(کمیونزم)
٤۔ کمیونسٹ حکومت:
کمیونسٹ حکومت دیرینہ زمانے سے یونان میں ظاہر ہوئی لوگ اس کے بر خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اور اس کی آواز دبا دی۔اس کے بعددوسری دفعہ فارس کی زمین پر''مزدک''نامی شخص اور اس کے ہواخواہوں کے ذریعے ظاہر ہوئی(مگر)پھر اس کے خلاف لوگوں کی جدوجہد نے اسے خاموش کر دیا،تا آنکہ آئندہ ساٹھ سالوں کے عرصے میں تیسری دفعہ روس میں ظاہر ہوئی اور دوسری حکومتوں مثلاًچین،یوگوسلاویہ مشرقی المانیا،کیوبا وغیرہ نے اس کی پیروی کی اور اب رو بہ زوال ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اگر امریکہ دوسری عالمگیر لڑائی میں روس کی المانی نازیوں کے خلاف مدد نہ کرتا تو اس وقت ہی کمیونزم(ان)قوموںسے نابود ہو جاتی۔مگر وہ مدد کمیونزم کے لئے اس کی بقا اور اب تک کے پھلنے پھولنے کا سبب بنی۔مگر ظاہر ہے کہ کمیونزم اندر اور باہر آخری نیستی کی طرف گامزن ہے۔اور کیونکہ کمیونسٹ حکومتیں اور ان کا نگہبان روس سرمایہ داری نظام کی طرف مائل ہو گئے ہیں اور ایک طرف سے مہلک چوٹیں باہر سے اس نظام کے خلاف ان کو سہنی پڑتی ہیں اور اگر تیسری عالمگیر لڑائی شعلہ زن ہو جائے تو کمیونزم مٹ جائے گی۔چنانچہ شواہد اور سیاسی پیش گوئی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ شروع میں کمیونزم ایک اقتصادی پروگرام کے تحت تھی بعد میں تھوڑا تھوڑا پھیلتی گئی تا آنکہ عام فلسفے کی صورت اختیار کرلی اور زندگی کے تمام شعبوں میں مداخلت کرنے لگی ۔
اس کا جوہر حقیقتاً دو اہداف میں ملخّص ہو جاتا ہے:
١۔لا دینیت نسبت بہ آئیڈیالاجی
٢۔دولت وعورت کا سب میںپھیلاؤ ۔ بعد میں یوں کروٹ بدلی کہ پوری دولت وثروت حکومت کی ڈیوڑھی کے اندر ہو جائے۔اور لوگ تا حدّ امکان زیادہ کام کریں اور خرچ کم کریں اور عورتیں بھی خاندان کے نظام میں اور عام پھیلاؤ کیلئے تقسیم ہوئیں اور آخر نتےجتہً نہ کوئی خاندان باقی رہا نہ کامل پھیلاؤ ۔ ''اسٹالین ''کے کہنے کے مطابق مارکسزم ایک ایسا علم ہے جو طبیعت اور قوم کی ارتقاء کے قوانین اور ستم رسیدہ اور استحصال شدہ طبقات کو انقلاب کے قوانین سکھاتا ہے اور یہ وہ علم ہے جو سوشلزم کی کامیابی کی تمام ملکوں میں خوش خبری سناتا ہے۔آخر کارمارکسزم وہ علم ہے جو کمیونسٹ قوم کی تعمیر کا ہمیں سبق دیتا ہے۔
(مارکس کی تھیوری)
مارکس کی نظر میں عوامل مادی واقتصادی ہی ہیں جو تعمیر قانونی ،اجتماعی ،سیاسی ،ہنری ،دینی وغیرہ کو وجود میں لاتے ہیں ۔اس بنا پر امور مذکورہ کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔بلکہ مادیات کی تکمیل کے حساب سے یہ بھی پایہ تکمیل تک پہونچ پاتے ہیں ۔ اور خود مادیات ، وسائل پیدائش کی تکمیل کے حساب تکمےل پاتی ہےں۔ اور ان کی نظر میںتاریخ نے بھی مادہ سے جنم لیا ہے اسی مفہوم کو ''تفسیر مادی تاریخ'' نام دےتے ہیں اسی طرح مارکس (مارکسزم کا بانی )''ہگل ''کی پیروی میں کہتا ہے : فکر انسانی ڈائلیکٹک (علم منطق یا سقراط کا طرز محاورہ )کی پیر وی میں ارتقاء کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کی نظر میں ڈائلیکٹک سے مراد یہ ہے کہ ہر تھیو ری اور تھیسس اپنے ظاہر و آشکار نتائج کے ساتھ حاملہ ہوتی ہے ۔ چونکہ ہر تھیسس کا ایسا ضد بھی ہوتا ہے جو اس پر غالب آجاتا ہے (یہ تھیسس بار آور نہیںہوپاتی ) ہا ںکوئی تھیو ری اس قدر استمرار ودوام پالیتی ہے جو اگر اس کی ضد بھی اپنے طمطراق کے ساتھ سر اٹھائے تو اس کو کچل دے ( تو یہ بار آور ہوسکتی ہے ۔) ''مارکس ''نے اس تھیوری کوعالم افکار سے عملی طور پر اجتماعی نظاموںکی طرف منتقل کیا اور اس کے نظریہ کے مطابق ہر اجتماعی نظام میں چلتے چلتے فنا کے اسباب بھی پیدا ہوجاتے ہیںجو اس نظام کو فنا کردیتے ہیںاور بعد میںآنے والانظام اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔ یوں فکرو نظام بدل اور نقص و کمال کی دوڑ دھوپ میںہمیشہ رواں دواں رہیںگے ۔ مارکس کی نظر میںصرف دوطبقے وجود رکھتے ہیں :
ا۔مزدورں کا طبقہ
٢۔مالکوں کاطبقہ یا سرمائیدار۔
اور ہمیشہ دوسراطبقہ پہلے سے مفاد حاصل کرتا رہا ہے۔ لہذا سرمایہ داروںاور مالکوںکے ہاتھ سے دولت و ثروت کو چھیننے کے لئے ان کے خلاف انقلاب لانا ضروری ہے'' مارکس'' کہتا ہے کہ : تمام اخلاق و ادیان ، سرمائیداری نظاموںکی پیدائش ہےںاس بناپر سوائے خرافات و سود خوری کچھ نہیں۔اس کے نظریہ میں پہلے وسائل پیدائش ، اسکے بعد زمینوںکوقومیانہ چاہیے۔بعد ازین شخصی مالکیت کے نام کلی طور پر بتادئے جائیں، چنانچہ خاندانی نظام بے کار اور عورتیں عام ہوجائےں اور سب کے درمیا ن مشتر ک ہوجائےں کیونکہ خاندان تو سرمائیداری نظام کی پیدائش ہے ۔ ان اہداف تک رسائی کے لئے اور کمیونسٹی نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پہلے نظم و نسق پیدا کرنا چاہیئے اورتوانائی کوزور آوری کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے۔ تب آمریت ان کار گزاریوںکا بدترین طریقہ ہو۔ لہذا ''اسٹالن ''نے قتل ،آوارگی اور قید خانے کورواج دیاجیسے ( ابوالاعلی مودودی )نقل کرتے ہیں کہ تقرباً بیس(٢٠) ملین انسانوں کومنتشر اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔
(گفتار ''مارکس'' پر نقد و نظر )
کمیونسٹ تھیوری پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ منجملہ:
١۔چرخہ تاریخ کوکچھ وجوہات کی بناپر وجود میںلاتی ہے ۔ جیسے دین ، مردانگی ،اپنوں کی دوستی، گروہ بندی ،وطن پرستی اور ایسی اور چیزیں ، صرف اقتصاد نہیں(کمیونسٹوںکے بقول )
٢۔ دین حقیقت ہے وہم نہیںہے جیسا کہ علم فلسفہ سے ثابت ہو چکاہے
٣۔اخلاق حقیقت ہیںوہم نہیں ہیں۔کیا کیمو نسٹ قبول کریںگے کہ کوئی ان سے خیانت کرے یا ان سے جھوٹ بولے تجارت میں دھوکا کرے ؟
٤۔ خاندان فطرت بشریت کا سربستہ راز ہے مزید برآںگھر انہ لائق اولاد کی تربیت کا آشیانہ ہے ۔
٥۔ وسائل پیدائش کا اشتراک باعث کوتاہی پیدائش ہے ۔ جب انسان جان لے کہ اس کی کمائی سے دوسرا بہرہ ور ہوگا تو کام کرنے کے لئے ضرورت آمادگی پیدانہ کر سکیں گا
٦۔کمیونسٹوںکی گفتا ر میںتضاد بےانی نظر آتی ہے کیونکہ ان کے بقول کمیونزم آخری نظام ہے جس کو باقی رہنا چاہیے اور دوسری طرف سے کہتے ہیںکہ ہر نظام اپنی رفتار کے دوران اپنا ضد اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ اس بنا پر دوسرے قول کا قہری نتیجہ یہ ہے کہ کمیونزم اور سو شلزم مرمٹ کردوسرے نظام میںتبدیل ہو جائیں گی ۔
٧۔قوم صرف دوطبقوںسے تشکیل نہیں پاتی بلکہ اس میں ملازم ، طالب علم ، ہادی ، مزدور،زمیندار ،تاجر ،عالم ،ہنرمند،شاعر ،کاتب اور ان کے علاوہ بہت سے طبقے موجود ہیں ۔
٨۔ لوگوں کے ضبط کئے ہوئے مال جب تک حکومت کے خزانے میںجمع کئے جائیں ، بڑے سرمائے کے نام پر چھوٹے سرمائے کوناس کرنے کے مترادف ہے
٩ ۔آمریت ، طبیعت بشر کے لئے سازگارنہیں ہے اس کو مٹا دینا چاہیے ۔
١٠۔جس طرح سرمائیداروں پر ظالم و ستمگر ہو نے کا اعتراض ہے ۔ کمیو نسٹوں پر بھی یہی شدید طریقے سے عائد ہے ، کیونکہ ان کا ظلم ستم زیادہ ہے ۔
(سرمایہ داری)
٥۔حکومت سرمایہ داری :
اس سے مراد ہے : سود کمانے اور مالی بہرہ وری کی پوری آزادی ۔ اور حقیقت میںیہ نظام کسی حکومت کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ساری حکومتیں اس عنوان کی خاص شرائط واصول کے ساتھ اجازت دیتی ہےں۔ اسلام مروجّہ سرمایہ داری کی طرز کوقبول نہیںکرتا بلکہ اسلام تمام قسموںکی منفعت حاصل کرنے کو مخصوص ضابطوں کے ساتھ جائز سمجھتا ہے جیسا کہ اس کو ہم بیان کریں گے ۔
(حاکمیت اسلام )
٦۔حکومت اسلامی :
حکومت اسلامی زندگی کے تمام شعبوںمیں مخصوص پروگرام رکھتی ہے ۔یہاںپر منا سب ہے کہ اس پروگرام کے اصولوںکی طرف اشارہ کریں ۔
١۔ مطالعہ جہان :
اسلام کی رو سے جہان کا ایک ایسا پیدا کرنے و الا ہے جو عاقل ، طاقت ور اور عادل ہے ۔ اس جہان کے فنا ہونے کے بعد پوری مخلوقات اسی کی طرف پلٹے گی تاکہ نیکوکاروںکو اچھی جزاملے اور بدکاروںکو ان کے کیفر کردار تک پہنچایاجائے ۔ اسلام کی رو سے ابوالبشر حضرت آدم ؑ کی پیدائش کے ساتھ انسان ایک جگہ اور موجود ہ صورت کے ساتھ پیدا ہوگیا ، نہ یہ کہ تدریجاًانسان نے آکریہی صورت اختیا ر کی جو کہ ''ڈارون ''فکرکرتا ہے ۔
٢۔قوانین وضوابط :
اسلام کی رو سے قانون سازی فقط خدا کے ہاتھ میںہے۔ ہرحکم اور قانو ن کہ جس کا سرچشمہ کتاب ،سنت ، اجماع اور عقل نہ ہوکوئی قیمت نہیںرکھتا ۔ کتاب سے مراد قرآن کر یم اور سنت سے رواےا ت و احادیث ہیںجوکہ نبی اکرم ؐاور بارہ اماموں ؑ کی گفتار ، کردار اور رفتا ر سے منقو ل ہیں۔اجماع سے مر اد ہے فقہاء کے ایسے گروہ کا کسی حکم پر اتفاق کہ معصوم ؑ بھی اس کا جزء ہو ۔ اور آخری عقل سے مراد وہ علل احکا م ہیں کہ جن کو عقل درک کرسکتی ہے مثلاً جھوٹ کی برائی ، احسان کی اچھائی اور ایسی اور چیزیں ۔ مگروقتی حادثات جیسے جنگ اور صلح وغیرہ ، اس کے بعد جو اسلام کے قوانین کلیہ ان امور کوشامل ہیں باخبر حکومت اسلامی وقت کے شرائط کے مطابق ان امور پرحکم عائد کریگی ۔
٣۔نظام حکومت اسلامی :
اسلام کی رو سے مملکت اسلامی پر خدا کی طرف سے حکومت ہوگی ۔خدا نے یہ اختیار پیغمبرؐ اور اس کے بعد بارہ اماموں کودے دیا ہے ۔اور امام نے خدا کے دستور کے مطابق یہی اختیا ر ایسے مرد کو سونپ دیا ہے جو احکام کو جان لے اور( ان کو ) جاری کرے ، اور مزید برآں وہ مرد عادل بھی ہو(یعنی نفسی حالت ایسی رکھتا ہو کہ اس کو واجبات کی ادائیگی اور محرّمات کے ترک پر ابھارے ) یہ اسلامی حاکم حق رکھتا ہے کہ کسی مرد یا گروہ کو امور مسلمین چلانے کے لئے وکیل کرے اگروہ اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر حاکم جامع الشرائط بہت سے ہوںتو ہر کوئی لوگوں کے انتخاب کے شرط کے ساتھ ان کے امور کی باگ دوڑ سنبھال سکتا ہے اور احکام میں مراجع تقلید کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔ اگر کسی اسلامی ملک میںدو حاکم ہو ں ، اور ہر ایک ان میں سے موازین اسلام کے مطابق حکم کرتا ہے تو کوئی مشکل نہیںہے اور تاوقتیکہ حاکم مذکور ہ شرائط کے ساتھ متصف ہو اپنے مقام پر باقی رہے گا ۔ پس اگر کچھ شرائط مفقود ہوگئے مثلاً عدالت سے گر گیاخود بخود حکومت کی صلاحیت سے ساقط ہوجائےگا ۔
٤۔زراعت :
زمین اسلام کی رو سے دوحصوںمین تقسیم ہوتی ہے وہ زمین جوحکومت کی ملک یعنی حکومت کے ہاتھ میںہوتی ہے مثل اس زمین کے جومسلمانوںنے جنگ کے ذریعے حاصل کی ہے اور اصطلاح شرع میں اسے ''مفتوح بعنوۃ''نام دیا جاتا ہے ۔ دوسرا حصہ مباح زمینیں ہےں ۔ پہلی قسم کی زمین سے حکومت فصل لیتی ہے اور اس کی پیداوار سارے مسلمانوںکے لئے ہے ۔اور دوسرے قسم کی زمین اس شخص کی ملکیت ہوتی ہے کہ جس نے اس پر سبقت کی ہو۔اس بناپرزمین خدا ہر اس شخص کی ملکیت ہے جواسے آباد کرے ۔جب اسلام نے لوگوںکو زراعت کی طرف رغبت دلائی ہے اوراس میںکوئی قید وبند قرار نہیںدیالہذا حکومت اسلای کی ساری زمینیں آباد اور سود مند ہوسکتی ہےں۔ اسلام میں''ملوک الطوئفی'' اپنی طرز وروش (یورپ کے اندر جاگیردار طبقہ رعایا پرحق تسلط و حکومت رکھتا تھا ) کے ساتھ اور زرعی اصلاحات جواس زمانے میںمعمول بن چکی ہے وجود نہیںرکھتیں۔٥۔سودا گری و تجارت:
جبکہ اسلام آزادی فراہم کرتا ہے ، ہرآدمی حق رکھتا ہے کہ جوچاہے اور جس طرح چاہے تجارت کرے۔اس طریقے سے اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے ۔ جیساکہ سرمایہ داری نظام کے ساتھ بھی مندرجہ ذیل موارد میںفرق رکھتا ہے :
١۔نقصان دہ مواد جیسے ہیروئن کی تجارت کا کوئی حق نہیںرکھتا ۔
٢۔اسلام میں حرام چیزو ن جیسے الکحل کے مشروبات اور سور کی تجارت کا کوئی حق نہیںرکھتا۔
٣۔کوئی حق نہیںرکھتا کہ کسی کواقسام تجارت او رمنفعت کمانے سے روکے ۔
٤۔جوکوئی منافعہ کماتا ہے اس پر واجب ہے کہ ''خمس''یعنی پانچواں حصہ منفعت اور اسی طرح اپنی زکاۃ حکومت اسلامی کوادا کرے ۔ حکومت بھی اس آمدنی کوضرورتوںکے رفع کرنے میںخرچ کرے تاکہ نہ کوئی ضرورتمند باقی رہے نہ کوئی ضرورت ۔
٥۔حکومت تجارت و کسب منفعت کا حق رکھتی ہے البتہ ان موارد میںکہ قانون (لاضرر ولاضرار )ان کو شامل ہو ، حکومت دوسروں کو نقصان دینے کی مجاز نہیںہے ۔
٦۔جیساکہ حکومت تجارت کواپنانے کا حق نہیںرکھتی، اس دلیل کے ساتھ کہ تجارت کے سارے اقسام آزاد ہیں ۔
٦۔صنعت اور اسلام :
صنعت کسی بھی نوعیت کی ہواسلام اس کی رغبت دلاتاہے ۔ صنعتوں،کارخانوںپرکوئی قید و حد ، شرط و ٹیکس ، جواب تمام حکومتوںمیں معمول ہے، عائد نہیں کرتا ۔ اس لئے صنعت اسلام کی روشنی میںتیزی کے ساتھ منزل ارتقاء کی طرف بڑھے گی ۔
٧۔آزادی اور اسلام :
آزادی اسلام کے لحاظ سے کوئی آئین کوئی فکرماضی میںہوخواہ مستقبل میںاسلام کے آسمان سطح کوچھونہیںسکتا ۔ہرآدمی اسلام کی روشنی میں سفر، رہائش، زراعت،تجارت ،اقتصاداورتمام امور میںآزاد ہے ۔ اور کوئی شخص ان کاموںسے اسے روک نہیںسکتا ۔ہاںاس صورت میںکہ وہ حرام کام انجام دے (ایسے امور بھی بہت کم ہیں ) لہذا کوئی محدودیت ، ٹیکس ،قید ،شناختی کارڈ،پاسپورٹ ، تعارفی کارڈ ،نوکری سے معافی کارڈ اور ایسی چیزیںاسلام میںاعتبار نہیںرکھتیں۔
٨۔اقتصاد اور اسلام :
اقتصاد اسلام میںوسیع طریقے سے ترقی کرتی ہے ، مندرجہ ذیل عوامل کی وجہ سے :
الف۔اسلام تجارت،زراعت اور صنعت میںآزادی دیتا ہے اور ظاہرہے کہ یہ آزادی و خودمختاری مملکت کی اقتصاد کی سطح کو کس درجے بلند کرنے میںمدد گار ہے !
ب۔خود حکومت اسلامی جہاںتک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ مقدارمیںزمین وخاک وطن کی فصل اگانے کاکام سرانجام دے گی ، جوکہ ارتقاء ورونق اقتصاد کاایک اہم سبب ہے ۔
ج۔ حکومت اسلامی میںملازمین بہت کم ہوتے ہیںاور ان کی تنخواہیںحکومت کے خزانے سے دی جاتی ہےں،کیونکہ اسلام بہت سے اداروںکوشرعی اور ضروری نہیںسمجھتا اس لئے اسلام میںادارہ جات سادگی کے ساتھ اور کم تعداد میںہیں ۔
د۔حکومت اسلامی کا فرض ہوتا ہے کہ ضرورت ، فقر اور بےروزگاری کوقوم سے دور کرے اور انسانی او رطبیعی توانائیوںکوکسب منفعت او رتجارت پر لگائے ۔ یہی اقدام خودملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کاباعث ہے ۔
٩۔فوج اور اسلام :
فوج کا کردار بہت ہی مفید او رفعال ہے۔ اسلام میںفوجی بھرتی جبری نہیںہے بلکہ اسلام تمام لوگوںکوفوج کے لئے آمادہ کرتا ہے مندرجہ ذیل ان دوطریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ:
اول :فوجی آمادگی او راسلحہ و فوجی جنگی مشقوںکی نوعیت میںترقی البتہ بطور رضاو رغبت ،نہ بالجبر و اکراہ
دوم : زمین کی ایک بڑی اراضی مہیا کرنا کہ جس میںہرخواہشمند آدمی کی تعلیم کے لئے بہترین ماڈرن وسائل ہو ں ۔ اور ظاہرہے کہ لوگ ایسی تربیت وتعلیم گاہ کہ جوان کا چند گھڑیوںسے زیادہ وقت نہیں لیتی او رپھر ان کو مضبوط او رتوانا بنادے ، بڑا استقبال کریںگے، جیساکہ پہلے زمانے میںلوگوںنے قدیمی اسلحے کی تربیت اسی انداز سے لی ہے۔
١٠۔صلح و اسلام :
اسلام دین صلح و امن ہے لہذا کسی پر تجاوز نہیںکرتا ۔ جنگ کی نچلی سطح پر اکتفاکرتا ہے ۔ اگر مظلوم قوم ہو تو اسلام ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس کو استعمار و استحصال کے آقاؤں اور ظالموں کی آلودگی سے پاک و نجیب کردیتا ہے ۔
١١۔صحت اور اسلام :
اسلام نے صحت کے لئے ارشادات فرمائے ہیں ۔جیسے روزہ ،ازدواج ، نظافت اور نمک کااستعمال وغیر ہ اور کچھ چیزوں سے روکا ہے جیسے پیٹ بھر کر کھانا اور اپنے کو خطرے میںڈالنا اور نقصان دہ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جیسے الکحل کے مشروبات اور سور اور ان چیزوںکو جو باعث اضطراب وناخوشی ہوں۔ اسلام نے صحتمندی اور خوش عیشی کے لئے ہرچیز کی صحیح سمت اور اس کے پہلو کو اجا گر کردیا ہے ۔ مزید برآں اسلام نے بیماروں کے ساتھ خصوصاً ان میں جو محتاج ہےں، خاص رعایت برتی ہے حتی کہ میڈیکل ٹیموں ، ہسپتالوںدواخانوںوغیرہ کی بنیا د یہیںسے سرچشمہ پاتی ہے ۔
١٢۔علم و ادب اور اسلام :
اسلام میںعلم و ادب کی سطح بلند کرنے کے لئے کوئی چیز اسلام کے اس قانون سے بہتر نہیں آئی جو فرماتا ہے کہ:''علم و دانش کی طلب ہر مسلمان مرد و عورت پرواجب ہے ۔''
١٣۔ عورت اور اسلام :
عورت حد کمال تک خود مختاری اور شخصیت رکھتی ہے ۔ اس طرح کہ سوائے بے پردگی اور اسکولوں، تالابوں وغیر ہ میںمردوںکے میل جول کے ،مردوںکی طرح تمام حقوق سے بہرور ہوسکتی ہے ۔ اس بنا پر کوئی پیشہ اختیا ر کرسکتی ہے ، درس پڑھ سکتی ہے ، زراعت کرسکتی ہے ،تجارت کرسکتی ہے ،ڈاکٹریانرس ہوسکتی ہے یا ان کے علاوہ کوئی اور کام ۔ اسلام کے احکام کا ایک خاصا حصہ عورت کو ایک مخصوص اہمیت دیتا ہے ، جوعمیق فلسفہ کے مطابق اس کی زنانہ طبیعت سے سرچشمہ پاتا ہے ۔
١٤۔ قضاوت اور اسلام :اسلام نے تا حدکمال سستا انصاف دینے کی حمایت کی ہے اور بڑی سادگی کے ساتھ ۔چنانچہ ایک قاضی سات معاونوں(یاکمتر) کے ساتھ ایسے شہر کی مشکلات کی تفتیش کرسکتا ہے جس میںایک ملین آدمی رہتے ہوں، جس کے چند اسباب ہیں:
الف۔جرائم کی کمی :اسلام ایسی صالح اور شائستہ فضاء پیدا کرتا ہے کہ جس میںجرائم کی کمی آجاتی ہے ۔
ب۔قضاوت کی بہت سادگی ۔
ج۔اسلام بہت سے ایسے قوانین کوقبول نہیںکرتا کہ جو جرائم کا باعث بن جاتے ہیںجیسے سرحدوںاور کسٹمس وغیرہ کے قوانین ۔
١٥۔ادارے اور اسلام :
اسلام میںادارے بہت کم ہیں مثلاً ادارہئ اوقاف اور یتا میٰ اور ایسے قاضی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے الگ اور مخصوص ادارے نہیںہیں۔اگر یہ کہیںکہ ادارہ جات اسلامی آج کی دنیا میں معمول ادارہ جات سے ١٠/١ہیںتو حقیقت سے ہٹ کربات نہیںکی ہے ۔حقیقتاً اس پندرہ نکاتی مواد سے ہر نکتہ کی ایک ضخیم جلد کتاب بن سکتی ہے تاکہ اسلام کے اس عنوان پر سارے امتیازات کو بیان کرے اور اس مختصرکتاب میںجوہم نے ہر موضوع کے بارے میںذکر کیا ہے یہ تو ایک انتہائی خلاصہ اور اجمال ہے ۔ یاد آوری کے لئے لازم ہے کہ جب اسلام ادارہ عدل و انصاف کو مضبوط کرتا ہے اور ضروتوںکو پورا کرنے کے لئے بیت المال قرار دیتا ہے ، لوگوںکے اکثر کاموںکی نگرانی کرتا ہے بااس طریقے سے کہ زیادہ سامان وسرمائے کی ضرورت نہ رکھتے ہوں، مثلاً کاؤنسل (syndicate) وغیر ہ ، بے بسی کو ختم کرنے یامحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے وجود میںآتی ہے اور بے نظمیوںاور مجبوریوںکو جلد اور منصفانہ قضاوت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے اوربیت المال کے ذریعے مدد بھی مہیا کی جاسکتی ہے ۔
(نفاذاسلام )
یہاںپر ایک سوال پیش آتاہے کہ اگر اسلام ایسا ہی ہے جیسے آپ کہتے ہیںتو کس زمانے میںاسے نافذ کیاگیا ہے ؟کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ حقیقی اسلام کسی زمانے میںنافذ نہیںہوا ہے ۔ اس سوال کا جواب واضح ہے کہ اسلام اکثر ادواراسلامی میںنافذ ہوچکا ہے مگر بطور ناقص سوائے چند زمانوں کے کہ جن میںاسلام بطور کامل نافذ ہوچکا تھا، جیسے خود پیغمبر ؐ کا زمانہ اور انکے بعض حقیقی خلفاء کے ادوار میں۔ مگر تمام اسلامی ادوار میںتجارت ،زراعت ،اقتصاد، فوج اورثقافت وغیرہ کے موضوعات میںمملکت کا عام نظام دین اسلام کی بنیاد پر رہا ہے ۔ اب یہی مشکل ڈیموکریسی اور کمیونزم نظاموںکے لئے بھی پیدا ہوتی ہے ،کیونکہ تا ہنوز حقیقتاًوہ نافذ نہیںہوئے ہیں۔ مثلاً صدر نے خواص ومقربوںپربلکہ سب پر حقیقتاً نافذ نہیںکیاہے ۔ پھر اب کیوں ان نظاموںکے لئے اذان دی جاتی ہے جبکہ ابھی تک وہ نافذنہیں ہوئیں ؟ گمراہ جانشین ایسے گذرے ہیں کہ جواسلام کو حدود قصر اور اپنے مقربوں میں تونافذ ہی نہیں کرتے تھے ۔ مگر نظام مملکت صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر تھا ۔
(قانون کی پیروی )
ایک گروہ بیعت ،تقلید اور خلیفہ یا اس کے نائب کی ''پیروی''کادرمیانی فرق پوچھتا ہے۔
جواب بیعت سے مراد ہے : (ایک فرد مسلمان کااپنے اوپر خلےفے کی پیروی کو لازم قرار دینا)اور اس کی ظاہری ضرورت بھی تھی وہ یوں کہ مسلمان اپنا ہاتھ کوخلیفہ کے ہاتھ میں دیتا تھا جیساکہ پیغمبر ؐاسلام نے بیعت شجرہ کے دن درخت کے نیچے اپنی ذات اقدس کے لئے اور عید غدیر کے دن علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مسلمانوںکے بیعت کرنے میں اسی صورت کا حکم فرمایا تھا ۔ اور جوکچھ شرعی دلائل سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بیعت مسلمانوں کے ایک ایک فرد پرواجب نہیںبلکہ وجوب اس وقت ہے جب پیغمبر(ص) یا امام علیہ السلام ان سے طلب کرے۔
اور تقلید سے مراد ہے: احکام شرعی پر اےسے فقیہ کے فتوے کے مطابق عمل کرنا جو احکام کوان کے اصلی مدارک کے ذریعے جانتا ہواور عدالت،مردانگی ،بلوغ اوردوسرے شرائط سے متصف ہوجوکتب فقہ میںآئے ہیں۔ اور خیلفہ یا اس کے نائب کی پیروی : البتہ خلیفہ پیغمبر (ص)کی پیروی سے مراد ہے جنگ ،صلح وغیرہ میںاس کے اوامر واحکام کی اطاعت کرنا خواہ فقیہ ہو یافقیہ کی طرف سے نائب ہو،خواہ وہ مسلمان اس کامقلد ہویادوسرے فقیہ جامع الشرائط کا۔ رئیس (صدر) حکومت اسلامی پر و اجب ہے کہ وکلاء اور گورنر اور قاضیوںکوامور مملکت کے چالانے کے لئے منتخب کرے خواہ یہ انتخاب خود اس کے ذریعے ہویا ایسے شخص کے ذریعے ہوجواس کی طرف سے نمائندہ ہوان وکلاء اور گورنروں میں دو شرط لازم ہیں۔
١۔کفایت ٢۔عدالت
قاضی میںان دوشرطوں کے علاوہ احکام اسلامی میں'نظر 'بھی اضافہ ہوتی ہے ۔ اور اسی طریقے سے گورنر اور قاضی میں شرط ہے کہ مرد ،مسلمان اور مومن ہو اور دوسرا یہ کہ رئیس یا اس کا جانشین حق نہیںرکھتا کہ غیر مسلمان کو مسلمان پر مسلط کرے ۔ مگر ملازمین کے تمام معاملات جیسے تعیین اوقات کار، ذمے داری کو انجام نہ دینے کی صورت میںمعطل کرنا ، کام کے برابر یا اس کی کفایت کے مطابق بیت المال سے اسکی تنخواہ کی ادائیگی (payment ) ،اس کااستعفاء منظور کرنا ،صلاحیت کے مطابق ترقی دینا ، ایک ادارے سے دوسرے ادارے کی طرف تبادلہ کرنا، اوقات کار کے دوران یا اس کے بعد پبلک ڈیلنگ کی کیفیت وطرز اور ان کے علاوہ سارے معاملات حاکم اسلامی کے اختیار میں اور اس کی صوابدید پر منحصر ہےں۔ اسلام ملازم اور غیر ملازم کو قانون کے سامنے ایک ہی خیال کرتا ہے اور جو بھی جرم کرے اس کوسزا دیتا ہے بنابر این ملازم وغیرملازم ،گورے وکالے عرب وعجم اور تمام لوگوں میں اگر چہ مختلف جہتوں سے مختلف ہی کیوں نہ ہو ں کوئی فرق نہیںہے اور یہ موجودہ زمانے کے بہت سے قوانین کے خلاف ہے کیونکہ وہ قوانین جرائم اور گناہوں میںبعض ملازمین کے لئے امتیاز برتنے کے قائل ہیںجیسے بادشاہ یارئیس جمہوری قانون سے مستثنٰی ہوتا ہے ۔ اس طرح کے اس دور کے قوانین سب کے سامنے واضح و آشکار ہیں ۔ دوسرا یہ کہ وزراء کا انتخاب ،رائے دہندگان کاجمع کرنا ، عملے کی کثرت و کمی ، امت اسلامی کے تقاضا کے مطابق ہوگی کیونکہ ان امور کی کوئی مخصوص ہیئت اسلام میںذکر نہیں ہوئی ہے ۔ہاںکوئی شک نہیںہے کہ اسلام (ان امور کی وجہ سے ) کامیا ب ہے :
١۔ سیع وکثیر خود مختاریاں۔
٢۔حیرت انگیز سادگی
٣۔مسلمانوں کے درمیان زیادہ اعتماد
٤۔اسلامی حکومت کے دفا تر بہت کم ہیں ۔شاید حکومت اسلامی کے دفاتر موجودہ حکومتوںمیںسے کسی حکومت دفاتر کے دسویں حصے میںہوں ۔ اور یہی کافی ہے جوسمجھیںکہ ایک ملک کے بہت سے ادارے ایک گورنر ،قاضی،اور بیت المال کے سرپرست کے ہاتھ میںہوتے ہیں۔ملازمین بہت مختصر تعداد میںدئے جاتے ہیں۔