام دین اسلام کی بنیاد پر رہا ہے ۔ اب یہی مشکل ڈیموکریسی اور کمیونزم نظاموںکے لئے بھی پیدا ہوتی ہے ،کیونکہ تا ہنوز حقیقتاًوہ نافذ نہیںہوئے ہیں۔ مثلاً صدر نے خواص ومقربوںپربلکہ سب پر حقیقتاً نافذ نہیںکیاہے ۔ پھر اب کیوں ان نظاموںکے لئے اذان دی جاتی ہے جبکہ ابھی تک وہ نافذنہیں ہوئیں ؟ گمراہ جانشین ایسے گذرے ہیں کہ جواسلام کو حدود قصر اور اپنے مقربوں میں تونافذ ہی نہیں کرتے تھے ۔ مگر نظام مملکت صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر تھا ۔​
(قانون کی پیروی )​

ایک گروہ بیعت ،تقلید اور خلیفہ یا اس کے نائب کی ''پیروی''کادرمیانی فرق پوچھتا ہے۔
جواب بیعت سے مراد ہے : (ایک فرد مسلمان کااپنے اوپر خلےفے کی پیروی کو لازم قرار دینا)اور اس کی ظاہری ضرورت بھی تھی وہ یوں کہ مسلمان اپنا ہاتھ کوخلیفہ کے ہاتھ میں دیتا تھا جیساکہ پیغمبر ؐاسلام نے بیعت شجرہ کے دن درخت کے نیچے اپنی ذات اقدس کے لئے اور عید غدیر کے دن علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مسلمانوںکے بیعت کرنے میں اسی صورت کا حکم فرمایا تھا ۔ اور جوکچھ شرعی دلائل سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بیعت مسلمانوں کے ایک ایک فرد پرواجب نہیںبلکہ وجوب اس وقت ہے جب پیغمبر(ص) یا امام علیہ السلام ان سے طلب کرے۔
اور تقلید سے مراد ہے: احکام شرعی پر اےسے فقیہ کے فتوے کے مطابق عمل کرنا جو احکام کوان کے اصلی مدارک کے ذریعے جانتا ہواور عدالت،مردانگی ،بلوغ اوردوسرے شرائط سے متصف ہوجوکتب فقہ میںآئے ہیں۔ اور خیلفہ یا اس کے نائب کی پیروی : البتہ خلیفہ پیغمبر (ص)کی پیروی سے مراد ہے جنگ ،صلح وغیرہ میںاس کے اوامر واحکام کی اطاعت کرنا خواہ فقیہ ہو یافقیہ کی طرف سے نائب ہو،خواہ وہ مسلمان اس کامقلد ہویادوسرے فقیہ جامع الشرائط کا۔ رئیس (صدر) حکومت اسلامی پر و اجب ہے کہ وکلاء اور گورنر اور قاضیوںکوامور مملکت کے چالانے کے لئے منتخب کرے خواہ یہ انتخاب خود اس کے ذریعے ہویا ایسے شخص کے ذریعے ہوجواس کی طرف سے نمائندہ ہوان وکلاء اور گورنروں میں دو شرط لازم ہیں۔
١۔کفایت ٢۔عدالت
قاضی میںان دوشرطوں کے علاوہ احکام اسلامی میں'نظر 'بھی اضافہ ہوتی ہے ۔ اور اسی طریقے سے گورنر اور قاضی میں شرط ہے کہ مرد ،مسلمان اور مومن ہو اور دوسرا یہ کہ رئیس یا اس کا جانشین حق نہیںرکھتا کہ غیر مسلمان کو مسلمان پر مسلط کرے ۔ مگر ملازمین کے تمام معاملات جیسے تعیین اوقات کار، ذمے داری کو انجام نہ دینے کی صورت میںمعطل کرنا ، کام کے برابر یا اس کی کفایت کے مطابق بیت المال سے اسکی تنخواہ کی ادائیگی (payment ) ،اس کااستعفاء منظور کرنا ،صلاحیت کے مطابق ترقی دینا ، ایک ادارے سے دوسرے ادارے کی طرف تبادلہ کرنا، اوقات کار کے دوران یا اس کے بعد پبلک ڈیلنگ کی کیفیت وطرز اور ان کے علاوہ سارے معاملات حاکم اسلامی کے اختیار میں اور اس کی صوابدید پر منحصر ہےں۔ اسلام ملازم اور غیر ملازم کو قانون کے سامنے ایک ہی خیال کرتا ہے اور جو بھی جرم کرے اس کوسزا دیتا ہے بنابر این ملازم وغیرملازم ،گورے وکالے عرب وعجم اور تمام لوگوں میں اگر چہ مختلف جہتوں سے مختلف ہی کیوں نہ ہو ں کوئی فرق نہیںہے اور یہ موجودہ زمانے کے بہت سے قوانین کے خلاف ہے کیونکہ وہ قوانین جرائم اور گناہوں میںبعض ملازمین کے لئے امتیاز برتنے کے قائل ہیںجیسے بادشاہ یارئیس جمہوری قانون سے مستثنٰی ہوتا ہے ۔ اس طرح کے اس دور کے قوانین سب کے سامنے واضح و آشکار ہیں ۔ دوسرا یہ کہ وزراء کا انتخاب ،رائے دہندگان کاجمع کرنا ، عملے کی کثرت و کمی ، امت اسلامی کے تقاضا کے مطابق ہوگی کیونکہ ان امور کی کوئی مخصوص ہیئت اسلام میںذکر نہیں ہوئی ہے ۔ہاںکوئی شک نہیںہے کہ اسلام (ان امور کی وجہ سے ) کامیا ب ہے :
١۔ سیع وکثیر خود مختاریاں۔
٢۔حیرت انگیز سادگی
٣۔مسلمانوں کے درمیان زیادہ اعتماد
٤۔اسلامی حکومت کے دفا تر بہت کم ہیں ۔شاید حکومت اسلامی کے دفاتر موجودہ حکومتوںمیںسے کسی حکومت دفاتر کے دسویں حصے میںہوں ۔ اور یہی کافی ہے جوسمجھیںکہ ایک ملک کے بہت سے ادارے ایک گورنر ،قاضی،اور بیت المال کے سرپرست کے ہاتھ میںہوتے ہیں۔ملازمین بہت مختصر تعداد میںدئے جاتے ہیں۔​
 

صرف علی

محفلین
(کمیونزم)​
٤۔ کمیونسٹ حکومت:
کمیونسٹ حکومت دیرینہ زمانے سے یونان میں ظاہر ہوئی لوگ اس کے بر خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اور اس کی آواز دبا دی۔اس کے بعددوسری دفعہ فارس کی زمین پر''مزدک''نامی شخص اور اس کے ہواخواہوں کے ذریعے ظاہر ہوئی(مگر)پھر اس کے خلاف لوگوں کی جدوجہد نے اسے خاموش کر دیا،تا آنکہ آئندہ ساٹھ سالوں کے عرصے میں تیسری دفعہ روس میں ظاہر ہوئی اور دوسری حکومتوں مثلاًچین،یوگوسلاویہ مشرقی المانیا،کیوبا وغیرہ نے اس کی پیروی کی اور اب رو بہ زوال ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اگر امریکہ دوسری عالمگیر لڑائی میں روس کی المانی نازیوں کے خلاف مدد نہ کرتا تو اس وقت ہی کمیونزم(ان)قوموںسے نابود ہو جاتی۔مگر وہ مدد کمیونزم کے لئے اس کی بقا اور اب تک کے پھلنے پھولنے کا سبب بنی۔مگر ظاہر ہے کہ کمیونزم اندر اور باہر آخری نیستی کی طرف گامزن ہے۔اور کیونکہ کمیونسٹ حکومتیں اور ان کا نگہبان روس سرمایہ داری نظام کی طرف مائل ہو گئے ہیں اور ایک طرف سے مہلک چوٹیں باہر سے اس نظام کے خلاف ان کو سہنی پڑتی ہیں اور اگر تیسری عالمگیر لڑائی شعلہ زن ہو جائے تو کمیونزم مٹ جائے گی۔چنانچہ شواہد اور سیاسی پیش گوئی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ شروع میں کمیونزم ایک اقتصادی پروگرام کے تحت تھی بعد میں تھوڑا تھوڑا پھیلتی گئی تا آنکہ عام فلسفے کی صورت اختیار کرلی اور زندگی کے تمام شعبوں میں مداخلت کرنے لگی ۔
اس کا جوہر حقیقتاً دو اہداف میں ملخّص ہو جاتا ہے:
١۔لا دینیت نسبت بہ آئیڈیالاجی
٢۔دولت وعورت کا سب میںپھیلاؤ ۔ بعد میں یوں کروٹ بدلی کہ پوری دولت وثروت حکومت کی ڈیوڑھی کے اندر ہو جائے۔اور لوگ تا حدّ امکان زیادہ کام کریں اور خرچ کم کریں اور عورتیں بھی خاندان کے نظام میں اور عام پھیلاؤ کیلئے تقسیم ہوئیں اور آخر نتےجتہً نہ کوئی خاندان باقی رہا نہ کامل پھیلاؤ ۔ ''اسٹالین ''کے کہنے کے مطابق مارکسزم ایک ایسا علم ہے جو طبیعت اور قوم کی ارتقاء کے قوانین اور ستم رسیدہ اور استحصال شدہ طبقات کو انقلاب کے قوانین سکھاتا ہے اور یہ وہ علم ہے جو سوشلزم کی کامیابی کی تمام ملکوں میں خوش خبری سناتا ہے۔آخر کارمارکسزم وہ علم ہے جو کمیونسٹ قوم کی تعمیر کا ہمیں سبق دیتا ہے۔​
(مارکس کی تھیوری)​

مارکس کی نظر میں عوامل مادی واقتصادی ہی ہیں جو تعمیر قانونی ،اجتماعی ،سیاسی ،ہنری ،دینی وغیرہ کو وجود میں لاتے ہیں ۔اس بنا پر امور مذکورہ کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔بلکہ مادیات کی تکمیل کے حساب سے یہ بھی پایہ تکمیل تک پہونچ پاتے ہیں ۔ اور خود مادیات ، وسائل پیدائش کی تکمیل کے حساب تکمےل پاتی ہےں۔ اور ان کی نظر میںتاریخ نے بھی مادہ سے جنم لیا ہے اسی مفہوم کو ''تفسیر مادی تاریخ'' نام دےتے ہیں اسی طرح مارکس (مارکسزم کا بانی )''ہگل ''کی پیروی میں کہتا ہے : فکر انسانی ڈائلیکٹک (علم منطق یا سقراط کا طرز محاورہ )کی پیر وی میں ارتقاء کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کی نظر میں ڈائلیکٹک سے مراد یہ ہے کہ ہر تھیو ری اور تھیسس اپنے ظاہر و آشکار نتائج کے ساتھ حاملہ ہوتی ہے ۔ چونکہ ہر تھیسس کا ایسا ضد بھی ہوتا ہے جو اس پر غالب آجاتا ہے (یہ تھیسس بار آور نہیںہوپاتی ) ہا ںکوئی تھیو ری اس قدر استمرار ودوام پالیتی ہے جو اگر اس کی ضد بھی اپنے طمطراق کے ساتھ سر اٹھائے تو اس کو کچل دے ( تو یہ بار آور ہوسکتی ہے ۔) ''مارکس ''نے اس تھیوری کوعالم افکار سے عملی طور پر اجتماعی نظاموںکی طرف منتقل کیا اور اس کے نظریہ کے مطابق ہر اجتماعی نظام میں چلتے چلتے فنا کے اسباب بھی پیدا ہوجاتے ہیںجو اس نظام کو فنا کردیتے ہیںاور بعد میںآنے والانظام اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔ یوں فکرو نظام بدل اور نقص و کمال کی دوڑ دھوپ میںہمیشہ رواں دواں رہیںگے ۔ مارکس کی نظر میںصرف دوطبقے وجود رکھتے ہیں :
ا۔مزدورں کا طبقہ
٢۔مالکوں کاطبقہ یا سرمائیدار۔
اور ہمیشہ دوسراطبقہ پہلے سے مفاد حاصل کرتا رہا ہے۔ لہذا سرمایہ داروںاور مالکوںکے ہاتھ سے دولت و ثروت کو چھیننے کے لئے ان کے خلاف انقلاب لانا ضروری ہے'' مارکس'' کہتا ہے کہ : تمام اخلاق و ادیان ، سرمائیداری نظاموںکی پیدائش ہےںاس بناپر سوائے خرافات و سود خوری کچھ نہیں۔اس کے نظریہ میں پہلے وسائل پیدائش ، اسکے بعد زمینوںکوقومیانہ چاہیے۔بعد ازین شخصی مالکیت کے نام کلی طور پر بتادئے جائیں، چنانچہ خاندانی نظام بے کار اور عورتیں عام ہوجائےں اور سب کے درمیا ن مشتر ک ہوجائےں کیونکہ خاندان تو سرمائیداری نظام کی پیدائش ہے ۔ ان اہداف تک رسائی کے لئے اور کمیونسٹی نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پہلے نظم و نسق پیدا کرنا چاہیئے اورتوانائی کوزور آوری کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے۔ تب آمریت ان کار گزاریوںکا بدترین طریقہ ہو۔ لہذا ''اسٹالن ''نے قتل ،آوارگی اور قید خانے کورواج دیاجیسے ( ابوالاعلی مودودی )نقل کرتے ہیں کہ تقرباً بیس(٢٠) ملین انسانوں کومنتشر اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔
(گفتار ''مارکس'' پر نقد و نظر )
کمیونسٹ تھیوری پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ منجملہ:
١۔چرخہ تاریخ کوکچھ وجوہات کی بناپر وجود میںلاتی ہے ۔ جیسے دین ، مردانگی ،اپنوں کی دوستی، گروہ بندی ،وطن پرستی اور ایسی اور چیزیں ، صرف اقتصاد نہیں(کمیونسٹوںکے بقول )
٢۔ دین حقیقت ہے وہم نہیںہے جیسا کہ علم فلسفہ سے ثابت ہو چکاہے
٣۔اخلاق حقیقت ہیںوہم نہیں ہیں۔کیا کیمو نسٹ قبول کریںگے کہ کوئی ان سے خیانت کرے یا ان سے جھوٹ بولے تجارت میں دھوکا کرے ؟
٤۔ خاندان فطرت بشریت کا سربستہ راز ہے مزید برآںگھر انہ لائق اولاد کی تربیت کا آشیانہ ہے ۔
٥۔ وسائل پیدائش کا اشتراک باعث کوتاہی پیدائش ہے ۔ جب انسان جان لے کہ اس کی کمائی سے دوسرا بہرہ ور ہوگا تو کام کرنے کے لئے ضرورت آمادگی پیدانہ کر سکیں گا
٦۔کمیونسٹوںکی گفتا ر میںتضاد بےانی نظر آتی ہے کیونکہ ان کے بقول کمیونزم آخری نظام ہے جس کو باقی رہنا چاہیے اور دوسری طرف سے کہتے ہیںکہ ہر نظام اپنی رفتار کے دوران اپنا ضد اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ اس بنا پر دوسرے قول کا قہری نتیجہ یہ ہے کہ کمیونزم اور سو شلزم مرمٹ کردوسرے نظام میںتبدیل ہو جائیں گی ۔
٧۔قوم صرف دوطبقوںسے تشکیل نہیں پاتی بلکہ اس میں ملازم ، طالب علم ، ہادی ، مزدور،زمیندار ،تاجر ،عالم ،ہنرمند،شاعر ،کاتب اور ان کے علاوہ بہت سے طبقے موجود ہیں ۔
٨۔ لوگوں کے ضبط کئے ہوئے مال جب تک حکومت کے خزانے میںجمع کئے جائیں ، بڑے سرمائے کے نام پر چھوٹے سرمائے کوناس کرنے کے مترادف ہے
٩ ۔آمریت ، طبیعت بشر کے لئے سازگارنہیں ہے اس کو مٹا دینا چاہیے ۔
١٠۔جس طرح سرمائیداروں پر ظالم و ستمگر ہو نے کا اعتراض ہے ۔ کمیو نسٹوں پر بھی یہی شدید طریقے سے عائد ہے ، کیونکہ ان کا ظلم ستم زیادہ ہے ۔​
(سرمایہ داری)​
٥۔حکومت سرمایہ داری :
اس سے مراد ہے : سود کمانے اور مالی بہرہ وری کی پوری آزادی ۔ اور حقیقت میںیہ نظام کسی حکومت کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ساری حکومتیں اس عنوان کی خاص شرائط واصول کے ساتھ اجازت دیتی ہےں۔ اسلام مروجّہ سرمایہ داری کی طرز کوقبول نہیںکرتا بلکہ اسلام تمام قسموںکی منفعت حاصل کرنے کو مخصوص ضابطوں کے ساتھ جائز سمجھتا ہے جیسا کہ اس کو ہم بیان کریں گے ۔​
(حاکمیت اسلام )​
٦۔حکومت اسلامی :
حکومت اسلامی زندگی کے تمام شعبوںمیں مخصوص پروگرام رکھتی ہے ۔یہاںپر منا سب ہے کہ اس پروگرام کے اصولوںکی طرف اشارہ کریں ۔
١۔ مطالعہ جہان :
اسلام کی رو سے جہان کا ایک ایسا پیدا کرنے و الا ہے جو عاقل ، طاقت ور اور عادل ہے ۔ اس جہان کے فنا ہونے کے بعد پوری مخلوقات اسی کی طرف پلٹے گی تاکہ نیکوکاروںکو اچھی جزاملے اور بدکاروںکو ان کے کیفر کردار تک پہنچایاجائے ۔ اسلام کی رو سے ابوالبشر حضرت آدم ؑ کی پیدائش کے ساتھ انسان ایک جگہ اور موجود ہ صورت کے ساتھ پیدا ہوگیا ، نہ یہ کہ تدریجاًانسان نے آکریہی صورت اختیا ر کی جو کہ ''ڈارون ''فکرکرتا ہے ۔​
٢۔قوانین وضوابط :
اسلام کی رو سے قانون سازی فقط خدا کے ہاتھ میںہے۔ ہرحکم اور قانو ن کہ جس کا سرچشمہ کتاب ،سنت ، اجماع اور عقل نہ ہوکوئی قیمت نہیںرکھتا ۔ کتاب سے مراد قرآن کر یم اور سنت سے رواےا ت و احادیث ہیںجوکہ نبی اکرم ؐاور بارہ اماموں ؑ کی گفتار ، کردار اور رفتا ر سے منقو ل ہیں۔اجماع سے مر اد ہے فقہاء کے ایسے گروہ کا کسی حکم پر اتفاق کہ معصوم ؑ بھی اس کا جزء ہو ۔ اور آخری عقل سے مراد وہ علل احکا م ہیں کہ جن کو عقل درک کرسکتی ہے مثلاً جھوٹ کی برائی ، احسان کی اچھائی اور ایسی اور چیزیں ۔ مگروقتی حادثات جیسے جنگ اور صلح وغیرہ ، اس کے بعد جو اسلام کے قوانین کلیہ ان امور کوشامل ہیں باخبر حکومت اسلامی وقت کے شرائط کے مطابق ان امور پرحکم عائد کریگی ۔​
٣۔نظام حکومت اسلامی :
اسلام کی رو سے مملکت اسلامی پر خدا کی طرف سے حکومت ہوگی ۔خدا نے یہ اختیار پیغمبرؐ اور اس کے بعد بارہ اماموں کودے دیا ہے ۔اور امام نے خدا کے دستور کے مطابق یہی اختیا ر ایسے مرد کو سونپ دیا ہے جو احکام کو جان لے اور( ان کو ) جاری کرے ، اور مزید برآں وہ مرد عادل بھی ہو(یعنی نفسی حالت ایسی رکھتا ہو کہ اس کو واجبات کی ادائیگی اور محرّمات کے ترک پر ابھارے ) یہ اسلامی حاکم حق رکھتا ہے کہ کسی مرد یا گروہ کو امور مسلمین چلانے کے لئے وکیل کرے اگروہ اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر حاکم جامع الشرائط بہت سے ہوںتو ہر کوئی لوگوں کے انتخاب کے شرط کے ساتھ ان کے امور کی باگ دوڑ سنبھال سکتا ہے اور احکام میں مراجع تقلید کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔ اگر کسی اسلامی ملک میںدو حاکم ہو ں ، اور ہر ایک ان میں سے موازین اسلام کے مطابق حکم کرتا ہے تو کوئی مشکل نہیںہے اور تاوقتیکہ حاکم مذکور ہ شرائط کے ساتھ متصف ہو اپنے مقام پر باقی رہے گا ۔ پس اگر کچھ شرائط مفقود ہوگئے مثلاً عدالت سے گر گیاخود بخود حکومت کی صلاحیت سے ساقط ہوجائےگا ۔​
٤۔زراعت :
زمین اسلام کی رو سے دوحصوںمین تقسیم ہوتی ہے وہ زمین جوحکومت کی ملک یعنی حکومت کے ہاتھ میںہوتی ہے مثل اس زمین کے جومسلمانوںنے جنگ کے ذریعے حاصل کی ہے اور اصطلاح شرع میں اسے ''مفتوح بعنوۃ''نام دیا جاتا ہے ۔ دوسرا حصہ مباح زمینیں ہےں ۔ پہلی قسم کی زمین سے حکومت فصل لیتی ہے اور اس کی پیداوار سارے مسلمانوںکے لئے ہے ۔اور دوسرے قسم کی زمین اس شخص کی ملکیت ہوتی ہے کہ جس نے اس پر سبقت کی ہو۔اس بناپرزمین خدا ہر اس شخص کی ملکیت ہے جواسے آباد کرے ۔جب اسلام نے لوگوںکو زراعت کی طرف رغبت دلائی ہے اوراس میںکوئی قید وبند قرار نہیںدیالہذا حکومت اسلای کی ساری زمینیں آباد اور سود مند ہوسکتی ہےں۔ اسلام میں''ملوک الطوئفی'' اپنی طرز وروش (یورپ کے اندر جاگیردار طبقہ رعایا پرحق تسلط و حکومت رکھتا تھا ) کے ساتھ اور زرعی اصلاحات جواس زمانے میںمعمول بن چکی ہے وجود نہیںرکھتیں۔٥۔سودا گری و تجارت:
جبکہ اسلام آزادی فراہم کرتا ہے ، ہرآدمی حق رکھتا ہے کہ جوچاہے اور جس طرح چاہے تجارت کرے۔اس طریقے سے اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے ۔ جیساکہ سرمایہ داری نظام کے ساتھ بھی مندرجہ ذیل موارد میںفرق رکھتا ہے :
١۔نقصان دہ مواد جیسے ہیروئن کی تجارت کا کوئی حق نہیںرکھتا ۔
٢۔اسلام میں حرام چیزو ن جیسے الکحل کے مشروبات اور سور کی تجارت کا کوئی حق نہیںرکھتا۔
٣۔کوئی حق نہیںرکھتا کہ کسی کواقسام تجارت او رمنفعت کمانے سے روکے ۔
٤۔جوکوئی منافعہ کماتا ہے اس پر واجب ہے کہ ''خمس''یعنی پانچواں حصہ منفعت اور اسی طرح اپنی زکاۃ حکومت اسلامی کوادا کرے ۔ حکومت بھی اس آمدنی کوضرورتوںکے رفع کرنے میںخرچ کرے تاکہ نہ کوئی ضرورتمند باقی رہے نہ کوئی ضرورت ۔
٥۔حکومت تجارت و کسب منفعت کا حق رکھتی ہے البتہ ان موارد میںکہ قانون (لاضرر ولاضرار )ان کو شامل ہو ، حکومت دوسروں کو نقصان دینے کی مجاز نہیںہے ۔
٦۔جیساکہ حکومت تجارت کواپنانے کا حق نہیںرکھتی، اس دلیل کے ساتھ کہ تجارت کے سارے اقسام آزاد ہیں ۔​
٦۔صنعت اور اسلام :
صنعت کسی بھی نوعیت کی ہواسلام اس کی رغبت دلاتاہے ۔ صنعتوں،کارخانوںپرکوئی قید و حد ، شرط و ٹیکس ، جواب تمام حکومتوںمیں معمول ہے، عائد نہیں کرتا ۔ اس لئے صنعت اسلام کی روشنی میںتیزی کے ساتھ منزل ارتقاء کی طرف بڑھے گی ۔​
٧۔آزادی اور اسلام :
آزادی اسلام کے لحاظ سے کوئی آئین کوئی فکرماضی میںہوخواہ مستقبل میںاسلام کے آسمان سطح کوچھونہیںسکتا ۔ہرآدمی اسلام کی روشنی میں سفر، رہائش، زراعت،تجارت ،اقتصاداورتمام امور میںآزاد ہے ۔ اور کوئی شخص ان کاموںسے اسے روک نہیںسکتا ۔ہاںاس صورت میںکہ وہ حرام کام انجام دے (ایسے امور بھی بہت کم ہیں ) لہذا کوئی محدودیت ، ٹیکس ،قید ،شناختی کارڈ،پاسپورٹ ، تعارفی کارڈ ،نوکری سے معافی کارڈ اور ایسی چیزیںاسلام میںاعتبار نہیںرکھتیں۔​
٨۔اقتصاد اور اسلام :
اقتصاد اسلام میںوسیع طریقے سے ترقی کرتی ہے ، مندرجہ ذیل عوامل کی وجہ سے :
الف۔اسلام تجارت،زراعت اور صنعت میںآزادی دیتا ہے اور ظاہرہے کہ یہ آزادی و خودمختاری مملکت کی اقتصاد کی سطح کو کس درجے بلند کرنے میںمدد گار ہے !
ب۔خود حکومت اسلامی جہاںتک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ مقدارمیںزمین وخاک وطن کی فصل اگانے کاکام سرانجام دے گی ، جوکہ ارتقاء ورونق اقتصاد کاایک اہم سبب ہے ۔
ج۔ حکومت اسلامی میںملازمین بہت کم ہوتے ہیںاور ان کی تنخواہیںحکومت کے خزانے سے دی جاتی ہےں،کیونکہ اسلام بہت سے اداروںکوشرعی اور ضروری نہیںسمجھتا اس لئے اسلام میںادارہ جات سادگی کے ساتھ اور کم تعداد میںہیں ۔
د۔حکومت اسلامی کا فرض ہوتا ہے کہ ضرورت ، فقر اور بےروزگاری کوقوم سے دور کرے اور انسانی او رطبیعی توانائیوںکوکسب منفعت او رتجارت پر لگائے ۔ یہی اقدام خودملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کاباعث ہے ۔​
٩۔فوج اور اسلام :
فوج کا کردار بہت ہی مفید او رفعال ہے۔ اسلام میںفوجی بھرتی جبری نہیںہے بلکہ اسلام تمام لوگوںکوفوج کے لئے آمادہ کرتا ہے مندرجہ ذیل ان دوطریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ:
اول :فوجی آمادگی او راسلحہ و فوجی جنگی مشقوںکی نوعیت میںترقی البتہ بطور رضاو رغبت ،نہ بالجبر و اکراہ
دوم : زمین کی ایک بڑی اراضی مہیا کرنا کہ جس میںہرخواہشمند آدمی کی تعلیم کے لئے بہترین ماڈرن وسائل ہو ں ۔ اور ظاہرہے کہ لوگ ایسی تربیت وتعلیم گاہ کہ جوان کا چند گھڑیوںسے زیادہ وقت نہیں لیتی او رپھر ان کو مضبوط او رتوانا بنادے ، بڑا استقبال کریںگے، جیساکہ پہلے زمانے میںلوگوںنے قدیمی اسلحے کی تربیت اسی انداز سے لی ہے۔​
١٠۔صلح و اسلام :
اسلام دین صلح و امن ہے لہذا کسی پر تجاوز نہیںکرتا ۔ جنگ کی نچلی سطح پر اکتفاکرتا ہے ۔ اگر مظلوم قوم ہو تو اسلام ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس کو استعمار و استحصال کے آقاؤں اور ظالموں کی آلودگی سے پاک و نجیب کردیتا ہے ۔
١١۔صحت اور اسلام :
اسلام نے صحت کے لئے ارشادات فرمائے ہیں ۔جیسے روزہ ،ازدواج ، نظافت اور نمک کااستعمال وغیر ہ اور کچھ چیزوں سے روکا ہے جیسے پیٹ بھر کر کھانا اور اپنے کو خطرے میںڈالنا اور نقصان دہ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جیسے الکحل کے مشروبات اور سور اور ان چیزوںکو جو باعث اضطراب وناخوشی ہوں۔ اسلام نے صحتمندی اور خوش عیشی کے لئے ہرچیز کی صحیح سمت اور اس کے پہلو کو اجا گر کردیا ہے ۔ مزید برآں اسلام نے بیماروں کے ساتھ خصوصاً ان میں جو محتاج ہےں، خاص رعایت برتی ہے حتی کہ میڈیکل ٹیموں ، ہسپتالوںدواخانوںوغیرہ کی بنیا د یہیںسے سرچشمہ پاتی ہے ۔
١٢۔علم و ادب اور اسلام :
اسلام میںعلم و ادب کی سطح بلند کرنے کے لئے کوئی چیز اسلام کے اس قانون سے بہتر نہیں آئی جو فرماتا ہے کہ:''علم و دانش کی طلب ہر مسلمان مرد و عورت پرواجب ہے ۔''​
١٣۔ عورت اور اسلام :
عورت حد کمال تک خود مختاری اور شخصیت رکھتی ہے ۔ اس طرح کہ سوائے بے پردگی اور اسکولوں، تالابوں وغیر ہ میںمردوںکے میل جول کے ،مردوںکی طرح تمام حقوق سے بہرور ہوسکتی ہے ۔ اس بنا پر کوئی پیشہ اختیا ر کرسکتی ہے ، درس پڑھ سکتی ہے ، زراعت کرسکتی ہے ،تجارت کرسکتی ہے ،ڈاکٹریانرس ہوسکتی ہے یا ان کے علاوہ کوئی اور کام ۔ اسلام کے احکام کا ایک خاصا حصہ عورت کو ایک مخصوص اہمیت دیتا ہے ، جوعمیق فلسفہ کے مطابق اس کی زنانہ طبیعت سے سرچشمہ پاتا ہے ۔
١٤۔ قضاوت اور اسلام :اسلام نے تا حدکمال سستا انصاف دینے کی حمایت کی ہے اور بڑی سادگی کے ساتھ ۔چنانچہ ایک قاضی سات معاونوں(یاکمتر) کے ساتھ ایسے شہر کی مشکلات کی تفتیش کرسکتا ہے جس میںایک ملین آدمی رہتے ہوں، جس کے چند اسباب ہیں:
الف۔جرائم کی کمی :اسلام ایسی صالح اور شائستہ فضاء پیدا کرتا ہے کہ جس میںجرائم کی کمی آجاتی ہے ۔
ب۔قضاوت کی بہت سادگی ۔
ج۔اسلام بہت سے ایسے قوانین کوقبول نہیںکرتا کہ جو جرائم کا باعث بن جاتے ہیںجیسے سرحدوںاور کسٹمس وغیرہ کے قوانین ۔​
١٥۔ادارے اور اسلام :
اسلام میںادارے بہت کم ہیں مثلاً ادارہئ اوقاف اور یتا میٰ اور ایسے قاضی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے الگ اور مخصوص ادارے نہیںہیں۔اگر یہ کہیںکہ ادارہ جات اسلامی آج کی دنیا میں معمول ادارہ جات سے ١٠/١ہیںتو حقیقت سے ہٹ کربات نہیںکی ہے ۔حقیقتاً اس پندرہ نکاتی مواد سے ہر نکتہ کی ایک ضخیم جلد کتاب بن سکتی ہے تاکہ اسلام کے اس عنوان پر سارے امتیازات کو بیان کرے اور اس مختصرکتاب میںجوہم نے ہر موضوع کے بارے میںذکر کیا ہے یہ تو ایک انتہائی خلاصہ اور اجمال ہے ۔ یاد آوری کے لئے لازم ہے کہ جب اسلام ادارہ عدل و انصاف کو مضبوط کرتا ہے اور ضروتوںکو پورا کرنے کے لئے بیت المال قرار دیتا ہے ، لوگوںکے اکثر کاموںکی نگرانی کرتا ہے بااس طریقے سے کہ زیادہ سامان وسرمائے کی ضرورت نہ رکھتے ہوں، مثلاً کاؤنسل (syndicate) وغیر ہ ، بے بسی کو ختم کرنے یامحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے وجود میںآتی ہے اور بے نظمیوںاور مجبوریوںکو جلد اور منصفانہ قضاوت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے اوربیت المال کے ذریعے مدد بھی مہیا کی جاسکتی ہے ۔​
(نفاذاسلام )​

یہاںپر ایک سوال پیش آتاہے کہ اگر اسلام ایسا ہی ہے جیسے آپ کہتے ہیںتو کس زمانے میںاسے نافذ کیاگیا ہے ؟کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ حقیقی اسلام کسی زمانے میںنافذ نہیںہوا ہے ۔ اس سوال کا جواب واضح ہے کہ اسلام اکثر ادواراسلامی میںنافذ ہوچکا ہے مگر بطور ناقص سوائے چند زمانوں کے کہ جن میںاسلام بطور کامل نافذ ہوچکا تھا، جیسے خود پیغمبر ؐ کا زمانہ اور انکے بعض حقیقی خلفاء کے ادوار میں۔ مگر تمام اسلامی ادوار میںتجارت ،زراعت ،اقتصاد، فوج اورثقافت وغیرہ کے موضوعات میںمملکت کا عام نظام دین اسلام کی بنیاد پر رہا ہے ۔ اب یہی مشکل ڈیموکریسی اور کمیونزم نظاموںکے لئے بھی پیدا ہوتی ہے ،کیونکہ تا ہنوز حقیقتاًوہ نافذ نہیںہوئے ہیں۔ مثلاً صدر نے خواص ومقربوںپربلکہ سب پر حقیقتاً نافذ نہیںکیاہے ۔ پھر اب کیوں ان نظاموںکے لئے اذان دی جاتی ہے جبکہ ابھی تک وہ نافذنہیں ہوئیں ؟ گمراہ جانشین ایسے گذرے ہیں کہ جواسلام کو حدود قصر اور اپنے مقربوں میں تونافذ ہی نہیں کرتے تھے ۔ مگر نظام مملکت صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر تھا ۔​
(قانون کی پیروی )​

ایک گروہ بیعت ،تقلید اور خلیفہ یا اس کے نائب کی ''پیروی''کادرمیانی فرق پوچھتا ہے۔
جواب بیعت سے مراد ہے : (ایک فرد مسلمان کااپنے اوپر خلےفے کی پیروی کو لازم قرار دینا)اور اس کی ظاہری ضرورت بھی تھی وہ یوں کہ مسلمان اپنا ہاتھ کوخلیفہ کے ہاتھ میں دیتا تھا جیساکہ پیغمبر ؐاسلام نے بیعت شجرہ کے دن درخت کے نیچے اپنی ذات اقدس کے لئے اور عید غدیر کے دن علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مسلمانوںکے بیعت کرنے میں اسی صورت کا حکم فرمایا تھا ۔ اور جوکچھ شرعی دلائل سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بیعت مسلمانوں کے ایک ایک فرد پرواجب نہیںبلکہ وجوب اس وقت ہے جب پیغمبر(ص) یا امام علیہ السلام ان سے طلب کرے۔
اور تقلید سے مراد ہے: احکام شرعی پر اےسے فقیہ کے فتوے کے مطابق عمل کرنا جو احکام کوان کے اصلی مدارک کے ذریعے جانتا ہواور عدالت،مردانگی ،بلوغ اوردوسرے شرائط سے متصف ہوجوکتب فقہ میںآئے ہیں۔ اور خیلفہ یا اس کے نائب کی پیروی : البتہ خلیفہ پیغمبر (ص)کی پیروی سے مراد ہے جنگ ،صلح وغیرہ میںاس کے اوامر واحکام کی اطاعت کرنا خواہ فقیہ ہو یافقیہ کی طرف سے نائب ہو،خواہ وہ مسلمان اس کامقلد ہویادوسرے فقیہ جامع الشرائط کا۔ رئیس (صدر) حکومت اسلامی پر و اجب ہے کہ وکلاء اور گورنر اور قاضیوںکوامور مملکت کے چالانے کے لئے منتخب کرے خواہ یہ انتخاب خود اس کے ذریعے ہویا ایسے شخص کے ذریعے ہوجواس کی طرف سے نمائندہ ہوان وکلاء اور گورنروں میں دو شرط لازم ہیں۔
١۔کفایت ٢۔عدالت
قاضی میںان دوشرطوں کے علاوہ احکام اسلامی میں'نظر 'بھی اضافہ ہوتی ہے ۔ اور اسی طریقے سے گورنر اور قاضی میں شرط ہے کہ مرد ،مسلمان اور مومن ہو اور دوسرا یہ کہ رئیس یا اس کا جانشین حق نہیںرکھتا کہ غیر مسلمان کو مسلمان پر مسلط کرے ۔ مگر ملازمین کے تمام معاملات جیسے تعیین اوقات کار، ذمے داری کو انجام نہ دینے کی صورت میںمعطل کرنا ، کام کے برابر یا اس کی کفایت کے مطابق بیت المال سے اسکی تنخواہ کی ادائیگی (payment ) ،اس کااستعفاء منظور کرنا ،صلاحیت کے مطابق ترقی دینا ، ایک ادارے سے دوسرے ادارے کی طرف تبادلہ کرنا، اوقات کار کے دوران یا اس کے بعد پبلک ڈیلنگ کی کیفیت وطرز اور ان کے علاوہ سارے معاملات حاکم اسلامی کے اختیار میں اور اس کی صوابدید پر منحصر ہےں۔ اسلام ملازم اور غیر ملازم کو قانون کے سامنے ایک ہی خیال کرتا ہے اور جو بھی جرم کرے اس کوسزا دیتا ہے بنابر این ملازم وغیرملازم ،گورے وکالے عرب وعجم اور تمام لوگوں میں اگر چہ مختلف جہتوں سے مختلف ہی کیوں نہ ہو ں کوئی فرق نہیںہے اور یہ موجودہ زمانے کے بہت سے قوانین کے خلاف ہے کیونکہ وہ قوانین جرائم اور گناہوں میںبعض ملازمین کے لئے امتیاز برتنے کے قائل ہیںجیسے بادشاہ یارئیس جمہوری قانون سے مستثنٰی ہوتا ہے ۔ اس طرح کے اس دور کے قوانین سب کے سامنے واضح و آشکار ہیں ۔ دوسرا یہ کہ وزراء کا انتخاب ،رائے دہندگان کاجمع کرنا ، عملے کی کثرت و کمی ، امت اسلامی کے تقاضا کے مطابق ہوگی کیونکہ ان امور کی کوئی مخصوص ہیئت اسلام میںذکر نہیں ہوئی ہے ۔ہاںکوئی شک نہیںہے کہ اسلام (ان امور کی وجہ سے ) کامیا ب ہے :
١۔ سیع وکثیر خود مختاریاں۔
٢۔حیرت انگیز سادگی
٣۔مسلمانوں کے درمیان زیادہ اعتماد
٤۔اسلامی حکومت کے دفا تر بہت کم ہیں ۔شاید حکومت اسلامی کے دفاتر موجودہ حکومتوںمیںسے کسی حکومت دفاتر کے دسویں حصے میںہوں ۔ اور یہی کافی ہے جوسمجھیںکہ ایک ملک کے بہت سے ادارے ایک گورنر ،قاضی،اور بیت المال کے سرپرست کے ہاتھ میںہوتے ہیں۔ملازمین بہت مختصر تعداد میںدئے جاتے ہیں۔​
 

صرف علی

محفلین
(اقلیتیں)​

ممکت اسلامی میںاقلیتوںکا وہی حکم ہے جودوسرے ممالک میںاقلیتوںکاہے۔ صرف ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میںاقلیتیں اپنی ساری خودمختاریوںسے بہرمند ہوتی ہیں سوائے منکرات کے اعلانیہ استعمال کے کہ اس کے مجاز نہیںہیں ۔ کیونکہ وہ اسلام کی روشنی میںتمام خود مختاریوں سے بہرہ مند ہے لہذاطول تاریخ میںہمیشہ اقلیتیں ،مسلمانوںکی حکومت کے خواستگار رہی ہےں۔ ان کی خواہشیں یہی رہی ہے کہ جو غیر اسلامی حکومتیں ان پر ظلم وستم کرتی ہیں ان کاتختہ الٹ دیں یا ان کومٹا دیں ۔​
(ضرورتوں کاپورا کرنا )​

اسلام میں''بیت المال '' کے نام سے ایک خزانہ ہے جس میںخمس ،زکواۃ ،خراج اور جزیہ جمع ہوتا ہے اور تمام اسلامی امور ،بینواؤں ،ضرورتمندوںوغیر ہ پر خرچ ہو تا ہے ۔ اور یہ امور اقتصادی سے اہم امر جوفقر وحرص کو زائل کرتا ہے ،آج تک ایسا خزانہ معاصر حکومتوں مےںصفحہئ ہستی پرنظر نہیںآےا۔بیت المال کے کاموں کا نمونہ یہ ہے (جوحکومت کے مختلف مہمات کو پورا کرنے کے علاوہ ہے ) کہ بے چارے و بینوا کو اس کی بینوا ئی رفع کرنے کے لئے ، مریض کو اس کے علاج کے لئے ، اس مسافر کو جو سفر میںمحتاج ہو گیا ہو ، اسے خاند ان تک پہنچانے کے لئے، کنوارے کو اس کے ازدواج کے لئے کسان کو ضروری چیزیں (ہل وبیل وغیرہ)خریدنے کے لئے مدد کرنا ہے ۔ایسے ہی اس خاندان کو جسے مکا ن کی ضرورت ہو ، اسی طر ح ان سب کو جوپونجی نہیںرکھتے ہوں، اس طالب علم کو جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو اور سفر کرے ، مناسب مدد کرتا ہے ۔ ان موارد کے علاوہ مملکت کی ضرورتوں کوپورا کرتا ہے ۔لہذا ممکت اسلام میںکوئی فقیر دیکھنے کو نہیںملتا ۔ حتی کہ ایک دفعہ حضرت امیر المئومنین علیہ السلام نے ایک فقیر کودیکھا کہ اس نے دست گدائی دراز کیا، حیرانی کی حالت میںکھڑے ہوگئے اور پوچھا یہ کیاہے ؟ عرض کیاکہ وہ بوڑھا نصرانی ہے ، عاجز و لاچار ہوگیا ہے ۔ امام نے فرمایا تم نے اس کے ساتھ انصاف نہیںکیا ۔ اس سے کام لیتے رہے تا آنکہ عاجز ہوگیا پھر چھوڑ دیا ! اسے بیت المال سے معین وظیفہ ادا کرو۔
ان اہم محرکات سے جو اسلام قوم کے لئے فراہم کرتا ہے ، حتی کہ ترقی یافتہ قوموںمیںبھی وہ محرکات نہیںملتے وہ ہیں :
١۔ ایمان : وہ باعث بنتا ہے کہ انسان اپنے آپ کوتمام حالتوںمیںخدا کے سامنے ذمیدار سمجھے ۔ اس طرح انسان کاباطنی مانع ( کے دل )میں ایک جذبہ پیدا کردیتا ہے جو اسے جرم ،خیانت ،خلاف عقل و ہدایت کام کرنے سے دور رکھتا ہے ۔ اگر ڈھائی لاکھ انسانوںپردس لاکھ انسپکٹربھی مقر ر کر دے تو اتنی انسپیکٹروں کی کثیر تعداد ایمان والی تاثیر لوگوںمیں(پیدا کرکے ) پوری نہیںکرسکتے ۔ وہ ایما ن ہی ہے جولوگوںکی روک تھام اور جرائم وگناہوںکے ارتکاب سے بازرکھتا ہے ۔
٢۔اعتماد : قوم اپنے افراد کے باہمی اعتماد کے ساتھ ہی اپنی زندگی گزارسکتی ہے ۔ جب کبھی اعتماد کمزور ہوجائے ، اجتماعی ناطے اور رابطے ٹوٹ جائیںمثلاً اگر لوگوںکاحکومت پراعتماد نہ ہو تو اس کے ساتھ مل جل کرکام نہیںکریںگے اور اگر حکومت کا لوگوںپر اعتماد نہ ہو تو آگ لوہے والاسلوک ان کے ساتھ روا رکھے گی ۔ اور اسی انداز سے مگراسلام نے ایک فرشتہ صورت روح معنویت کےساتھ لوگوںمیں پھونک دی ہے لہذا اعتمادباعث اطمینان و استقرار، آسودگی وسعادت (ہی نہےںبنتا ) بلکہ اس میںپائیداری بھی پیداکرتا ہے ۔
٣۔فضیلت : جرائم کے گھٹانے کاسبب بنتی ہے بلکہ بسا اوقات جرائم کاخاتمہ ہی کردیتی ہے۔ کیونکہ جرم ، اولاً تو باطنی خباثت اور ثانیاً ضرورت سے سرچشمہ پاتا ہے ۔مثلاً کوئی شادی نہ کرے تو زناکار ہوجائے گا ۔ اسلام انسان کو ایما ن او رفضیلت کے ساتھ اس کے باطن کوپاکیزگی عطاکرتا ہے اور بیت المال کے ذریعے قوم کی حاجت کو برلاتا ہے۔ اسی وجہ سے جرائم خود بخود جماعت اسلامی سے بستر باندھ لیتے ہیں۔ اور بالکل واضح ہے کہ جماعت وقوم کے درمیا ن سے جرائم اٹھ جانے سے کس حد تک راحت ،سعادت وخوش بختی ، حکومت وملت کے ہرفرد کےلئے پیدا ہوجاتی ہے ۔​
(قوانین خاص و عام )​

خاتمہ میں ہمیںکہنا پڑے گا کہ نظام اورزندگی کے ہرموضوع میںاسلام دو قسم کے قانون رکھتا ہے :​
١ ۔قوانین خاص :
وہ قوانین جو خصوصی طور پر نظام سے متعارف کراتے ہیںجیسا کہ نظام میںرئیس حکومت ہے اور وہ پیغمبر (ص) ، امام علیہ السلام یا اس کا قائم مقام ہی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاوہ قوانین جو مخصوص انداز سے کسی پروگرام کوبیا ن کریں۔ جیسے الکحل کے مشروبات اور ازدواج سے ممانعت جبکہ شوہر کے پاس پہلے ہی چار بیویاںموجود ہوں ۔​
٢ ۔قوانین کلی:
وہ قوانین جو بہت سے افراد پرجاری ہوتے ہیں جیسے ملازمین کی تعداد کی تعیین اوران کی کارکردگی کی طرز اور اس چیز کاحلال ہو نا جومناسب اور شائستہ ہے ، جیسے رہائش ، لباس ، خوراک،مشروبات اور انسان کی ساری ضروریات ۔ اسی بنا پر جس طرح برقی توانائی اور ہوائی جہاز سے مسافرت حلال ہے وےسے ہی (ہمیںکہنا پڑے گا کہ) سربراہ حکومت مصلحت کے مطابق ملک کی رفتار کی تقاضا کی خاطر کسی نظام کو منتخب کرے اس شرط کے ساتھ کہ وہ نظام اسلام میںحرام نہ ہو۔
اور جس طر ح جدید ٹیکنالوجی کے وسائل کی خدمات ، آسودگی حیات کے لئے حاصل کرنا ممنوع نہیںہےں ویسے ہی مملکت کی چکی چلانے کی خاطر کسی ایسے بہترین نظام کا انتخاب و نفاذ کہ جس تک طائر فکربشر پرواز کرچکاہوممنوع نہیں ہے۔ یہ آخرین ہدف تھا جوچاہا کہ اس رسالے میں درج کریں ۔ خدا تعالی سے طلبگار ہوں کہ مسلمانوں کوتوفیق دے تاکہ اسلام پربلحاظ عقیدہ ،شریعت اور نظا م عمل کریں ،تاکہ زندگی میںسعادتمند، آرام پذیراور دنیا و آخرت میں موفق اور بہر ہ ور ہوں۔
سبحان ربک رب العزۃ عمایصفون وسلام علیٰ المرسلین والحمد للّہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علیٰ محمد و آلہ الطّیبین الطّاہرین۔
 
Top