اسلام اور جمہوریت

فرد واحد کی حکومت، ایک خلیفہ یا بادشاہ جس کو علماء کی ایک جماعت بناء منتخب ہوئے سپورٹ کرے، ایسے نظام کا تصور دور دور تک قرآن میں نہیں ہے۔ اور ایسے تجربات کے بھیانک نتائج سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسے کسی نظام کو اسلامی و قرانی کیونکر ثابت کیا جاسکتا ہے؟
 

عمر میرزا

محفلین
عمر جب آپ "جمہوریت" کہتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہوتی ہے؟ direct democracy یا representative democracy یا constitutional republic

کچھ دوسرے احباب کی آسانی کے لئے پہلے ان اصطلاحات کی تعریف کرنا ضروری ہو گا۔
جمہوریت کی دو اقسام ہیں
(1) بلاواسطہ جمہوریت direct democracy
(2) بل واسطہ جمہوریت indirect democracy

بلاواسطہ جمہوریت direct democracy
یہ طریقہ کار جمہوریت کی عین تعریف کے مطابق اپنایا گیا کہ عوام اپنی مرضی سے اپنے لئے قانون بنایئں یہ جمہوری طرز حکومت کا اولین طریقہ بھی ہے ۔اس طرز جمہوریت میں عوام اپنے نمائندو ں کے بغیر از خود اپنے سایسی معاملات کو حل کرتے ہیں ۔اس میں اقتدار اعٰلی ان عوام کے پاس ہوتا ہےمگر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ریاست کے سارے کے سارے باشندے ایک جگہ اکٹھے ہوں اور اپنے لئے قانون وضع کریں اپنے سایسی معاملات طے کریں۔اس طرح کی جمہوریت صرف کسی چھوٹے سے گاؤں یا محلے کی سطح پر ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔اس لئے جمہوریت کی یہ قسم ایک ریاست کو چلانے سے قاصر ہے ۔
لیکن ہمیشہ عوام کو جمہوریت کی طرف مائل کرنے ( بیوقوف بنانے) کے لئے اس ناقابل عمل قسم کی جمہوری طرز حکومت کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔

(2) بل واسطہ جمہوریت indirect democracy
یا
representative democracy

یورپ کے فلسفیوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کی جمہوریت تو ایک ناقابل عمل چیز ہے تو انہیں نے اس میں ایک تبدیلی کر کے اسے قابل عمل بنانی کی کوشش کی اور وہ تھا عوامی نمائیندوں کا اضافہ ۔یعنی کہ عوام کے کچھ نمائیدگان عوام کی صؤابدید پر قانون سازی کر سکتے ہیں۔
اس لئے اسے representative democracy یعنی عوامی نمایئندگان کی حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں اقتدار اعٰلی ان نمائندوں کے پاس ہوتا ہے۔آجکل بیشتر ممالک میں یہی جمہوریت رائج ہے۔

اور جہاں تک بات ہے constitutional republic یا ائینی جمہوریت ( یہ بھی بل واسطہ جمہوریت indirect democracy کی آگے ایک مزید قسم ہے) کی تو اس سے مراد ایک ایسی جمہوری حکومت جہاں ایک پہلے سے موجود آئین ہے جس کے زریعے حکومت کی جارہی ہو ۔اس میں اقتدار اعٰلی اس آئین کو حاصل ہوتا ہےاور عوام اور ان کے نمائندوں کے پاس اس کو بدلنے یا مزید قانون سازی کرنے کا کوئی اختیار نہ ہو اور ریاست کے کسی منظم ادارے کے زریعے بزور قوت اسے نافذ کیا جا رہا ہو۔۔۔ آجکل کی جدید بادشاہتیں اور آمریتیں اس constitutional republic کی مثالیں ہیں جہاں کسی ایک فرد کی مرضی کو بزور قوت ریاستی قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے جس کی زندہ مثال پاکستان میں مشرف کی حکومت ہے۔


اب آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف ۔ جوابا عرض ہے کہ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد جمہوریت اور اس کی تمام بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔

اور یہ جو تعریف کی جاتی ہے کہ
Rule for the people ,Rule by the people ,Rule of the people.
عوام کی حکومت،عوام کے زریعے ،عوام پر
یہی جمہوریت کی ایک متعین اصطلاح (Term)ہے ۔یہی اسکی مخصوص تعریف ہے۔اور باقی جو بھی اس کی قسمیں ہیں ہے اسکے بگڑے ہوئے چہرے ہیں۔
جمہوریت کوئی بھی ہو اس میں انسان ہی اقتدار اعلٰی کے مالک ہوتے ہیں انسان ہی اختیارات کا سرچشمہ ہوتے ہیں اس کا مطلب ہے ہے کہ انسان خود یہ طے کرے گا کہ اس کے بہتر کیا ہے اور برا کیا ۔۔ایک اللہ کی موجودگی میں انسان ایسا سوچے اس سے بڑھ کر کفر کیا ہو سکتا ہے۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر انسان اجتعماعی طور پر بھی اس قابل ہوتا کہ اپنے لئے خیر و شر کا صحیح ادراک کر سکتا تو وحی الہی کے زریعے انسانیت کی راہنمائی اور انبیاء علیہ السلام کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
مزید بھی کہ عوامی نمائندگان کے پاس قتدار اعلٰٰی ہونے کا اصل مطلب بھی یہی ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حکومت ۔اور خلافت تو نام ہی اس نطام کا ہے جو انسانوں کو انسان کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف مائل کرے

جب اللہ کے رسول (ص) نے ایک مخصوص طریقے سے حکومت کی اور ایک طرز حکومت دیا ہے اور ہم یہ بھی پتہ ہے کہ جو نبی پاک (ص) نے کیا وہ اللہ تعالی کے حکم سے کیا تو اس کے علاوہ باقی جتنے بھی نظام حکومت ہوں گے سب کے سب باطل اور فاسد سیاسی نظام ہیں۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ جمہوریت کی یہ قسم بہتر ہے یا اسلام کے قریب ترین ہے تو اسے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اللہ کے رسول (ص) سے بڑھ کر اچھی اور اسلامی بات کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی
والسلام
 

عمر میرزا

محفلین
بزریعہ سخنور
مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسے فرقے کے اسلام کا نفاذ ہوگا؟
اور اسلام کے نفاذ کی خواہش پر مجھے فیض کا ایک شعر یاد آگیا-
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

اسلامی ریاست میں کوئی اسلامی حکم اس بنا پر نافذ نہیں ہو گا کہ اس کے مطابق عمل کرنے والے اکثریت میں ہیں بلکہ کوئی بھی حکم صرف اپنی قوی ترین دلیل کی بناء پر نافذ کیا جائے گا ۔خواہ اس فقہ کے لوگ کتنی ہی کم تعداد میں کیوں نہ ہوں

ویسے شعر بڑے موقع پر کہا آپ نے۔:)
 

عمر میرزا

محفلین
فرد واحد کی حکومت، ایک خلیفہ یا بادشاہ جس کو علماء کی ایک جماعت بناء منتخب ہوئے سپورٹ کرے، ایسے نظام کا تصور دور دور تک قرآن میں نہیں ہے۔ اور ایسے تجربات کے بھیانک نتائج سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسے کسی نظام کو اسلامی و قرانی کیونکر ثابت کیا جاسکتا ہے؟

بلکل صحیح کہا آپ نے ۔
فرد واحد کی حکومت کی اسلام قطاً اجازت نہیں دیتا۔ اور نہ ہی کوئی شخص امت کی بیعت کے بغیر خلیفہ بن سکتا ہے بلکہ ایسے شخص کے بارے میں تو حکم ہے کہ اسے بزور تلوار نکال باہر پھینک دیا جائے۔
 
دراصل میں ایک موصوف کی " اسلام اور غلامی " کے حوالے سے کئے گئے ایک ٹاپک پر ایک مضمون لکھنے میں مصروف ہوں ۔ اب یہ اسلام اور جہموریت کا بھی دوسرا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ سوچ رہا ہوں کہ پہلے اسے ختم کروں کہ یا اس کو پہلے شروع کروں ۔ ;)

جہموریت اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں جتنا اسے بنایا جا رہا ہے ۔ بلکل اسی طرح جیسے سیکولر کے لفظ پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں ۔ جبکہ سیکولر لفظ ایک اصطلا ح ہے جو مغرب میں ان کے نظامِ اجتماعی کی بنیادوں میں استعمال ہوئی ۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے میں یہاں الجھ گیا تو ایک تیسری بحث کا آغاز ہو جائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں میں اس موضوع پر میں شاید کچھ لکھ سکوں ۔

چلو یہ زیادہ صحیح ہے کہ پہلے اسلام اور غلامی پر ہم بات کر لیں کیونکہ وہ واقعی ایک قرض ہے جسے چکانا ہم سب کا اجتماعی فرض ہے۔ میں نے بھی اس پر مضمون شروع کر رکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیں پہلے ایک دو ہفتہ لگا کر اسے مکمل کر لینا چاہیے۔

اس کے بعد فروری کے آغاز سے جمہوریت پر پھر سے بحث شروع کر لیں گے کیونکہ وہ زیادہ مناسب اور بہتر وقت ہوگا جمہوریت پر بات کرنے کے لیے الیکشن کے ساتھ ساتھ :)

ضمنی بات : اصطلاحات اپنے پیچھے ایک پوری تاریخ رکھتی ہیں اس لیے جیسے ہی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ذہن اس سے جڑے پس منظر اور معروف معنوں کی ہی طرف منتقل ہوتا ہے ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس لفظ کا لغوی مطلب وہ نہ ہو جو اس کا اصطلاحی مطلب بن گیا ہو۔

جمہور اور جمہوریت سے ہمیں آغاز کرنا ہوگا اور میرا خیال ہے کہ فروری سے آغاز کریں تو بہت مناسب ہوگا۔
 
میری درخواست ہے کہ تمام شرکائے بحث سے کہ فروری کے پہلے ہفتہ تک بحث کو موخر کر دیا جائے اور توجہ اسلام اور غلامی کے موضوع پر مرکوز کی جائے ۔

فروری کے آغاز سے یہ بحث ہم زیادہ بہتر اور موقع کی مناسبت سے کر سکیں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہو سکیں گے اور رائے دے سکیں گے۔ یہ انتہائی اہم اور حساس موضوع ہے اور اس پر اسی مناسبت سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شکریہ محب!
بہت خوبصورتی سے پہلو بچایا اور عمر میرزا نے بھی آپ کی بات کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً اس پر صاد فرمایا:)
ورنہ اس چنگل سے سب لوگوں کو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو رہی تھی

میرا خیال ہے کہ اس بحث کو اس بات کے ساتھ ختم کر دینا ہی بہتر ہو گا کہ


چاھے خلیفہ کا چنائو
اس امر پہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیات طیبہ کے آخری دنوں میں جس کو نماز کے مصلی پر کھڑا کیا تھا وہی ان کا جانشین ہوگا﴾
یا پھر اس کے برعکس ثقیفہ بنی ساعدہ میں ہنگامی حالات کے اندر انصار و مہاجرین کی بحث و جدال سے ہو
﴿یہ الگ بات کہ اگر انصار مہاجرین کی تقاریر کو ملاحظہ فرمایا جائے تو ان سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ خلیفہ کے انتخاب اور اہلیت کے لیے کیا کیا دلائل پیش کیے گئے﴾

یا پھرخلیفہ کا انتخاب کسی کی جانب سے نامزدگی پر ہو

یا شش افرادی مجلس شوریٰ کے تحت عمل میں لایا جائے
﴿یہ الگ بات کہ شورائی نظام کے تحت بھی ایک شخص کو مستحق اول جان کر جب اس کی جانب دستِ بیعت بڑھایا جائے تو اس پر پھر شرط عائد کر دی جائے کہ وہ قرآن و سنت کے علاوہ اپنے سے پہلے دو خلیفوں کی سنت کونظام خلافت کا لازمہ بنائے گا اور جب اس شخص کی جانب سے سابقہ دو خلفاء کی سنت کو معیار بنانے سے انکا سامنے آئے تو دستِ بیعت کو واپس کھینچ لیا جائے﴾ ﴿ اس سے بھی مزے کی بات یہ کہ دوسرے مستحق پر بھی یہی شرط پیش کی جائیں اور اس کے قبول کر لینے پر اس کی بیعت کر لی جائے چاہے وہ خلافت کے انعقاد کے بعد ان پر کبھی بھی عمل نہ کرےاور عملاً اپنی پوری زندگی میں سابقہ دو خلفاء کی سنت کو نافذ نہ کر سکے﴾

یا پھرایک خلیفہ کی شہادت کے بعد ہجوم عام میں کسی پر خلافت کا بوجھ لاد دیے جانے سے خلافت منقد ہو جائے﴿یہ الگ بات کہ خلافت راشدہ کے انعقاد کے بعد پھر اس کے خلاف بغاوت کر تے ہوئے عملا خلافت پر قبضہ کر کے خود امیر المومین کا لقب اختیار کر لیا جائے﴾

یا۔۔۔۔۔۔ خلیفہ بننے کے بعد اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے حق میں بالجبر بیعت حاصل کر کے خلافت اس کی طرف منتقل کر دی جائے

یا دور جدید میں ملک کے سربراہ کا چنائو الیکشن کے ذریعہ سے ہو

ان تمام صورتوں میں منتخب ہونے والی خلافت اس وقت تک اسلامی نہیں کہلا سکتی جب تک وہ خلافت
حقوق العب۔۔۔۔۔۔۔اد کی فراہمی کا مکمل بندوبست نہ کر دے
خلافت اگر ایسا نہیں کر پاتی تو وہ کسی بھی طور اسلامی کہلانے کی مستحق نہیں چاہے اس کا انتخاب کسی بھی ذریعہ سے کیا گیا ہو
میرا خیال ہے اس سے تو سبھی کو اتفاق ہو گا۔؟؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسلامی ریاست میں کوئی اسلامی حکم اس بنا پر نافذ نہیں ہو گا کہ اس کے مطابق عمل کرنے والے اکثریت میں ہیں بلکہ کوئی بھی حکم صرف اپنی قوی ترین دلیل کی بناء پر نافذ کیا جائے گا ۔خواہ اس فقہ کے لوگ کتنی ہی کم تعداد میں کیوں نہ ہوں

ویسے شعر بڑے موقع پر کہا آپ نے۔:)

بہت شکریہ عمر! لیکن میری ناقص عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ کونسے فرقے کا اسلام نافذ ہوگا اور دلیل کے قوی ہونے کا فیصلہ کون کرے گا؟ مجاہدین؟
 
بہت شکریہ عمر! لیکن میری ناقص عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ کونسے فرقے کا اسلام نافذ ہوگا اور دلیل کے قوی ہونے کا فیصلہ کون کرے گا؟ مجاہدین؟

سخنور بات بہت سیدھی سی ہے کہ تاریخ‌ سے ناواقفیت اور فرقہ بندی میں الجھنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے ورنہ یہ سوال کبھی بھی نہیں‌اٹھتا کہ کسی فرقہ کا اسلام نافذ ہوگا۔ اسلام قرآن اور سنت کا نام ہے اور یہ ہی بنیادی ماخذ کے طور پر نافذ‌ ہوں‌ گے اور کسی مسلمان کو ان سے اختلاف نہیں۔ جزئیات میں‌اختلاف کو حکومت طے نہیں‌کیا کرتی وہ لوگ خود ہی کرتے ہیں یا انہیں اس میں‌ آزادی دی جاتی ہے یہ اصول اسلام ہی نہیں‌ پوری دنیا میں‌ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔

دلیل وہی قوی ہوگی جو قرآن و سنت سے لی گئی ہوگی اور اس کے لیے اس فن کے ماہرین کی ایک بڑی ٹیم بنائی جا سکتی ہے بلکہ اکثر پائی بھی جاتی ہیں۔

آپ لوگوں کو یہ کیوں لگتا ہےکہ اسلام صرف مجاہدین کا دین ہے اور باقی تمام مسلمان صرف مغرب کی جھولی میں‌ گرنے کے لیے ہی رضامند ہیں۔ مجاہدین کو بھی علما سے ہی اجازت لینی پڑتی ہے ورنہ ان کی طاقت بھی کچھ نہیں‌رہتی اور اسلام صرف مجاہدین تک محدود نہیں ہم سب مجاہدین سے بہت زیادہ اہل ہیں نظام اسلام کو نافذ‌ کرنے اور چلانے کے۔ مجاہدین کا کام اگر ہوگا تو فقط جہاد نہ کہ حکومت سازی اور دین کو نافذ کرنا یہ کام ہر شعبہ کا ماہر اپنے شعبہ میں کر سکتا ہے اور کرے گا جب اللہ نے ہمیں‌ توفیق دی کہ ہم فرقہ بندی سے ذرا اٹھ کر کچھ اجتماعی بھی سوچ سکیں۔

ایک سوال کا جواب ذرا آپ بھی دیجیے گا کہ آپ کو مشرف اور باقی جمہوریت پسند ظالم اور بدترین راشی حکمرانوں‌ کی حکومت تو قبول ہے جو سوائے کفر ، ظلم ، بددیانتی اور مغربی استعمار کے کچھ نافذ نہیں کر رہے مگر اسلام نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو آپ کو طرح طرح‌ کے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بالفرض کسی فرقے کا اسلام ہی نافذ‌ ہوجاتا ہے وہ ہوگا تو قرآن و سنت کے تابع ہی نہ زیادہ سے زیادہ کسی ایک فقہ کا زور زیادہ ہو جائے گا حکومتی معاملات میں مگر سود ، رشوت ، ظلم اور کفر تو نافذ‌ نہ ہوگا۔ ذرا سوچئے گا ؟
 
قاتلوں کو مجاہدین کہنا قابل مذمت ہے۔ یہ کیسے 'مجاہدین" ہیں کہ پاکستانی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ کراچی سے پشاور تک کے دھماکے، اسلام کے نام پر پراپیگنڈہ، قانوں توڑنے کے تمام حیلے بہانے، کس طور پر یہ مجرم مجاہدین کہلانے کے حقدار ہیں؟
 
ایک سوال کا جواب ذرا آپ بھی دیجیے گا کہ آپ کو مشرف اور باقی جمہوریت پسند ظالم اور بدترین راشی حکمرانوں‌ کی حکومت تو قبول ہے جو سوائے کفر ، ظلم ، بددیانتی اور مغربی استعمار کے کچھ نافذ نہیں کر رہے مگر اسلام نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو آپ کو طرح طرح‌ کے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بالفرض کسی فرقے کا اسلام ہی نافذ‌ ہوجاتا ہے وہ ہوگا تو قرآن و سنت کے تابع ہی نہ زیادہ سے زیادہ کسی ایک فقہ کا زور زیادہ ہو جائے گا حکومتی معاملات میں مگر سود ، رشوت ، ظلم اور کفر تو نافذ‌ نہ ہوگا۔ ذرا سوچئے گا ؟

بھائی، سوال کا جواب سوال سے دینا درست نہیں ہوتا۔ پھربھی آپ سے بھی کچھ سوال ہیں۔
کیا یہ مہنگائی، بجلی کی کمی، امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال، رشوت ستانی، ظلم و استبداد،رشوت ستانی، بددیانتی، استعمار، مشرف سے پہلے ناپید تھا؟ اور کونسا ایسا حکمران ہے جس کے آجانے سے یہ سب کچھ دور ہوجائے گا؟ ہماری معصومیت ہے کہ ہم آج بھی ایک نیا خدا تلاش کررہے ہیں۔ عبادت کے قابل ہیرو ڈھونڈھ رہے ہیں۔ ایک بندے کے بدلنے سے نظام نہیں بدلتے۔ نظام کے بدلنے سے بندے بدلتے ہیں۔ کچھ اس طرف سوچئے۔ صرف مشرف پر الزام تراشی سے صورتحال نہیں بدلے گی۔

کیا آپ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام نہیں ہے؟ تو وہ کونسا اسلامی نظام ہے جو آئے گا، ان مجرموں کا جو آپ کے ہی بھائیوں‌کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ شاید آپ بھول گئے کہ یہ اصل میں طالبانی قسم کا نظام 700 سال برصغیر پر طاری رہا اور اسی کے ظلموں کی سزا لاکھوں معصوموں کے خوں بہا کی شکل میں آپ نے 1947 میں ادا کی۔ آپ پھر اس کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں؟ " ایسا نظام، جس میں آپ خیالات سے اختلاف کی سزا موت تجویز کرتے ہیں؟ " - بھائی آنکھیں کھولئے اور دیکھئے کہ موجودہ نظام کو بہتر کس طرح بنایا جائے۔ ہاں اگر آپ پاکستان کی تباہی پر تلے ہیں تو بھائی بجاتے رہیں یہ ڈفلی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
سخنور بات بہت سیدھی سی ہے کہ تاریخ‌ سے ناواقفیت اور فرقہ بندی میں الجھنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے ورنہ یہ سوال کبھی بھی نہیں‌اٹھتا کہ کسی فرقہ کا اسلام نافذ ہوگا۔ اسلام قرآن اور سنت کا نام ہے اور یہ ہی بنیادی ماخذ کے طور پر نافذ‌ ہوں‌ گے اور کسی مسلمان کو ان سے اختلاف نہیں۔ جزئیات میں‌اختلاف کو حکومت طے نہیں‌کیا کرتی وہ لوگ خود ہی کرتے ہیں یا انہیں اس میں‌ آزادی دی جاتی ہے یہ اصول اسلام ہی نہیں‌ پوری دنیا میں‌ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔

دلیل وہی قوی ہوگی جو قرآن و سنت سے لی گئی ہوگی اور اس کے لیے اس فن کے ماہرین کی ایک بڑی ٹیم بنائی جا سکتی ہے بلکہ اکثر پائی بھی جاتی ہیں۔

آپ لوگوں کو یہ کیوں لگتا ہےکہ اسلام صرف مجاہدین کا دین ہے اور باقی تمام مسلمان صرف مغرب کی جھولی میں‌ گرنے کے لیے ہی رضامند ہیں۔ مجاہدین کو بھی علما سے ہی اجازت لینی پڑتی ہے ورنہ ان کی طاقت بھی کچھ نہیں‌رہتی اور اسلام صرف مجاہدین تک محدود نہیں ہم سب مجاہدین سے بہت زیادہ اہل ہیں نظام اسلام کو نافذ‌ کرنے اور چلانے کے۔ مجاہدین کا کام اگر ہوگا تو فقط جہاد نہ کہ حکومت سازی اور دین کو نافذ کرنا یہ کام ہر شعبہ کا ماہر اپنے شعبہ میں کر سکتا ہے اور کرے گا جب اللہ نے ہمیں‌ توفیق دی کہ ہم فرقہ بندی سے ذرا اٹھ کر کچھ اجتماعی بھی سوچ سکیں۔

ایک سوال کا جواب ذرا آپ بھی دیجیے گا کہ آپ کو مشرف اور باقی جمہوریت پسند ظالم اور بدترین راشی حکمرانوں‌ کی حکومت تو قبول ہے جو سوائے کفر ، ظلم ، بددیانتی اور مغربی استعمار کے کچھ نافذ نہیں کر رہے مگر اسلام نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو آپ کو طرح طرح‌ کے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بالفرض کسی فرقے کا اسلام ہی نافذ‌ ہوجاتا ہے وہ ہوگا تو قرآن و سنت کے تابع ہی نہ زیادہ سے زیادہ کسی ایک فقہ کا زور زیادہ ہو جائے گا حکومتی معاملات میں مگر سود ، رشوت ، ظلم اور کفر تو نافذ‌ نہ ہوگا۔ ذرا سوچئے گا ؟

قبلہ محب صاحب میں تو بڑھے سیدھے ڈھنگ سے سوچتا ہوں - قرآن اصولوں سے بحث کرتا ہے اور سنت میں جزیات آتی ہیں - یہاں تو ہم لوگ قرآن کی کسی ایک تفہیم پر متفق نہیں‌ ہو سکے - اور رہا سنت کا معاملہ وہ بھی مختلف فرقوں کی مختلف ہے - سنّی کی سنّت اور ہے اور اہلِ تشیع کی اور- پھر مزید ان میں بھی تقسیم - :confused:
 
قبلہ محب صاحب میں تو بڑھے سیدھے ڈھنگ سے سوچتا ہوں - قرآن اصولوں سے بحث کرتا ہے اور سنت میں جزیات آتی ہیں - یہاں تو ہم لوگ قرآن کی کسی ایک تفہیم پر متفق نہیں‌ ہو سکے - اور رہا سنت کا معاملہ وہ بھی مختلف فرقوں کی مختلف ہے - سنّی کی سنّت اور ہے اور اہلِ تشیع کی اور- پھر مزید ان میں بھی تقسیم - :confused:

بہت شکریہ سخنور، اتنی اچھی بات شئیر کرنے کا۔
مزید سوال ساتھیوں سے یہ کہ موجودہ قوانین قران کے کن اصولوں کی نفی کرتے ہیں جو "مجوزہ اسلامی نظام " پوری کرے گا؟
کیا ان اصولون کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جن کی کمی کو پورا کرنے سے موجودہ نظام "اسلامی نظام " بن جائے گا؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ فاروق صاحب اور ظفری صاحب - لیکن میں بھی یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ ہم شاخوں کی آبیاری کر رہے ہیں اور جڑوں کے کھوکھلے پن پر ہمیں کچھ دھیان نہیں - اقبال کی نظم ابلیس کی مجلسِ شوریٰ سے کچھ اقتباسات -
سب سے پہلے ابلیس اپنا خطبہِ صدارت دیتا ہے اور کہتا ہے -
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں!

اور پھر ابلیس اپنے مشیروں سے مخاطب ہے اور کہتا ہے -

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

اور آخر میں ابلیس یہ ریزولوشن پاس کرتا ہے -

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
ابنِ مریم مر گیا یا زندہِ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟
ہیں کلامِ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
 
شاخوں کی آبیاری اور جڑوں کے کھوکھلے پن سے لاپرواہی ۔ طلائی لفظوں سے لکھا جانے کے قابل ہے سخنور کا یہ جملہ۔

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

سخنور - بہت شکریہ ان اشعار کو شئیر کرنے کا۔ شاعری ایک طرف۔ کتاب اللہ کے فراہم کردہ اس آئین اور ان اصولوں کی بابت سوال کرتے ہیں جو شیطان مسلمان کی آنکھ سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے۔ کیا اس آئین کی کوئی زندہ اور عملی مثال ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ قادر مطلق کا مجوزہ آئین ہو اس دنیا میں کہیں بھی جاری و ساری نہ ہو؟
 
Top